کس جہاں کا زر لیا — عمیرہ احمد

پہلا فون جو میں نے کیا تھا۔ وہ شہلا کو تھا آپ کو چونکنے کی ضرورت نہیں ہے یاد کریں میں نے آپ کو بتایا تھا ناکہ میں نے شہلا کو ملیحہ سے شادی پر منا لیا تھا وہ دراصل میرا سارا منصوبہ سن کر ہی رضامند ہوئی تھی۔ تب تک میں نے اسے یہ نہیں بتایا تھا کہ میں اسے قتل کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہوں۔ شاید تب تک مجھے امید تھی کہ میں اس کام کے بغیر ہی اس کی فیکٹری پر قابض ہو جاؤں گا، خیر تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ شہلا میری بات مان گئی تھی۔ ملیحہ سے شادی کے بعد میں نے اس کے لیے بھی بہت کچھ کیا تھا۔ کسی رشتہ کے بغیر ہی میں نے اس کا اور اس کے گھر کا پورا خرچ اٹھایا ہوا تھا۔
وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اب میں ملیحہ کے ساتھ کیا کر رہا تھا لیکن وہ جلد از جلد اس گھر میں آنا چاہتی تھی۔ اس لیے اس نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا میں نے فون پر جب اسے سارا واقعہ سنایا تو وہ جیسے چیخ اٹھی تھی۔ اسے یقین نہیں آیا تھا کہ خدا ہم پر اتنا مہربان ہو سکتا ہے۔ بہرحال خدا مہربان ہو گیا تھا۔
اگلے کچھ دن بعد ایک وکیل میرے پاس آ کر کچھ اور کاغذات بھی میرے حوالے کر گیا۔ میں نے باقاعدہ طور پر سارے کاغذات کو اپنے وکیل سے چیک کروایا تھا۔ سب کچھ واقعی ہی مکمل تھا۔ کچھ پرابلمز تھے تو ملیحہ کے وکیل نے وہ بھی حل کر دیے، چند ماہ بعد میں قانونی طور پر ملیحہ کی تمام جائیداد کا مالک بن چکا تھا۔
اور جب یہ کام مکمل ہو گیا تو میں نے سب سے پہلا کام شہلا سے شادی کا کیا تھا یہ وہی تو تھی جس کی محبت نے مجھے اس دور کا ”کوہ کن” بننے پر مجبور کیا تھا، بڑی دھوم دھام سے میں اسے بیاہ کر اس گھر میں لے آیا تھا۔
ملیحہ کے کمرے کو لاک کر دیا گیا تھا ہم ایک دوسرے کمرے میں شفٹ ہوئے تھے لیکن اس سے پہلے اس کی درازوں سے ساری جیولری اور روپیہ نکال کر میں نے شہلا کے حوالے کر دیا تھا ملیحہ کے پاس لاکھوں کا زیور تھا مگر اسے جیولری پہننے کا زیادہ شوق نہیں تھا۔ شہلا کو شوق تھا اور وہ سب زیور اس پر سجتا بھی تھا۔





زندگی تب بھی بہت ٹھیک گزر رہی تھی۔ میں اور شہلا بہت خوش تھے۔ ہم دونوں کے خواب جو پورے ہو گئے تھے میں فیکٹری پر بہت محنت کر رہا تھا، ظاہر ہے صرف ایک فیکٹری میرا خواب نہیں تھی میں 1+1 گیارہ کے فارمولے پر عمل کر رہا تھا۔ اور اس رات کے تین بجے اچانک میری آنکھ کھل گئی تھی، عجیب بات تھی کہ آنکھ کھلنے کی وجہ ملیحہ تھی۔ میں نے اسے خواب میں دیکھا تھا، روتے ہوئے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھے ہوئے۔ بس فرق یہ تھا اس بار میں نے اسے اپنے کمرے کے قالین پر نہیں ایک لمبے چوڑے اجاڑ میدان میں دیکھا تھا اور اس بار اس نے ایک بار بھی سر نہیں اٹھایا تھا۔ میں اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکا تھا، مگر جانتا تھا کہ وہ ملیحہ ہی تھی۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا مگر یہ سچ ہے میں باقی رات سو نہیں سکا۔ پہلی بار مجھے خیال آیا تھا وہ کہاں گئی تھی۔ دولت کے بغیر خالی ہاتھ اسے کس نے قبول کیا ہوگا۔ مجھے آپ کو بتانا چاہیے کہ اس دن اس کے گھر سے چلے جانے کے بعد میں کئی دن تک منتظر رہا تھا کہ وہ آئے گی اور اپنا سامان لے جائے گی۔ کوئی بھی اس طرح تو کبھی گھر چھوڑ کر نہیں جاتا مگر وہ نہیں آئی تھی۔ نہ ہی اس نے کسی کے ذریعے کچھ منگوانے کی کوشش کی تھی۔ اس کے چلے جانے کے بعد میں نے بہت کوشش کی تھی کہ یہ جان سکوں کہ اسے شہلا اور اپنے قتل کے منصوبے کا کیسے پتا چلا۔ یہ تو مجھے ملازموں سے پتا چل گیا تھا کہ وہ میرے کراچی جانے کے بعد باقاعدگی سے ڈاکٹر کے پاس جاتی رہی تھی اور یقینا ڈاکٹر نے اگر اس کے ٹیسٹ کروائے ہوں گے تو یہ بات چھپی نہیں رہ سکی ہو گی کہ اسے زہر دیا جا رہا ہے مگر میں یہ نہیں جان سکا کہ اسے شہلا کے بارے میں کیسے پتا چلا تھا۔ خیر میں آپ کو یہ بتا رہا تھا کہ میں اس پوری رات جاگتا رہا۔
میں نہیں جانتا کیوں، لیکن صبح آفس جاتے ہی میں نے سب سے پہلے ملیحہ کے وکیل کو فون کیا تھا۔
”مجھے نہیں پتا وہ کہاں ہیں۔ انھوں نے مجھے اپنا فون نمبر دیا تھا میں اسی فون نمبر پر رنگ کر کے ان سے بات کیا کرتا تھا۔”
اس نے مجھے ایک فون نمبر لکھوا دیا تھا۔ میں نے اس فون نمبر پر رنگ کیا تھا۔
”ہاں وہ چند ہفتے یہاں رہی تھی مگر جب جائیداد آپ کے نام ٹرانسفر ہو گئی تو ایک دن وہ کچھ بتائے بغیر یہاں سے چلی گئی اس کے بعد دوبارہ اس کے ساتھ ہمارا رابطہ نہیں ہوا۔”
وہ فون نمبر ملیحہ کی ایک دوست کا تھا اور فون کرنے پر اس کی والدہ نے مجھے یہ جواب دیا تھا۔ میں نہیں جانتا پھر مجھے کیا ہوا تھا مگر اس کے بعد میں ہر بار نمبر گھماتا رہا تھا جو اس کے کسی رشتہ دار کا ہو سکتا تھا اور میری ڈائری میں تھا، اس کے بارے میں کسی کو بھی کچھ پتا نہیں تھا۔ مجھ سے شادی سے پہلے بھی وہ رشتہ داروں کے کچھ زیادہ قریب نہ تھی۔ اور شادی کے بعد تو بالکل ہی کٹ کر رہ گئی تھی اور اب جب وہ خالی ہاتھ تھی تو ان لوگوں کے پاس کیسے جا سکتی تھی۔ یا اگر چلی بھی جاتی تو وہ اسے کیسے رکھ سکتے تھے۔ مگر پتا نہیں مجھے کیوں آس تھی۔
اگلے کئی ہفتوں میں اس کے بارے میں کچھ جاننے کے لیے پورا شہر پھرتا رہا تھا۔ مجھے کچھ بھی پتا نہیں چلا، وہ اپنی دوست کے علاوہ کسی اور کے پاس گئی ہی نہیں تھی۔ پھر میں نے اس کی تلاش ختم کر دی۔ مگر اس رات سے لے کر تیس سال تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں رات کو سلیپنگ پلز لیے بغیر سویا ہوں۔
مجھے اس سے محبت نہیں تھی۔ کبھی بھی نہیں تھی، جب وہ میرے پاس تھی تو مجھے صرف شہلا کا خیال آیا کرتا تھا اور جب وہ چلی گئی تو میں اس کے الوژن میں گرفتار ہو گیا تھا مجھے پتا نہیں چلتا اور وہ میرے اور شہلا کے درمیان آ جاتی۔ مجھے پتا بھی نہیں چلا اور میں شہلا کے چہرے پر اس کے چہرے کو تلاش کرنے لگا۔
ملیحہ بہت عجیب تھی بعض دفعہ وہ مجھے رات کے دو بجے اٹھا دیتی۔
”میرا دل چاہتا تھا میں تم سے بات کروں، فاروق! پہلے جب میں رات کو کبھی اس طرح اچانک بیدار ہوتی تھی تو ایسا کوئی نہیں ہوتا تھا جس سے میں بات کر سکتی۔ مگر اب تم ہو تو پھر میں تم سے بات کیوں نہ کروں۔”
وہ آنکھیں بند کیے میرے کندھے پر سر رکھے بولتی جاتی اور میں دل ہی دل میں اس طرح نیند خراب ہونے پر پیچ و تاب کھاتا، ہر بار جب شہلا میرے کندھے پر سر رکھتی تو مجھے ملیحہ یاد آ جاتی اور پھر، پھر شہلا کہیں غائب ہو جاتی تھی۔ جب ملیحہ کو مجھ پر بہت پیار آتا تو وہ میرا دایاں ہاتھ پکڑ لیتی۔ پھر وہ سارا وقت وہی ہاتھ پکڑ کر بات کرتی رہتی، کبھی وہ ہاتھ اپنے گال سے لگا لیتی، کبھی بالوں پر رکھ لیتی، کبھی اسے دونوں ہاتھوں میں لے کر بڑی محبت سے سہلاتی رہتی، یوں جیسے وہ ہاتھ اس وقت مجسم میں تھا۔ ہر بار جب شہلا اس ہاتھ کو پکڑتی تو میرا دل چاہتا میں اپنا ہاتھ اس سے چھڑا لوں۔ مجھے لگتا جیسے اس کا لمس ملیحہ کے لمس کو معدوم کر دے گا۔
پھر مجھے پتا ہی نہیں چلا کب میں نے راتوں کو اٹھ اٹھ کر ملیحہ کے بیڈروم میں جانا شروع کر دیا۔ وہ کمرہ پہلے ہی کی طرح تھا بس ہر چیز پر گرد کی ایک بھاری تہہ چڑھتی جا رہی تھی۔ میں جب بھی رات کے پچھلے پہر وہاں جاتا، چیزوں کو ہی صاف کرتا رہتا اس وقت میں جیسے اپنے آپ میں نہیں ہوتا تھا۔ عجیب بات ہے نا مگر یہ سب سچ ہے مگر مجھے وہاں نہیں جانا چاہیے تھا۔ کبھی بھی نہیں اگر وہاں نہ جاتا تو اس رات مجھ پر وہ ہولناک انکشاف بھی نہ ہوتا۔ بعض لوگوں کو تقدیر مارتی ہے بعض کو وہ خود میرا خیال ہے میں ان لوگوں میں سے ہوں جنھوں نے خود اپنے آپ کو مارا ہے۔ پتا نہیں بات کہاں سے کہاں نکل جاتی ہے۔ میں آپ کو اس انکشاف کے بارے میں بتا رہا تھا ہولناک انکشاف کے بارے میں۔
اس رات بھی میں اس کے کمرے میں ڈریسنگ ٹیبل کے دراز کھول کر چیزوں کو ترتیب دینے میں مصروف تھا جب میرے ہاتھ کچھ کاغذ لگے تھے۔ مجھے انھیں دیکھنا نہیں چاہیے تھا مگر… میں نے دیکھے وہ کچھ رپورٹس تھیں جن سے ظاہر ہو رہا تھا کہ اس کے خون میں اس خاص قسم کے زہر کے اثرات تھے جو میں اسے دیے جا رہا تھا ان رپورٹس میں کچھ اور بھی تھا وہ پریگننٹ تھی۔ میں جانتا ہوں، آپ ساکت ہو گئے ہوں گے میں بھی اس رات اسی طرح سکتے میں آیا تھا، اور آج تیس سال بعد تک یہ سکتہ اسی طرح قائم ہے وہ رپورٹس انھیں دو ہفتوں میں بنوائی گئی تھیں جب میں کراچی میں تھا۔ کوئی بے وقوف سے بے وقوف عورت بھی کبھی وہ نہ کرتی جو اس نے کیا تھا۔ مجھ سے طلاق لی یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ پریگننٹ تھی۔ ہر چیز میرے منہ پر ماری اور پھر کسی نام و نشان کے بغیر دنیا میں غائب ہو گئی، یقینا آپ بھی ایسی کسی احمق عورت کو نہیں جانتے ہوں گے۔ میں نے وہ رپورٹس وہیں رکھ دی تھیں۔
آپ اندازہ کر ہی سکتے ہیں پھر میں نے کیا کیا ہو گا۔ میں نے اس ڈاکٹر سے رابطہ کیا تھا جس نے وہ رپورٹس دی تھیں۔
”نہیں، یہ بس ایک بار ہی آئی تھیں پھر دوبارہ نہیں آئیں۔”
مجھے وہی جواب ملا تھا جس کا مجھے اندازہ تھا پھر میں اسے ڈھونڈنے کے لیے جو کر سکتا تھا میں نے کیا تھا، آپ یقین کریں میں نے واقعی ہی اس کی تلاش کے لیے سب کچھ کیا تھا سب کچھ… دعا بھی مگر وہ نہیں ملی، میں نے دعا کی تھی وہ مل جائے خدا میرے جیسے لوگوں کی دعا کبھی قبول نہیں کرتا، اس لیے وہ نہیں ملی، میں یہ جان گیا تھا مگر تب جب میں اس کے مل جانے کی دعا کر چکا تھا ورنہ شاید میں اس کے نہ ملنے کی دعا کرتا۔
میں اس کے کمرے میں تب تک جاتا رہا تھا جب تک شہلا کو علم نہیں ہو گیا وہ ایک رات میرے پیچھے آ گئی تھیں۔ اور اس کے بعد میں دوبارہ اس کے کمرے میں نہیں گیا۔ کم از کم تب تک جب تک میں شہلا کے ساتھ اسی گھر میں رہا۔
تیس سال میں میں نے بہت ترقی کی ہے ملیحہ کی فیکٹری کے علاوہ سات اور فیکٹریاں لگا لی ہیں جن کے سامنے ملیحہ کی فیکٹری بہت چھوٹی اور معمولی لگتی ہے۔ اس شہر کے علاوہ چند اور شہروں میں بھی بہت شاندار بنگلے تعمیر کروا لیے ہیں۔ جن کے سامنے اب ملیحہ کا بنگلہ ایک ڈربہ لگتا ہے۔ ملیحہ کی فیکٹری اب منافع کم دیتی ہے مگر اس پر اخراجات زیادہ اٹھتے ہیں۔ میرے بیٹے چاہتے ہیں اس فیکٹری کو بند کر دیا جائے۔ میرے زندہ رہنے تک تو یہ نہیں ہو سکے گا۔ ملیحہ کا بنگلہ بھی بہت پرانا ہو چکا ہے مگر میں نے وہاں کی ہر چیز محفوظ رکھی ہوئی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح وہ ملیحہ کے زمانے میں تھا۔ نئے گھر میں شفٹ ہونے سے پہلے شہلا نے اصرار کیا تھا کہ میں وہ گھر بیچ دوں، تیس سال کی ازدواجی زندگی میں ہمارے درمیان واحد جھگڑا اسی بات پر ہوا تھا۔ اس کے بعد کبھی کسی بات پر جھگڑا نہیں ہوا۔ شہلا نے دوبارہ کبھی وہ گھر بیچنے کے لیے نہیں کہا شاید میں نے آپ کو یہ نہیں بتایا کہ میں ہر روز کچھ وقت کے لیے وہاں ضرور جاتا ہوں۔ گھر کے اندر نہیں جاتا صرف باہر لان میں بیٹھ کر آ جاتا ہوں۔ اندر جانے سے بھلا کیا ہو سکتا ہے۔ تیس سال سے میں صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ میں نے اس کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ اگر میری قسمت میں دولت تھی تو وہ تو مجھے ملنا ہی تھی چاہے میں ملیحہ کو اس کا ذریعہ بناتا یا نہ بناتا۔ تیس سال سے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اس نے میرے ساتھ یہ کیوں کیا۔ اسے مجھ سے سب کچھ چھین کر مجھے دھکے دے کر گھر سے باہر نکلوا دینا چاہیے تھا، اس نے اس کے برعکس کیوں کیا۔ خود گھر چھوڑ کر کیوں چلی گئی، اور… اور… کہاں چلی گئی۔ تیس سال سے میں یہ سوچ رہا ہوں، کیا وہ زندہ ہے؟ اسی شہر میں ہے؟ اور اگر ملیحہ زندہ ہے تو پھر ”وہ” بھی زندہ ہو گا یا زندہ ہو ”گی” تیس سال سے میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ کیا ملیحہ نے ”اسے” میرے بارے میں بتایا ہوگا، سب کچھ…؟ تیس سال سے میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ کیا وہ دونوں مجھے یاد کرتے ہوں گے؟… محبت سے…؟ اور تیس سال سے میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ انھوں نے تیس سال کیسے گزارے ہوں گے؟
آپ یقین کریں میں واقعی سوچتا ہوں کہ میں نے ملیحہ کے ساتھ یہ سب کیوں کیا؟ اور تیس سال سے اس کا خیال میرے ذہن سے جاتا ہی نہیں… نہیں اب آپ غلط سوچ رہے ہیں مجھے اس سے محبت نہیں ہے، یقین کریں مجھے بالکل بھی اس سے محبت نہیں ہے میں نے آپ کو بتایا تھا نا کہ میں شہلا سے محبت کرتا تھا اور کرتا ہوں، تو جب میں شہلا سے محبت کرتا ہوں تو پھر مجھے ملیحہ سے محبت کیسے ہو سکتی تھی۔
مجھے دراصل… ملیحہ سے ”عشق” ہوا تھا۔

*****




Loading

Read Previous

سحر ایک استعارہ ہے — عمیرہ احمد

Read Next

مات ہونے تک — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!