رمضان میں اور اس کے فوراً بعد امامہ کو کھانا پکانے کا کوئی خاص اتفاق نہیں ہو اتھا، لیکن اب وہ اس کے لئے باقاعدہ طور پر گھر کا کھانا بنانے لگی تھی۔ وہ سی فوڈ کے علاوہ کسی خاص کھانے کا شوقین نہیں تھا۔ سی فوڈ کو شدید ناپسند کرنے کے باوجود وہ بادل نہ خواستہ اس کے لئے ہفتے میں ایک، دو بار ڈبوں میں بند سی فوڈ کے بجائے، بازار سے تازہ سی فوڈ لاکر پکانے لگی تھی۔
سالار کو کھانے میں کبھی دلچسپی نہیں رہی تھی، نہ کبھی اس کی یہ خواہش رہی تھی کہ کوئی اس کے لئے کھانے کے لوازمات کا اہتمام کرے یا اسے پیش کرتا پھرے، لیکن اسے اندازہ بھی نہیں ہو پارہا تھا کہ کتنے غیر محسوس انداز میں وہ امامہ کے ہاتھ کے کھانے کا عادی ہونے لگا تھا۔ امامہ اس کے رات کو بہت دیر سے گھر آنے پر بھی اسے تازہ چپاتی بناکر دینے کی عادی ہوگئی تھی اور سالار نے زندگی میں کبھی کہیں ایسی چپاتی نہیں کھائی تھی۔ کسی کے گھر پر بھی نہیں، نرم ، خوشبودار ، ذائقہ دار اور تازہ۔ کسی بھی ڈنر ٹیبل پر… چپاتی کا پہلا لقمہ منہ میں ڈالے ہی اسے امامہ یاد آتی تھی۔ وہ اس کے ہاتھ کی بنی ہوئی چپاتی، کسی سالن چٹنی یا سلاد کے بغیر بھی بڑی خوشی کے ساتھ کھا سکتا تھا۔
وہ ناشتے میں دو سلائس ایک انڈا کھا کر اور چائے یا کافی کے ایک کپ کے ساتھ بھاگ جانے والا آدمی تھا، اب زندگی میں پہلی بار ناشتے کا کوئی ’’مینو‘‘ ہونے لگا تھا، انڈا تلے ہوئے یا ابلے ہوئے کے بجائے مختلف قسم کے آملیٹ کی شکل میں ملنے لگا تھا۔ بعض دفعہ پراٹھا ہوتا۔ ڈبے کے جوس کی جگہ تازہ جوس کے گلاس نے لے لی تھی۔ لنچ کے لئے گھر کے بنے ہوئے سینڈوچز اور سلاد ہوتے۔ وہ آفس میں سب کی طرح ایک فاسٹ فوڈ سے آنے والے لنچ پیک کا عادی تھا اور وہ اس کے ساتھ ’’کمفرٹیبل‘‘ تھا۔
شروع شروع میں وہ امامہ کے اصرار پر کچھ بے دلی سے اس لنچ پیک کو گھر سے لاتا تھا جو امامہ اس کے لئے تیار کرتی تھی، مگر آہستہ آہستہ اس کی ناخوشی ختم ہونے لگی تھی۔ وہ ’’گھر کا کھانا‘‘ تھا، بے حد ’’valuable‘‘ تھا کیوں کہ اسے بنانے کے لئے صبح سویرے اٹھ کر اس کی بیوی اپنا کچھ وقت صرف کرتی تھی۔ ’’بھوک‘‘ وہ بازار سے خریدے گئے چند لقموں سے بھی مٹالیتا لیکن وہ لقمے اس کے دل میں گھر میں بیٹھی ایک عور ت کے لئے شکر کا احساس پیدا نہ کرتے، جسے وہ ہر روز اس وقت محسوس کرتا، جب بینک کے کچن سے کوئی اس کے لنچ کو گرام کرکے اس کے ٹیبل پر لاکر رکھتا تھا۔
وہ پانی کے اس گلاس کا بھی اسی طرح عادی ہونے لگا تھا، جو وہ ہر روز اس کے گھر میں داخل ہونے پر اسے لاکر دیتی تھی۔ کافی یا چائے کے اس کپ کا بھی، جو وہ دونوں رات کے کھانے کے بعد ٹیرس پر بیٹھ کر پیتے تھے اور گرم دودھ کے اس گلاس کا بھی، جو وہ رات کو سونے سے پہلے اسے دیا کرتی تھی اور جسے وہ شروع میں ناگواری سے گھورا کرتا تھا۔
’’میں دودھ نہیں پیتا۔‘‘ جب ا س نے پہلی بار گرم دودھ کا گلاس اسے دیا تو اس نے بے حد شائستگی سے بتایا تھا۔
’’کیوں؟‘‘ جواباً اس نے اتنی حیرت کا اظہار کیا تھا کہ وہ کچھ شرمندہ سا ہوگیا تھا۔
’’مجھے پسند نہیں ہے۔‘‘
’’مجھے تو بڑا پسند ہے، تمہیں کیوں نہیں پسند؟‘‘
’’مجھے اس کا ذائقہ اچھا نہیں لگتا۔‘‘ وہ ایک لمحہ کے لئے سوچ میں پڑگئی۔
’’تو میں اس میں اوولٹین ڈال دوں…‘‘ سالار نے اس کے جواب کو مکمل ہونے سے پہلے ہی گلاس اٹھا کر پی لیا تھا۔ وہ زہر پی سکتا تھا، لیکن اوولٹین نہیں اور یہ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ دودھ پیتی ہے، اس لئے اسے بھی دودھ پینا تھا۔ دودھ کے فوائد سے بہر حال اسے دلچسپی نہیں تھی۔
اس کے اپنے گھر میں مردوں کا جس طرح خیال رکھاجاتا تھا، وہ بھی اس کا اسی طرح خیال رکھ رہی تھی۔
یہ ’’عادتاً تھا ’’خصوصاً‘‘ نہیں اور اسے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ ’’خیال‘‘ کہیں ’’رجسٹر‘‘ ہورہا تھا… ہر عورت کی طرح وہ بھی یہ سمجھتی تھی کہ اس کے ان تمام کاموں کو حق سمجھ کر لیا جارہا ہے، کیوں کہ ہر مرد کی طرح سالار بھی تعریف نہیں کرپارہا تھا، ہر مرد کی طرح اسکے لئے بھی آئی لویو کہنا آسان تھا، بجائے یہ کہنے کے کہ جو تم میرے لئے کرتی ہو اس کی مجھے بہت قدر ہے اور ہر مرد کی طرح وہ بھی اس احساس تشکر کو تحائف اور پیسے سے ریپلیس کررہا تھا۔
٭…٭…٭
امامہ کے لئے زندگی بدل گئی تھی… بدل گئی تھی یا بہت عرصے کے بعد پھر شروع ہوئی تھی؟ مارکیٹوں میں سالار یا نوشین کے ساتھ پھرتے، چیزوں کو دیکھتے، وہ عجیب سے احساسات کا شکار ہوتی رہتی۔ یہ احساس کہ وہ جن چیزوں کو دیکھ رہی ہے، وہ انہیں اب خریدنے کے قابل ہے اور یہ احساس کہ اب ایک ایسی جگہ ہے جہاں وہ ان چیزوں کو اپنے لئے رکھ سکتی تھی۔ وہ ڈاکٹر سبط علی کا گھر نہیں تھا، ہاسٹل نہیں تھا، نہ ہی سعیدہ اماں کا گھر تھا، یہ اس کا اپنا گھر تھا۔ تشکر، خوشی، آسودگی اور پھر بے یقینی اور حیرانی۔ نو سال کی مشقت کے بعد جو ملا تھا، وہ اس کی اوقات سے بہت زیادہ تھا اور یہ سب ہر کسی کو کہاں ملتا تھا۔ نو سال بے نام، بے خاندان رہنے کے بعد اب جب کہ وہ ایک خاندان کا حصہ بنی تھی تو حیرانی کیسے نہ ہوتی…؟ خواری اور بے سروسامانی کا سفر جہاں جاکر ختم ہو اتھا ، وہ نعمتوں کی معراج تھی۔ اپنے گھر سے نکلنے کے بعد اس نے اتنے عرصے میں صرف ایک چیز سیکھی تھی۔ اپنے نفس پر قابو پانا، اپنی خواہشات اور ضروریات کو کم سے کم کرنا، قناعت کرنا اور یہ بڑا مشکل تھا۔ وہ آسائشوں سے نکل کر آئی تھی۔ ریت کا ذرہ اسے تھور کے کانٹے کی طرح چبھتا تھا۔ پیسوں کو گن کر خرچ کرنا اور پھر بچانے کی کوشش کرنا، وہ کہاں عادی تھی ان چیزوں کی، لیکن وقت اور حالات نے اسے عادی بنادیا تھا اور اب جب اتنے سالوں کے بعد اسے آسائش ملی تو ناممکن تھا کہ اسے بات بات پر وہ نو سال یاد نہ آتے۔ وہ ضرورت پڑنے پر سالار کی دراز میں پڑے پیسوں کو نکالتے ہوئے ٹھٹک جایا کرتی تھی، جن کو کمانے میں اس کی محنت شامل تھی، نہ ہی ان کی بچت اس کا کوئی حصہ تھا۔ اسے صحیح اندازہ نہیں تھا کہ دراز میں کتنی رقم موجود ہے، کیوں کہ وہ انہیں کبھی گن نہیں پائی تھی۔ وہ ہر روز اس دراز میں کچھ رقم کا اضافہ کرنے کا عادی تھا۔ اگر وہ اس دراز کو پورے کا پورا خالی کر دیتی، تب بھی اگلے دن وہ خالی نہیں ہوتا تھا۔ اس روپے کو خرچ کرنااس کا ’’استحقاق‘‘ تھا اور اس رقم کے خرچ ہونے پر سالار نے کبھی اس سے سوال نہیں کیا تھا۔ وہ اس گھر کے سیاہ و سفید کی مالک تھی۔
وہ چیزوں کو پرائس ٹیگ دیکھ کر خرید ا کرتی تھی، اپنی خواہش دیکھ کرنہیں اور اب یک دم پرائس ٹیگ دیکھ کر خریداری کرنا اس کا لائف اسٹائل کا حصہ نہیں رہا تھا۔ سالار زندگی میں خو دبھی کبھی بارگیننگ یا سستی چیزوں کے استعمال کا عادی نہیں رہا تھااور وہ اتنا ہی فیاض اس کے معاملے میں بھی تھا۔ ناممکن تھا کہ اسے جو چیز اچھی لگی وہ اسے نہ لے کردیتا اور یہ صرف بازار میں نظر آنے والی چیزوں تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ اسے کسی میگزین یا ٹی وی پر بھی کوئی چیز اچھی لگ جاتی اور وہ سالار سے اس کا ذکر کرتی تو وہ چیزاگلے چند دنوں میں اس کے گھر پر ہوتی تھی اور وہ کس قیمت پر آتی تھی، سالار کو پروا نہیں ہوتی تھی۔ وہ رات کے تین بجے بھی اگر کسی چیز کے کھانے کی فرمائش کرتی تو وہ اسے لے جایا کرتا تھا۔
’’میرا دل چاہ رہا ہے …‘‘
وہ اب اس جملے کوبولنے کی عادی ہورہی تھی کیونکہ کوئی تھا جو آدھی رات کو بھی آئس کریم کے دو سکوپس، چاٹ کی ایک پلیٹ، پیزا کے ایک سلائس، کافی کے ایک کپ، ہاٹ اینڈ سار کی خواہش ہونے پر اسے ملامت یا صبر کی تلقین کرنے کے بجائے، اسے ساتھ لئے مطلوبہ چیز کی تلاش میں، ایک بھی شکایتی لفظ کہے بغیر خالی سڑکوں پر گاڑی دوڑاتا پھرتا تھا۔
شادی کے اس مختصر عرصے میں بھی لاہور کی کوئی ایسی جگہ نہیں تھی، جہاں کھانے کی کسی مشہور چیزکا اس نے سنا ہو اور سالار اسے وہاں نہ لے گیا ہو۔ گوالمنڈی میں فجر کے بعد حلوہ پوری کے سستے ناشتے سے لے کر ، پی سی کے چوبیس گھنٹے کھلے رہنے والے کیفے میں رات کے پچھلے پہر کھائے جانے والے لیمن ٹارٹس تک،جن کو کھاتے ہوئے دیر ہوجانے پر ، اس نے دبئی کی وہ فلائٹ بھی مِس کردی تھی جو ایک گھنٹہ بعد تھی۔
یہ ناممکن تھا کہ ایسا شخص کسی کی دعاؤں کا حصہ نہ بنے۔ اسے کبھی نماز کے بعد دعا کرتے ہوئے سالار کو یاد نہیں کرنا پڑا تھا، وہ اسے ہمیشہ خود بہ خود یاد آجاتا تھا۔ اس سے نکاح ہوجانے کے بعد پہلی نماز پڑھنے پربھی، جب وہ ناخوش تھی اور اس سے رشتہ ختم کرنا چاہتی تھی اور ڈاکٹر سبط علی کے گھر پر اسے دیکھنے اور سننے کے بعد بھی، جب اس نے پہلی بار ’’اپنے شوہر‘‘ کے لئے اجر کی دعا کی تھی اور رخصتی کے بعد اس گھرمیں پہلی نمازکے دوران بھی، جب اس نے سالار کے لئے اپنے دل میں محبت پیدا ہونے کی دعا کی تھی، وہ اسے یاد آتا تھا یا یاد رہتا تھا۔
دن کی کوئی نماز ایسی نہیں ہوتی تھی جب وہ سالار کے لئے اللہ سے نعمتوں اور اجر کی طالب نہیں ہوتی تھی، تب بھی جب وہ اس سے شاکی یا خفا ہوتی تھی۔ وہ اللہ ے بعد اس دنیا میں واقعی اس کا ’’آخری سہارا‘‘ تھا اور ’’سہارے‘‘ کا ’’مطلب‘‘ اور ’’اہمیت‘‘ کوئی امامہ سے پوچھتا۔
٭…٭…٭
’’آر یو شیور… تم اکیلے رہ لوگی؟‘‘ سالار اب بھی جیسے یقین دہانی چاہتا تھا۔
وہ دو ہفتوں کے لئے نیویارک اپنے بینک کی کسی ورکشاپ کے سلسلے میں جارہا تھا اور امامہ اس بار اپارٹمنٹ میں ہی رہنا چاہتی تھی۔ عام طور پر سالار کراچی یا کہیں اور جاتے ہوئے اسے سعیدہ اماں یا ڈاکٹر سبط علی کے ہاں چھوڑ جایا کرتا تھا، لیکن اس بار وہ بہ ضد تھی کہ وہ وہیں رہے گی۔ اس کا خیال تھا کہ اب وہ وہاں اکیلی رہ سکتی ہے۔
’’میں رہ لوں گی… ویسے بھی فرقان بھائی اور بھابھی تو پاس ہی ہیں…کچھ نہیں ہوتا۔‘‘ ا س نے سالار کو تسلی دی۔ اس کی فلائٹ صبح گیارہ بجے تھی اور وہ اس وقت پیکنگ سے فارغ ہوا تھا۔
’’میرے بغیر رہ لوگی تم؟‘‘ اس نے امامہ کی بات سننے کے بعد کہا۔ وہ اب اپنے بریف کیس میں کچھ پیپرز رکھ رہا تھا۔
’’ہاں… دو ہی ہفتوں کی تو بات ہے۔‘‘ امامہ نے بے حد اطمینان سے اسے کہا۔
’’دو ہفتوں میں پندرہ دن ہوتے ہیں۔‘‘ سالار نے بریف کیس بند کرتے ہوئے کہا۔
’’تو کوئی بات نہیں گزر جائیں گے۔‘‘
سالار نے گہرا سانس لیا۔ ’’ہاں تمہارے تو گزر جائیں گے۔ میرے نہیں گزریں گے، میں تو ابھی سے تمہیں مس کرنے لگا ہوں یار۔‘‘ وہ ہنس پڑی۔
’’پہلے بھی تو جاتے ہو تم… دو ہفتے پہلے دوبئی گئے تھے… پھر پچھلے مہینے سنگاپور…‘‘ اس نے تسلی دینے والے انداز میں اسے یاد دلایا۔
’’دو دن کے لئے دبئی گیاتھا اور چار دن کے لئے سنگاپور… یہ تو دو ہفتے ہیں۔‘‘
’’ہاں، تو دو ہفتے ہی ہیں نا، دو مہینے یا دو سال تو نہیں ہیں۔‘‘ اس نے کمال اطمینان کے ساتھ کہا۔
سالار اسے دیکھ کر رہ گیا۔
’’چلو، اچھا ہے یہ بھی… میں یاد آؤں گا نہ نظر آؤں گا۔ نہ میرا کوئی کام ہوگا، وقت ہی وقت ہوگا تمہارے پاس…‘‘ وہ نجانے اس سے کیا سننا چاہتا تھا۔
’’ہاں، کافی وقت ہوگا، میں ایک دو پینٹنگز مکمل کروں گی۔ گھر کے کچھ اور کام ہیں، وہ بھی کروں گی۔ سعیدہ اماں کے بھی ایک دو کام ہیں، وہ بھی نمٹاؤں گی۔ میں نے بہت کچھ پلان کیا ہوا ہے۔‘‘
اس نے ناول پکڑے، اپنی جماہی روکنے کے لئے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ وہ ہنس پڑا تھا۔
’’تمہارے لئے تو blessing in disguise ہوگیا ہے میرا ٹرپ، میں نے تو سوچا ہی نہیں تھا، میری وجہ سے تمہارے اتنے کام پینڈنگ ہورہے ہیں۔‘‘
اگر اس کے لہجے میں گلہ تھا تو امامہ نے نوٹس نہیں کیا۔
’’چلو، یہ بھی اچھا ہے۔‘‘ وہ بڑبڑایا تھا۔
’’ویزہ لگا ہوتا تو میں تمہیں لے جاتا۔‘‘ اسے پھر کچھ خیال آیا تھا۔
’’تم پریشان مت ہو، میں یہاں پر بالکل ٹھیک رہوں گی۔‘‘ امامہ نے فوراً اسے پیشتر کہا۔
سالار جواب دینے کے بجائے چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔
’’کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘ امامہ اسے دیکھ کرمسکرائی۔
’’تمہارا اطمینان…‘‘
’’میں فلمی ہیروئنز کی طرح ڈائیلاگ نہیں بول سکتی۔‘‘
’’صرف فلمی ہیروئنز ہی ڈائیلاگ بولتی ہیں؟‘‘
’’نہیں، ہیرو بھی بولتے ہیں۔‘‘ وہ اطمینان سے ہنسی۔ سالار مسکرایا تک نہیں تھا۔ وہ پھر سنجیدہ ہوگئی۔
’’مت جاوؑ پھر…؟ اگر اتنا مس کررہے ہو تو۔‘‘ اس نے جیسے اسے چیلنج کیا۔
’’پیار سے کہتیں تو نہ جاتا، لیکن میں تمہارا کوئی چیلنج قبول نہیں کروں گا۔ مجھے تم سے ہارنا پسند ہے۔‘‘ وہ ہنسی۔
’’تم بات بدل رہے ہو؟‘‘
’’نہیں خود کو تسلی دے رہا ہوں۔ چلو آؤ! تمہیں کافی پلوا کر لاؤں۔‘‘
وہ یک دم بستر سے اٹھتے ہوئے بولا۔
’’اس وقت…؟‘‘ رات کو اس وقت امامہ تیار نہیں تھی۔
’’ہاں… اتنے دن تک تو نہیں پلوا سکوں گا کافی۔‘‘ وہ درواز سے والٹ اور کار کی چابیاں نکال رہا تھا۔
’’لیکن اب میں پھر کپڑے بدلوں…؟‘‘
’’مت بدلو، چادر لے لو… یہی ٹھیک ہے۔‘‘
سالار نے اس کی بات کاٹی۔ وہ اب سیل فون اٹھا رہا تھا۔
فورٹریس سے کافی پینے کے بعد وہ اسٹیڈیم کے گرد بے مقصد ڈرئیو کرتا رہا۔
’’اب گھر چلیں، تمہیں آرام کرنا چاہیے ۔‘‘ امامہ کو اچانک خیال آیا۔
’’میں پلین میں آرام کروں گا۔‘‘
امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اتنا سنجیدہ اور کسی گہری سوچ میں کیوں ڈوبا ہوا تھا۔ واپس آتے ہوئے اس نے راستے میں ایک دکان سے بہت سا پھل خریدا۔
’’تم یہاں نہیں ہوگے تو اتنا پھل خریدنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ امامہ حیران ہوئی تھی۔
’’تمہارے لئے خریدا ہے، شاید پھل کھاتے ہوئے ہی میں تمہیں یاد آجاؤں۔‘‘ اس نے مسکرا کر کہا تھا۔
’’ یہ پھل کھانے کے لئے شرط ہے۔‘‘ وہ بے اختیار ہنسی۔
’’نہیں، امید…‘‘ امامہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔
واقعی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ دو ہفتے کا ٹرپ اتنا لمبا تو نہیں تھا کہ اس پر کسی قسم کی اداسی کااظہار کیا جائے۔ کم از کم سالار سے وہ اس طرح کی جذباتیت کی توقع نہیں کررہی تھی۔
٭…٭…٭