کنیز اپنی ہی دھن میں تمتمائے ہوئے چہرے کے ساتھ بولے جاتی تھی۔ ‘‘میں تو گھر سے آرہی تھی کہ راستے میں بشیر سٹال والے نے آواز دے کے روکا ۔ میں کبھی بھی نہ رکتی لیکن جب اس نے حسن بھائی کا نام لیا تو میرے کان کھڑے ہوئے۔ اس نے مجھے کہا، آکے دیکھ یہ اپنے زاہد صاحب والے حسن بھائی نہیں ہیں؟ میں نے جاکے دیکھا تو واقعی اپنے حسن بھائی۔ مجھے تو سچی یقین ہی نہیں آیا۔ میں نے کہا ہائے میں مرگئی یہ تو واقعی اپنے بھائی جان ہیں۔ فوراً میں نے میگزین خرید لیا۔ ٹوٹل ایک سو ساٹھ روپے تھے میرے پاس۔ امی کی دوائی کے لئے رکھے تھے۔ لیکن حسن بھائی جان کے سامنے پیسے بھلا کوئی چیز ہیں؟مجھے پتا ہے میں ان کے لئے ایک روپیہ خرچ کروں گی تو اس کے بدلے میں وہ مجھے دس دیں گے۔ ہے نا بھائی جان؟’’
حسن بھی اپنی تصویریں دیکھ کر حیران تھا اور گو کہ اب اسے جادو کے نت نئے کرشموں کی عادت ہو چلی تھی لیکن پھر بھی سحر کے اس کمال پر استعجاب تھا، کہ بہت لاجواب تھا۔ حسن کی تصویریں ہو بہو صفحہ قرطاس پر اتاری تھیں، نقل بمطابق اصل اتاری تھیں۔
ماموں نے بھی تصویریں دیکھ کر ستائش کی اور شاباش دی۔ ناشتہ کرکے دکان کو سدھارے۔
زلیخا نے بھی بہت تعریف کی اور کنیز کو رسالے کی قیمت ادا کی ۔ کنیز نے اس بہانے زلیخا سے رسالہ لے لیا کہ تھوڑی دیر دیکھے گی پھر واپس کردے گی۔
ناشتہ کرکے حسن برآمدے میں نکلا تو ‘‘ہشت…… ہشت۔’’ کی آواز آئی۔ دیکھا تو کنیز ایک ستون کے پیچھے چھپ کر کھڑی ہے اور اسے اشارے سے بلارہی ہے۔
حسن نے پوچھا ۔ ‘‘کیا بات ہے؟’’
وہ سرگوشی میں بولی۔ ‘‘کرن باجی کو دکھانے جارہی ہوں میگزین۔ تڑپ جائیں گی آپ کی یہ تصویریں دیکھ کے۔ اور میں بھی وہ وہ تعریفیں کروں گی کہ بس کیا بتاؤں۔ کہوں گی سارے شہر کی لڑکیاں مررہی ہیں ہمارے بھائی جان پر۔ ایسا چکر چلاؤں گی کہ نہ انہوں نے آپ کو آج کے آج ہی ملاقات کے لئے بلایا تو میرا نام کنیز نہیں۔’’
یہ سن کر حسن بے حد مسرور و شاد کام ہوا، کنیز کا بیان مرغوب و مقبول عام ہوا۔ کہا۔ ‘‘اے کنیز سراپا تمیز و ہر دل عزیز، تجھ سے بڑھ کر کون میرا بہی خواہ وخیر سگال ہے؟ اب تیرے ہی سپرد میری جان ومال ہے۔’’
کنیز خوش ہوکر بولی۔ ‘‘تو پھر میرا انعام پکا؟ اب تو ماڈل بن گئے ہیں آپ۔ تگڑا انعام لوں گی ہاں۔’’
حسن نے وعدہ کیا۔ کنیز خوشی خوشی رسالہ لے کر رخصت ہوئی۔
آدھا گھنٹہ بھی نہ گزرا تھا کہ حسن کے فون کی گھنٹی بجی۔ دیکھا تو ماہرو، قوس ابرو ، حسینہ مہ جبین، محبوبہ نازنین، کرن کا فون تھا۔ حسن نے خوشی خوشی فون اٹھایا، ہیلو کا کلامِ خوش آمد ید زبان پر لایا۔
وہ ناز نین اٹھلا کر بولی۔ ‘‘اللہ حسن بھائی آپ نے بتایا ہی نہیں آپ نے ماڈلنگ شروع کردی ہے۔ آپ کی تصویریں دیکھیں، اتنی خوشی ہوئی کہ بس ۔ میں تو پہلے ہی جانتی تھی آپ بڑے لائق ہیں، ضرور نام روشن کریں گے۔ دیکھا، ہوئی نامیری بات پوری؟’’
حسن نے خوش ہوکر کہا۔ ‘‘اے خاتون پری جمال ، آئینہ تمثال، تمہارا فون آیا، غنچہء دل کھلکھلایا، آج کا دن بہتر از عید ہے، کیا ہی وقتِ سعید ہے۔ اب صاف صاف عرض حال کرتا ہوں کہ شہنائی بجوانے کا خیال کرتا ہوں۔’’
کرن نے حیران ہوکر کہا ۔ ‘‘کیا مطلب؟’’
حسن ہنس کر بولا۔ ‘‘جانِ من میری دلی تمنا و ارمان ہے، بلکہ یہی دین و ایمان ہے کہ تیری میری یکجائی ہو،نکاح چھوارے اور مٹھائی ہو۔ تم میری منکوحہ گلعذار اور میں تمہارا شوہرِ باوقار۔’’
یہ اردو ئے معلیٰ سنی تو کرن کو خیال آیا کہ اسے بھی کچھ اچھی سی بامحاورہ بات کرنی چاہیے۔ اٹھلا کر بولی۔ ‘‘ ہتھیلی پر سرسوں کیوں جماتے ہیں آپ؟ اتنی جلدی کیا ہے نکاح کی؟’’
حسن نے آہ بھر کر کہا۔ ‘‘اب جدائی از بس شاق ہوگی، ہماری محبت شہرۂ آفاق ہوگی۔ اتنے دن سے تمہیں دیکھا نہیں، رات کی نیند دن کا چین حرام تھا، عیش برائے نام تھا۔’’
کرن نے اک ادا سے کہا۔ ‘‘کنیز کہہ رہی تھی ، ملنے آنا چاہتے ہیں آپ؟’’
حسن نے صدق دل سے کنیز کو دعا دی اور کہا۔ ‘‘خدا اسے مسرور و شاد رکھے۔ ٹھیک کہتی ہے وہ ۔ تم سے ملاقات ہوئی تو دلی مراد بر آئے گی ورنہ مرجاؤں گا ، جان جائے گی۔’’
یہ سن کر وہ معشوقہ طرحدار، یوسف رخسار کھلکھلائی اور یوں گویا ہوئی ۔‘‘ارے ارے مرنے کی باتیں نہ کریں،مجھے ڈرلگتاہے۔ اچھا اگر آپ اتنا اصرار کرتے ہیں تو ٹھیک ہے۔ پرسوں فرائی ڈے ہے، ڈیڈی کے جم کی چھٹی ہوتی ہے، وہ جلدی سوجاتے ہیں۔ آپ رات کو بارہ بجے آیئے گا۔’’
حسن نے بصد التجا کہا ۔ ‘‘اے خاتونِ جمال مبین ، رخ رنگین ، گوکہ میری دلی خواہش ہے کہ تم سے ملاقات ہو، پیار کی بات ہو لیکن تمہارے کتے سے ڈر لگتا ہے۔ اب کے میں آیا تووہ کاٹ کھائے گا، ہر گز زندہ نہ چھوڑے گا۔’’
اس نے کہا۔ ‘‘اوہو ،ا س کی فکر نہ کریں۔ اسے میں باندھ دوں گی۔ چھوٹا گیٹ کھول دوں گی۔ چپکے سے اندر آجانا اور گیٹ بند کردینا۔ میرے کمرے کی کھڑکی کے باہر درخت ہے۔ اس پر چڑھ کر کھڑکی تک آنا اور آہستہ سے دوبار کھٹکھٹانا۔ میں کھڑکی کھول دوں گی۔ ’’
یہ منصوبہ سن کر حسن پھڑک اٹھا، اس کی ذہانت پر عش عش کرنے لگا۔ محبوبہ سے ملاقات کے خیال نے وہ رنگ اثر جمایا کہ حسن نے صبر سے ہاتھ دھویا اور اس درجہ لیلائے حسن کا مجنون اور والہ و مفتون ہو اکہ ملول و محزون ہو اکہ دو دن کا انتظار پہاڑ نظر آنے لگا۔ کرن نے فون بند بصدنا زو انداز کیا، حسن نے گھڑیاں گننے کا آغاز کیا۔

٭……٭……٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۴

Read Next

امجد صابری انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!