کس جہاں کا زر لیا — عمیرہ احمد

آپ نے کبھی سوچا ہے دنیا میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جنھیں ہم روپے سے خرید نہیں سکتے۔ جنھیں دعائیں بھی ہمارے پاس نہیں لا سکتیں اور آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ بعض دفعہ وہ چیزیں ہی ہماری پوری دنیا ہوتی ہیں۔ دل کی دنیا تو کیا زمین پر انسان دل کی دنیا کے بغیر رہ سکتا ہے۔ آپ کو پتہ ہے میں پچھلے تیس سال سے اس دنیا میں رہ کر دل کی دنیا کے بغیر اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ آپ مجھے نہیں جانتے۔ بعض دفعہ تعارف کی ضرورت بھی تو نہیں ہوتی۔ بعض دفعہ شاید کسی چیز کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، بس دل چاہتا ہے دنیا میں ”غارحرا” جیسی خاموشی ہو اور ہم اپنے ”اندر” کو باہر لے آئیں۔
میں جانتا ہوں آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میری زندگی میں کوئی کمی ہے، کوئی چیز ہے جو میرے پاس نہیں ہے۔ میری کوئی تمنا ہے جو پوری نہیں ہوئی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ سوچ رہے ہوں کہ میں محبت میں ناکامی کا شکار ہوا ہوں۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ میرے پاس سب کچھ ہے، ہر وہ چیز جس کی آپ تمنا کر سکتے ہیں۔ جسمانی خوبصورتی، ایک عدد ڈگری، آٹھ دس بڑی بڑی فیکٹریز، ہر ملکی اور غیر ملکی بنک میں لمبا چوڑا بنک بیلنس، تین جوان، خوبصورت، تعلیم یافتہ اور فرمانبردار بیٹے اور چار پانچ شاندار گھر، محبت میں بھی کسی ناکامی سے دوچار نہیں ہوا۔
میں نے جس سے محبت کی اسی سے شادی کی۔شادی کے تیس سال بعد بھی میری بیوی مجھ سے اسی طرح محبت کرتی ہے جس طرح پہلے کرتی تھی۔ آج بھی میری ہر بات اس کے لیے فرمان کا درجہ رکھتی ہے۔ آج بھی اسے میرے علاوہ کوئی اور نظر نہیں آتا پھر بھی پتا نہیں میں خوش کیوں نہیں ہوں۔ عجیب بات ہے نا مگر میرے ساتھ ایسا ہی ہے۔ اب شاید آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں کسی بیماری کا شکار ہوں یا پھر یہ سب کسی ڈپریشن کے زیر اثر لکھ رہا ہوں۔





آپ اب بھی غلطی پر ہیں، میں جسمانی اور ذہنی دونوں طرح سے تندرست ہوں۔ کم از کم ہر ماہ ملک کے سب سے بہترین ہاسپٹل میں ہونے والا میرا چیک اپ تو یہی بتاتا ہے۔ میں ہفتے میں تین بار گالف کھیلتا ہوں۔ دو بار سوئمنگ کے لیے جاتا ہوں۔ شام کو گھر کے قریبی پارک میں ایک گھنٹہ کی واک بھی ضرور کرتا ہوں۔ کسی بھی شخص کو ذہنی اور جسمانی طور پر تندرست رکھنے کے لیے کیا اتنا کافی نہیں ہے۔ مجھے معلوم ہے اب آپ مجھے قنوطی یا تاریک الدنیا قسم کا شخص سمجھ رہے ہوں گے۔ کوئی Introvert ٹائپ۔ ایسا بھی نہیں۔ میری ہر شام کسی نہ کسی فنکشن میں ہی گزرتی ہے۔ کبھی وہ گھر پر ہوتا ہے، کبھی کلب میں اور کبھی اپنی کمیونٹی کے کسی دوسرے شخص کے ہاں۔ میں اس لحاظ سے بھی بہت سوشل ہوں۔ ایک اچھی اور پرُسکون زندگی گزارنے کے لیے جتنے لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے وہ میرے پاس ہیں پھر بھی پتا نہیں میں خوش کیوں نہیں ہوں۔ ایک منٹ اب میں آپ سے کچھ غلط بیانی کر رہا ہوں۔ مجھے پتا ہے میں خوش کیوں نہیں ہوں مگر تیس سال بعد کسی کو اپنی ناخوشی کی وجہ بتانا کچھ عجیب نہیں ہے کم از کم مجھے تو بہت عجیب لگ رہا ہے۔ کیا آپ کو یقین آئے گا کہ پچھلے تیس سال میں ہر روز چند گھنٹے ایسے ہوتے ہیں جب مجھے اپنا وجود کسی ٹھنڈی قبر میں اترا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ جیتے جی قبر میں اترنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا اور پھر ہر روز۔ مگر بہت سی چیزیں آپ کے اختیار میں نہیں ہوتیں، آپ چاہیں بھی تو۔
خیر چھوڑیں اس تذکرے کو۔ میں دوبارہ قبر میں اترنا نہیں چاہتا۔
میں جانتا ہوں اس وقت آپ میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو مجھے ناشکرا سمجھ رہے ہوں گے۔ہو سکتا ہے آپ کی تشخیص ٹھیک ہو شاید مجھے یہی بیماری لاحق ہے اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ آپ میں سے کچھ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں تو ٹھیک سمجھ رہے ہیں، مگر میں ابھی تک یہ طے نہیں کر پایا کہ کیا میں واقعی کسی پچھتاوے کا شکار ہوں۔ نہیں، نہیں آپ غلطی پر ہیں اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ میں کوئی متقی آدمی ہوں جس کی زندگی میں کوئی غلط کام ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی پچھتاوا۔ میرے شش و پنج کی وجہ یہ نہیں ہے۔ میں تو صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ پچھتاوا تو باضمیر لوگوں کو ہوتا ہے۔ کیا میں اتنا باضمیر ہوں کہ مجھے پچھتاوا ہونے لگا ہے۔ اور کیا پچھتاوا کسی چیز کی تلافی کر سکتا ہے۔ آپ تلافی کے لفظ کو ایک بار پھر پڑھیے میں ”تلافی” کی بات کر رہا ہوں۔ ”تلافی” کی۔
میرا دل چاہتا ہے میں ایک بار ملیحہ سے یہ سوال پوچھوں۔ کیا کوئی چیز اس کے نقصان کی تلافی کر سکتی ہے؟
کیا کوئی چیز اس کے زیاں کا مداوا کر سکتی ہے؟
کیا کوئی چیز اس کے زخموں کے لیے مرہم بن سکتی ہے؟
کیا میرا کوئی عمل ببول کے ان کانٹوں سے اس کے وجود کو نجات دلا سکتا ہے جو میری وجہ سے اسے گرفت میں لیے ہوئے ہیں؟
میں جانتا ہوں آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اگر ملیحہ سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں تو کرتا کیوں نہیں۔ مجھے کس چیز نے روک رکھا ہے؟
سوال کرنے کے لیے اس شخص کا سامنے ہونا ضروری ہوتا ہے۔ میں جانتا ہوں آپ کے دل میں خیال آیا ہوگا کہ سامنے ہوئے بغیر بھی کسی دوسرے شخص کے ذریعے یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے، مگر پھر یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس دوسرے شخص کو اس بندے کا پتا ہو جس سے آپ سوال کر رہے ہیں۔ اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ رابطے کی ایک صورت تحریری بھی تو ہوتی ہے۔ میں خط کے ذریعے بھی تو سوال کر سکتا ہوں۔ آپ ٹھیک سوچ رہے ہیں مگر خط لکھنے کے لیے بھی تو اس شخص کا پتا چاہیے ہوتا ہے اور میرے پاس ملیحہ سے رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ میں نہیں جانتا وہ کہاں ہے، کس حال میں ہے، زندہ بھی ہے یا… میں ہمیشہ اس لفظ کی جگہ خالی رکھتا ہوں۔ اس طرح مجھے چند لمحے سانس لینے میں آسانی رہتی ہے۔
میں جانتا ہوں اب آپ یہ جاننے کے لیے بے تاب ہو رہے ہیں کہ ملیحہ کون ہے؟ میرا اس کے ساتھ کیا رشتہ ہے؟ مجھ سے کون سی غلطی ہوئی ہے؟ مجھے کس بات کا پچھتاوا ہے؟ میں اس کے اتے پتے سے لاعلم کیوں ہوں؟
میرے پاس ان میں سے کسی سوال کا بھی جواب نہیں ہے۔ وہ کون تھی؟ میرا اس کے ساتھ کیا رشتہ تھا؟ مجھ سے کیا غلطی ہوئی تھی؟ مجھے کس بات کا پچھتاوا ہے؟ میں پچھلے تیس سال سے ان ہی سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور تیس سال گزرنے کے باوجود میرے پاس ایک بھی سوال کا جواب نہیں ہے۔
*****
بعض لوگ دوسروں کی زندگی میں غلط مواقع پر آتے ہیں۔ جیسے ملیحہ میری زندگی میں غلط موقع پر آئی تھی۔ بعض لوگ ساری عمر صحیح چیزیں چنتے چنتے بس ایک بار غلط چیز کا انتخاب کرتے ہیں اور یہ غلطی ان کی باقی ساری زندگی کا روگ بن جاتی ہے جیسے ملیحہ نے کبھی میرا انتخاب کیا تھا۔ لوگ اکثر کہتے ہیں خود غرض لوگوں کی خود غرضی ان کے چہرے پر عیاں رہتی ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے۔ ملیحہ کو تیس سال پہلے میرے چہرے پر یہ خود غرضی نظر کیوں نہیں آئی۔ میرا انتخاب کرنے سے پہلے اسے میرا چہرہ پڑھنا چاہیے تھا۔ غور کرنا چاہیے تھا کہ وہ اپنی زندگی کے لیے کس چیز کا انتخاب کر رہی ہے۔ پتا نہیں اس نے ایسا کیوں نہیں کیا اور مجھے تیس سال سے یہی چیز پریشان کر رہی ہے کہ آخر اس نے ایسا کیوں کیا۔
میں جانتا ہوں اب تک آپ کے ذہنوں کے اندر سوالوں کا جوار بھاٹا اٹھ رہا ہوگا۔ آپ پریشان نہ ہوں میں آپ کو سب کچھ بتا دوں گا، کم از کم وہ سب کچھ جس کا تعلق میری ذات سے ہے۔
*****
میں نے اپنا بچپن بہت غربت میں گزارا تھا۔ دو بہنوں اور دو بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ میرے والد ایک فیکٹری میں سپروائزر تھے۔ انھوں نے ہمیشہ حلال کی کھانے اور کھلانے کی کوشش کی۔ نتیجہ وہی ہوا جو ایسی صورت میں ہوتا ہے۔ ہم سب بہن بھائیوں کی فرسٹریشن میں بہت اضافہ ہو گیا۔ ہمارے گھر کی اندرونی اور بیرونی حالت ہر ایک سے چلا چلا کر کہتی تھی کہ وہ رزق حلال کا نتیجہ ہے اور یہ حالت بہت سے لوگوں کو بہت کچھ کہنے پر مجبور کر دیتی۔ گھر میں سب سے بڑا میں تھا اس لیے مجھ پر ذمہ داریاں بھی سب سے زیادہ تھیں۔
بچپن سے ہی مجھے بہت سے ایسے چھوٹے موٹے کام کرنے پڑے جس سے گھر کے اخراجات پورے کرنے میں مدد ملتی۔ چوڑیوں اور مہندی کے سٹالز لگانے سے لے کر ٹیوشنز پڑھانے تک، یونیورسٹی پہنچنے تک میں نے ہر کام کیا۔ محنت کی عظمت کا توخیر کیا اندازہ ہوتا، مجھے دولت کی عظمت کا اندازہ بخوبی ہو گیا۔ میں اکنامکس کا سٹوڈنٹ تھا۔ مجھ سے زیادہ اچھی طرح سے معاشیات کے اصولوں سے کون واقف ہو سکتا تھا۔
میں ان دنوں ہر Calculation اپنے لیے کیا کرتا تھا۔ کون سی چیز میرے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے، کون سی نقصان دہ۔ کون سی چیز اچھی ہوگی، کون سی بری۔ کون سی چیز ضروری ہے، کون سی ثانوی۔ میں ان دنوں زندگی کے لیے اپنے فارمولے نکالنے میں مصروف تھا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں مکمل طور پر مادہ پرست ہو چکا تھا۔ نہیں، میرا خیال ہے مکمل طور پر نہیں لیکن بڑی حد تک۔ اصل میں یونیورسٹی پہنچتے پہنچتے میں اگر اپنے لیے زندگی کا لائحہ عمل طے کر چکا تھا تو دوسری طرف شہلا کی محبت میں بھی بری طرح گرفتار ہو چکا تھا اور جو لوگ اس مادہ پرست دنیا میں بھی محبت کرتے ہیں۔ وہ مکمل طور پر تو کبھی بھی میٹریلزم کا شکار نہیںہو سکتے۔میں جانتا ہوں آپ کو میرے لفظوں پر اعتبار نہیں آ رہا ہوگا لیکن یہ سچ ہے۔ میں نے زندگی میں شہلا سے بڑھ کر کسی کو نہیں چاہا حتیٰ کہ دولت کو بھی نہیں۔ عجیب بات ہے نا پہلے لوگ محبت میں تقابل کرنے کے لیے کہا کرتے تھے کہ میں نے اپنی ماں سے بڑھ کر کسی کو نہیں چاہا یا گھر والوں سے بڑھ کر یا اولاد سے بڑھ کر اور میں کہہ رہا ہوں کہ میں نے شہلا کو دولت سے بھی بڑھ کر چاہا ہے، کیونکہ اس وقت میرے پاس دولت نہیں تھی اور نہ ہی دور دور تک اس کے حاصل ہونے کا امکان تھا پھر یک دم ہی دولت بھی نظر آنے لگی اور اسے حاصل ہونے کا امکان بھی۔
عجیب بات ہے میں نے آپ کو شہلا کے بارے میں تو بتا دیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ کون ہے؟ محبت کے علاوہ میرا اس سے کیا رشتہ ہے؟ اور ہم دونوں کو آپس میں محبت ہوئی کیسے؟
شہلا میری خالہ کی بیٹی تھی۔ اس کا گھر ہمارے گھر سے چند قدموں کے فاصلے پر تھا بچپن سے ہی ہم دونوں گھروں کا آپس میں بہت میل ملاپ تھا بلکہ شاید حد سے زیادہ۔ وجہ رشتہ داری سے زیادہ غربت تھی۔ ظاہر ہے جب گھر میں چیزیں کم ہوں تو ان کے حصول کے لیے کہیں نہ کہیں تو جانا ہی پڑتا ہے۔ میری طرح وہ بھی تین بہنوں اور دو بھائیوں میں سب سے بڑی تھی۔ بچپن میں ہی اس کے ساتھ میری نسبت ٹھہرا دی گئی تھی۔ مجھے بچپن سے جوانی تک اس پر کوئی اعتراض اس لیے نہ ہوا کیونکہ وہ بے حد خوبصورت تھی کم از کم یہ وہ چیز تھی جس کے معاملے میں ہم دونوں گھرانوں کو کوئی غریب نہیں کہہ سکتا تھا۔ شکل و صورت کے اعتبار سے ہم سارے بہن بھائی بھی شہلا اور اس کے بہن بھائیوں کی طرح لاکھوں میں نہیں تو ہزاروں میں ایک تھے۔ مگر بہرحال شہلا کی بات کچھ اور ہی تھی۔ اسے جیسے خدا نے خاص طور پر اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا۔
اب میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ میں اس کی خوبصورتی کو کیسے تحریر کروں کیونکہ لفظ کبھی بھی اس حسن کو بیان نہیں کر پائیں گے۔ جو کبھی شہلا کی ملکیت تھا بس آپ سمجھ لیں کہ میں ہمیشہ آگے بڑھنے کے تمام منصوبے اسے ساتھ رکھتے ہوئے بناتا تھا۔ میرا میٹریلزم کبھی بھی اس کے اور میرے درمیان دیوار نہیں بنا تھا۔ عجیب بات ہے نا مگر بہرحال یہ سچ ہے ہم دونوں اکثر اپنے منصوبے ڈسکس کیا کرتے تھے۔ شادی کے بعد کے خیالی پلاؤ پکایا کرتے تھے، وہ اپنی خواہشات بتایا کرتی تھی۔ میں اپنے خواب سنایا کرتا تھا، دونوں کی منزل ایک جیسے راستوں سے گزر کر آیا کرتی تھی۔ کہیں پر کوئی Clash نہیں تھا دونوں کے خواب دولت سے گندھے، مہکے اور بنے ہوئے تھے۔ اس لیے ہمیں ایک دوسرے کی باتوں سے کبھی کوفت اور بیزاری نہیں ہوتی تھی۔
شہلا کہتی تھی اور اب بھی یہی کہتی ہے کہ اسے مجھ سے عشق تھا اور ہے۔ میرے بغیر وہ ایک دیمک زدہ لکڑی سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔ جسے پانی کسی کا سہارا بننے دیتا ہے نہ اپنا، میرے لیے وہ میری زندگی تھی جس کے بغیر میں خواب دیکھ سکتا تھا نہ خواہش کرنے کے قابل تھا۔ ہم دونوں جب اکٹھے ہوتے تو کبھی بھی ”ہم” کے علاوہ ایک دوسرے کے لیے کوئی دوسرا صیغہ استعمال نہیں کرتے تھے۔ بعض دفعہ ایسا شعوری طور پر ہوتا لیکن زیادہ تر غیر شعوری طور پر۔
میں جانتا ہوں اب آپ میری ان سب باتوں سے اکتا گئے ہوں گے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے یہ کیا الف لیلیٰ سنانی شروع کر دی ہے محبت کے بارے میں۔ اصل میں بات یہ ہے کہ ہم صرف اپنی محبت کے بارے میں بات کرنا، پڑھنا اور سننا چاہتے ہیں کسی دوسرے کی محبت کے بارے میں نہیں۔ ہو سکتا ہے اس وقت آپ بھی اسی کیفیت کا شکار ہو رہے ہوں، بہرحال ٹھیک ہے میں شہلا کا ذکر چھوڑ دیتا ہوں، میں آپ کو بتا رہا تھا کہ اچانک مجھے دولت نظر آنی شروع ہو گئی تھی اور اس کے ملنے کے امکان بھی اور یہ سب کیسے ہوا تھا۔ ملیحہ علی کی وجہ سے۔
یونیورسٹی میں میرے ساتھ پڑھنے والی بہت سی لڑکیوں میں سے ایک وہ بھی تھی۔ ایک بہت ہی امیر کبیر گھرانے کی واحد چشم و چراغ اس کی ماں کسی زمانے میں مشہور ماڈل رہی تھی۔ مگر علی احمد سے شادی کے بعد اس نے ماڈلنگ چھوڑ دی۔ شادی کے پانچ سال بعد ایک حادثے میں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ ملیحہ اس وقت صرف دو سال کی تھی۔ علی احمد نے اس کی خاطر دوسری شادی نہیں کی۔ انھوں نے اسے اکیلے ہی پالا تھا۔ وہ گریجویشن کر رہی تھی جب ان کا بھی اچانک انتقال ہو گیا تھا، اس کے کوئی قریبی عزیز نہیں تھے جو بھی عزیز تھے وہ دور کے تھے۔ علی احمد یہ عقلمندی کر گئے تھے کہ اپنی زندگی میں ہی اپنے لیگل ایڈوائزر کو اس کا گارجین بنا گئے تھے۔ وہ علی احمد کے انتقال کے بعد ان ہی کے گھر چلی گئی تھی۔ جب تک اس کی شادی نہ ہو جاتی اسے ان ہی کے ساتھ رہنا تھا۔
وہ ان لڑکیوں میں سے تھی جنھیں ہر لحاظ سے پسند کیا جاتا ہے، جن کے بارے میں ہر ایک کی رائے بہت اچھی ہوتی ہے۔ اس میں اگر کچھ ہاتھ اس کی دولت اور خوبصورتی کا تھا تو باقی ہاتھ اس کی ذہانت اور مینرز کا بھی تھا۔ وہ ہر لحاظ سے بہت نمایاں تھی اسے بات کرنا بھی آتا تھا اور بات منوانا بھی۔ اس کے ہر انداز سے اظہار ہوتا تھا کہ اسے بہت چاہا گیا ہے، اس کا بہت خیال رکھا گیا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے الگ گروپ میں رہتی تھی۔ اس کے خاص دوست تھے جن کی تعداد ہمیشہ محدود ہی رہتی تھی۔ کلاس کے دوسرے لوگوںکی طرح مجھے بھی اس کی بہت سی باتوں نے متاثر کیا تھا۔ مگر بس صرف متاثر ہی کیا تھا میں اس کا گرویدہ ہوا تھا نہ اس پر شیدا ہوا تھا، ان دنوں میری آنکھوںمیں شہلا نام کا بت نصب تھا۔ اس کے ہوتے ہوئے مجھے دوسرا کوئی نظر کہاں آ سکتا تھا۔ ہاں اگر شہلا سے محبت نہ ہو چکی ہوتی تو پھر یقینا میں بھی کلاس کے بہت سے دوسرے لڑکوں کی طرح ملیحہ کی محبت میں گرفتار ہو جاتا یک طرفہ محبت، کیونکہ وہ کبھی کسی کو گھاس نہیں ڈالتی تھی۔




Loading

Read Previous

سحر ایک استعارہ ہے — عمیرہ احمد

Read Next

مات ہونے تک — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!