ہینگنی اور ولیدنی | تھل کی لوک کہانی

تھل کی لوک کہانی
ہینگنی اور ولیدنی
سارہ قیوم

سارہ قیوم صاحبہ نے ایک لمبے عرصے بعد 2016ء میں دوبارہ لکھنے کا آغاز کیا۔ ادب کی کئی اصناف میں قلم کے جوہر دکھائے، جن میں بچوں کی کہانیاں، نظمیں، مزاح، بڑوں کے لیے ناول، طنز و مزاح اور ڈرامے شامل ہیں۔ ایکسپریس چینل پر ان کا ایک عدد ڈرامہ بھی نشر ہوچکا ہے۔ شعبہ تدریس سے منسلک ہیں، اس لیے جدید تقاضوں کے
مطابق بچوں کے ادب میں روایت اور جدت کے امتزاج سے بخوبی واقف ہیں۔ انگلش اور اردو دونوں زبانوں میں بے شمار کہانیاں شائع ہوچکی ہیں۔

ایک اونٹ اور گیدڑ کی دوستی ہوگئی۔ گیدڑ اونٹ کو بڑا جان کر ماموں کہتا اور اس کی محبت کا دم بھرنے لگا۔ اونٹ بھی گیدڑ سے شفقت سے پیش آنے لگا۔
ایک مرتبہ کچھ ایسا موسم بدلا کہ کئی مہینوں تک بارش نہ ہوئی۔ جب فصل باڑی نہ ہوئی تو کھانے کو کچھ نہ رہا۔ دریا کے اُس پار ایک گاؤں آباد تھا جہاں کے کھیت ہرے بھرے تھے۔ ان کھیتوں کے مالک کسان دریا سے پانی لاکر کھیتوں کو دیتے تھے لہٰذا فصلیں ہری بھری تھیں۔ اونٹ اور گیدڑ روزانہ للچائی نظروں سے ان ہرے بھرے کھیتوں کو دیکھتے اور بارش کی دعائیں مانگا کرتے۔
ایک دن گیدڑ نے اونٹ سے کہا: ”ماما جی! اب تو بھوکے رہ رہ کر پیٹ پسلیوں سے جالگا ہے۔ بارش ہونے کی کوئی امید نہیں، میری مانو تو دریا پار گاؤں میں چلتے ہیں اور کچھ پیٹ پوجا کرتے ہیں۔”
اونٹ بولا: ”ٹھیک کہتے ہو بیٹا! گو کہ یہ اچھی بات نہیں کہ کسی دوسرے کی اجازت کے بغیر اس کی چیز لی جائے لیکن مجبوری ہے، یہاں رہے تو فاقوں مرجائیں گے۔”
طے پایا کہ اونٹ چوں کہ قد میں لمبا ہے، لہٰذا وہ گیدڑ کو اپنی پیٹھ پر بٹھا کر دریا پار کرا دے گا۔ دونوں کسی کھیت میں گھس کر پیٹ بھریں گے اور فوراً واپس آجائیں گے۔ شام ہوتے ہی دونوں نے دریا پار کیا اور گاؤں میں داخل ہوئے۔ کسان اس وقت کھیتوں سے گھر واپس جارہے تھے۔
اونٹ اور گیدڑ ان کی نظروں سے بچنے کے لیے درختوں کے ایک جھنڈ میں چھپ گئے۔ انہیں اندھیرا ہونے کا انتظار کرنا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر کھیتوں میں چوری کرتے پکڑے گئے تو کسان خوب پیٹیں گے۔ جونہی رات ہوئی اور کھیتوں میں سناٹا چھا گیا تو وہ دونوں خربوزوں کے ایک کھیت میں گھس گئے۔ موٹے موٹے میٹھے خربوزے دیکھ کر ان کے منہ میں پانی بھر آیا اور وہ ندیدوں کی طرح خربوزے کھانے میں جُت گئے۔ گیدڑ کا پیٹ چھوٹا تھا، چار پانچ خربوزے کھا کر ہی بھر گیا۔ پیٹ بھرا تو اُسے شرارت سوجھی۔ اونٹ سے کہنے لگا: ”ماما جی مجھے تو ہینگنی آئی ہے۔”
اونٹ گھبرا کر بولا: ”میری تو ابھی ڈاڑھ بھی گیلی نہیں ہوئی، تُو ہینگنی کو روک کے رکھ، میں پیٹ بھر کر کھالوں، پھر ہینگ لینا۔”
گیدڑ نے کہا: ”ماما جی ذرا جلدی کرو، بڑی زور کی ہینگنی آئی ہے۔ آپ کی خاطر چار پانچ منٹ کے لیے رُک سکتا ہوں، اس سے زیادہ نہیں۔”
اونٹ جلدی جلدی خربوزے کھانے لگا لیکن اس کا پیٹ بڑا تھا، اتنی جلدی کہاں بھر سکتا تھا۔ وہ ابھی چند خربوزے ہی کھا پایا تھا کہ گیدڑ نے ہینگنا شروع کردیا۔
”بیٹا! میری خاطر تھوڑی دیر رک جاؤ۔” اونٹ پریشانی سے بولا۔
”ماما جی! اب تو ہینگنی گلے تک آپہنچی ہے، وہ مزید نہیں رک سکتا۔”
یہ کہہ کر اس نے منہ آسمان کی طرف اٹھایا اور تیز آواز میں ہووووو کرنے لگا۔ اونٹ گھبرا کر بھاگا لیکن گیدڑ کی آواز سے کسان بیدار ہوچکا تھا۔ لمبا تڑنگا اونٹ اسے دور ہی سے نظر آگیا۔ وہ ڈنڈا لے کر اس کے پیچھے لپکا۔ گیدڑ تو مزے سے کھیتوں میں چھپ گیا جبکہ اونٹ کسان کے ہتھے چڑھ گیا۔ کسان نے ڈنڈے سے اس کی خوب مرمت کی۔
بے چارہ اونٹ رات بھر دریا کے کنارے ایک درخت کے نیچے پڑا رہا اور چوٹوں کے درد سے کراہتا رہا۔ صبح ہوئی تو گیدڑ بھی اس سے آملا۔ وہ ساری رات کھیت میں خربوزے کھاکھا کر خوب سیر ہوچکا تھا۔
”چل بیٹا اب گھر چلیں۔” اونٹ نے مختصر سی بات کی مگر گیدڑ سے اس کی شرارت کے بارے میں کچھ نہ کہا۔
گیدڑ مزے سے اونٹ پر چڑھ بیٹھا اور اونٹ دریا میں اتر گیا۔ دریا میں ایک جگہ پانی گہرا تھا۔ اونٹ سیدھا اس جگہ پر پہنچ کر رک گیا۔
”کیا بات ہے ماما جی، رک کیوں گئے؟” گیدڑ نے پوچھا۔
”کیا بتاؤں، بڑے زور کی ولیدنی آئی ہے۔” اونٹ نے کہا۔
اب تو گیدڑ بڑا گھبرایا۔ اس نے منت بھرے لہجے میں کہا: ”ماما جی! خدا کا واسطہ کچھ دیر کے لیے ولیدنی روکو۔ ہم دریا کے بیچوں بیچ کھڑے ہیں۔ آپ ولیدنی کرو گے تو ہم ڈوب جائیں گے۔”
اونٹ نے کہا: ”میں مجبور ہوں، اتنے زور کی ولیدنی آئی ہے کہ روک نہیں سکتا۔ تم سے بہتر یہ بات کون سمجھ سکتا ہے کہ جب ہینگنی اور ولیدنی آجائیں تو روکے نہیں رکتیں۔”
گیدڑ سمجھ گیا کہ اونٹ اصل میں اسے شرارت کی سزا دے رہا ہے۔ اس نے جوٹھان لی ہے۔ اب بِن کیے نہ ٹلے گا۔ اس نے اونٹ سے التجا کی:
”اچھا ماما جی! ولیدنی آئی ہے تو ضرور کرو، لیکن ایک مہربانی کردو کہ مجھے پیٹھ سے اتار کر اپنے منہ میں داب لو تاکہ میں ڈوبنے سے بچ جاؤں، جب تم ولید نے لگو تو منہ اوپر اٹھا لینا۔”
اونٹ نے دل میں سوچا: ”شاباش بیٹا! یہی تو میں چاہتا تھا۔”
اس نے گیدڑ کو منہ میں دبایا اور اُسے خوب غوطے دیے۔ گہرے پانی میں ڈبکیاں کھانے سے گیدڑ کو دن میں تارے نظر آگئے۔ برا حال ہوا تو لگا دہائی دینے، ”ہائے مار ڈالا، ماما جی! آپ تو کہتے تھے ولیدنی آئی ہے، یہ کیا کررہے ہو؟”
اونٹ نے مسکرا کر کہا: ”ہاں بیٹا! ولیدنی آئی ضرور ہے مگر منہ میں۔”
یہ کہہ کر اس نے گیدڑ کو پانچ میں پٹخ دیا۔ یوں شرارتی گیدڑ کو اس کی شرارت کی خوب سزا ملی۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

ہندکو لوک کہانی(سنی سنائی)

Read Next

سرائیکی لوک کہانی | جیونی اور چور

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!