حسن نے کراہت سے کہا۔ ‘‘خدا مجھے پینے سے ، کہ کارِ شیاطین لعین ہے، بچائے ، کبھی وہ دن نہ دکھائے کہ چلّو میں اُلّو ہوجاؤں۔ کسی کو نشے میں مست و خراب پاکر فائدہ اٹھاؤں، شرافت کو بٹہ لگاؤں۔’’
غفران نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا۔ ‘‘آؤ تمہیں کچھ لڑکیوں سے ملواتا ہوں جو نشے میں نہیں ہیں۔ لیکن انجوائے منٹ کو برا نہیں سمجھتیں۔’’
حسن نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ ‘‘معاف فرماؤ۔ یہ بات شریف زادوں اور اہلِ آبرو کی وضع کے خلاف ہے، بغیر محبت و وفا کے تعلق بنانا بھلا کون سا انصاف ہے؟’’
بندو نے تائید کرکے کہا۔ ‘‘ہاں یار مجھے بھی معاف کرو۔ میری منگنی ہونے والی ہے۔ میں اس سے بے وفائی نہیں کرسکتا۔’’
اب غفران نے عاصم کی طرف دیکھا، عاصم نے آہ بھر کر سرجھکا لیا۔
بندو نے کہا۔ ‘‘اس کو بھی چھوڑ ، یہ لڑکیوں میں انٹرسٹڈ نہیں ہے۔ اور رہ گیا وہ محسن، اس کو کھانا پکانے کے آگے کچھ نظر نہیں آتا۔ بہر حال بہت شکریہ۔’’
غفران ہنسا، حسن کے کندھے پر تھپکی دی اور اٹھ کر چلا گیا۔
یہ سب ماجرا دیکھ کر حسن کی طبیعت میں کراہت پیدا ہوئی تھی اور حرص و ہوا کے اس کھیل کو دیکھ کر اپنی معصو م محبت یاد آئی تھی۔اس نے دل میں سوچا، بے شک مرد و عورت کے بیچ محبت جسم کی طلب کا دوسرا نام ہے مگر بغیر محبت کے جسمانی عیش کرنا حیوانوں کا کام ہے۔ مجھے کرن سے محبت ہے اور چاہتا ہوں کہ اسے گلے لگاؤں، لیکن صرف اس صورت میں کہ وہ بھی محبت کا دم بھرتی ہو اور نکاح کی حامی بھرتی ہو۔ اگر اسے منظور ہو تو فہم المراد ورنہ زبردستی اور جبر اور دھوکہ سے مجھے کلی نفرت ہے، مرغباں مرنج میری طبیعت ہے۔
کرن کی یاد نے حسن کے دل میں رنگِ اثر جمایا، تیرِ جدائی کا زخم کاری کھایا۔ اس کی ناراضی کے غم میں ایسا گرفتار ہوا کہ والہ و زار ہوا۔ دوستوں نے جو یہ کیفیت دیکھی تو پریشان ہوئے ،جو یائے راز ہوئے۔ حسن نے محبوبہ نازنین کی ناراضی کا تمام حال کہہ سنایا، کچھ نہ چھپایا۔
بندو نے حیران ہوکر کہا۔ ‘‘بچی ناراض ہوگئی ہے تو منالے۔ اس میں اتنا گھبرانے کی کیا بات ہے؟’’
حسن نے کہا۔‘‘عاشقی میں چین حرام ہے، سکون سے عاشق کو کیا کام ہے؟ سالوں اس کے سنگِ آستاں پر پڑا رہوں گا، تب جاکے محبوب کو مناپاؤں گا۔’’
بندو ہنسا اور بولا۔ ‘‘او بھائی یہ مرزا غالب کے زمانے کی باتیں ہیں۔ آج کل تو Instantکا دور ہے۔ تو سالوں کی بات کرتا ہے، یہاں تو کسی کے پاس گھنٹے کا ٹائم نہیں۔ دیکھا نہیں کیسے وہ آدمی آکے دو جملوں میں پٹا کے لے گیا تانیہ کو۔’’
نعیم نے حسن سے کہا۔ ‘‘ٹھیک کہہ رہاہے بندو۔ ایک دفعہ اس نے پندرہ منٹ میں مجھے بھی ایک بچی پٹا کے دی تھی۔’’
بند و نے ہنس کر کہا۔‘‘یہ اور بات کہ تو چغد نکلا، میں نے پندرہ منٹ میں پٹاکے دی ، تو نے دو دن میں گنوا بھی دی۔’’
عاصم نے حیران ہوکر کہا۔ ‘‘پندرہ منٹ میں؟میں نہیں مانتا۔’’
بندو نے سینہ تان کر کہا۔ ‘‘لگی شرط؟ ہزار روپے؟’’
عاصم نے ہزار روپیسہ نکال کر میز پر رکھا اور کہا۔ ‘‘لگی۔’’
بندو نے فون نکالا، عاصم کو دیا اور کہا۔ ‘‘یہ لے فیس بک کھول۔ پانچ چھ جتنی پسند آتی ہیں، چن لے۔’’
عاصم نے فون لیتے ہوئے حیران ہوکر کہا۔ ‘‘سب کو پٹائے گا؟’’
بندو نے شان سے سگریٹ سلگایا اور کہا۔ ‘‘یہ سٹریٹیجی ہے پیارے۔ پانچ چھ کو چنو۔ اچھا سا میسج بناکے سب کو بھیجو۔ جو ایک دو ذرا سیریس ٹائپ ہوں گی ، فوراً تجھے بلاک کردیں گی۔ ان کی عزت کر اور انہیں چھوڑ دے۔ باقی جواب دیں گی اور ڈانٹیں گی کہ دیکھو میں ایسی ویسی لڑکی نہیں ہوں، اب میسج نہ کرنا۔ یعنی hard to get پلے کریں گی۔ جواب میں آپ بھی اپنی ٹور شور دکھائیں گے کہ بھئی میں بھی کوئی گرا پڑا نہیں، فلاں فلاں منسٹر سے تعلقات ہیں اور فلاں منسٹر تو میرے ابو کے جگری یار ہیں۔ فلاں کی بیٹی تومجھ پر اتنا مرتی ہے کہ کیا بتاؤں۔ میں کسی کو لفٹ نہیں کراتا۔ لیکن مجبور ہوکر آپ کو میسج کررہا ہوں۔ فلاں کانسرٹ میں آپ کو دیکھا تھا (یہ اس کی پروفائل سے پہلے ہی نوٹ کرلے کہ وہ کہاں کہاں چیک ان ہورہی ہے) بس تب سے بے قرار ہوں، آپ کو دل دے بیٹھا ہوں۔’’
نعیم یہ سب سن کر مسکرا رہا تھا ، عاصم اور حسن منہ کھولے سن رہے تھے۔
عاصم نے پوچھا۔‘‘اور یہ سب کچھ تم ساری پانچ چھ لڑکیوں سے بیک وقت کہوگے؟’’
بندو نے سگریٹ کا کش لیا اور بے نیازی سے کہا۔‘‘ہاں۔’’
عاصم نے پوچھا۔ ‘‘اور اگر ان میں سے کوئی ایک دوسری کو جانتی ہوئی تو؟ اگر انہیں پتا چل گیا کہ تو یہ گیم کھیل رہا ہے تو؟’’
بندو نے سگریٹ کی راکھ جھاڑی اور ہنس کر کہا۔ ‘‘میرے بھولے بادشاہ، سب کو سب کچھ پتا ہوتا ہے۔ یہ اچھی طرح جانتی ہیں کہ لڑکا کیا گیم کھیل رہا ہے۔ یہ بھی آگے سے ایسی ہی باتیں کرتی ہیں۔ لڑکے کو بھی پتا ہوتا ہے کہ یہ میوچل جھوٹ کی گیم ہے۔ میں نے کہا نا جو سیریس ہوتی ہیں اور اس کھیل میں نہیں پڑنا چاہتیں ، وہ فوراً بلاک کردیتی ہیں۔ جو خود گیم ہوتی ہیں، وہی گیم کھیلتی ہیں۔’’
عاصم نے گومگو کے عالم میں کہا۔ ‘‘اور یہ ساری گیم پندرہ منٹ میں ہوجاتی ہے؟ میں نہیں مانتا۔’’
بندو نے ہاتھ بڑھا کر فون پکڑا اور کہا۔ ‘‘لگا سٹا پ واچ یہ پندرہ منٹ کا ٹائم ۔ اور اب دیکھ بھائی کا کمال۔’’
عاصم نے اپنے فون پر گھڑی میں کچھ وقت کے ہندسے لگائے اور ہاتھ میں لے کر بیٹھ گیا۔ بندو نے سگریٹ پھینکی اور تیزی سے فون پر ٹائپ کرنے لگا۔
مکمل سکوت طاری تھا۔ تینوں دوست خاموش بیٹھے بندو کو دیکھ رہے تھے۔ جو تیزی سے فون پر لکھنے میں مصروف تھا۔ چند ایک مرتبہ وہ بڑبڑایا۔ ‘‘کم آن بے بی۔’’
اچانک اس نے ایک فاتحانہ نعرہ لگایا اور پکارا۔ ‘‘سٹاپ۔’’
عاصم نے جلدی سے فون کا بٹن دبایا۔ بندو نے اپنا فون آگے بڑھایا۔ اس کی سکرین پرلڑکی کی طرف سے آیا میسج چمک رہا تھا ۔ ‘‘I love you۔’’
عاصم نے بے یقینی سے اپنے فون کی طرف دیکھا۔ ‘‘Unbelievable۔ چودہ منٹ بائیس سیکنڈ۔’’
بندو نے فاتحانہ انداز میں ہزار کا نوٹ میز سے اٹھایا اور جیب میں ڈال لیا۔ حسن مارے اچنبھے کے سکتے کے عالم میں تھا، خاموش پنبہ درگوش۔ پندرہ منٹ کے اندر لڑکی کو ایک انجان اجنبی لڑکے سے آئیلو یولو ہوگیا۔ چشم زدن میں اظہار عشق روبرو ہوگیا۔ عجب ماجرائے تعجب خیز ہے، فتنہ حیرت انگیز ہے۔
نعیم نے بندو سے پوچھا۔ ‘‘اچھا شرط تو تونے جیت لی، اب اس لڑکی کا کیا کرے گا؟’’
بندو نے لاپروائی سے کہا۔ ‘‘کرنا کیا ہے؟ بلاک کردوں گا۔ بھائی میری تو منگنی ہوگئی ہے۔ بے وفائی نہیں کرسکتا۔’’
حسن نے تڑپ کر کہا۔ ‘‘کسی کے دل میں عشق کی آگ لگا کر منہ موڑ تے ہو، اسے بیچ راہ میں چھوڑتے ہو؟ اسے تمہارا انتظار رہے گا،دل بے قرار رہے گا۔’’
بندو بے اختیار ہنسا اور کہا۔ ‘‘اسے دل بہلانے کو کل تک کوئی اور مل جائے گا۔ تو نہیں اور سہی، اور نہیں اور سہی۔’’
یہ سن کر حسن کو اور بھی صدمہ ہوا۔ بے قرار ہوکر پوچھا۔ ‘‘تو کیا میری محبوبہ کو بھی کوئی اور مل جائے گا؟ آخر وہ بھی تو اسی زمانے کی لڑکی ہے۔’’
نعیم نے کہا۔ ‘‘لگتاتو یہی ہے کہ اس نے اب تک کوئی ڈھونڈ بھی لیا ہوگا۔ تو نے بھی تو اسے اتنا عرصہ ناراض رہنے دیا ۔فوراً منانا چاہیے تھا۔’’
اتنے میں محسن کھانے سے بھری پلیٹیں لے کر آیا، سب کے آگے رکھیں۔ دیکھا کہ حسن پریشان حال، شکستہ دل بیٹھا ہے۔ چہرے سے فکر کے آثار نمودار ہیں، رنجم و غم کی علامتیں آشکار ہیں۔ محسن نے حیران ہوکر سبب پوچھا۔
بندو نے کہا ‘‘اس کی بچی ناراض ہوگئی ہے۔ اس سے منائی نہیں جارہی۔’’
محسن نے سادگی سے کہا۔ ‘‘تو تم منادو۔ دوست ہی دوست کے کام آتا ہے۔’’
باقی دوستوں نے بھی تائید کی کہ ہاں ہاں آخر بندو کی مہارت کس دن کام آئے گی۔
بندو راضی ہوگیا لیکن حسن کی غیرت نے گورا نہ کیا۔ کہا۔ ‘‘معاف کرنا، میرا دل نہیں مانتا کہ ایک غیر مرد سے اس کی بات چیت کرواؤں، غیرت کو بھون کھاؤں۔ میں نے اپنا معاملہ خدا کے حوالے کیا۔ خدا محبوبہء رشکِ قمر سے ملادے گا تو گلچھرے اڑاؤں گا ورنہ کڑھ کڑھ کے مرجاؤں گا۔’’
یہ کہہ کر آبدیدہ ہوا۔
بندو نے ہمدردی سے کہا۔ ‘‘ہاں یارI understand ۔ اچھا چل مجھے چھوڑ، عاصم سے منوالے۔’’
حسن حیران ہوا، عاصم گھبرایا، بولا۔ ‘‘میں؟ بھلا میں کیوں؟’’
بندو نے کہا۔ ‘‘دو وجہیں ہیں۔ ایک تو تجھ سے کسی لڑکی کو خطرہ نہیں۔ دوسرے تیری انگریزی اچھی ہے۔ اس حسن کو تو آئی لو یو بھی ٹھیک سے کہنا نہیں آتا۔ اسی لئے تو اس سے اب تک منائی نہیں گئی۔’’
غر ض تھوڑی ردوکد کے بعد حسن اور عاصم دونوں راضی ہوگئے اور عاصم نے حسن کے فون سے کرن کو میسیج بھیجنا شروع کئے۔ بیچ بیچ میں بندو مشورے دیتا جاتا تھا۔ ‘‘انگلش کے بڑے بڑے لفظ لکھ، ذرا رعب پڑتا ہے۔ لکھ کہ میں بہت بزی تھا۔ اب بھی ایک پارٹی میں بیٹھا ہوں۔ اب پارٹی کا نقشہ کھینچ کہ کروڑ پتیوں کی پارٹی ہے۔ دو تین تصویریں کھینچ کر بھی بھیج دے۔ کھانے کی تصویریں بھی بھیج، ڈانس فلور کی بھی۔ اچھے سے تصویرلے ، پول بھی آنا چاہیے۔ لکھ یہاں بہت سی لڑکیاں مجھ سے نمبر مانگ رہی ہیں لیکن میں نہیں دے رہا۔ یہ سب لکھ۔ اور یہ تصویر تجھے بھیجتا ہوں، فارورڈ کردے۔’’
یہ کہہ کر اپنے فون میں وہ تصویر دکھائی جو اس نے تب کھینچی تھی جب تانیہ حسن کا ہاتھ پکڑے بیٹھی تھی۔ یہ تصویر اس نے عاصم کو بھیجی، عاصم نے کرن کو بھیجی۔
بندو کہتا رہا۔ ‘‘بڑے طریقے سے بات کر۔ اس کو یہ تو لگے کہ مجھے یاد کررہا ہے لیکن یہ نہ لگے کہ میری یاد میں مرا جارہا ہے۔ اس کو یہ امپریشن دے کہ دیکھو میں کتنا eligible bachelorہوں، کتنی لڑکیاں مرتی ہیں مجھ پر۔ ذرا insecureکر اسے ۔ اسے احساس ہو کہ ابھی تو یہ میرے پیچھے آرہا ہے، میں نہ مانی تو اسے کوئی اور لے اڑے گی۔ ساتھ یہ بھی لکھ کہ فلاں فلاں وزیر کا بیٹا اور فلاں بیوروکریٹ کی بیٹی بھی اس پارٹی میں ہیں اور میری ہی میز پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہیں۔’’
غرض بندو نے اسی طرح کی اور بھی کئی باتیں عاصم کو سکھائیں اور عاصم نے کرن کو بھیجیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پندرہ منٹ بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ عاصم یکدم ہنسا اور فون حسن کے آگے ڈال کر بولا۔ ‘‘لے یار مان گئی ہے۔’’
حسن کو یقین نہ آیا۔ تعجب سے بولا۔ ‘‘مان گئی ہے؟کیا کہتی ہے؟’’
عاصم نے کہا۔ ‘‘کہتی ہے یوں تو آپ کی طرف سے میرا دل بہت برا ہوا تھا لیکن اب آپ پر ترس آگیا ہے۔ چونکہ میں بہت رحمدل ہوں اور نہیں چاہتی کہ مجھے یاد کرتے کرتے آپ کو کچھ ہوجائے۔ اس لئے آپ کو فون کرنے کی اجازت دیتی ہوں۔ لیکن آج نہیں، کل رات کو فون کرنا۔ آج میں ذرا بزی ہوں۔’’
بندو ہنسنے لگا لیکن حسن بدر الدین نے جب یہ مژدہ طرب انگیز سن پایا تو غنچہء دل مسرت سے کھلکھلایا ۔ نقش ِآرزو کرسی نشین ہوا۔ منہ مانگی مراد پائی، تمنائے دلی ہزاروں حسرتوں اور نا امیدی کے بعد برآئی۔
خوش ہوکر عاصم سے کہا۔ ‘‘اے یار جانی تم نے آج مجھے بچا لیا ورنہ زندگی سے بے زار تھا، مصیبت سے دوچار تھا۔ تم نے میرے ساتھ وہ کیا جو خوش نصیب مردوں کے ساتھ مسیحا کرتے تھے۔’’
یہ کہہ کر آبدیدہ ہوا اور فرطِ طرب سے اٹھ کر عاصم کو گلے لگایا، اس غریب پر بڑا ستم ڈھایا۔
ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ چند گارڈز آئے اور گھڑی دکھا کر کہا۔ ‘‘آپ کے دو گھنٹے پورے ہوگئے۔ اب آپ جائیں۔’’
ان دوستوں نے بچا ہوا کھانا کاغذی رومالوں میں لپیٹ کر ساتھ لیا اور پھاٹک کی طرف چلے۔ راستے میں تانیہ نظر آئی۔ کسی نئے مرد کے ساتھ سنگی تختے پر بیٹھی تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کی گردنوں میں بازو ڈال رکھے تھے اور اونچی آواز میں بے سرے گیت گا رہے تھے۔ پاس سے گزرتے ہوئے حسن نے خدا حافظ کہا لیکن تانیہ اسے پہچان نہ سکی۔
اس کے چیخ چیخ کر بے سُرے گانے کی آواز نے سڑک تک ان کا پیچھا کیا۔ یہ چلتے رہے ، وہ گاتی رہی۔
“Dont think i fit in at this party.”۔

٭……٭……٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۴

Read Next

امجد صابری انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!