کس جہاں کا زر لیا — عمیرہ احمد

اپنی مڈل کلاس کے دوسرے لوگوں کی طرح مجھے بھی اس زمانے میں بڑے کمپلیکسز تھے اور انہی کمپلیکسز نے مجھے اس سے دور رہنے پر مجبور کیا تھا۔ اس سے کیا بلکہ کلاس اور یونیورسٹی کی ہر لڑکی سے۔ اس زمانے میں مجھے شہلا اور دولت کے علاوہ کسی اور چیز میں دلچسپی نہیں تھی۔ میں دلچسپی لینے کی کوشش بھی کرتا تو بھی میرے لیے ممکن نہیں تھا کہ کسی لڑکی کی طرف پیش قدمی کر پاتا رومانس کرنے کے لیے وقت اور روپے کی ضرورت ہوتی ہے، میرے پاس ان دونوں ہی چیزوں کی کمی تھی اور لڑکیوں کو مائل کرنے کے لیے یہی ہتھیار ہوتے ہیں بہرحال…
مجھے نہیں پتا ملیحہ علی نے کب مجھ میں دلچسپی لینی شروع کی تھی۔ شروع میں مجھے اس کا بالکل اندازہ نہیں ہوا۔ بعد میں یک دم یہ علم ہونے پر میں بہت محتاط ہو گیا کہ وہ میرے دوستوں سے میرے بارے میں معلومات لینے کی کوشش کر رہی تھی۔ میں اپنی ذات میں اس کی دلچسپی کا مقصد جاننے میں ناکام رہا تھا۔ مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ مجھے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں نمودار ہونے والی چمک میں اضافہ ہوتا گیا، اس کے ہونٹوں پر نمودار ہونے والی مسکراہٹ بڑھتی گئی۔ وہ چھوٹی چھوٹی بات پر مجھ سے بات کرنے کے بہانے ڈھونڈتی تھی۔ دوست جہاں میری قسمت پر رشک کر رہے تھے وہاں مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ مجھ سے وقت گزاری کے طور پر فلرٹ کر رہی ہے۔ اس کی کلاس کی لڑکیوں کی بہت سی دلچسپیوں میں یہ تفریح بھی شامل ہوتی ہے۔ میں نے اس سے پہلو بچانے کی بے تحاشا کوشش کی، اسے نظر انداز کرنے کے لیے بھی بہت سے جتن کرتا رہا۔ مگر یہ سب بہت دیر تک ممکن نہیں رہا آہستہ آہستہ میں نے سرینڈر کرتے ہوئے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا۔
میں مانتا ہوں اس دوستی میں اس کی خوبصورتی اور اچھے رویے سے زیادہ اس کی دولت نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ کون تھا جو ایک امیر و کبیر لڑکی کی قربت نہیں چاہتا، جو نہیں چاہتا وہ صرف احمق ہی ہو سکتا ہے اور میں بہرحال احمق نہیں تھا۔ اس کی دوستی نے میرے بہت سے مسائل حل کرنے شروع کر دیے تھے۔ جیسے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ، اس کا ڈرائیور مجھے گھر سے کچھ فاصلے پر اسٹاپ سے پک کیا کرتا تھا اور پھر وہیں چھوڑ جاتا تھا۔ وہ مجھے بے تحاشا تحفے دیا کرتی تھی اور یہ ایسے تحائف تھے جن کا میں نے بس خوابوں میں ہی تصور کیا تھا۔ اس کے ساتھ دوستی کے صرف چھ ماہ بعد میرے صندوق میں رکھے ہوئے تمام ملبوسات میں سے کوئی بھی میرا ذاتی خریدا ہوا نہیں تھا۔ یہی حال جوتوں کی اس لمبی قطار کا تھا جو میری چارپائی کے نیچے دھرے تھے، میرے گھر میں پرفیومز گھڑیوں گلاسز ٹائی پنز اور کف لنکس جیسی چیزوں کا بھی ایک انبار لگ گیا تھا۔ میں جانتا ہوں اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس کے بدلے میں نے اسے کیا دیا آخر تحائف کے بدلے میں کچھ نہ کچھ تو دیا ہی جاتا ہے۔ میں نے بھی بہت دفعہ اسے چھوٹے موٹے تحائف دینے کی کوشش کی مگر ہر بار اس نے انکار کر دیا۔ وہ ہر بار ایک ہی جملہ کہتی۔
”تم سے تحفہ نہیں کچھ اور لینا ہے مگر ابھی نہیں کچھ عرصہ کے بعد۔”





میں ہر بار اس کے جملہ پر غور ہی کرتا رہ جاتا مگر کبھی بھی اس کے اصلی مفہوم کو نہ جان پایا۔ شہلا کو میں نے اس دوستی سے بے خبر رکھا تھا اپنے گھر والوں کی طرح جنھیں میں یہی کہا کرتا تھا کہ یہ سب تحائف مجھے میرے دوست دیتے ہیں۔
شروع کے چند بار کے سوا مجھے پھر کبھی لمبی چوڑی وضاحتوں کی ضرورت نہیں پڑی۔ شہلا کو میں نے اس لیے ملیحہ کے بارے میں نہیں بتایا تھا کہ وہ خوامخواہ حسد کا شکار ہوگی، جبکہ میرے دل میں ملیحہ کے لیے کوئی خاص قسم کے جذبات نہ تھے۔ میں جانتا ہوں یہ جان کر آپ مجھے بہت کمینہ اور گھٹیا سمجھیں گے کہ ملیحہ سے میری دوستی صرف تحائف بٹورنے کے لیے تھی۔ آسائشیں کس کو اچھی نہیں لگتیں خاص طور پر اگر وہ پہلے کبھی نہ ملی ہوں تو پھر اگر میں ان ترغیبات کا شکار ہو گیا تو اس میں میرا کیا قصور تھا۔ بہرحال میں نے بہت دیر تک ملیحہ کے وجود سے گھر والوں اور شہلا کو بے خبر رکھا اور شائد ہمیشہ ہی رکھتا اگر ملیحہ نے اس دن وہ سب نہ کہا ہوتا۔
اس دن یونیورسٹی سے واپسی پر وہ گاڑی خود ڈرائیو کرتے ہوئے مجھے راوی کے کنارے لے آئی تھی۔ بہت دیر تک ہم دونوں باتیں کرتے رہے موسم کی، یونیورسٹی کی، کلاس فیلوز کی، اسٹڈیز کی، گھر والوں کی، وہ بہت عجیب سے موڈ میں تھی۔ پتا نہیں اس دن اسے اپنے ماں باپ کی اتنی بہت سی باتیں کیوں یاد آ رہی تھیں۔ ماں کے بارے میں اس نے سب کچھ باپ سے سنا تھا مگر وہ اس کے بارے میں یوں بات کرتی جیسے یہ سب کچھ اس کے سامنے ہوا تھا میں خاموشی اور کسی قدر اکتاہٹ کے عالم میں اس کی باتیں سن رہا تھا جب اس نے اچانک کہا تھا۔
”پتا ہے فاروق مجھے ہمیشہ یہ لگتا تھا کہ مجھے کبھی کسی سے محبت نہیں ہو گی میں چاہوں تو بھی نہیں مگر پھر بس میں نے تمھیں دیکھ لیا۔”
وہ چپ ہو گئی میں ہکا بکا تھا، اس نے پہلی بار مجھ سے محبت کا اظہار کیا تھا۔ اور وہ بھی یوں کھلم کھلا میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں کیا کروں کیا کہوں، اس نے ایک نظر میرے چہرے پر دوڑائی اور پھر ایک مسکراہٹ اس کے چہرے پر نمودار ہوئی تھی۔
”میں جانتی تھی تم یہ بات سن کر بہت حیران ہو گے مگر یہ سچ ہے مجھے تم سے واقعی محبت ہے۔ کیا تم یقین کرو گے کہ میں سارا دن گھر جانے کے بعد اس انتظار میں گزارتی ہوں کہ کب اگلی صبح آئے اور کب میں یونیورسٹی میں تم سے ملوں، میں یونیورسٹی صرف تمھارے لیے آتی ہوں جس دن تم وہاں آنا چھوڑ دو گے وہ میرا بھی یونیورسٹی میں آخری دن ہوگا۔”
میرے حواس تب تک بالکل معطل ہو چکے تھے میں جیسے سکتے کے عالم میں تھا اور وہ بولتی جا رہی تھی۔ پھر اس نے مجھ سے کہا۔
”فاروق احمد میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں، میں اپنی ساری زندگی تمھارے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں، صرف تمھارے ساتھ۔ کیا تم مجھ سے شادی کرو گے؟”
اس نے پہلی بار بات کرتے ہوئے بڑی لجاجت سے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں اسے کیا جواب دوں، اس وقت میرے سامنے صرف ایک ہی چہرہ تھا شہلا کا چہرہ اور وہ چہرہ میری ساری زندگی تھا۔
”ملیحہ! ابھی میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، میں نے اس بارے میں کچھ سوچا ہی نہیں مجھ پر بہت سی ذمہ داریاں ہیں، میری شادی کا تو ابھی دور دور تک کوئی امکان نہیں۔” میں نہیں جانتا اسے صاف صاف انکار کرنے کے بجائے میں نے اسے یہ سب کیوں کہا، میرے ہاتھ پر اس کے ہاتھ کی گرفت اور سخت ہو گئی تھی۔
”میں جانتی ہوں تم پر ذمہ داریاں ہیں مگر میرے پاس بہت کچھ ہے اور وہ سب کچھ تمہارا ہے، تم جس طرح چاہو اسے استعمال کرنا، مجھے اعتراض نہیں ہوگا۔ مجھے تو صرف تمہاری ضرورت ہے۔ تمہارا ساتھ چاہیے۔” میں کچھ بول نہیں سکا، جانتا تھا اس کے پاس کیا کیا ہے اور مجھے اس ”کیا کیا” کی بہت ضرورت تھی۔ ایک گہرا سانس لے کر میں نے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں۔ اس کا ہاتھ ابھی بھی میرے ہاتھ پر تھا اور مجھے وہ ہاتھ سونے کا محسوس ہو رہا تھا۔
میں نے اسے آس دلائی تھی نہ مایوس کیا تھا بس پھندا گلے میں ڈال کر اسٹول پر کھڑا کر دیا تھا۔
”فاروق! تمھیں یا تمھارے والدین کو مجھ سے کبھی کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ میں ان سب کو اپنا سمجھوں گا۔ ان سے بہت محبت کروں گی، تمھیں یا انھیں اپنے انتخاب پر کبھی پچھتانا نہیں پڑے گا۔”
میں نے اسے پہلی بار ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے نوازا تھا۔
”میں جانتا ہوں دیکھوں گا کیا ہو سکتا ہے۔”
میں نے زندگی میں آج تک کسی کو اتنا خوش نہیں دیکھا، جتنا اس ایک جملے پر ملیحہ کو دیکھا تھا۔ ہم وہاں سے واپس آ گئے۔
اس رات میں سویا نہیں۔ دولت آ کر میرے کمرے کی دہلیز پر رک گئی تھی۔ مجھے اسے صرف اندر لے کر آنا تھا۔ اور اگر کوئی یہ سب کرنے سے روک رہا تھا تو وہ شہلا کا وجود تھا۔ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا، واقعی اس کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا مگر مجھے دولت کی بھی ضرورت تھی میں جیسے ایک دوراہے پر آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔
ملیحہ کے باپ کی ایک ٹیکسٹائل مل تھی۔ اس سے شادی کی صورت میں میں اس مل کا مالک ہوتا اور میرے ہاتھ جیسے الہ دین کا چراغ آ جاتا میں اپنی بہنوں کی شادی کر سکتا تھا۔ اپنے بھائی کو اچھے مقام پر پہنچا سکتا تھا، اپنے ماں باپ کو تمام آسائشیں دے سکتا تھا اور اس کے بدلے مجھے صرف شہلا سے دور رہنا تھا اور یہ قیمت میں ادا نہیں کر سکتا تھا، اگر اس آفر کو رد کر دیتا تو کیا ہوتا۔ چند ماہ بعد فائنل کے امتحانات سے فارغ ہونے کے بعد میں جاب کی تلاش شروع کر دیتا۔ جاب تو مجھے مل ہی جاتی مگر وہ میری زندگی اور میرے حالات کو بدل نہیں سکتی تھی۔ وہ الہ دین کا چراغ ثابت نہیں ہو سکتی تھی اور مجھے یہ سب بھی منظور نہیں تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں اس سے مشکل رات کبھی نہیں گزاری۔
صبح ہونے تک میں ایک فیصلے پر پہنچ چکا تھا۔ میں نے شہلا سے بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا، سب کچھ اسے بتا دیا تھا۔ وہ بہت دیر تک سکتے کے عالم میں رہی تھی اور پھر یوں جیسے اسے میری باتوں پر یقین نہیں آیا تھا۔
”پھر تم کیا کرو گے؟” بہت دیر بعد اس نے مجھ سے پوچھا تھا۔
میں نے آہستہ آہستہ اسے اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تھا۔ وہ جیسے پتھر کا بت بن گئی۔ میرے بہت روکنے کے باوجود پھر وہاں نہیں رکی تھی۔ میں جانتا تھا میں نے اس کے دل کا خون کیا ہے مگر زندگی میں بعض دفعہ آپ کو آگے بڑھنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔
کئی دن میں کوشش کرنے کے باوجود بھی شہلا سے نہیں مل سکا تھا۔ وہ مجھ سے ملنے پر تیار ہی نہیں تھی مگر ایک دن بہرحال میری منت سماجت رنگ لے آئی تھی۔ میں نے اس کے سامنے اپنی مجبوریوں کا لمبا چوڑا نقشہ کھینچ دیا تھا اور وہ مان گئی۔ عورت کی سب سے بڑی خوبی اور خامی یہی ہوتی ہے کہ وہ ”مان” جاتی ہے۔
بہرحال اس کے بعد ملیحہ سے شادی میں مجھے زیادہ عرصہ نہیں لگا تھا۔ چند ہفتوں میں، میں نے اپنے ماں، باپ کو منا لیا تھا اور اس کام میں بھی اہم کردار شہلا نے ادا کیا تھا۔ فائنل کے امتحانات سے فارغ ہوتے ہی میری اور ملیحہ کی شادی طے ہو گئی تھی۔ علیم صاحب ملیحہ کے گارجین تھے اور انھوں نے میرے بارے میں خاصی تحقیق و تفتیش بھی کی تھی مگر پھر ملیحہ کے حق میں اپنا ووٹ ڈال دیا تھا۔ ہماری شادی بہت دھوم دھام سے ہوئی تھی مگر اس شادی پر ملیحہ کے علاوہ درحقیقت کوئی بھی خوش نہیں تھا۔ میں خوش نظر آنے کی ایکٹنگ کر رہا تھا۔ خوش نظر آنا میرے والدین اور گھر والوں کی مجبوری تھی اور علیم صاحب کی ضرورت، کیونکہ وہ آگے بھی فیکٹری کے معاملات اپنے ہاتھوں میں رکھنا چاہتے تھے مگر میں اتنا احمق نہیں تھا۔
شادی کے دوسرے ہفتے میں نے فیکٹری کا نظام سنبھال لیا اور جو پہلا کام میں نے فیکٹری سنبھالنے کے بعد کیا تھا وہ علیم صاحب کے بجائے ایک دوسرے لیگل ایڈوائزر کی خدمات لینا تھا۔ علیم صاحب نے اس پر احتجاج کرنے کی کوشش کی تھی مگر یہ ساری کوششیں ملیحہ نے بیکار بنا دی تھیں۔ اس نے بنا چوں چرا کے میرے ہر فیصلے کو قبول کیا تھا۔ میرے لیے ملیحہ کی طرف داری علیم صاحب کو پسند نہیں آئی تھی اور انھوں نے ہمارے گھر آنا جانا بند کر دیا تھا۔ میں یہی سب چاہتا تھا۔
ملیحہ کے اصرار کے باوجود میں اپنے گھر والوں کو اس کے گھر نہیں لایا تھا بلکہ ان کے لیے میں نے ایک الگ بنگلہ کرائے پر لے لیا تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ بھولے سے بھی کبھی ملیحہ کو میرے اور شہلا کے سابق رشتے کے بارے میں پتا چل سکے اور گھر والوں کے ساتھ ہوتے ہوئے اس قسم کی غلطیوں کا بہت امکان تھا۔
ملیحہ ہر لحاظ سے بہت عجیب لڑکی تھی۔ میں نے کبھی تصور نہیں کیا تھا کہ وہ اس قدر تابعدار قسم کی بیوی ثابت ہو سکتی ہے مگر وہ تھی۔ آپ شاید ہنس پڑیں لیکن یہ سچ ہے کہ میں اگر دن کو دن کہتا تو وہ بھی یہی کہتی اور اگر رات کو بھی دن ہی کہتا تو بھی اسے میری صداقت پر یقین رہتا۔ بعض دفعہ مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے میں اس کی ذات اس کے وجود کا مرکز ہوں اور میں… میں یہی چاہتا تھا۔ کچھ چیزیں انسان کو بنا مانگے ملتی ہیں۔ وہ بھی میرے لیے ایسی ہی ایک چیز تھی۔
شادی کے دو ماہ کے اندر اندر ہی میری دونوں بہنوں کی نسبتیں بہت اچھے گھرانوں میں طے ہو گئی تھیں اور اس میں بھی بڑا ہاتھ ملیحہ کا ہی تھا۔ اگلے تین ماہ میں، میں اپنی بہنوں کے فرض سے سبکدوش ہو گیا تھا۔ شادی کی تقریبات کا سارا انتظام ملیحہ کے ہاتھ میں تھا اور اس نے روپیہ پانی کی طرح بہایا تھا۔ ضرورت کی کوئی چیز ایسی نہیں تھی جو میری بہنوں کے جہیز میں نہیں تھی اور میں یہی چاہتا تھا۔
شادی کے چھ ماہ گزر جانے کے بعد فیکٹری مکمل طور پر میرے ہاتھ میں تھی، لیکن میرے نام نہیں تھی اور ابھی بھی سارے چیکس ملیحہ ہی سائن کرتی تھی، اگرچہ اس نے کچھ اکاؤنٹس میرے نام پہ بھی کھلوا دیے تھے مگر میرے لیے کافی نہیں تھے۔ میں ہر چیز پر اپنا تسلط چاہتا تھا، صرف اپنا تسلط اور میں واضح طور پر اسے یہ سب کہہ کر خود سے برگشتہ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے اس کے سامنے ہمیشہ میں یہی ظاہر کرتا جیسے میں نے فیکٹری صرف اس کی وجہ سے سنبھالی ہوئی ہے ورنہ مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ… وہ اس احسان عظیم کے لیے میری مشکور رہتی۔
میں مختلف فرضی اخراجات کے لیے اس سے لمبے چوڑے چیک سائن کرواتا رہتا اور وہ رقم میرے اکاؤنٹ میں منتقل ہوتی رہتی لیکن اتنا روپیہ بھی مجھے تسلی نہیں دے پا رہا تھا۔ ابھی بہت کچھ تھا جو مجھے کرنا تھا اور بہت کچھ تھا جس کی مجھے ضرورت تھی اور ہاں کچھ چیزیں ایسی تھیں جو اس کی موجودگی میں نہیں ہو سکتی تھیں مگر خیر… میں چیزوں کو بہت اچھی طرح سے پلان کیا کرتا تھا اور یہ ہمیشہ سے ہی میری خوبی رہی ہے۔
مجھے نہیں پتا علیم صاحب کو کب اور کس طرح مجھ پر شبہ ہوا اور کب انھوں نے ملیحہ سے ملاقاتیں شروع کیں اور میرے بارے میں اس کے کان بھرنا شروع کیے۔ مجھے شبہ نہیں ہوا مگر ان دنوں اچانک اس کا رویہ بہت عجیب ہو گیا تھا۔ وہ بہت کنفیوژ سی رہتی۔ بعض دفعہ میری باتوں سے اختلاف بھی کرتی۔ میں چونک گیا تھا۔ میں نے آپ کو بتایا نا کہ میں بہت اچھی پلاننگ کرتا ہوں۔ میں نے اس سے کھل کر بات کی تھی۔ اس نے وہ ساری باتیں کہہ ڈالیں جو علیم صاحب نے میرے بارے میں اسے بتائی تھیں۔ میں نے ساری باتوں کے جواب میں ترپ کا پتہ استعمال کیا اور اس سے کہا کہ اگر اسے مجھ پر شک ہے تو میں اسے طلاق دے کر ابھی چھوڑ دیتا ہوں۔ مجھے کچھ اور کہنے، کچھ اور کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی۔ وہ بچوں کی طرح بلکتی ہوئی مجھ سے لپٹ گئی تھی۔ میں نے سکون کا سانس لیا۔ اس کا اعتماد ایک بار پھر میں نے جیت لیا تھا اور اب مجھے اپنی پلاننگ کے مطابق منصوبے کے دوسرے حصے پر کام کرنا تھا۔




Loading

Read Previous

سحر ایک استعارہ ہے — عمیرہ احمد

Read Next

مات ہونے تک — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!