اگلی صبح حسن اٹھا اور سیدھا زلیخا کو ڈھونڈنے نکلا تاکہ اسے رات کی پارٹی کا احوال سنائے، معرکے کی داد پائے۔ کیا دیکھا کہ زلیخا کھانے کے کمرے میں میز پر بیٹھی ہے۔ سامنے دنیا جہان کے کاغذ،کتابیں اور رجسٹر پڑے ہیں۔ لیپ ٹاپ کھلا ہے اور اس پر کچھ کام کررہی ہے۔ حسن کو دیکھا تو پیشتر اس کے کہ وہ کچھ کہنے پاتا، بولی ۔ ‘‘آؤ حسن اچھے وقت پہ آئے۔’’
یہ کہہ کر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور بولی۔ ‘‘میں نے سارا کیس تیار کرلیا ہے۔ اتنے دنوں سے اسی پر کام کررہی تھی۔ ابا کی دکان جاکر رجسٹرز کی فوٹو کاپیاں کروا لائی ، یہ دیکھو۔ میری فرینڈ کا بھائی چارٹرڈ اکاؤٹنٹ ہے، اسے یہ رجسٹر دکھائے۔ ٹیکس وکیل سے بھی بات کی۔ بنے بھائی نے تو بڑے میجر گھپلے کئے ہوئے ہیں۔ صرف دکان کے حساب کتاب میں ہی نہیں بلکہ ٹیکسز میں بھی۔ خیر اب سارا ثبوت ہے میرے پاس۔ آج میں ابا سے بات کرنے لگی ہوں۔’’
حسن نے یہ سنا تو بے حد گھبرایا۔ وحشت طاری ہوئی، عقل عاری ہوئی۔ اچھل کر کھڑا ہوا اور بولا۔
‘‘تم نے سب کام کرلیا یعنی میری اب کوئی ضرورت نہیں۔ بندہ ابھی جاتا ہے۔ تھوڑی بعد آتاہے۔’’
زلیخا نے اسے دھکیل کر کرسی پر بٹھا یا اور کہا۔ ‘‘بیٹھا رہے بندہ چپ کرکے یہیں پہ۔ اتنا ڈرتے کیوں ہو تم؟ فکر نہ کرو میں نے دیکھ بھال کر ہی آج کا وقت چنا ہے۔ دادی اماں اور ماما کسی فوتگی پر گئی ہیں۔ تسلی سے ابا سے بات ہوسکتی ہے۔’’
یہ سن کر حسن کے دل کو ڈھارس ہوئی اور خاموشی سے بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر میں ماموں کی آمد ہوئی۔ زلیخا نے مستعدی سے کتابیں کاغذ سمیٹے، میز پر پڑی چائے دانی سے چائے انڈیل کر پیالی ماموں کے سامنے رکھی، ڈبے سے پراٹھا نکال کر پیش کیا اور بولی۔ ‘‘ابا آج آپ کوکوئی جلدی تو نہیں؟ آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔’’
ماموں نے خوش ہوکر پراٹھے کا نوالہ توڑا، جھوم کربولے۔ ‘‘اخاہ ! میٹھا پراٹھا۔ لگتا ہے آج کوئی خاص بات ہے۔ بولو بیٹی بولو۔ کیا بات ہے؟’’
زلیخا نے اذنِ گویائی پایا تو تمام حال راست راست کہہ سنایا، کچھ بھی نہ چھپایا۔ ثبوت کے طور پر کاغذات بھی دکھائے۔ تمام حال سنا تو ماموں سکتے میں آئے، بڑے صدمے اٹھائے۔ چائے ٹھنڈی ہوگئی، پراٹھا اکڑ گیا۔ زلیخا اور حسن بیٹھے ماموں کا منہ تکتے تھے اور ماموں کا یہ حال کہ خاموش پنبہ در گوش۔
آخر ایک آہ سرد، بہ دل پر دردبھری اور کہا ۔ ‘‘انا للہ وانا الیہ راجعون ۔’’
یہ کہہ کر غمگین ہوئے اور اکڑا ہوا پراٹھا ٹھنڈی چائے میں ڈبو کر کھانے لگے۔
حسن اور زلیخا کی نظریں ملیں۔ حسن کو زلیخا کی نظروں میں بے یقینی، حیرت اور مایوسی نظر آئی۔
بڑی آس سے پوچھا۔ ‘‘اب آپ کیا کریں گے ابا؟’’
ماموں نے ایک اور آہ سرد بھری اور کہا۔ ‘‘کیا کرسکتے ہیں بیٹا؟ بنے کا مقابلہ کرنے کے لئے نہ تو میرے پاس وسائل ہیں نہ ہمت۔’’
زلیخا نے آہستہ سے کہا۔ ‘‘آپ کو وسائل اور ہمت کی نہیں، تھوڑی سی جرأت کی ضرورت ہے۔’’
ماموں غمگین ہوکر بولے۔ ‘‘گھر کے حالات تو تم جانتی ہی ہو۔ بنے کے خلاف میں نے ایک لفظ بھی بولا تو تمہاری ماں قیامت کھڑی کردے گی۔ گھر کا سکون برباد ہوجائے گا۔ ہر شریف آدمی لڑائی جھگڑے سے ڈرتا ہے۔ اس لئے تو شریف لوگوں کے ساتھ دنیا یہ سلوک کرتی ہے۔’’
یہ کہہ کر آبدیدہ ہوئے، غم والم رسیدہ ہوئے۔
زلیخا نے تلخی سے کہا۔ ‘‘شریف نہیں کمزور کہیے۔’’
ماموں نے سرجھکا لیا۔ ‘‘ایک ہی بات ہے۔ میں تو بہت عرصہ پہلے ہار مان چکا ہوں۔ سکون گیا، خوشی گئی میں کچھ نہ کرسکا۔ اب پیسہ جارہا ہے، اب بھی میں کیا کرسکتا ہوں؟ وکیل کرنے کے وسائل نہیں، تھانے کچہری کے چکر کاٹنے کی ہمت نہیں۔ ان چکروں میں جو تھوڑی بہت آمدن ہے، اس سے بھی ہاتھ دھوؤں گا۔ ہاں اگر جوان بیٹا ہوتا تو……’’
بے اختیار ماموں اور زلیخا دونوں کی نظر حسن کی طرف اٹھیں۔ دونوں کی نظروں میں آس تھی۔ امید تھی اور ایک خاموش لجاجت بھری التجا ۔ اور کسی بے آسرا، بے وسائل کا آس بھری نظروں سے دیکھنا ایسا نہیں کہ شریف انسان کا دل نہ بھر آئے اور مدد کو آمادہ نہ ہوجائے۔
حسن بدر الدین کہ سوداگزیچہ والا تبار تھا، خاندان آبرو منداں و وضع داراں کا چشم و چراغ تھا، رہ نہ سکا۔ ایک عزمِ صمیم سے بولا۔ ‘‘خدا بڑا کار ساز ہے۔ بہت بندہ نواز ہے۔ میں آپ کا مقدمہ لڑوں گا، کسی سے ہر گز نہ ڈروں گا۔’’
زلیخا بے اختیار مسکرائی ، ستائشی نظروں سے حسن کو دیکھا، پھر ماموں سے کہا۔ ‘‘کیا کہتے ہیں ابا؟’’
ماموں سوچ میں پڑگئے۔ بولے ۔ ‘‘بیٹا تمہارا جذبہ قابل ستائش ہے لیکن میں تھانے ، مقدمے کے چکر میں پڑنا نہیں چاہتا۔ جو ہوا سو ہوا۔ اب آگے کے نقصان سے بچنے کی کوئی تدبیر بتاؤ۔’’
حسن نے کہا۔ ‘‘دکان میں بنے بھائی کا داخلہ بند کردیجئے۔ آج سے دکان کا حساب کتاب میں دیکھوں گا۔’’
ماموں گھبرائے۔ ‘‘اور تمہاری ممانی کوکون سنبھالے گا؟’’
زلیخا نے دل مضبوط کیا اور بولی ۔ ‘‘ان سے میں بات کروں گی۔ بنے بھائی کی کرتوتوں کے سارے ثبوت ہیں میرے پاس۔ حسن کی دکان کا آدھا کرایہ خورد برد کررہے ہیں بنے بھائی۔ اور تو اور ابا وہ آپ کی دکان گروی رکھ کر قرضہ لینے کا منصوبہ بھی بنارہے ہیں۔ یہ دیکھیں بینک کو اپلیکیشن دی ہے انہوں نے۔ مجھے اتفاق سے یہ کاغذ رجسٹر میں پڑا مل گیا۔ ورنہ آپ کو تو تب پتا چلتا جب بنے بھائی پیسہ لے کر رفوچکر ہوتے اور دکان نیلام ہوجاتی۔’’
حسن نے جو یہ ماجرا سنا تو سخت متحیر ہوا اور ماموں پر اس قد ررحم آیا کہ دستِ دعا اٹھایا اور کہا ۔ ‘‘یا خدا اس شریف آدمی کی مشکل آسان کر۔ــ’’
اوردل میں پختہ ارادہ کرلیا کہ چاہے جان جائے یار ہے ماموں کی مدد کئے بغیر نہ رہے گا، بے مرے اب اس ارادے سے نہ ہٹے گا۔
ابھی ماموں نے ناشتہ ختم نہ کیا تھا کہ کنیز بھاگتی ہوئی آئی۔ چہرے سے جوش آشکار ، بشرے پہ خوشی نمودار ، ہاتھ میں ایک رسالہ تھامے، لہراتی ہوئی آئی اور ایک نعرہ بلند کیا۔ ‘‘حسن بھائی جان……’’
زلیخا نے گھبرا کر کہا۔ ‘‘کیا ہوگیا ؟ کیا کردیا حسن نے؟’’
کنیز پاس آکرکی اور خوشی سے تمتماتے چہرے اور پھولی سانس کے ساتھ بولی۔ ‘‘کمال کردیا بھائی جان نے۔ یہ دیکھیں میگزین میں تصویریں چھپی ہیں۔’’
زلیخا نے جھپٹ کر رسالہ کنیز کے ہاتھ سے لیا۔ ‘‘دکھاؤ تو۔’’
کنیز سے رسالہ لے کر زلیخا نے میز پر پھیلا دیا۔ سب نے دیکھا کہ سرورق پر تین گھوڑوں کے درمیان سنہری شیروانی پہنے، کالی پگڑی سر پر رکھے، میان میں تلوار لگائے حسن بدر الدین صاحب کھڑے تھے۔سرو قامت ، رشکِ شمشاد ، روکش گلرخان نوشاد، جوبن وہ کہ جس پر حوروں کو رشک آتا، انسان کیا ، کوئی پری زاد بھی مقابلے کو نہ آتا۔ چشم فتاں وہ کہ دیکھ کر غزال بھی شرماتے اور سیاہی چشم پر شب و روز صدقے ہوجاتے ۔ گل رخسار سے گلاب عرق عرق ہوجاتا اور جوانی پر خطا وفتن کو غش آتا۔
زلیخا نے جو یہ تصویریں دیکھیں تو منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ بے یقینی سے صفحے پلٹتی اور تصویریں دیکھتی رہی۔ کہیں حسن باغ میں کنجِ گل میں کھڑا تھا کہیں مانندِ بت بامِ عظیم الشان میں جڑا تھا۔ کہیں چہرے پر شرمیلی مسکراہٹ تھی، کہیں چتون پر تیوری ٹیٹرھی آڑی تھی، کسی تصویر میں ہاتھ میں خنجر تھا کہ گویا گھونپ ہی تو دے گا اور کہیں یوں گلاب کا پھول تھامے کھڑا تھا کہ گویا معشوقِ گلبدن کے قدموں میں نچھاور کرنے کو تیار تھا۔
زلیخا ورق پلٹتی جاتی تھی اور بے اختیاری میں اس کے منہ سے وہی ایک جملہ نکلے جاتا تھا جو شدید حیرت اور بے یقینی میں ہمیشہ نکلتا تھا۔ ‘‘او مائی گاڈ…… او مائی گاڈ۔’’

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۴

Read Next

امجد صابری انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!