ڈگریاں — ثناء سعید

ڈگریاں تو اخراجات کی رسیدیں ہوتی ہیں۔ مگر کبھی کبھی زندگی او ر حا لات بھی ایک خاص ڈگری پر چل پڑتے ہیں، نا جانے یہ کون سی خاص رسیدیں ہوتی ہیں جو زندگی اور حالات کے لیے ٹریک کا کام بھی سرانجام دیتی ہیں۔ ویسے زندگی اور حالات کا ایک ہی ڈگری پر چلنے کی ایک خاص وجہ، راستے میں سپیڈ بریکر یا اشارے کی عدم موجودگی بھی ہو سکتی ہے۔ جب ہی تو زندگی اور حالات چلتے ہی جاتے ہیں۔ میرے خیال میں اس صورتِ حال میںسامنے بیریل کے ساتھ ”یہ شاہراہ عام نہیں ”کا بوڈ بھی آویزاں ہونا چاہئے، ورنہ ڈگریوںکے ٹریک کو خراب کرتے ہوئے ڈگریوں کو ٹریک سے اُٹھا کر ان کے لفافے بنا کے ان میں پکوڑے بیچے جانے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتاہے۔ یہ پکوڑے قدر حفظانِ صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہیں، کیا؟؟؟ اس قسم کے پکوڑے پہلی دفعہ غالباً بھٹوصاحب کے دور میں عوام کی خدمت میں پیش کیے گئے۔
پانی بھی جب سو ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچتا ہے تو ابلنے لگتا ہے ۔مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ڈگری بندے کے پاس آتی ہے تووہ ابلتا نہیں، اچھلتا ہے۔ شاید یہ کمال سینٹی گریڈ صاحب کا ہے، ورنہ تو ہر صاحب ڈگری سے دور دور بھاگتے تھے، جبکہ اب تو ڈگری کے پیچھے پیچھے بھاگتے ہیں ۔




کچھ حضرات اسے گلے کا ہاربھی قرار دے دیتے ہیں۔ مگر میں نے کبھی بھی کسی کو ڈگری گلے میںلٹکائے نہیں دیکھا۔ یہ ہی سوال جب میں نے ایک حضرت سے کیا تو جواب ملا:
”ڈگری کا تعویز گلے میں لٹکانے سے کسی مرض سے افاقہ ہونے کا نہیں ،بلکہ ڈگر ی ہولڈر ہونے کا نشہ بڑھ جانے کا سخت اندیشہ ہوتاہے اور پھر انسان کی سوجھ بوجھ کی جگہ پینڈورا باکس کو مل جاتی ہے۔” میں نے کہا،
”نیک بخت اب اس قلم کاری شدہ کا غذ کے ٹکڑے کو اس خوبصورت اور پائیدار فائلوں میں سجا کے، بریف کیسوں اور الماریوں میں سنبھال کے رکھنے کے راز سے بھی پردہ اُٹھاتے چلے جائیں۔” تو کہنے لگے:
یہ سوال نہ اُٹھائو یہ توایک سراغ ہے
وہ ڈگری نہیں الہ دین کاچراغ ہے
رگڑا جو اسے میں نے، گھس پڑامیرا ہاتھ
پھر بھی نہ ملا کوئی آثار ،نہ کسی جن کا سراغ
میں نے نہ تو کبھی الہ دین کا چراغ دیکھا اور نہ ہی ایسی ڈگریاں، مگر یقین مانئے، ڈگریاں بڑی انواع و اقسام کی ہوتی ہیں۔ عام سی مثالوں میں شامل ہیں، ایم اے کی ڈگری، بی اے کی ڈگری، ایم بی بی ایس کی ڈگری، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری وغیرہ وغیریہ ۔ڈ گریوں کی کچھ خاص اقسام درج زیل ہیں۔
بھاری ڈگری:
یہ بڑی لش پش قسم کی ڈگریاں ہوتی ہیں۔ ان کا وزن بہت زیادہ ہوتا ہے لہٰذا انہیں حاصل کرنے کے لیے سخت محنت درکار ہوتی ہے یہاں تک کہ لینے والے کودینے تو نہ پڑیں، لیکن اس کے دانتوں تلے پسینہ ضرور آجائے۔ ویسے دانتوں تلے زبان آجانے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے مگر اس کا ذکر ابھی تھوڑی آگے جا کے کرتے ہیں۔۔ان ڈگریوں کا وزن زیادہ ہونے کی وجہ بہت ہی اعلیٰ نمبر ہیں۔مگرکبھی کبھی ان کا وزن اتنا بڑھ جاتا ہے کہ یہ ڈگری ہولڈر کو ٹوٹے ہوئے برش ہولڈر سے بھی بدتر حالت میں پہنچادیتی ہیں اور وہ بے چارہ کسی موٹے تازے بھینسے کو کھینچ کھینچ کے کھائی سے باہر لانے کی کوشش میں نڈھال ہوجاتا ہے ۔۔۔ خاص طور پر انٹرویو کے موقعے پرذرہ انیس بیس ہو جائے تو اس بے چارے کے وانتوں تلے زبان ہی آجاتی ہے، بے چارہ وزن اُٹھاتے اُٹھاتے حواس باختہ ہو جاتا ہے۔ اس قسم کی ڈگریاں کئی دفعہ اپنے ساتھ گولڈمیڈل بھی لے اُڑتی ہیں، ہوتا تو یہ گلے کاپھندہ ہے، پر پتا نہیں لوگ اسے کیوں اتنا پسند کرتے ہیں۔
طاقتور ڈگری:
یہ ڈگری کی وہ قسم ہے جو بھاری ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی ، الغرض ڈگری کسی بھی طرح کی ہو، شرط یہ ہے کہ ڈگری میں بڑا دم ہونا چاہیے۔ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں، پانی سر سے کتنا ہی اوپر کیوں نا جانے کی کوشش کرے، یہ ڈگریاں ڈگری ہولڈر کو ڈوبنے نہیں دیتیں۔ ایسے ڈگری ہولڈر ٹیلی فون ہو لڈر کی طرح ہر وقت چوکنا رہتے ہیں، جیسے ہی انہیں اپنے لیے کوئی سگنل ملے فوراً رسپانس اور وہ بھی پٹر پٹر، حالات وضروریات کے من وعن۔۔۔۔




Loading

Read Previous

پہلی محبت آخری بازی — شیما قاضی

Read Next

بس کا دروازہ — نوید اکبر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!