سکندر نے عید کے تحفے کے طور پر اسے ایک بریسلیٹ دیا تھا اور سوائے سالار کے تقریباً سب نے ہی اسے کچھ نہ کچھ دیا تھا۔ امامہ کا خیال تھا وہ اس بار ضرور اسے زیور میں کوئی چیز تحفے میں دے گا۔ اسے لاشعور طور پر جیسے انتظار تھا کہ وہ اسے کچھ دے۔ اس نے اس بار بھی اسے کچھ رقم دی تھی۔ وہ کچھ مایوس ہوئی، لیکن اس نے سالار سے شکایت نہیں کی۔ اسے عجیب لگ رہا تھا کہ وہ خود اس سے کوئی تحفہ مانگے اور اسے حیرانی تھی کہ سالار کو خود اس کا خیال کیوں نہیں آیا۔
عید کی رات شہر کے نواح میں واقع، سکندر عثمان کے فارم ہاؤس میں ایک فیملی ڈنر تھا۔ وہاں سالار کی بیوی کی حیثیت سے پہلی بار وہ متعارف ہوئی تھی اور طیبہ کے تیار کرائے ہوئے سرخ لباس میں وہ واقعی ایک نئی نویلی دلہن لگ رہی تھی۔ ڈیڑھ، دو سو کے قریب وہ سب افراد سالار کی extended فیملی تھے۔ امامہ کو اب احساس ہوا تھا کہ سالار کا اسے اسلام آباد لانے اور اس کی شناخت کو نہ چھپانے کا فیصلہ ٹھیک تھا۔ اسے اس عزت و احترام کی اشد ضرورت تھی، جو اسے وہاں ملی تھی۔
اوپن ائیر میں باربی کیو ڈنر کے دوران اپنی پلیٹ لے کر وہ کچھ دیر کے لئے فارم ہاؤس کے برآمدے میںلکڑی کی سیڑھیوں میں بیٹھ گئی تھی۔ ایک ہٹ کی طرح بنا ہوا فارم ہاؤس کا وہ حصہ، اس وقت نسبتاً خاموش تھا۔ باقی افراد ٹولیوں کی صورت میں سامنے کھلے سبزے میں ڈنر کرتے ہوئے مختلف سرگرمیوں میں مصروف تھے۔
’’تم یہاں کیوں آکر بیٹھ گئیں؟‘‘ امامہ کے قریب آتے ہوئے اس نے دور سے کہا۔
’’ایسے ہی … شال لینے آئی تھی… پھر یہیں بیٹھ گئیں…‘‘ وہ مسکرائی۔ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے سالار نے سوفٹ ڈرنک کا گلاس اپنی ٹانگوں کے درمیان نچلی سیڑھی پر رکھ دیا۔ امامہ لکڑی کے ستون سے ٹیک لگائے ایک گھٹنے پر کھانے کی پلیٹ ٹکائے، کھانے کھاتے ہوئے دور لان میں ایک کینوپی کے نیچے اسٹیج پر بیٹھے گلو کار کو دیکھ رہی تھی جو نئی غزل شروع کرنے سے پہلے سازندوں کو ہدایات دے رہا تھا۔ سالار نے اس کا کانٹا اٹھا کر اس کی پلیٹ سے کباب کا ایک ٹکڑا اپنے منہ میں ڈالا۔ وہ اب گلوکار کی طرف متوجہ تھا جو اپنی نئی غزل شروع کرچکا تھا۔
’’انجوائے کررہی ہو؟‘‘ سالار نے اس سے پوچھا۔
’’ہاں‘‘ اس نے مسکرا کر کہا۔ وہ غزل سن رہی تھی۔
کسی کی آنکھ پرنم ہے، محبت ہوگئی ہو گی
زبان پر قصہ غم ہے، محبت ہوگئی ہوگی
وہ بھی سوفٹ ڈرنک پیتے ہوئے غزل سننے لگا تھا۔
کبھی ہنسنا کبھی رونا، کبھی ہنس ہنس کر رو دینا
عجب دل کا یہ عالم ہے، محبت ہوگئی ہوگی
’’اچھا گا رہا ہے۔‘‘ امامہ نے ستائشی انداز میں کہا۔
سالار نے کچھ کہنے کے بجائے سرہلادیا۔
خوشی کا حد سے بڑھ جانا بھی، اب اک بے قراری ہے
نہ غم ہونا بھی اک غم ہے، محبت ہوگئی ہوگی۔
سالار سوفٹ ڈرنک پیتے ہوئے ہنس پڑا۔ امامہ نے اس کا چہرہ دیکھا، وہ جیسے کہیں اور پہنچا ہوا تھا۔
’’تمہیں کچھ دینا چاہ رہا تھا میں…‘‘
وہ جیکٹ کی جیب میں سے کچھ نکالنے کی کوشش کررہا تھا۔
’’بہت دنوں سے دینا چاہتا تھا میں لیکن…‘‘ وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔
اس کے ہاتھ میں ایک ڈبیا تھی۔ امامہ کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ آئی، تو بالآخر اسے اس کا خیال آ ہی گیا تھا۔ اس نے ڈبیا لیتے ہوئے سوچا اور اسے کھولا۔ وہ ساکت رہ گئی، اندر ائیر رنگز تھے۔ ان ائیر رنگز سے تقریباً ملتے جلتے جو وہ اکثر اپنے کانوں میں پہنے رکھتی تھی۔ اس نے نظریں اٹھا کر سالار کو دیکھا۔
’’میں جانتا ہوں، یہ اتنے ویلوایبل تو نہیں ہوں گے جتنے تمہارے فادر کے ہیں… لیکن مجھے اچھا لگے گا اگر کبھی کبھار تم انہیں بھی پہنو۔‘‘
ان ائیر رنگز کو دیکھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’تم نہیں پہننا چاہتیں تو بھی ٹھیک ہے… میں ریپلیس کرنے کے لئے نہیں دے رہا ہوں۔‘‘
سالار نے اس کی آنکھوں میں نمودار ہوتی نمی دیکھ کر بے ساختہ کہا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ بہت ساری چیزیں پہلے ہی اپنی جگہ بدل چکی ہیں۔ اس کی خواہش اور ارادے کے نہ ہونے کے باوجود۔
کچھ کہنے کے بجائے امامہ نے اپنے دائیں کان میں لٹکتا ہوا جھمکا اتارا۔
’’میں پہنا سکتا ہوں؟‘‘
سالار نے ایک ائیررنگ نکالتے ہوئے پوچھا۔ امامہ نے سرہلادیا۔ سالار نے باری باری اس کے دونوں کانوں میں وہ ائیر رنگز پہنادیئے۔
وہ نم آنکھوں کے ساتھ مسکرائی۔ وہ بہت دیر تک مبہوت سا اسے دیکھتا رہا۔
’’اچھی لگ رہی ہو۔‘‘
وہ اس کے کانوں میں لٹکتے، ہلکورے کھاتے، موتی کو چھوتے ہوئے مدھم آواز میں بولا۔
’’مجھ سے زیادہ کوئی تم سے محبت نہیں کرسکتا، کوئی مجھ سے زیادہ تمہاری پروا نہیں کرسکتا، مجھ سے زیادہ خیال نہیں رکھ سکتا تمہارا۔ میرے پاس تمہارے علاوہ کوئی قیمتی چیز نہیں ہے۔‘‘
اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ اس سے کہہ رہا تھا، وعدہ کررہا تھا یا یاد دہانی کرا رہا تھا، کچھ جتا رہا تھا۔ وہ جھک کر اب اس کی گردن چوم رہا تھا۔
“I am blessed” سیدھا جاتے ہوئے اس نے امامہ سے کہا۔
’’رومانس ہورہا ہے؟‘‘ اپنے عقب میں آنے والی کامران کی آواز پر وہ ٹھٹکے تھے۔ وہ شاید شارٹ کٹ کی وجہ سے برآمدے کے اس دروازے سے نکلا تھا۔
’’کوشش کررہے ہیں۔‘‘ سالار نے پلٹے بغیر کہا۔
’’گڈلک…‘‘ وہ کہتا ہوا اور ان کے پاس سے سیڑھیاں اترتا ہوا، انہیں دیکھے بغیر چلا گیا۔
امامہ کی رکی ہوئی سانس بحال ہوئی۔ وہ جھینپ گئی تھی۔ سالار اور اس کی فیملی کم از کم ان معاملات میں بے حد آزاد خیال تھے۔
کسی کو سامنے پاکر، کسی کے سرخ ہونٹوں پر
انوکھا سا تبسم ہے، محبت ہوگئی ہوگی
امامہ کو لگا کہ وہ زیر لب گلو کار کے ساتھ گنگنا رہا ہے۔
جہاں ویران راہیں تھیں، جہاں حیران آنکھیں تھیں
وہاں پھولوں کا موسم ہے، محبت ہوگئی ہوگی
لکڑی کی ان سیڑھیوں پر ایک دوسرے کے پاس بیٹھے، وہ خاموشی کو توڑتی، آس پاس کے پہاڑوں میں گونج کی طرح پھیلتی گلوکار کی سریلی آواز کو سن رہے تھے۔ زندگی کے وہ لمحے یادیں بن رہے تھے۔ دوبارہ نہ آنے کے لئے گزر رہے تھے۔
ان کے اپارٹمنٹ کی دیوار پر لگنے والی ان دونوں کی پہلی اکٹھی تصویر، اس فارم ہاؤس کی سیڑھیوں ہی کی تھی۔ سرخ لباس میں، گولڈ کڑھائی والی سیاہ پشمینہ شال اپنے بازوؤں کے گرد اوڑھے، کھلے سیاہ بالوں کو کانوں کی لوؤں کے پیچھے کئے، خوشی اس کی مسکراہٹ اور آنکھوں کی چمک میں نہیں جھلک رہی تھی، بلکہ اس قرب میں تھی، جو اس کے اور سالار کے درمیان نظر آرہا تھا۔ سفید شرٹ اور سیاہ جیکٹ میں اسے اپنے ساتھ لگائے، سالار کی آنکھوں کی چمک جیسے اس فوٹو گراف میں موجود ہر شے کو مات کررہی تھی۔ کوئی بھی کیمرے کے لئے بنائے ہوئے اس ایک پوز میں نظر آنے والے کپل کو دیکھ کر چند لمحوں کے لئے ضرور ٹھٹکتا۔
سکندر نے اس فوٹو گراف کو فریم کروا کر انہیں ہی نہیں بھیجا تھا، بلکہ انہوں نے اپنے گھر کی فیملی وال فوٹو میں بھی اس تصویر کا اضافہ کیا تھا۔
٭…٭…٭
لاہور واپسی پر عید ڈنرز کا ایک لمبا سلسلہ جو شروع ہوگیا۔ وہ امامہ کو اپنے سوشل اور بزنس سرکل میں متعارف کروا رہا تھا اور وہ اس سرکل میں اچانک بہت حواس باختہ ہونے لگی تھی۔ وہ کارپوریٹ سیکٹر، بینکرز اور بزنس ٹائیکونز کی فیملیز پر مشتمل تھا۔ پاکستان کی امیر ترین اور شاید گمراہ ترین کلاس، ہائی کلاس پروفیشنلز… جو ایک کو دو اور دو کو چار نہیں کرتے تھے بلکہ ایک کو سو اور سو کو لاکھ کرنے کے گُر سے آگاہ تھے اور بینکنگ سیکٹر کی کریم… جن کی بیوی، فیانسی، گرل فرینڈ اور سیکریٹری میں تمیز کرنا مشکل تھا۔ صرف دوسروں کے لئے ہی نہیں خود ان کے اپنے لئے بھی، اپنے ساتھ لے کر آنے والی عورت سے ان کا رشتہ جو بھی ہوتا، ان فنکشنز میں ان عورتوں کا کام ایک ہی ہوتا تھا۔ وہ اپنی خوبصورتی، بے تکلفی اور گرم جوشی سے، اپنے نیم عریاں لباس، اپنی زبان اور آواز کی مٹھاس سے، اپنے بلند و بانگ قہقہوں سے اور اپنی اداؤں سے اپنے شوہر، منگیتر، بوائے فرینڈ یا باس کے بزنس کانٹیکٹس میں اضافہ کرتی تھیں۔ Trophy Wife والے شوہر کامیابی کی سیڑھیاں تیزی سے طے کرتے تھے۔
عید کے چوتھے دن وہ اسے پہلی بار اپنے ہی بینک کی طرف سے دیئے گئے عید کے ڈنر میں لے کر گیا تھا اور ایک بڑے ہوٹل میں ہونے والے اس ڈنر میں جاتے ہی امامہ کو پسینہ آنے لگا تھا۔ گیدرنگ کا ایک بڑا حصہ غیر ملکی مردوں اور عورتوں پر مشتمل تھا اور وہ اگر ایوننگ گاؤنز اور اسکرٹس میں ملبوس تھیں، تو وہ حیرت کاشکار نہیں ہوئی تھی لیکن اسے نروس کرنے والی چیز ان دوسری خواتین اور بیگمات کا حلیہ تھا جو پاکستانی تھیں۔ وہ فیملی ڈنر تھا۔ کم از کم سالار اسے یہی بتاکر وہاں لایا تھا، لیکن وہاں آنے والی فیملیز کون تھیں، یہ اس نے اسے نہیں بتایا تھا۔ گہرے گلے والے اور بغیر آستین والے مختصر بلاؤزز، بیک لیس گاؤنز، سڑنگی ٹاپس اور آف دا شولڈرز ڈریسز میں ملبوس، پاکستان کی خاندانی خوبصورت عورتوں کا اتنا بڑا مجمع، اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ چند لمحوں کے لئے اسے لگا تھا، جیسے وہ مس ورلڈ کے مقابلہ حسن میں آگئی ہو۔ وہاں موجود عورتیں بیس سے ساٹھ سال تک کی عمر کے درمیان تھیں اور یہی طے کرنا سب سے زیادہ مشکل تھا کہ کون عمر کس سیڑھی پر کھڑی ہے۔ سگریٹ پیتے ہوئے ہاتھ میں ڈرنکس لئے، وہ گرمجوشی اور بے تکلفی کے ساتھ مختلف مردوں سے گلے ملتے ہوئے، گفتگو میں مصروف تھیں۔ شیفون کے لباس کے اوپر دوپٹہ اوڑھے امامہ کو اپنا آپ الو باٹا لگا۔
وہاں کھڑے اس نے جیسے خود کو جانچنا شروع کردیا تھا اور وہیں کھڑے اس نے پہلی بار سالار اور اپنے حلیے کے فرق کو بھی نوٹس کیا تھا۔ ایک برانڈڈ سیاہ ڈنر سوٹ میں سرخ دھاری دار ٹائی کے ساتھ وہ بالکل اس ماحول کا حصہ لگ رہا تھا، گرومڈ اور پولشڈ۔ وہاں کھڑے اس پر یہ ہولناک انکشاف بھی ہو اکہ اس کا حلیہ سالار کی اس لک کے ساتھ میچ نہیں کرتا۔
وہ اوڈ کپل تھے۔ اسے احساس کمتری کا دوسرا دورہ بڑی غلط جگہ اور بڑے ہی غلط وقت پر پڑا تھا۔
وہ اس کا تعارف باری باری مختلف لوگوں سے کروا رہا تھا اور امامہ اس پذیرائی اور گرم جوشی پر حیران تھی، جو اسے مل رہی تھی۔ پھر یک دم اسے احساس ہونے لگا کہ اس گرم جوشی کی وجہ بھی سالار سکندر تھا۔ یہ پروٹوکول مسز سالار سکندر کے لئے تھا، امامہ ہاشم کے لئے نہیں۔ یہ ٹیگ جس کے گلے میں بھی لٹکا ہوتا، اسے یہی پروٹوکول ملتا چاہے اس کا حلیہ اس سے بھی بدتر ہوتا، اس کا احساس کمتری پارے کی طرح اوپر جارہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ پی آر میں ہونے کی وجہ سے اتنا سوشل ہے۔ اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کا شوہر پاکستان میں اس بنک کے چند کلیدی عہدوں میں سے ایک پر براجمان تھا اور اس کے پاس آنے والے لوگوں کی خوش اخلاقی اور گرم جوشی دکھانے کی وجوہات، کچھ اتنی فطری نہیں تھیں۔
سالار کے ساتھ کھڑے اسے اپنے ہی حلیے کی چند اور خواتین بھی بالآخر اس مجمع میں نظر آگئی تھیں اور ان کی موجودگی نے اسے کچھ حوصلہ دیا کہ اس جیسے اور بھی اوڈکپلز وہاں موجود تھے۔
’’ڈرنک پلیز!‘‘ مشروبات کی ٹرے پکڑے ویٹر نے بالکل اس کے پاس آکر اس سے کہا۔ وہ چونکی اور اس نے ٹرے پر نظر دوڑائی۔ وائن گلاس میں ایپل جوس تھا، اس نے ایک گلاس اٹھا لیا۔ ویٹر اب ان کے اردگرد کھڑے چند غیر ملکی افراد کو ڈرنکس سرو کررہا تھا۔
اپنے سامنے کھڑے ایک غیر ملکی جوڑے سے باتیں کرتے ہوئے سالار نے بے حد غیر محسوس انداز میں امامہ کو دیکھے بغیر، اس کے ہاتھ سے گلاس لے لیا۔ وہ چونک اٹھی۔ ایک لمحہ کے لئے اسے خیال آیا کہ وہ شاید خود پینا چاہتا ہے لیکن اس کا گلاس میں لئے، وہ اسی طرح اس کپل سے باتیں کرتا رہا۔ ویٹر دائرے میں کھڑے تمام افراد کو سرو… کرتے ہوئے سالار کے پاس آیا۔ سالار نے امامہ کا گلاس بے حد غیر محسوس انداز سے ٹرے میں واپس رکھتے ہوئے ویٹر سے کہا۔
’’سوفٹ ڈرنکس پلیز!‘‘
امامہ کچھ سمجھ نہیں پائی تھی۔ ٹرے میں رکھا اپنا گلاس اس نے دور جاتے دیکھا۔ پھر اس نے سالار کو دیکھا وہ اب بھی ان کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھا۔ ویٹر چند لمحوں کے ایک ایک دوسری ٹرے لئے موجود تھا۔ اس بار اس کے گلاس اٹھانے سے پہلے ہی سالار نے ایک گلاس اٹھا کر اسے دیا اور دوسرا خود پکڑ لیا۔
’’اوہ… ہیلو… سالار…‘‘ وہ چالیس، پینتالیس سال کی ایک عورت تھی جس نے سالار کے قریب آتے ہوئے، اس سے ہاتھ ملایا اور پھر بے حد دوستانہ انداز میں بے تکلفی کے ساتھ اس کے بازو پر ہاتھ رکھ لیا۔ وہ وہاں موجود دوسرے مردوں کی طرح عورتوں سے گلے نہیں مل رہا تھا لیکن ان میں سے کچھ عورتوں سے ہاتھ ملا رہا تھا اور کئی عورتیں اس سے بات کرتے ہوئے اسی طرح بے تکلفی سے اس کے بازو پر ہاتھ رکھ دیتی تھیں۔ امامہ کے لئے فی الحال اتنا کچھ ہضم کرنا مشکل ہورہا تھا… یہ سب وہ ہضم کرلیتی اگر ان کا لباس اتنا قابل اعتراض نہ ہوتا۔
’’مجھے کسی نے تمہاری بیوی کے بارے میں بتایا ہے۔ یہ میرے لئے ایک بڑی خبر ہے۔ کب شادی کی تم نے؟‘‘
وہ عورت اب اس سے کہہ رہی تھی۔ سالار نے جواباً بے حد شائستگی سے امامہ سے اس کا تعارف کروایا۔ مسز لئیق نے اس سے ملتے ہوئے اسے ڈنر پر مدعو کیا۔ سالار نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کوئی دن طے کئے بغیر دعوت قبول کرلی۔ وہ پچھلے پندرہ منٹ سے اسے ایسے ہی کئی دعوتیں اسی طرح قبول کرتے دیکھ چکی تھی۔ مسز لئیق اب گروپ میں کھڑے دوسرے لوگوں کے ساتھ ہیلو ہائے میں مصروف تھیں، تب ہی اس نے اپنے عقب میں کسی کو دیکھ کر سالار کو مسکراتے ہوئے دیکھا۔
’’ہائے رمشا!‘‘
امامہ نے بے اختیار پلٹ کر دیکھا۔
’’اوہ ہائے…‘‘ رمشا بھی مسکراتے ہوئے اس کی طرف آئی۔
سالار نے دونوں کو ایک دوسرے سے متعارف کروایا۔ رمشا بڑی خوش دلی سے اس سے ملی۔
’’بڑی لکی ہیں آپ… اگر آپ اسے پہلے نہ ملی ہوتیں تو اس بندے سے میں نے شادی کرلینی تھی۔‘‘ رمشا نے بڑی بے تکلفی سے امامہ سے کہا۔ ’’بس… کچھ دیر ہوگئی مجھے سالار سے ملنے میں…‘‘
وہ بھی جواباً خوش دلی سے ہنسا تھا۔
’’ولیمہ کب ہے؟‘‘ وہ پوچھ رہی تھی۔
’’بیس تاریخ کو اسلام آباد میں۔‘‘ وہ سالار سے کہہ رہی تھی۔
امامہ نے اس بار سالار کو اسے ٹالتے نہیں دیکھا تھا۔ وہ اس کے ساتھ ملاقات طے کررہا تھا۔ اس کے پاس آنے والی وہ پہلی لڑکی تھی، جس کے ساتھ سالار کا رویہ کچھ زیادہ بے تکلفی لئے ہوئے تھا۔ رمشا گروپ میں موجود دوسرے لوگوں سے ملنے کے بعد، ہال میں موجود دوسرے لوگوں کی طرف جارہی تھی۔ امامہ اس پر سے نظریں نہیں ہٹاسکی۔
٭…٭…٭