کس جہاں کا زر لیا — عمیرہ احمد

منصوبے کا دوسرا حصہ قدرے مشکل تھا اور یہ مشکل صرف ایک باضمیر انسان کے لیے ہوتی، چنانچہ مجھے یہ مشکل نہیں ہوئی۔ میں نے اسے سلوپوائزننگ کرنا شروع کر دیا تھا۔ دیکھیں میں جانتا ہوں اس وقت آپ میں سے کچھ کا سانس حلق میں اٹک گیا ہوگا۔ کچھ مجھے گالیاں دے رہے ہوں گے مگر میں کیا کر سکتا ہوں، اس وقت ملیحہ سے چھٹکارا پانے کا کوئی اور طریقہ میرے پاس نہیں تھا۔ علیحدگی اختیار کرتا تو میں عرش سے فرش پر آ گرتا اس لیے میں نے اس وقت جو ٹھیک سمجھا، وہ کیا۔
وہ بڑے ناز و نعم میں پلی تھی۔ بہت جلد اس کی ہمت جواب دے گئی۔ میں ہر بار اس کی طبیعت خراب ہونے پر یوں ظاہر کرتا جیسے میں بہت پریشان ہوں اور پھر خود ہی اسے میڈیسن وغیرہ لا دیتا۔ میں کسی طرح سے بھی یہ رسک نہیں لے سکتا تھا کہ وہ ڈاکٹر کے پاس جائے اور وہاں چیک اپ میں یہ بات سامنے آ جائے کہ اسے سلوپوائزننگ کی جا رہی ہے۔ جب افاقہ نہ ہونے پر اس نے ڈاکٹر کے پاس جانے پر زیادہ اصرار کیا تو میں ایک فرضی ڈاکٹر گھر بھی لے آیا۔ اس نے جو میڈیسنز اس کے لیے تجویز کیں میں نے ان ہی کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ میں منتظر تھا وہ ذہنی طور پر Collapse کرے اور میں فیکٹری اپنے نام لگوانے کی کوششیں شروع کروں۔ جسمانی طور پر اگرچہ وہ بہت کمزور ہو گئی تھی مگر ابھی تک ذہنی طور پر اس کی صلاحیتیں برقرار تھیں۔
ان ہی دنوں فیکٹری کے کسی کام کے لیے مجھے دو ہفتے کے لیے کراچی جانا پڑا۔ میں نے کوشش کی تھی کہ منصوبے کے اس اہم مرحلے پر مجھے اس طرح غائب نہ ہونا پڑے لیکن مجھے جانا ہی پڑا۔ دو ہفتے کے بعد جب میں واپس آیا تو وہ بستر پر پڑی ہوئی نہیں ملی۔ اس کی صحت پہلے سے بہتر ہو چکی تھی۔ وہ گھر میں چل پھر رہی تھی۔ میں بے تحاشا فکر مند ہوا تھا لیکن میں نے یہ ظاہر کیا تھا کہ اس کی صحت کی بحالی پر مجھے بہت خوشی ہوئی تھی۔ اس نے میری کسی بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا بس یک ٹک مجھے گھورتی رہی تھی۔ مجھے اس کی خاموشی سے کچھ خوف آیا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا اس نے میرے ہاتھ سے بریف کیس اور کوٹ پکڑ لیا اور اندر بیڈ روم میں چلی گئی تھی۔
”تم چینج کر لو۔ میں کھانا لگواتی ہوں۔”
وہ کمرے سے یہ کہہ کر نکل گئی۔ بظاہر یہ بہت سادہ سا جملہ تھا مگر اس وقت اس کے منہ سے یہ سادہ نہیں لگا تھا۔ اس وقت کوئی بہت عجیب سی بات تھی اس کے لہجے میں۔ میں سر جھٹکتے ہوئے باتھ روم میں چلا گیا تھا۔ وہاں ہمیشہ کی طرح میرے کپڑے ہینگر میں لٹکے ہوئے ملے تھے۔ میں نے اپنے ذہن سے خدشات کو نکالنے کی کوشش کی۔
اس شام پہلی بار ہم دونوں نے مکمل خاموشی کے عالم میں کھانا کھایا۔ میں وقتاً فوقتاً اس خاموشی کو توڑنے کی کوشش کرتا رہا مگر وہ یک لفظی جواب دے کر اس خاموشی کو قائم رکھتی رہی۔ کھانا کھانے کے بعد ہم دونوں بیڈروم میں آ گئے تھے۔ میں اس وقت بیڈ پر لیٹ رہا تھا جب اس نے مجھ سے کہا تھا۔
”مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔”





میں اس کی بات پر چونک گیا تھا۔ وہ بیڈ کے سامنے پڑے صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔ کمرے میں کچھ دیر خاموشی رہی تھی۔ بعض دفعہ خاموشی میں طوفان ہوتے ہیں۔ اس کا اندازہ مجھے اس کی گفتگو شروع کرنے سے ہوا تھا۔
”میں دو سال کی تھی جب میری امی کی ڈیتھ ہو گئی۔ میں ماں نام کی کسی چیز، کسی رشتے سے شناسا نہیں رہی۔ میں نے اپنا سارا بچپن تنہائی میں گزارا ہے۔ تنہائی انسان میں بہت سی خواہشات پیدا کرتی ہے۔ میں بھی بہت سی چیزوں کی تمنا کرنے لگی۔ تنہائی آپ کو خواب بننا سکھا دیتی ہے۔ میں نے بھی بہت سے خواب بُن لیے۔ مجھے یقین تھا ساری عمر میں صرف خواب نہیں بنوں گی۔ ایک وقت آئے گا جب میری زندگی میں کوئی ایسا شخص ہوگا جو مجھے بہت چاہے گا۔ میری اتنی پروا کرے گا کہ مجھے کبھی دوبارہ تنہا بیٹھ کر خواب بننے نہیں پڑیں گے۔ میں انیس سال کی تھی جب پاپا کی ڈیتھ ہوئی۔ میرا یقین اور گہرا ہو گیا۔ جب اندھیرا بہت گہرا ہو جائے تو پھر اس نے چھٹنا ہی ہوتا ہے۔”
وہ اپنی ہتھیلیوں پر نظریں جمائے اس طرح بول رہی تھی جیسے وہ کوما میں ہو۔ میں اس کا چہرہ دیکھتا رہا جو اس وقت جھکا ہوا تھا۔ فوری طور پر میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ مجھے کیا بتانے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں بس خاموشی سے اس کی بات سنتا رہا۔
”پھر کچھ سالوں کے بعد میں نے تمھیں دیکھا۔ میں تم سے ملی اور مجھے یوں لگا جیسے تم ہی وہ شخص ہو جسے خدا نے میرے مقدر میں لکھا ہے۔ پتا نہیں ہیر نے رانجھے سے کتنی محبت کی ہوگی۔ مجھے یہ بھی پتا نہیں کہ سوہنی نے مہینوال کو کتنا چاہا ہوگا۔ ہاں مگر میں یہ ضرور جانتی ہوں کہ وہ سب میری محبت سے بڑھ کر نہیں ہوگا۔ بس فرق یہ ہے کہ یہ محبت یکطرفہ تھی۔ میں تمھیں چاہتی تھی، تم کسی اور کو۔”
مجھے یوں لگا تھا کسی نے میرے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی تھی۔ میں نے کچھ کہنے کی کوشش کی تھی، وہ سنے بغیر بولتی رہی۔
”میرے پاپا ہمیشہ کہا کرتے تھے۔ انسان کو جیتنا ہے تو قربانی سے جیتو، ایثار سے جیتو۔ میں نے بھی تمھیں ان ہی چیزوں سے جیتنے کی کوشش کی تھی۔ میری عمر پچیس سال ہے۔ پچیس سال میں پچیس کروڑ دفعہ میرا دل چاہا ہے۔ کوئی ملیحہ کو چاہے، صرف ملیحہ کو۔ اس کی دولت، اس کے نام و نسب کو ایک طرف رکھ کر کوئی صرف ملیحہ کی بات کرے۔ مجھے لگتا تھا تم وہی ہو جو یہ کر سکتا ہے جویہ کرے گا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ بعض لوگوں کی قسمت بہت خراب ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ خراب ہی رہتی ہے۔ ان کے ہاتھ کبھی کوئی پارس نہیں لگتا۔ ملیحہ علی بھی ان ہی میں سے ایک ہے۔ میں نے کبھی یہ خواہش نہیں کی کہ میں دوسروں کے خواب اجاڑوں۔ فاروق! کیا تمھیں کبھی اندازہ نہیں ہوا کہ میں خود غرض نہیں ہوں۔ میرا دل اور ظرف دونوں ہی بڑے ہیں؟”
اس نے پہلی بار سر اٹھا کر میری طرف دیکھا تھا۔ مجھے اس کے گالوں پر آنسوؤں کی قطاریں نظر آئی تھیں مگر اس وقت میرے پاس ان آنسوؤں پر غور کرنے کی فرصت نہیں تھی۔ میں تو اس کے سوال پر گھبرا گیا تھا۔
”تم سے شادی سے پہلے اگر ایک بار بھی مجھے یہ پتہ چل جاتا کہ تمہاری نسبت طے ہے اور تم کسی اور سے محبت کرتے ہو تو میں کبھی تمھارے اور شہلا کے راستے میں آنے کی کوشش نہ کرتی۔”
میں ساکت رہ گیا تھا۔ دو ہفتے میں پیچھے کیا ہوا تھا میں جاننے سے قاصر تھا مگر سونے کی چڑیا میرے ہاتھ سے اڑ گئی تھی۔ میں دم بخود اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”تمھیں مجھے بتا دینا چاہیے تھا۔ تمھیں مجھ سے کہنا تو چاہیے تھا۔ تم نے ہر چیز کی بنیاد جھوٹ پر رکھی، مگر اس میں تمہارا قصور نہیں تھا۔ میری غلطی تھی مگر فاروق! بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جنھیں اسی طرح کی شادی کرنی پڑتی ہے۔ ان کی بیوی ان کی پسند کی نہیں ہوتی مگر پھر بھی وہ گزارا کرتے ہیں۔ محبت نہ سہی محبت کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ عشق نہ سہی ترس تو کھاتے ہیں۔ میں نے پچھلے دو ہفتے میں اپنی شادی کے آٹھ ماہ کے ایک ایک لمحے کے بارے میں سوچا ہے۔ میں یہ جاننے کی کوشش کرتی رہی ہوں کہ کب مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔ کوئی ایسی غلطی کہ میں تمھارے دل سے اتر گئی۔ کوئی ایسی غلطی کہ تم مجھ سے چھٹکارا پانے کا سوچنے لگے۔”
میرے پیروں تلے سے پہلی بار زمین نکل گئی تھی۔ میں نے اب کچھ کہنا ضروری سمجھا تھا۔
”ملیحہ تم کیا…” اس نے ہاتھ اٹھا کر میری بات کاٹ دی تھی۔
”میں نے پچھلے آٹھ ماہ میں تمھیں سننے کے سوا اور کچھ نہیں کیا لیکن آج نہیں سنوں گی۔ آج صرف کہوں گی۔ آج تم سنو۔ تم نے میرے ساتھ کیا کیا۔ فاروق تم نے کبھی سوچا ہے، میں نے تم پر کتنے احسان کیے ہیں اگر تم گننے بیٹھو تو تمھیں گھنٹے لگ جائیں گے۔ میں نے تم سے عشق کیا ہے، تمھیں پتا ہے عشق کیا ہوتا ہے؟ اگر ساری دنیا تمھیں چھوڑ دیتی تو صرف میں تھی جو تمھارے ساتھ ہوتی مگر تمھیں تو میرے ساتھ کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ میں نے ان آٹھ ماہ میں ایک بار بھی تمھیں کوئی تکلیف نہیں پہنچائی پھر بھی تم مجھے قتل کرنا چاہتے ہو۔”
”اے خدا کیا سارے انکشافات آج ہی ہونے تھے؟” میں اپنی جگہ پر لرز گیا تھا۔
”عورت سے محبت کیوں کی جاتی ہے؟”
اب وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔
”اس کی خوبصورتی کی وجہ سے، یا اس کی دولت کی وجہ سے، یا اس کے نسب کی وجہ سے، یا اس کی اطاعت کی وجہ سے۔ مجھ میں تو یہ سب کچھ ہی تھا پھر تمھیں مجھ سے محبت کیوں نہیں ہوئی؟” اتنی محبت نہ سہی جتنی مجھے تم سے تھی، تھوڑی سی ہی سہی۔ ایک فیکٹری کے لیے تم مجھے قتل کر دینا چاہتے ہو تاکہ اس کے مالک کہلاؤ۔ مالک تو تم تھے۔ اس ایک گھر کے لیے تم مجھے مارنا چاہتے تھے تاکہ تم یہاں شہلا کو بسا سکو۔”
”ملیحہ! تمھیں کوئی بہت بڑی غلط فہمی ہو گئی ہے۔ تمھیں شاید خود بھی پتا نہیں ہے کہ تم کیا کہہ رہی ہو۔”
”نہیں کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی۔ اب تو کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔ پتا ہے فاروق! اس وقت میں تمھیں اس طرح دیکھ رہی ہوں جیسے لوگ شیشے کے آر پار دیکھتے ہیں۔ تمہارا اندر، تمہارا باہر سب میرے سامنے ہے۔ کچھ بھی چھپا نہیں ہے۔ کم از کم اس وقت تو کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے۔ یہ چیزیں چاہیے تھیں تو آتے میرے سامنے کہتے مجھے۔ ملیحہ، مجھے یہ گھر چاہیے۔ یہ فیکٹری چاہیے۔ میں انکار کرتی تو آخری حربہ آزماتے۔ میں انکار کرتی تب… ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ کم از کم جن سے محبت کرتے ہیں ان کے سامنے یہ سب کنکر پتھر بھی نہیں لگتے۔ ایک فیکٹری کیا میں دنیا دے سکتی تھی تمھارے بدلے، تم ایک بار کہتے تو، مانگ کر دیکھتے۔ کیا چاہیے تھا؟ تمھیں جان چاہیے تھی میری۔ آتے میرے پاس کہتے ملیحہ اس کھڑکی سے کو دجاؤ، یہ خنجر اپنے سینے میں مار لو، اس پھندے سے لٹک جاؤ۔ میں انکار نہیں کرتی، میں انکار کر ہی نہیں سکتی تھی۔”
وہ یک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ میں نے اس کے پاس جا کر کندھوں پر ہاتھ رکھنے چاہیے۔ اس نے مجھے دھکیل دیا۔
”مجھ سے دور رہو۔ میرے پاس مت آؤ۔ مجھے گھن آتی ہے تم سے۔ میں نے تمھیں کیا سمجھا اور تم کیا تھے۔ ہر ایک کو پیسہ کیوں چاہیے ہوتا ہے۔ صرف پیسہ، صرف دولت، وجود کی اہمیت نہیں، انسان کی کوئی حیثیت نہیں۔ صرف فیکٹری، صرف گھر، صرف بنک بیلنس، صرف دولت۔”
وہ اب گھٹنوں کے بل قالین پر بیٹھ گئی تھی۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپایا ہوا تھا۔ مجھے اس وقت وہ ابنارمل لگ رہی تھی شاید مجھے ہی نہیں اس وقت وہ آپ سب کو بھی ابنارمل ہی لگتی۔
”تمھیں چیزیں چاہیے ناچیزیں۔ میں دوں گی تمھیں۔ تمھارے مانگے بغیر، تمھارے کہے بغیر، جیسے لوگ بھکاری کو دیتے ہیں۔ یہ دیکھو پیپرز۔ میں نے سب کچھ تمھارے نام کر دیا ہے۔ یہ فیکٹری، یہ گھر، اپنی ساری جائیداد، سارے اکاؤنٹس، سب کچھ۔”
وہ یک دم کہتے ہوئے الماری کی طرف گئی تھی اور اس نے کاغذات کا ایک ڈھیر میری طرف اچھال دیا تھا۔ میں دم بخود تھا۔ کیا خدا اتنا مہربان ہو سکتا تھا۔ اس وقت میرے دل میں پہلا خیال یہی آیا تھا۔
”اور اس سب کے بدلے مجھے تم سے بس ایک چیز چاہیے، صرف ایک چیز… چھٹکارا، طلاق ابھی اور اسی وقت اس کاغذ پر۔”
سارے کاغذات اچھالنے کے بعد وہ ایک آخری کاغذ ہاتھ میں لے کر میرے پاس آئی تھی اور سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا قلم میرے ہاتھ میں تھما دیا تھا۔ میں چند لمحے اس کے چہرے کو دیکھتا رہا تھا پھر میں نے اس کے ہاتھ سے قلم اور کاغذ پکڑ لیا تھا۔ سائیڈ ٹیبل پر کاغذ رکھ کر میں نے طلاق نامہ لکھ دیا تھا۔
میں جانتا ہوں آپ مجھ پر لعنت بھیج رہے ہوں گے لیکن میں نے کیا غلط کیا اگر خدا پلیٹ میں رکھ کر مجھے کچھ دے رہا تھا تو میں انکار کیوں کرتا۔ آپ میں سے کتنے ہیں جو ایسی صورت حال میں انکار کرتے ہوں گے۔ میں نے کاغذ کو سائیڈ ٹیبل پر ہی رہنے دیا تھا۔ سیدھا کھڑے ہوتے ہوئے میں نے پلٹ کر اس کے چہرے کو دیکھا تھا۔ آپ یقین کریں زندگی میں پہلی دفعہ میں نے کسی کی آنکھوں کو دھواں بنتے دیکھا تھا۔ چند سیکنڈز وہ پلکیں جھپکائے بغیر میرے چہرے کو دیکھتی رہی تھی پھر آگے بڑھ کر اس نے وہ کاغذ اٹھا لیا تھا۔
اس نے وہ کاغذ اپنی مٹھی میں بھینچ لیا پھر قالین پر الٹے قدموں چلتی ہوئی وہ دروازے تک گئی تھی اور جوتا پہنے بغیر نکل گئی تھی۔ میرا خیال تھا وہ جانے سے پہلے کچھ کہے گی۔ اس نے کچھ نہیں کہا تھا۔ مجھے اس وقت وہ ابنارمل لگی تھی۔ پتہ نہیں کیوں لیکن چند لمحوں کے لیے میں اس کے پیچھے آیا تھا۔
وہ ننگے پاؤں تیزی سے سیڑھیاں اترتی جا رہی تھی۔ میں نے اسے آواز دینے کی کوشش نہیں کی بس دیکھتا رہا۔ وہ لاؤنج کا دروازہ کھول کر میری نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ میں تیزی سے اپنے کمرے میں آ گیا۔ کھڑکی کے پردے ہٹا کر میں نے باہر جھانکا تھا۔ گیٹ پر جلنے والی لائٹس میں وہ اسی طرح تیز قدموں سے گیٹ کی طرف جا رہی تھی پھر میں نے چوکیدار کو گیٹ کھولتے اور اسے گیٹ سے نکلتے دیکھا تھا اور پھر… پھر وہ میری نظروں سے اوجھل ہو گئی تھی۔ اس کے بعد میں نے اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔
آپ نہیں جانتے۔ اس کے جانے کے بعد میرا پہلا احساس کیا تھا۔ خوشی کا، بے تحاشا خوشی کا۔ میرا دل چاہ رہا تھا میں رقص کروں، قہقہے لگاؤں، چیخوں چلاؤں۔ میں قتل جیسے بڑے گناہ سے بچ گیا تھا اور میں نے وہ سب کچھ بھی حاصل کر لیا تھا جس کی خاطر میں نے ملیحہ کو مارنے کی کوشش کی تھی۔




Loading

Read Previous

سحر ایک استعارہ ہے — عمیرہ احمد

Read Next

مات ہونے تک — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!