کپڑے کا سوداگر | سیالکوٹ کی لوک کہانی(سنی سنائی)

سیالکوٹ کی لوک کہانی(سنی سنائی)
کپڑے کا سوداگر
نادیہ حسن

نادیہ حسن آج سے 29سال قبل میرپور خاص (سندھ) میں پیدا ہوئیں۔ آبائی شہر سرگودھا جبکہ شادی کے بعد اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ عالمہ ہیں، اس کے علاوہ عربی اور اردو ادب
میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ لکھنے کا آغاز 2005ء سے کیا۔ اشتیاق احمد جیسے سینئر ادیب ان کے ادبی استاد رہے۔ آج تک مختلف رسائل میں 200کے قریب کہانیاں لکھ چکی ہیں۔

گزرے دنوں کی بات ہے، کشمیر اور پنجاب کے درمیان ایک علاقہ جسے آج سیالکوٹ کے نام سے جانا جاتا ہے، یہاں دو بھائی رہا کرتے تھے۔ ان کے والدین وفات پاچکے تھے۔
بڑے بھائی کا نام اسلم اور چھوٹے کا یوسف تھا۔ وہ دونوں کپڑا بُنتے تھے اور کپڑوں کے تھان شہر سے آنے والے بیوپاریوں کو سستے داموں فروخت کرتے تھے۔ وہ سوداگر ان سے کم داموں کپڑا خریدتے اور شہر جاکر مہنگے داموں فروخت کرتے۔
اسلم خدا کے دیے رزق پہ راضی رہتا اور اس کا شکر ادا کرتا کہ اس نے ہمیں ہنر عطا کیا ہے کسی کا محتاج نہیں بنایا، لیکن یوسف ہمیشہ زیادہ مال اکٹھا کرنے کی سوچتا رہتا۔ وہ چاہتا تھا کہ شہر جاکر کپڑا فروخت کرکے اور زیادہ نفع حاصل کیا جائے۔ اس نے اسلم سے اس بارے میں بات کی تووہ کہنے لگا:
”یوسف! ہمارے پاس شہر جانے کے لیے سواری نہیں ہے اور راستے میں جنگل بیابان ہیں۔ چور ڈاکو ہمارا کپڑا چھین لیں گے اور جان سے بھی مار دیں گے، میرا تو خیال ہے ہم جس حال میں ہیں، ٹھیک ہیں۔”
یوسف مطمئن نہ ہوا، اس نے اگلے ہی روز شہر سے آنے والے سوداگروں سے حالات پوچھے۔ راستے میں پیش آنے والی دشواریاں اور ان سے نپٹنے کے طریقے معلوم کیے پھر گاؤں میں ایک دوست سے گدھا گاڑی لے کر کپڑوں کے تھان ریڑھی پر رکھے اور علی الصباح سفر کے لیے نکل گیا۔
اسلم سارا دن اپنے بھائی کی خیریت کی دعائیں کرتا رہا۔ فکر اور پریشانی سے اس کا کسی کام میں دل نہ لگتا تھا۔ والدین کی وفات کے بعد اس نے یوسف کو باپ بن کر پالا تھا۔ اَب اس کا یوں میلوں دور اکیلے جانا اس کے لیے انتہائی پریشانی کا باعث تھا۔ وہ رات گئے تک اس کی خیریت سے لوٹنے کی دعائیں کرتا رہا اور اسی حالت میں سو گیا۔
صبح سویرے اٹھتے ہی یوسف کا خیال آدھمکا۔ اُداس و پریشان حالت میں اس نے فجر کی نماز ادا کی، تلاوت کی اور کپڑا بُننے بیٹھ گیا۔ اسی اداسی میں تین دن بیت گئے۔ تیسرے دن اسے ایک ماہی گیر نے بتایا کہ گاؤں میں شہر سے اناج خریدنے کچھ سوداگر آئے ہوئے ہیں۔ اسلم فوراً سوداگروں کے پاس پہنچ گیا۔
”السلام علیکم دوستو! کیا شہر میں ہمارے گاؤں کا کوئی لڑکا پہنچا ہے؟ جس کا نام یوسف ہے۔”اس نے سوال کیا۔
”یوسف؟” سوداگر ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔
”ہاں یوسف! میرا چھوٹا بھائی، کپڑا فروخت کرنے شہر گیا تھا۔” اسلم بے چینی سے پوچھنے لگا۔
”اچھا اچھا! وہ کپڑے کا سوداگر یوسف! ہاں وہ محنتی لڑکا شہر میں ہی ہے۔” سوداگر کی بات سنتے ہی اسلم کی جان میں جان آگئی۔ اس نے گویا تین دن بعد سکون کا سانس لیا تھا۔ وہ جلدی سے بولا:

”اچھا ہوسکے تو اُسے میرا سلام کہنا اور اسے کہنا جلد واپس آجائے۔”
”ہاں اس کے کپڑے تو فروخت ہوچکے ہیں، ایک دو دن میں لوٹ آئے گا۔” ایک سوداگر بولا۔
اسلم گھر واپس آگیا۔ اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور یوسف کا انتظار کرنے لگا۔ یوسف دو دن بعد واپس آیا۔ وہ شہر سے ڈھیروں روپے کما کر لایا تھا۔
”دیکھیں بھائی جان! جتنے پیسے ہم تین مہینے میں کماتے تھے وہ میں نے تین دن میں کما لیے۔ میں اب ہر مہینے شہر جایا کروں گا اور ڈھیروں روپے کما کر لایا کروں گا۔” یوسف چہک کر بولا۔
”ہاں یوسف تم ٹھیک کہتے ہو، لیکن راستہ پُر خطر ہے۔” اسلم نے کہا۔
”ارے بھائی جان! آپ غم نہ کریں۔” یوسف نے تسلی دی۔
اب وہ ہر مہینے شہر جاکر کپڑا فروخت کرتا۔ دونوں بھائی پہلے سے زیادہ کپڑا بُننے لگے ۔ رفتہ رفتہ انہوں اپنی گدھا گاڑی بھی خریدلی۔ ایک دن یوسف چارپائی پر لیٹا ہوا تھا کہ اسے خیال آیا:
”کپڑا بُننے کا سارا کام میں اور بھائی جان مل کرکرتے ہیں، لیکن شہر میں اکیلا جاتا ہوں۔ کپڑا فروخت کرنے کی ساری مشقت میں خود اُٹھاتا ہوں۔ میرا نفع بھائی جان کے نفع سے دوگنا ہونا چاہیے۔”
یہ خیال آتے ہی اس نے کچھ حساب لگایا پھر آئندہ ہر بار شہر سے آتے ہوئے مال کے تین حصے کرنے لگا۔ ایک حصہ اپنے دوست کے پاس امانت رکھواتا اور باقی مال گھر لا کر بڑے بھائی کو دے دیتا۔ اسلم مال کو دونوں میں برابر تقسیم کردیتا۔
بڑے بھائی اسلم نے منافع کم ہونے کی شکایت کی، تو یوسف نے شہر میں کپڑے کے نرخ گرنے کا بہانہ بنا کر ٹال دیا۔ اسلم سیدھا سادہ تھا، سو جلدی مان گیا۔
کئی مہینے بیت گئے۔ یوسف کے دوست کے پاس اس کی بہت سی رقم جمع ہوچکی تھی جس کا اسلم کو علم نہیں تھا۔
ایک دن اسلم، یوسف کے پاس ایک صندوق لے کر آیا جس کو تالا لگا ہوا تھا۔ یوسف نے یہ صندوق کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پہلے وہ حیران ہوا کہ اس میں ایسا کیا ہے جس کو بھائی نے تالا لگا رکھا ہے۔ ابھی وہ اسی سوچ و بچار میں تھا کہ اسلم نے چابی نکال کر تالا کھول دیا۔ اس کے اندر اشرفیوں کے ڈھیر تھے۔ یوسف کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ اشرفیوں سے بھرا صندوق!!!
اسی اثنا میں اسلم بولا: ”میرے پیارے بھائی یوسف! یہ اشرفیاں تمہاری امانت ہیں۔ ہم دونوں مل کر کام کرتے تھے لیکن تم میری نسبت زیادہ کام کرتے تھے۔ تم شہر جاتے تھے، محنت مشقت سے کپڑا فروخت کرتے تھے۔ اس لیے تم جتنا مال لاتے تھے، میں اس کے تین حصے کیا کرتا تھا۔ ایک حصہ تمہیں دیتا، ایک اپنے پاس رکھتا اور ایک حصہ تم سے چھپا کر تمہارے لیے رکھ دیتا۔ اب تمہاری شادی کا وقت ہے۔ تمہیں اپنے لیے گھر بنانا ہے، تو تم اِن پیسوں سے بنا لو۔ یہ لے لو، یہ تمہاری امانت ہیں۔”
اسلم کے منہ سے یہ سب سن کر یوسف کا سر شرمندگی سے جھک گیا۔ وہ جلدی سے بھائی کے قدموں میں گر کر معافی مانگنے لگا۔ بڑے بھائی کے باقی احسانات کیا کم تھے کہ یہ اتنا بڑا احسان… اور خود اِس کی کم ظرفی… یوسف سوچنے لگا کہ میں اپنے محسن سے بدگمان ہوا۔ اس سے پیسے چھپاتا رہا۔ اسے لگا وہ اب کبھی بھی اپنے بڑے بھائی اسلم سے نظریں نہیں ملا سکے گا لیکن ساری بات کا علم ہونے کے بعد اسلم نے اپنے چھوٹے بھائی کو نا صرف معاف کردیا بلکہ دھوم دھام سے اس کی شادی بھی کی۔ آج بھی ہماری نسلیں اور ہمارے بچے اپنی نانی یا دادی سے یہ لوک کہانی سنتے ہیں تو سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ انسان کو واقعی اعلیٰ ظرف ہونا چاہیے۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

سرائیکی لوک کہانی | جیونی اور چور

Read Next

کوّا اور لالی | سنی سنائی لوک کہانی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!