ماہ رمضان کے باقی دن بھی اسی طرح گزرے تھے۔ عید کے فوراً بعد سالار کا بینک کوئی نیا انویسٹمنٹ پلان لانچ کرنے والا تھا اور وہ ان دنوں اسی سلسلے میں بے حد مصروف رہا تھا۔ امامہ کے لئے مصروفیت کا دائرہ گھر سے شروع ہوکر گھر پر ہی ختم ہوجاتا تھا۔ وہ اسے دن میں دو تین بار بینک سے چند منٹ کے لئے کال کرکے، حال احوال پوچھتا اور فون رکھ دیتا۔
وہ عید سے دو دن پہلے اسلام آباد آگئے تھے۔ کامران اور معیز اپنی فیملیز کے ساتھ عید کے لئے پاکستان آئے تھے۔ عمار اور اس کی فیملی بھی واپس آچکی تھی۔
وہ سکندر عثمان کے وسیع و عریض سٹنگ ایریا میں بیٹھی، وہاں موجود تمام لوگوں کی گپ شپ سن رہی تھی اور اِ دھر اُدھر بھاگتے، دوڑتے بچوں کو دیکھ رہی تھی۔ سالار کے تینوں بھائیوں کی سسرال اسلام آباد میں ہی تھی اور اس وقت موضو ع گفتگو تینوں بھائیوں کی سسرال کی طرف سے آئے ہوئے وہ قیمتی سسرالی تحائف تھے جو عید پر ان کے لئے بھیجے گئے تھے۔ وہاں بیٹھے ان باتوں کو سنتے ہوئے امامہ کو شدید احساس کمتری ہوا۔ اس کے اور سالار کے پاس وہاں کسی دوسرے سے کسی تحفے کی تفصیلات شیئر کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔
کچھ چیزوں کی کمی اس کی زندگی میں ہمیشہ رہنی تھیں اور یہ ان ہی میں سے ایک چیز تھی، معمولی تھی لیکن بھول جانے والی نہیں تھی۔ وہ زندگی میں پہلی بار اس طرح کے شدید احساس کمتری کا شکار ہورہی تھی اور اس احساس کو یہ خیال اور بھی بڑھا رہا تھا کہ سالار بھی اسی طرح کی باتیں سوچ رہا ہوگا۔
٭…٭…٭
’’صبح تم چل رہی ہو میرے ساتھ؟‘‘
سالار نائٹ ڈریس میں ملبوس چند لمحے پہلے واش روم سے نکلا تھا۔ پہلے کی طرح اس بار بھی وہ اسی کھڑکی کے آگے کھڑی تھی۔
’’ہاں۔‘‘ اس نے سالار کو دیکھے بغیر کہا۔
’’طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟‘‘ اپنے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے اس نے امامہ کو غور سے دیکھا۔ اسے اس کا لہجہ بے حد بجھا ہو الگا تھا۔
’’ہاں۔‘‘ اس نے اسی انداز میں جواب دیا۔
سالار کمبل کھینچتے ہوئے بیڈپر لیٹ گیا۔ امامہ نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ وہ اپنے سیل پر الارم سیٹ کررہا تھا، اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ وہ سوچے سمجھے بغیر اس کی طر ف آگئی۔ بیڈ کے قریب آنے پر الارم سیٹ کرتے ہوئے سالار نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ کچھ کہے بغیر اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گئی۔ سیل فون سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ حیران ہوا تھا۔ وہ پریشان تھی، یہ پوچھنے کے لئے اب اسے اس سے تصدیق کی ضرور ت نہیں تھی بلکہ اس کا چہرہ سب کچھ بتارہا تھا۔ وہ پہلے کی طرح اب بھی اس کی اداسی کو اسلام آباد آنے کا نتیجہ سمجھا تھا۔ لیٹے لیٹے سالار نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ وہ اس کے ہاتھ کی گرفت میں اپنے ہاتھ کو دیکھتی رہی، پھر اس نے نظریں اٹھا کر سالار کو دیکھا۔
’’تمہیں مجھ سے شادی نہیں کرنی چاہیے تھی۔‘‘ وہ چند لمحوں کے لئے بھونچکار سا رہ گیا تھا۔
’’پھر کس سے شادی کرنی چاہیے تھی؟‘‘ وہ حیران ہوا۔
’’کسی سے بھی… میرے علاوہ کسی سے بھی۔‘‘
’’اچھا مشورہ ہے لیکن دیر سے ملا ہے۔‘‘ اس نے بات مذاق میں اڑانے کی کوشش کی۔ امامہ نے ہاتھ چھڑالیا۔
’’تم پچھتا رہے ہو نا اب؟‘‘ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’میں کیوں پچھتاؤں گا؟‘‘ وہ سنجیدہ ہوگیا تھا۔
’’تمہیں پتا ہوگا۔‘‘ ا س نے اٹھنے کی کوشش کی تو سالار نے اسے روکا۔
’’نہیں، مجھے نہیں پتا ، تم بتادو…‘‘ وہ واقعی حیرت زدہ تھا۔
’’تمہارا بھی دل چاہتا ہوگا کہ کوئی تمہیں بھی کپڑے دے… تحائف دے اور…‘‘ وہ بات مکمل نہیں کرسکی۔ اس کی آواز پہلے بھرائی، پھر ا س کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے تھے۔
وہ ہکا بکا اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ جو بات اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی، وہ اس کے لئے احساس جرم بن رہی تھی۔
’’میرے خدایا، امامہ تم کیا کیا سوچتی رہتی ہو؟‘‘ وہ واقعی ششدر تھا۔
وہ اپنی آنکھوں کو رگڑ کر صاف کرنے کی کوشش کرتی ہوئی بری طرح ناکام ہورہی تھی۔
آنکھیں آنسو بہانا جانتی ہیں، آنسوؤں کو روکنا نہیں جانتیں۔
’’بس تمہیں مجھ سے شادی نہیں کرنی چاہیے تھی۔‘‘
یہ اس نے آنسو روکنے اور آنکھیں رگڑنے کی جدوجہد میں کہا تھا۔ وہ بہت دلبرداشتہ تھی۔ بات تحفوں کی نہیں تھی، سبکی کے اس حساس کی تھی جو لاؤنج میں سب کے درمیان میں بیٹھے اس نے ان چند گھنٹوں میں محسوس کیا تھا۔ سالار نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اسے گلے لگا کر تسلی دینے والے انداز میں تھپکا۔ اسے تسلی نہیں ہوئی، وہ اس کا ہاتھ ہٹاتے ہوئے اٹھ کر چلی گئی۔
٭…٭…٭
’’امامہ بی بی! آپ اتنی عقل مند ہیں نہیں، جتنا میں آپ کو سمجھتا تھا۔ بہت ساری چیزیں ہیں، جن میں آپ خاصی حماقت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔‘‘
اگلی صبح گاؤں جاتے ہوئے ڈرائیونگ کے دوران وہ بے حد سنجیدگی سے اس سے کہہ رہا تھا۔ وہ سامنے سڑک کو دیکھتی رہی۔ اسے فی الحال خود کو عقل مند ثابت کونے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
’’کیا ہوجاتا ہے تمہیں بیٹھے بٹھائے؟ کیوں اس طرح کی الٹی سیدھی باتیں سوچتی رہتی ہو؟‘‘
’’تم یہ سب کچھ نہیں سمجھ سکتے۔‘‘ امامہ نے اسی انداز میں کہا۔
’’ہاں، ہوسکتا ہے لیکن تم بھی یہ بات سمجھ لوکہ کچھ چیزیں تم نہیں بدل سکتیں، تمہیں انہیں قبول کرنا ہے۔‘‘
’’کیا تو ہے۔‘‘
’’تو پھر اتنا رونا کیوں؟‘‘
’’سب نے محسوس کیا ہوگا کہ میری فیملی نے…‘‘ اس رنجیدہ ہوتے ہوئے بات ادھوری چھوڑ دی۔
’’تم سے کسی نے کچھ کہا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’تو پھر…؟‘‘
’’کہا نہیں، پھر بھی دل میں توانہوں نے سوچا ہوگا؟‘‘
’’تم ان کے دلوں تک مت جاؤ، جو بات میں کہہ رہا ہوں تم صرف وہ سنو۔‘‘ سالار نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔ ’’یہ بے معنی چیزیں ہیں۔ ایک نارمل ارینج میرج ہوئی ہوتی توبھی میں سسرال سے کوئی تحائف لینا پسند نہ کرتا۔ میں جن کسٹمز کو پسند نہیں کرتا، ان کی وجہ سے کوئی حسرت اور پچھتاوے بھی نہیں ہیں مجھے۔‘‘
’’تم سے زیادہ قیمتی کوئی گفٹ ہوسکتا ہے میرے لئے؟‘‘ وہ اسے اب بڑی رسانیت سے سمجھانے کی کوشش کررہا تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ اس کی بات سے متاثر نہیں ہورہی ہوگی۔ وہ یہ بھی جانتا تھا، اس کے لئے بھی بات تحائف کی نہیں تھی، اس احساس محرومی کی تھی جو اسے ہورہا تھا اور جس کے لئے فی الحال وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ اس نے امامہ سے مزید کچھ نہیں کہا تھا۔
٭…٭…٭
اس وسیع و عریض کمپاؤنڈ میں اس کے اندر موجود چھوٹی بڑی عمارتوں نے چند لمحوں کے لئے امامہ کو حیران کردیا تھا۔ اس نے سالار سے اس اسکول اور دوسرے پروجیکٹس کے بارے میں سرسری سا تذکرہ سنا تھا لیکن اسے یہ انداز نہیں تھا کہ یہ کام اتنا منظم اور اس سطح پر ہورہا ہے۔
کمپاؤنڈ میں آج صرف ڈسپنسری کھلی تھی اور اس وقت بھی وہاں مریضوں کی ایک خاصی تعداد موجود تھی۔ باقی عمارتوں میں لوگ نظر نہیں آرہے تھے۔ یہ عید کی تعطیلات تھیں۔
سالار کی گاڑی کو کمپاؤنڈ میں داخل ہوتے دیکھ کر کچھ دیر کے لئے کمپاؤنڈ میں ہلچل سی مچی تھی۔ کیئرٹیکر اسٹاف یک دم الرٹ ہوگیا تھا۔ وہاں کام کرنے والے افراد کی اکثریت آج چھٹی پر تھی اور جو وہاں موجود تھے، انہوں نے کمپاؤنڈ کے آخری کونے میں انیکسی کے سامنے گاڑی رکنے کے بعد سالار کے ساتھ گاڑی سے نکلنے والی چادر میں ملبوس اس لڑکی کو بڑی دلچسپی سے دیکھا تھا۔
انیکسی کا چوکیدار وہ پہلا آدمی تھا جسے سالار نے اپنی ’’بیوی‘‘ سے متعارف کرتے ہوئے اپنی شادی کے بارے میں مطلع کیا تھا اور ایسا کرتے ہوئے سالار جانتا تھا کہ جب تک وہ عمارت کے دوسرے حصوں کی طرف جائیں گے، تب تک اس کی شادی کی خبرہر طرف پھیل چکی ہوگی۔
انیکسی کے سامنے موجود لان سے گزرتے ہوئے امامہ نے بڑی دلچسپی سے اپنے قرب و جوار میں نظر دوڑائی۔ وہ انیکسی، مرکزی عمارت سے بہت فاصلے پر تھی اور وہاں بیٹھے ہوئے شاید عام دنوں میں بھی دوسری عمارتوں کے شور سے بچا جاسکتا تھا۔ ایک چھوٹی سی باڑ کے ساتھ لان اور انیکسی کی حد بندی کی گئی تھی۔ لان کا ایک حصہ سبزیوں کی کاشت کے لئے استعمال ہورہا تھا۔ دھوپ پوری طرح نہیں پھیلی تھی اور خنکی کا احساس بے حد شدید ہونے کے باوجود امامہ کا دل کچھ دیر کے لئے کھلتی ہوئی دھوپ والے اس لان میں پڑی کرسیوں پر بیٹھنے کو چاہا تھا جو رات کی اوس سے بھیگی ہوئی تھیں۔
بہت عرصے کے بعد وہ ایسی کھلی فضا میں سانس لے رہی تھی۔ کچھ دیر کے لئے اداسی کی ہر کیفیت کو اس نے غائب ہوتے ہوئے محسوس کیا۔
’’ہم یہاں بیٹھ جاتے ہیں۔‘‘
انیکسی کے برآمدے میں پہنچتے ہی اس نے سالار سے کہا جو چوکیدار سے دروازہ کھلوا رہا تھا۔
’’نہیں، یہاں کچھ دیر بعد تمہیں سردی لگے گی۔ اندر لاؤنج میں بیٹھ کر بھی تمہیںباہر سب کچھ اسی طرح نظر آئے گا۔ فی الحال میں ذرا ڈسپنسری کا ایک راؤنڈ لوں گا، تمہیں اگر یہاں بیٹھنا ہے تو بیٹھ جاؤ۔‘‘ سالار نے اس سے کہا۔
’’نہیں، میں تمہارے ساتھ چلوں گی۔‘‘ اس نے فوراً کہا تھا۔
انیکسی فرنشڈ تھی اور اس کے اندر داخل ہونے پر چند لمحوں کے لئے امامہ کو جیسے اس کے ساؤنڈ پروف ہونے کا احساس ہوا۔ اندر کچھ ایسی ہی خاموشی اسے محسوس ہوئی تھی۔
’’کبھی ہم بھی یہاں رہنے کے لئے آئیں گے۔‘‘ اس نے بے اختیار کہا تھا۔
’’اچھا۔‘‘ امامہ کو لگا وہ اسے بہلا رہا تھا، اس کا انداز کچھ اتنا ہی عدم دلچسپی لئے ہوئے تھا۔
دس منٹ بعد وہ اسے مرکزی عمارت اور اس سے منسلک دوسرے حصے دکھا رہا تھا۔ وہ عمارت اسے دکھانے کے ساتھ ساتھ وہاں موجود اسٹاف کو کچھ ہدایات بھی دے رہا تھا۔ اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ اس جگہ کے بارے میں معلومات اس کی انگلیوں پر ہیں۔ ’’وہ سب لوگ کہہ رہے ہیں مٹھائی کھلائیں جی۔‘‘ چوکیدار نے سالار کو دوسرے لوگوں کی فرمائش پہنچائی۔
’’چلیں! ٹھیک ہے، آج افطار اور افطار ڈنر کا انتظام کرلیں۔ میں اکاؤنٹنٹ کو بتادیتا ہوں۔‘‘ سالار نے مسکرا کر اسے کہا۔
امامہ نے نوٹس کیا تھا کہ وہ وہاں کام کرنے والے، ہر شخص کے نام کے ساتھ صاحب لگا کر مخاطب کررہا تھا۔ وہ ان لوگوں کے ساتھ اس کا رویہ سنجیدہ لیکن قابل احترام بھی تھا۔ یہ تبدیلی عمر لے کر آئی تھی یا سوچ، اسے اندازہ نہیں ہوا۔
دو گھنٹے، وہاں گزارنے کے بعد وہ جب اس کے ساتھ وہاں سے نکلی تو پہلی بار وہ اپنے دل میں اس کے لئے عزت کے کچھ جذبات بھی لئے ہوئے تھی۔
’’یہ سب کیوں کررہے ہو تم؟‘‘ اس نے راستے میں اس سے پوچھا تھا۔
’’اپنی بخشش کے لئے۔‘‘ جواب غیر متوقع تھا مگر جواب دینے والا بھی تو سالار سکندر تھا۔
’’مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم اتنے رحم دل ہو۔‘‘ چند لمحے خاموش رہ کر امامہ نے اس سے کہا۔
’’نہیں، رحم دل نہیں ہوں، نہ ترس کھا کر کسی کے لئے کچھ کررہا ہوں، ذمہ داری سمجھ کر کررہا ہوں۔ رحم دل ہوتا تو مسئلہ ہی کیا تھا۔‘‘ آخری جملہ جیسے اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
’’کیسے شروع کیا یہ سب کچھ؟‘‘
وہ اسے فرقان سے اپنی ملاقات اور اس پروجیکٹ کے آغاز کے میں بتانے لگا۔ وہ چپ چاپ سنتی رہی۔ اس کے خاموش ہونے پر اس نے جیسے سراہنے والے انداز میں کہا۔ ’’بہت مشکل کام تھا۔‘‘
’’نہیں وہ لائف اسٹائل بدلنا زیادہ مشکل تھا، جو میرا تھا۔ اس کے مقابلے میں یہ سب کچھ آسان تھا۔‘‘
وہ چند لمحے بول نہیں سکی۔ اس کا اشارہ جس طرح تھا، وہ سب کچھ یاد کرنا تکلیف دہ تھا۔
’’ہر کوئی اس طرح کا کام نہیں کرسکتا۔‘‘ وہ مدھم آواز میں بولی۔
’’ہر کوئی کرسکتا ہے لیکن کرنا نہیں چاہتا۔Service of humanity کسی کی چیک لسٹ پر نہیں ہوتی، میری چیک لسٹ پر بھی نہیں تھی۔ میں خوش قسمت تھا کہ آگئی۔‘‘ وہ ہنسا۔
’’ تم بہت بدل گئے ہو۔‘‘ امامہ نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا، وہ مسکرادیا۔
’’زندگی بدل گئی تھی، میں کیسے نہ بدلتا… نہ بدلتا تو سسرال سے آنے والے عید کے تحائف کے انتظار میں بیٹھا ہوتا۔‘‘ اس کے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی معز خیز مسکراہٹ تھی۔
امامہ نے اس کے طنز کا برا نہیں مانا۔
’’میں مانتی ہوں کہ میں بہتtypical ہوں۔‘‘ اس نے اعتراف کیا تھا۔
’’Typical نہیں ہو، زندگی کو دیکھا نہیں ہے ابھی تم نے۔‘‘ وہ سنجیدہ ہوا۔
’’کم از کم یہ تو نہ کہو، مجھے زندگی نے بہت کچھ دکھا اور سکھادیا ہے۔‘‘ امامہ نے کچھ رنجیدگی سے اس کی بات کاٹی تھی۔
’’مثلاً کیا؟‘‘ سالار نے اس سے پوچھا۔
’’کیا نہیں سکھایا زندگی نے؟ گنوا نہیں سکتی میں، بہت سبق سکھائے ہیں زندگی نے مجھے۔‘‘
’’سبق سکھائے ہوں گے… ’گُر‘ نہیں۔‘‘
امامہ نے چونک کر اس کا چہرہ دیکھا۔ وہ عجیب سے انداز میں مسکرایا تھا۔ وہ سیدھی باتیں کبھی بھی نہیں کرتا تھا، لیکن وہ ایسی ٹیڑھی باتیں کرنے والوں میں سے بھی نہیں تھا۔
’’اچھا لگ رہا ہوں کیا؟‘‘ سڑک پر نظریں جمائے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے وہ اس سے پوچھ رہاتھا۔
’’کیا؟‘‘ وہ اسے دیکھتے ہی بری طرح گڑبڑائی۔
’’تم مجھے دیکھ رہی ہو، اس لئے پوچھ رہا ہوں۔‘‘ امامہ نے حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا، پھر بے اختیار ہنس پڑی۔ اس شخص میں کوئی بات ایسی تھی جو سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ کئی سال پہلے آئی تھی، نہ اب آرہی تھی۔ چند لمحوں کے لئے وہ اسے واقعی بے حد اچھا لگا تھا۔
٭…٭…٭