کھانا کھاتے ہوئے سالار کی نظر ایک بار پھرا س کے ہاتھ پر پڑی تھی اور اس نے قدرے خفگی کے عالم میں اس سے کہا۔
’’اگر اسی وقت ہاتھ پر کچھ لگا لیتی تو یہ آبلے نہ پڑتے۔‘‘
’’مجھے اس سے تکلیف نہیں ہوتی۔‘‘
’’مگر مجھے تکلیف ہورہی ہے سویٹ ہارٹ!‘‘
وہ اس سے نظریں ملا کر جواب نہیں دے سکتی تھی۔ اسے یقین تھا کہ اسے تکلیف ہورہی ہوگی اور اس مرہم سے زیادہ ٹھنڈک اس کے اس جملے نے پہنچائی تھی اسے، تو اب کوئی تھا، جسے اس کے ہاتھ پر آنے والے ایک معمولی زخم پر بھی تکلیف ہوتی تھی۔
اس کے ہاتھ پر چھوٹے موٹے زخموں کے کئی نشان تھے۔ وہ ان میں سے ان زخموں کو بڑی آسانی سے پہچان سکتی تھی، جو اس گھر میں آنے کے بعد لگے تھے۔ ان زخموں میں اسے تکلیف ہوئی تھی اور یہ تکلیف اس لئے ہوئی تھی، کیوں کہ ہر بار کسی نے بڑے پیار سے ان پر کچھ لگایا تھا یا لگانے کو کہا تھا۔
جیل، مرہم ، پلاسٹ ، اسپرٹ ، اینٹی سیپٹک کریم۔ وہ درد کے احساس سے جیسے دوبارہ آشنا ہورہی تھی اور اب اتنے مہینوں کے بعد یہ پہلاکٹ تھا، جس کے بارے میں اس سے پوچھنے والا کوئی نہیں تھا اور اسے وہ ’’پوچھنے والا‘‘ ایک بار پھر بری طرح یاد آیا تھا۔
دوسرے ہفتے کے اختتام تک وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی بری طرح جھنجھلانے لگی تھی۔ملازمہ کے ساتھ ، مالی کے ساتھ، اس گھر میں آنے والے فرقان کے بچوں کے ساتھ اور خود سالار کے ساتھ۔
’’امامہ کیا ہورہا ہے تمہیں…؟ سب ٹھیک ہے نا؟‘‘ سالار کو بالآخر اس سے بہت ڈائریکٹ ہوکر پوچھنا پڑا تھا۔
’’کیا ہونا ہے مجھے؟‘‘ وہ اس کے سوال پر بری طرح چڑی۔
’’وہی تو پوچھ رہا ہوں میں۔‘‘ اس نے تحمل سے کہا۔
’’کچھ نہیں ہورہا مجھے…‘‘
’’پھر تم…؟‘‘ امامہ نے اس کے خاموش ہونے پر پوچھا۔
’’پھر میں کیا…؟‘‘ امامہ نے اس کے خاموش ہونے پر پوچھا۔
’’کچھ نہیں، میں ابھی دو تین دن تک تم کو فون نہیں کرسکوں گا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ وہ بری طرح بگڑی۔ ’’اتنا بھی کیا کام ہے کہ تم مجھے چند منٹ کے لئے بھی کال نہیں کرسکتے۔‘‘
’’میں تمہیں ای میل کردیا کروں گا، اگر وقت ملا تو کال بھی کرلوں گا… لیکن شاید نہ کرسکوں۔‘‘ وہ تحمل سے اسے سمجھا رہا تھا۔
’’تم ای میل بھی نہ کرو مجھے،اس سے اور بھی وقت بچے گا تمہارا۔‘‘
اس نے بے حد خفگی کے عالم میں فون بند کردیا۔ اسے سالار پر بری طرح غصہ آرہا تھا۔ چند منٹوں کے بعد دوبارہ کال آنے لگی تھی۔ وہ کال ریسیو نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن اسے ریسیو کرنا پڑی۔
’’تم نے فون بند کیا تھا؟‘‘ وہ دوسری طرف حیرانی سے اس سے پوچھ رہا تھا۔
’’ہاں…‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’تاکہ تمہارا وقت ضائع نہ ہو۔ میں نے کل ایک میگزین میں پڑھا تھا کہ جن مردوں کو احساس کمتری ہوتا ہے، وہ اپنی بیویوں کو اپنی جھوٹی مصروفیات کے قصے سناتے رہتے ہیں۔‘‘ سالار نے کچھ ہکا بکا ہوکر اس کا جملہ سنا تھا۔ اسے اس بات کا کوئی سر پیر سمجھ میں نہیں آیا۔ ’’تاکہ ان کی بیویوں کو یہ امپریشن ملے کہ وہ بہت اہم ہیں اور دنیا ان کے بغیر نہیں چل سکتی۔‘‘ سالار نے اسی اچنبھے میں اس کے باقی جملے بھی سنے تھے۔ ’’اس سے ان کی self-esteem بڑھتی ہے۔‘‘
اس نے آخری جملہ کہہ کر کچھ دیر سالار کے ردِ عمل کا انتظار کیا۔ وہ خاموش تھا۔
’’ہیلو…‘‘ امامہ کو خدشہ ہو اکہ شاید کال ڈراپ ہوگئی ہے۔
’’میں سن رہا ہوں، اس میگزین میں بس اتنا ہی لکھا تھا؟‘‘
وہ سنجیدہ لگ رہا تھا لیکن بات سنجیدہ نہیں تھی۔
’’ہاں۔‘‘
’’گڈ… ڈینٹسٹ کے پاس گئیں تم؟‘‘ اس نے کسی ردِ عمل کا اظہار کئے بغیر بات بدلی تھی۔
امامہ کی جھنجھلاہٹ میں اضافہ ہوا۔ وہ ایسا نہیں چاہتی تھی، وہ اس سے بحث کرنا چاہتی تھی۔
دوگھنٹے کے بعد اس نے ان دو ہفتوں کا پروگرام چارٹ اسے ای میل کردیا۔ کانفرنس کی آرگنائزنگ باڈی کی طرف سے شرکاء کو بھیجے ہوئے اس ڈاکومنٹ کو پڑھنے میں اسے کم سے کم پندرہ منٹ لگے۔ اس کے پندرہ دن کا شیڈول واقعی بہت Hectic تھا۔ یہ ای میل اسے اس کے کس جملے کی وجہ سے کی گئی تھی، وہ اندازہ کرسکتی تھی لیکن اس کے باوجود اس نے جوابی ای میل میں اس شیڈول کے بارے میں ایک لفظ کہا، نہ ہی اپنی شرمندگی کا اظہار کیا۔
’’تم نے فرقان کے گھر ڈنر پر جانا کیوں چھوڑ دیا؟‘‘ سالار نے اس دن اس سے پوچھا۔
’’میری مرضی۔‘‘
وہ کہنا چاہتی تھی کہ ڈنر ٹیبل پر فرقان کو یا اس کی بیٹی کو دیکھتے ہوئے ، اسے وہ یاد آتا تھا اور وہ ہر روز ڈنر کے بعد کچھ زیادہ اپ سیٹ ہورہی تھی، اس لئے اس نے وہاں جانا چھوڑ دیا تھا لیکن وہ یہ سب نہیں کہہ سکتی تھی۔
’’میں جانتا ہوں تم بہت بہادر ہو، اکیلے رہ سکتی ہو تو ڈنر کرنا بھی تمہارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ پھر بھی ان کے گھر چلی جاتیں تو کوئی ایکٹویٹی ہوتی تمہارے پاس، ان بے کار ناولز کو پڑھنے کے علاوہ۔‘‘
’’تمہیں کیا پرواہے؟‘‘ اس نے سالار کے جملے پر جزبز ہوکر کہا تھا۔
’’مجھے تمہاری پروا ہے… یہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناکر بیٹھنا چھوڑ دو۔‘‘ وہ سنجیدہ تھا۔
’’تم نے مجھے نصیحتیں کرنے کے لئے فون کیا ہے؟‘‘ وہ جھنجھلائی۔
’’ہاں۔‘‘
’’تو کرتے رہو۔‘‘
’’تم پر کوئی اثر نہیںہوگا… یہی کہنا چاہتی ہو تم؟‘‘
’’تم باہر جاکر مجھ سے مس بی ہیو کرنے لگے ہو۔‘‘
’’کیا؟‘‘ سالار کو لگا اسے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔
’’میں بار بار نہیں دُہراسکتی اپنی بات۔‘‘ اس نے سرد مہری سے کہا۔
’’میں مس بی ہیو کررہا ہوں تمہارے ساتھ؟‘‘ اس نے بے یقینی سے اس سے پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘ جواب بالکل دوٹوک تھا۔ سالار نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔
’’میں اگر تمہیں کوئی عقل کی بات سمجھاتا ہوں تو میں مس بی ہیو کرتا ہوں تمہارے ساتھ؟‘‘
’’اب تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ میں بے وقوف ہوں؟‘‘ سالار کا دماغ گھوم کر رہ گیا۔
’’میں نے کب کہا تم بے وقوف ہو؟‘‘
’’اب تم مجھ کوجھوٹا کہہ رہے ہو؟‘‘ وہ بے بسی سے ہنس پڑا۔
’’کیا ہوا ہے تمہیں امامہ؟‘‘
’’اب تم کہہ دو میرا دماغ خراب ہوگیا ہے…‘‘
’’پانی پیو…‘‘
’’کیوں پیوں؟‘‘
’’اچھا مت پیو… موسم کیسا ہے باہر کا؟‘‘
وہ اب موضوع بدلنے کی کوشش کررہا تھا مگر وہ امامہ کے ردِ عمل پر بری طرح حیران تھا۔
’’امامہ! کوئی پریشانی ہے تمہیں؟‘‘ وہ اگلے دن نوشین کے ساتھ اس کے کہنے پر فورٹریس آئی تھی، جب ساتھ چلتے چلتے نوشین نے اچانک اس سے پوچھا۔ وہ بری طرح چونکی، پھر اس نے مسکرا نے کی کوشش کی۔
’’نہیں… نہیں تو… کیوں؟‘‘
’’پھر اس طرح گم صم کیوں ہو؟‘‘ نوشین کے لہجے میں تشویش تھی۔
’’نہیں میں… میں کچھ سوچ رہی تھی۔‘‘
’’سالار کے ساتھ تو بات ہوتی ہے تمہاری…؟ کوئی جھگڑا تو نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں تو… روز بات ہوتی ہے۔‘‘ اس نے بے اختیار مسکرانے کی کوشش کے ساتھ ہی ڈسپلے پر لگے ایک سوٹ کی طرف نوشین کو متوجہ کیا۔ وہ اسے یہ کیسے بتاتی کہ یہاں اس کے ساتھ پھرتے ہوئے اسے سالار بری طرح یاد آرہا ہے۔ وہ ہفتے میں دو یا تین بار اس کے ساتھ وہاں آکر کافی یا چائے پیتے ہوئے اسی طرح ونڈو شاپنگ کرتے تھے، جس طرح اب وہاں سے گزرتے ہوئے کچھ دوسرے جوڑے کررہے تھے۔ وہ اسے کیسے نہ یاد آتا؟
٭…٭…٭
سالار اگر اس کے بنتے بگڑتے موڈ کو نہیں سمجھ پارہا تھا تو وہ خود بھی اپنے آپ کو نہیں سمجھ پارہی تھی۔ وہ سارا دن اس کے بارے میں سوچ سوچ کر اداس ہوتی رہتی اور اس سے بات کرتے ہوئے وہ بلاوجہ اس سے جھگڑتی۔ اسے اس پر شدید غصہ آتا تھا اور کیوں آتا تھا، یہ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔
وہ کئی سالوں بعد اتنے لمبے ڈیپریشن کا شکار ہوئی تھی اور زندگی میں پہلی بار تین ہفتوں میں وہ ایک ناول بھی مکمل نہیں کر پائی تھی، پینٹنگ تو خیر دور کی بات تھی۔
وہ سارا دن ٹی وی آن کئے اس کی کال کے انتظار میں بیٹھی رہتی یا پھر کمپیوٹر آن کئے پرانی ای میل پڑھتے ہوئے، کسی نئی ای میل کے لئے بیٹھی رہتی۔ چند لائنز کی وہ ای میلز جن میں وہ اس کا حال پوچھتا تھا، اور اپنی ایکٹویٹی بتاتے ہوئے اس سے پوچھتا تھا کہ وہ کیا کررہی ہے، وہ ان ای میلز کو درجنوں بار پڑھتی۔ ایک لمبا چوڑاجواب لکھ کر، اس کی ای میل کے انتظارمیں ساری ساری رات اس کی چیزیں نکال کر صاف کرکے، ری ارینج کرتی رہتی یا پھر اس کی کولیکشن میں موجود چارلیز تھیر ون کی موویز دیکھتی رہتی۔ یہ واقعی بے بسی کی حد تھی کہ اسے وہ ایکٹریس بھی اب بری لگنا بند ہوگئی تھی، جس کو وہ پہلے سالار کے سامنے دیکھنا پسند نہیں کرتی تھی۔
ہر روز کھانے کی ٹیبل پر وہ اس کے برتن بھی لگادیتی، یہ جیسے کھانے کی ٹیبل پر اپنی تنہائی دور کرنے کی کوشش تھی۔
رات کو سونے کے لئے اپنے بستر میں لیٹے، وہ لائٹ آف کرنے کے بعد بھی کروٹ لئے، کتنی کتی دیر اس کے بستر اور سرہانے کو دیکھتی رہتی۔ وہ سونے سے پہلے لائٹ آف کرنے کے بعد بھی، اس سے کچھ دیر باتیں کیا کرتا تھا اور اب یہ خاموشی اس کے اعصاب کوبری طرح مضمحل کررہی تھی۔
عید کے لئے اسلا آباد جانے تک، گھر کی اس خاموشی اور تنہائی نے اسے مکمل طور پر حوا س باختہ کردیا تھا۔ اسلام آباد سے آنے کے بعد بھی، اس نے خود کو بہتر محسوس نہیں کیاتھا۔ سالار کی پوری فیملی میں سے صرف عمار اور یسریٰ عید منانے کے لئے وہاں موجود تھے، باقی افراد بیرون ملک تھے۔ پچھلی عید جیسی رونق اس بار وہاں نہیں تھی۔
سالار نے طیبہ کو اس کی عید کی شاپنگ کروانے کے لئے کہا تھا۔ وہ بڑے بجھے دل کے ساتھ ان کے ساتھ چلی گئی تھی لیکن پچھلی عید جیسا اشتیاق اس بار اسے کپڑوں کے لئے نہیں تھا۔ اسلام آباد آکر یہ بھی پہلی بار ہوا تھا کہ اس نے گیسٹ روم کی کھڑکی سے لگ کر اپنے گھر والوں میں سے کسی کے نظر آنے کا انتظار بھی نہیں کیا تھا۔
عید کی صبح پہلے کی طرح اس بار بھی وہ سالار کی کال پر ہی اٹھی تھی۔ وہ مانٹریال میں اپنا سیشن ختم کرکے کچھ دیر پہلے ہوٹل آیا تھا۔
’’کون سے کپڑے پہن رہی وہ تم آج؟‘‘ اس نے مبارک باد دینے کے بعد اس سے پوچھا۔
’’تمہیں بتانے کا فائدہ؟‘‘ اس نے بیڈ کے کراؤن کے ساتھ پشت ٹکاتے ہوئے کہا۔
’’میں تصور کرنا چاہ رہا تھا کہ تم کیسی لگ رہی ہوگی؟‘‘
’’میرے سامنے تم نے کبھی میرے کپڑوں کو غور سے دیکھا تک نہیں، اب وہاں بیٹھ کر کیا تصور کروگے؟‘‘
’’امامہ ہم کم از کم آج آرگیو نہیں کریں گے۔‘‘ سالار نے مداخلت کرتے ہوئے جیسے پیشگی جنگ بندی کا اعلان کیا۔ ’’تمہیں کیا چاہیے آج؟ فلاورز اور کیک تو ممی سے میں نے کہا ہے تمہارے لئے، کچھ اور چاہیے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ وہ بے حد اداس تھی۔
’’مجھے مس تو نہیں کررہیں تم؟‘‘ سالار نے مذاق کیا تھا لیکن اس نے جیسے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ ا س کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا تھا۔ اس نے اپنی آستین کے ساتھ آنکھوں کو رگڑ کر صاف کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ اس کی خاموشی پر غور کئے بغیر بات کررہا تھا۔ کینیڈا میں عید پہلے ہی ہوچکی تھی اور وہ عید کے دن بھی کانفرنس اٹینڈ کرتا رہا۔ وہ زندگی میں کئی عیدیں اسی طرح گزار چکا تھا۔ پچھلی عید اسے کم از کم اس عید والے دن اپنی مصروفیات کی وجہ سے یاد نہیں آسکی تھی، لیکن پچھلی عید امامہ کو پچھلے دو دن سے تنگ کررہی تھی۔
’’کب کی فلائٹ ہے تمہاری؟‘‘ اس نے کوشش کی تھی کہ اس کی آواز بات کرتے ہوئے نہ بھرائے، یہ احمقانہ چیز تھی، باقی چیزوں پر رونا ٹھیک تھا۔ لیکن کم از کم وہ اس کے سامنے اس کے نہ ہونے کے لئے نہیں روسکتی تھی۔ وہ بڑی شرمندگی محسوس کرتی اگر وہ یہ جان جاتا کہ…
وہ اب اسے فلائٹ کا بتارہا تھا۔
’’تم نے مجھے کپڑوں کا کلر نہیں بتایا؟‘‘ سالار کو بات کرتے کرتے یاد آیا۔ ’’تم نے ممی کے ساتھ جاکر کپڑے لئے تھے؟‘‘
’’ہاں لئے ہیں میں نے… جو آج پہنوں گی وہ ہیزل گرین ہے۔‘‘
’’ہیزل گرین؟‘‘ وہ بے اختیار اٹکا۔ ’’وہ تو آنکھیں ہوتی ہیں۔‘‘
’’آنکھوں کا کلر ہوتا ہے۔‘‘ ہمیشہ کی طرح اس نے تصحیح کی۔
’’اوہ… آج میں جنیفر کی آنکھوں کو غور سے دیکھوں گا۔‘‘ اس نے ڈنر پر اپنی کسی ساتھی کا نام لیا۔
’’کیوں؟‘‘
’’اس کی آنکھوں میں مجھے اپنی وائف کے کپڑوں کاکلر نظر آئے گا۔‘‘ وہ سنجیدہ تھا۔ وہ بے اختیار ہنس پڑی۔
’’امامہ…! جب سے میں یہاں آیا ہوں آج پہلی بار تم ہنسی ہو۔‘‘ سالار نے اس کی ہنسی کونوٹس کیا تھا۔
’’اور شادی کے بعد اتنے مہینوں میں یہ پہلا کلر ہے جسے تم نے identify کیا تھا اور وہ بھی کسی عورت کی آنکھوں کی وجہ سے۔‘‘
’’تم جیلس ہورہی ہو؟‘‘ وہ بھی ہنس پڑا تھا۔
’’ہاں، اب بس یہی توایک کام رہ گیا ہے میرے کرنے کے لئے۔‘‘
اس نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
’’یعنی نہیں ہو رہیں یا نہیں ہوسکتیں؟‘‘
وہ پوچھ رہا تھا اور وہ جواب نہ دے سکی۔ اس کی خاموشی پر وہ ہنسا تھا۔
’’اس میں ہنسنے کی کون سی بات ہے؟‘‘ وہ کچھ جزبز ہوئی تھی۔
’’اپنی خوش فہمی پر ہنسا ہوں، تم کم از کم کسی عورت سے میرے لئے تو جیلس نہیں ہوسکتیں۔‘‘
وہ اسے تنگ کررہا تھا اور وہ جانتی تھی ، اس کا اشارہ رمشا کی طرف تھا۔
’’تم مجھے صرف یہ بتاؤ کہ کب آرہے ہو؟‘‘
اس نے بات بدلنا بہتر سمجھاتھا اور وہی گھسا پٹا سوال کیا جو وہ اس سے کرتی آرہی تھی۔
٭…٭…٭