یونیورسٹی کے گیٹ نمبر6 کے بالکل سامنے فوڈ سٹریٹ پر جاتی سڑک پر آج بہت زیادہ رونق تھی۔ آسمان پر کالے سیاہ بادل اُمڈتے چلے آ رہے تھے جو اس بات کی نوید دے رہے تھے کہ کچھ ہی دیر میں بارش ہونے والی ہے۔ ایسے میں آمنہ اپنے تینوں بچوں کے ساتھ چھوٹا سا اسٹال جلدی جلدی سمیٹنے میں مصروف تھی جس میں بسکٹ، ٹافیاں ببل گم، بال پوائنٹس، ٹشو پیپرز کے پیکٹ، کارڈ ہولڈرز اور اس قسم کی اور بھی چھوٹی موٹی چیزیں شامل تھیں۔ چٹکی اور علی بھی اس کے ساتھ بسکٹ اور ٹافیوں کے ڈبے اٹھا کر بڑے تھیلے میں رکھ رہے تھے، البتہ منا، اماں اور دونوں بہن بھائیوں کو چپ چاپ دیکھ رہا تھا۔ کبھی کبھار وہ ایک نگاہ آنے جانے والوں پر بھی ڈال لیتا۔
’’آج تو کمائی ککھ نہ ہوئی۔‘‘ آمنہ بڑبڑائی۔ اس کے لیے یہ موسم کسی خوشی کا سماں نہیں باندھ رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں وہ تینوں بچوں سمیت تھیلا اٹھائے جا چکی تھی۔ لڑکے اور لڑکیاں اس بات سے بے پروا کہ قریب ہی ایک بیوہ اپنی غربت پر آنسو بہائے جا چکی ہے ہنوز مختلف اسٹالز پر کھڑے کھانے، پینے اور خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ کچھ ہی دیر میں چھم چھم برستی بارش نے فوڈ سٹریٹ کے ماحول میں سماں باندھ دیا تھا۔
’’ہائے! کتنا اچھا موسم ہو گیا ہے۔ فرائز تو لے لیے اب ہوسٹل جا کے چائے کے ساتھ اڑائیں گے۔‘‘ یہ انعم تھی، بی۔ ایس فورتھ سمیسٹر کی طالبہ اور اس کے ساتھ اس کی کلاس فیلو اور بیسٹ فرینڈ شہزین بھی تھی۔ انعم کو ایسے موسم کا انتظار ہمیشہ رہتا تھا۔ دیارِ غیر میں یہ موسم اور بھی لطف دیتا تھا کہ ایسے میں آؤٹنگ کے لیے روکنے والا بھی کوئی نہ ہوتا تھا۔ ہوسٹل لائف گزارنا مشکل ضرور ہے، لیکن اس میں زندگی کا لطف بھی پنہاں ہے۔ شہزین بس اس کی بات پر مسکرا دی اور وہ دونوں جلدی جلدی چلنے لگیں تا کہ بارش تیز ہونے سے قبل ہاسٹل پہنچ سکیں۔
کچھ ہی دیر میں انعم اور شہزین اپنی باقی دو روم میٹس سمیت چائے اور آلو کی چپس سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ کل کی نسبت آج موسم گرم تھا۔ سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ بے شک یہ اللہ کے رنگ ہیں اور اللہ کے رنگ سے بہتر کون سا رنگ ہے۔ وہ جب چاہے اپنے بندوں کو اپنی رحمت سے نوازے اور جب چاہے ان کے لیے شمس کی لالی پیدا کرے تا کہ وہ اپنے رزق کو تیار کر سکیں۔
آمنہ آج بھی صبح سویرے اسٹال لگائے بیٹھی تھی۔ چٹکی اور علی غالباً اسکول گئے ہوئے تھے اس لیے آمنہ کے ساتھ صرف منا ہی تھا۔ آمنہ آس لگائے اپنی روزی کا سامان سجا رہی تھی۔ ایسے میں فاطمہ اس کے قریب آئی اور بال پوائنٹس خریدنے لگی۔ فاطمہ جا چکی تو آمنہ کے چہرے پر اطمینان رقم تھا۔
یونی سے واپسی پر بھی فاطمہ، آمنہ اور اس کے اسٹال کو دیکھتے ہوئے گزری۔ ایسا پہلی بار نہیں تھا فاطمہ روز ہی آمنہ، اس کے بچوں اور اسٹال کو دیکھتی تھی اور یہ بھی کہ گزرنے والے بہت سے راہ گیروں میں سے کوئی بھی اس سے کچھ نہیں خریدتا تھا۔ اس کا ذکر اس نے شہزین سے بھی کیا تھا، لیکن شہزین نے کہا تھا:’’ فاطمہ یہاں سے زیادہ تر یونی کے سٹوڈنٹس گزرتے ہیں۔ اب وہ بسکٹ، ٹافیاں خریدنے سے رہے اور سٹوڈنٹس پین، پنسل وغیرہ سٹیشنری سے لینا پسند کرتے ہیں یوں راہ چلتے نہیں۔ بھلا کون خریدے گا اس طرح بس اللہ ہی برکت دے اس عورت کی روزی میں۔‘‘ فاطمہ کو شہزین کی باتوں سے کافی مایوسی ہوئی لیکن اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اتنے دنوں سے وہ جو کچھ سوچ رہی ہے اسے اب عملی جامہ پہنانے کا وقت آگیا ہے۔
اگلے دن فاطمہ نے اپنے پورے ڈیپارٹمنٹ کی ایک ایک کلاس میں جا کر ایک پیغام دیا کہ یوں تو ہم سب سوشل میڈیا پر پوسٹس کرتے ہیں کہ ہمیں غریبوں کی مدد کرنی چاہیے اور چھوٹی موٹی چیزیں بیچنے والوں سے ضرورت کے بغیر بھی چیزیں خرید لینی چاہئیں لیکن ہم سب کو یہ سب کہنے میں اچھا لگتا ہے جب کہ ایسا کرتے ہوئے ہم شرم محسوس کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ سب کی نظریں ایک پل کے لیے جھک گئی تھیں۔ انہیں شاید اس بات کی امید نہیں تھی کہ یونی میں کوئی اس طرح کا لیکچر دے کر انہیں شرمندگی بھی دلا سکتا ہے۔ فاطمہ نے کچھ توقف کیا اور پھر بات جاری رکھی۔
’’گلی کے نکڑ پر بیٹھی ہوئی آپ نے اس بیوہ کو تو دیکھا ہی ہوگا اور اس کے اسٹال پر درج تحریر کو بھی کہ اسے اس کے’’مکان کی قسط ادا کرنے اور بچوں کی ضروریات کے لیے رقم درکار ہے۔‘‘ لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے اس تحریر پر غور کیا، اس کی مدد کی بلکہ مدد تو دور ہم میں سے بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے ترس کھا کر اس سے دو چار اشیاء خریدی ہوں گی۔‘‘ اس بار طالبات کے چہرے جھک گئے تھے۔ اب ساتھ کھڑی شہزین بول رہی تھی۔
’’دیکھیں ہم سب طالبات ہیں، ہم انفرادی طور پر کسی غریب کی مدد نہ بھی کر سکیں تو اجتمائی طور پر سو پچاس جمع کر کے یقینا کسی غریب کی خاطر خواہ مدد کر سکتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ لوگ اس بیوہ عورت سے زیادہ زیادہ چیزیں خریدیں۔ کیوں کہ وہ حلال روزی کمانا چاہتی ہے۔ نیز اگر کوئی اسطاعت رکھتا ہے تو اپنے تئیں اس کی مالی مدد بھی کرے۔ اس کے علاوہ بھی ہمیں چاہیے کہ یوں سڑکوں پر چھوٹی موٹی چیزیں بچنے والوں سے کچھ نہ کچھ خرید لیا کریں۔ اس طرح ایک طرف ان کی مدد ہو جائے گی اور دوسری طرف بھیک مانگنے والوں کو بھی نئی راہ ملے گی کہ اگر وہ کچھ بیچیں گے تو ان سے خریدا جائے گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ معاشرے کو زبوں حالی سے بچانے میں آپ لوگ ہمارا ساتھ دیں گے۔‘‘ فاطمہ اور شہزین جیسے ہی چپ ہوئیں کلاس روم طلبہ و طالبات کی تالیوں سے گونجنے لگا۔
اگلے دن اس تحریک کے لیے یونی میں چھوٹی چھوٹی کمیٹیاں بنائی گئیں جو کہ چندہ اکٹھا کرنے سے لے کر اپنی نگرانی میں غریب غربا کی مدد کرنے اور حلال کمائی کو فروغ دینے میں پیش پیش تھیں۔
آمنہ آج صبح سے ہی بہت مسرور تھی۔ فوڈ سٹریٹ میں آج پہلے سے زیادہ رش تھا۔ آمنہ اور اس کی طرح دوسرے اسٹالز والوں، مکئی کے بھٹے بیچنے والوں اور یہاں تک کہ فوڈ سٹریٹ میں وزن کرنے والی مشین لے کر بیٹھے بوڑھے کے چہرے پر بھی چمک اور اطمینان تھا۔ ان سب کی بھی اپنی ہی دنیا تھی اور وہ سب آج بہت خوش تھے کہ یکے بعد دیگرے کئی گاہک ان کے ذریعہ معاش کو رونق بخش آئے تھے۔ سڑک پر بیٹھے ہوئے بہت سے بھکاری ان مناظر کو حیرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ واقعی حرکت میں برکت ہے۔
فوڈ سٹریٹ سے گزرتے ہوئے آج فاطمہ کے چہرے پر اطمینان اور خوشی رقم تھی۔ اس نے اپنے فیصلے کو عملی جامہ پہنا دیا تھا اور اس پر عمل بھی کیا گیا تھا۔ شہزین نے اس کے چہرے کی طمانیت کو محسوس کیا تھا۔ فوڈ سٹریٹ سے گزرتے ہوئے ان کے قدم ہاسٹل کی جانب بڑھ گئے۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});