ٹی وی لاؤنج — ثاقب رحیم خان

”بی بی جی مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے۔” ملازمہ نے اسٹول پر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
”اری فضیلت! میں جو کھڑی ہوں ساتھ میں، اللہ کا نام لے کر کاٹ اس سے پہلے کہ کوئی آجائے۔” بڑی بی نے اسے پلاس تھماتے ہوئے کہا۔ فضیلت نے کانپتے ہاتھوں سے ٹیلی فون کی تار کاٹی اور اس کے سروں کو پائپ کے نیچے پھنسا دیا تاکہ کسی کو شبہ نہ ہو۔ یہ کارنامہ انجام دیتے ہی دونوں وہاں سے چلتی بنیں۔ فضیلت کپڑے رکھنے والی ٹوکری اٹھا کرواشنگ ایریا کی طرف چلی گئی جب کہ بڑی بی تماشا دیکھنے نیچے ٹی وی لاؤنج میں آگئیں۔
”معاذ! نیٹ چل رہا ہے تمہارا؟”عمار بھائی نے لاؤنج میں آکر پوچھا۔
”میرا بھی ڈس کنیکٹ ہوگیا ہے۔” عروبہ جو قریب ہی ڈائننگ میں لیپ ٹاپ لیے بیٹھی تھی، بولی۔
انٹرنیٹ کی اچانک معطلی سے پریشان معاذ اور اسامہ بھی اپنے کمرے سے باہر آگئے۔ غرض کہ چند لمحوں میں گھر کے تمام افراد اپنے اپنے کمروں سے نکل کر ٹی وی لاؤنج میں جمع ہوگئے۔
”ڈیٹا پیکیج تو ختم نہیں ہوگیا؟” عمار بھائی نے استفسار کیا۔
”ہو ہی گیا ہوگا۔ ہر وقت تو ڈاؤن لوڈنگ لگا کر رکھتے ہیں معاذ اور اسامہ۔” عروبہ نے دہائی دی۔
”ہاں تم تو جیسے استعمال ہی نہیں کرتیں۔ جن کورسز میں رجسٹر نہیں بھی کیا ہوا ، وہ کتابیں بھی ڈاؤن لوڈ کی ہوئی ہیں تم نے۔” اسامہ نے جوابی وار کیا۔
”ارے نان ٹیکنیکل لوگو! کوئی معقول بات کرو۔ اگر ڈیٹا پیکیج ختم ہوتا تو لمیٹڈ نیٹ ورک لکھا آتا، ڈس کنیکٹ کیوں ہوتا۔” معاذ جس نے حال ہی میں بیچلرز اِن کمپیوٹر سائنس میں ایڈمیشن لیا تھا، ناگوار ی سے بولا۔
معاذ کی بات ٹھیک تھی اسی لیے کسی نے مزید بحث نہ کی۔اپنے تئیں جانچ کرنے کے بعد وہ سب اسی نتیجے پر پہنچے کے ٹیلی فون لائن ڈیڈ ہوگئی ہے اور شکایت درج کروانے کے علاوہ وہ مزید کچھ نہیں کر سکتے۔ فضیلت نے بہت ہوشیاری سے ساکٹ سے دور تار کاٹی تھی۔ شکایت درج کروانے کے بعد بھی وہ لوگ ٹی وی لاؤنج میں ہی موجود رہے۔ دادی نے موقع غنیمت جان کر کہا:
”اے بیٹا اسامہ! ذرا ٹی وی تو چلانا۔”اسامہ نے حکم کی تعمیل کی۔




”یہ ڈراما ابھی تک چل رہا ہے؟ تین سے چار مہینے ہوگئے آخری بار ٹی وی دیکھے، کوئی سو اقساط تو ہو گئی ہوں گی اس کی۔” عمار بھائی بولے۔
”نہیں! یہ تو نشرِمکرر ہے۔ کب کا ختم ہوگیا یہ تو، میں نے اس پر تنقیدی مضمون بھی لکھا تھا ایک ای میگزین میں۔” معاذ نے جواب دیا۔
”اچھا؟ واہ! بتایا نہیں۔” عمار بھائی نے فخریہ انداز میں کہا۔
”ارے ساتھ بیٹھتے ہی کب ہو جو ایک دوسرے کی کچھ بات کرو گے۔” دادی جھٹ سے بولیں جیسے موقع کی تلاش میں ہوں۔
دادی کا جواب سن کر سب جھینپ سے گئے۔عمار بھائی نے خجالت سے کہا:
”ہاں یاد آیا، تم نے فیس بک پر پوسٹ کیا تھا وہ لنک۔”
اس کے بعد سب خاموشی سے ڈراما دیکھنے لگے، مگر اسامہ زیادہ دیر ضبط نہ کر پایا اور ایک عدد طنزیہ جملہ ڈرامے کی ہیروئن پر کس دیا۔ عروبہ نے بھی اسامہ کا بھرپور ساتھ دیا اوردیکھتے ہی دیکھتے ان چاروں نے مل کر اسکرین پر چلنے والے اس افسردہ سین کی وہ درگت بنائی کہ دادی بے اختیار گئے دنوں کی یاد میں کھو گئیں۔
اپنے بڑے بیٹے کے کینیڈا منتقل ہوجانے کے بعدفہمیدہ بیگم جب اپنے چھوٹے بیٹے سلیم کے گھر لاہور آئیں تو وہ کئی خدشات کا شکار تھیں جن میں سے اوّل دل نہ لگ پانا تھا، مگر سلیم صاحب کے چار بچوں عمار ، عروبہ، معاذ اور اسامہ اور عمار کی اہلیہ سدرہ نے ان کا یہ خدشہ مکمل طور پر دور کر دیا۔ دن میں تو عمار آفس، عروبہ یونیورسٹی اور معاذ اور اسامہ کالج ہوتے اور دادی کا وقت سدرہ اور اپنے پڑپوتے کے ساتھ کسی طرح گزر جاتا، تاہم یہ سب جب شام کو جمع ہوتے تو خوب محفل جمتی۔ طنزومزاح کا دور چلتا۔ حاضر جوابی اس کنبے کا خاصا تھی اور اب سدرہ بھی ان میں رچ بس گئی تھی۔عمار جوکہ اوّل درجے کا نقال تھا، عروبہ کے ہونے والے سسرالیوں کی ایسی عمدہ نقل اتارتا تھا کہ ان کی والدہ، خالدہ سلیم ، عمار کو ظاہری طور پر ڈانتے ہوئے خود بھی بے اختیار ہنس پڑتی تھیں۔ ہر ٹی وی سیریل کی وہ ایسی مٹی پلید کرتے کہ سیریل سے زیادہ ان کی تبصرہ نگاری محظوظ کرتی تھی۔
پچھلے سال موسمِ سرما میں ہونے والی گیس کی لوڈ شیڈنگ نے ان کی محافل کو پہلے انقطاع سے دو چار کیا۔ گیس ہیٹر کے بنا ایک بڑے ٹی وی لاؤنج جس کی ایک کھڑکی سہی سے بند نہ ہوتی تھی، میں بیٹھنا قدرے مشکل کام تھا اور وہ بھی بنا چائے کافی کے۔انگیٹھی رکھ کر چھت کا پینٹ خراب کرنے کی اجازت خالدہ نے نہیں دی۔ موسمی نزلے کی شکار دادی ، رخصت ہونے والی سب سے پہلی رکن تھیں اور عقبی حصے میں موجود کمرا جس میں سرِ شام کوئلوں کی انگیٹھی رکھ دی جاتی، ان کا مستقل ٹھکانا قرار پایا۔کچھ دن وہ چاروں مختصر وقت کے لیے دادی کے کمرے میں ہی جمع ہوتے رہے، مگر پھر یہ سلسلہ بھی تب منقطع ہوگیا جس دن عروبہ کی منگنی کی انگوٹھی گھر والوں نے لوٹا دی۔ جہیز کے نام پر پانچ مرلے کے مکان کا مطالبہ کرنے پر گھر والے تو برہم تھے ہی، عمار نے شدید مخالفت کر کے منگنی ہی ختم کرنے کی تجویز دے دی۔ عروبہ نے تو کمرے سے نکلنا ہی بند کر دیا۔ نکلتی بھی تھی تو اس بات کا خیال کر کے کہ عمار سے سامنا نہ ہو، سدرہ کی بات کا وہ خود جواب نہیں دیتی تھی۔ یونیورسٹی میں ایڈمیشن ہوجانے کے بعد معاذ نے بھی زیادہ تر وقت گھر سے باہر یونیورسٹی یا پھر ہوسٹل میں نئے دوستوں کے ساتھ گزارنا شروع کردیا۔ چھٹی والے دن گھر ہوتا بھی تو اپنے کمرے میں رہتا۔
دادی کو اس بات کا شدت سے احساس تھا، تاہم ان کا خیال تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ تلخیاں مٹ جائیں گی اور موسم بدلتے ہی، یہ سب مینڈک اپنے بلوں سے باہر آجائیں گے مگر بڑی بی کیا جانتی تھیںکہ مینڈکوں نے تو بلوں کے اندر ہی اپنی تفریح کا سامان کر لیا تھا۔ گو کہ کمپیوٹر اور ایکس باکس وغیرہ ان کے پاس پہلے بھی تھے، مگر خلوت اور انفرادیت کا یہ ملاپ، ان کے لیے نیا تھا۔شخصی میل جول کی نسبت آن لائن روابط انہیں زیادہ دل کش نظر آئے۔معاذ کے ساتھ ساتھ اسامہ بھی کمرے میں ہی قید رہنے لگا۔ ایک دن دادی نے عروبہ سے پوچھ ہی لیا:
”بیٹا عروبہ، یہ season موسم کو ہی کہتے ہیں نا؟”
”جی دادی، کیوں؟” عروبہ نے پوچھا۔
”بیٹا تو یہ معاذ اور اسامہ کیا ہر وقت ایک دوسرے کو season دیکھنے کا کہتے رہتے ہیں، کوئی معلوماتی پروگرام ہے کیا؟”
عروبہ دادی کی بات پر کھلکھلا کر ہنسی۔ دادی کو یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ کم از کم اس کے چہرے پر خوشی تو نظر آئی۔
”نہیں دادی! یہ بھی ڈرامے ہی ہوتے ہیں انگریزی زبان میں۔ بس ان کی ہر سال اقساط جاری ہوتی ہیں، یعنی ہر season میں نئی اقساط۔ ہمارے دیسی انگریزوں نے ان کا نام ہی seasons رکھ لیا۔”
دادی انہی یادوں میں کھوئی تھیں کہ عروبہ کی ہی آواز سے دوبارہ حال میں واپس آگئیں۔
”عاصم کی ایک اور جگہ منگنی ہوگئی۔”
”کیا؟” تقریباً سب نے یک زبان ہوکر کہا۔
”ان سے دس مرلے کا مکان مانگا ہے۔” عروبہ نے مسکرا کر کہا۔
”انہیں رشتہ ڈھونڈنے شادی دفتر کی بہ جائے رئیل اسٹیٹ ایجنٹ کے پاس جانا چاہیے؟” عمار نے ڈرتے ڈرتے شگوفہ چھوڑا۔
بہت عرصے بعد اس ٹی وی لاؤنج میں ایک قہقہہ بلند ہوا۔ یہاں تک کہ خالدہ نے بھی ایک لمحے کے لیے کچن سے نکل کر لاؤنج میں دیکھا اور پھر مسکرا کر سب سے پوچھا:
”چائے پیو گے؟”
”اتنی گرمی میں چائے؟ سکنجبین پی جا سکتی ہے۔” عروبہ نے جواب دیا۔
”جا کر خود بنائیے۔” اسامہ نے لقمہ دیا۔
”بالکل! کچھ سیکھ لو۔ جب تک ہم دس مرلے کے مکان کے پیسے جمع کریں۔” معاذ نے چٹکی بجائی۔
”جی نہیں ، کوئی ضرورت نہیں ہے ایسے لالچی ہم سفر کی مجھے۔” عروبہ کچن کی طرف جاتے ہوئے بولی۔
”او ہو!!!” سب نے ہم آواز کہا۔
فضیلت لاؤنج میں آئی اوردبی سی مسکراہٹ کے ساتھ دادی سے کہا:
”اچھا بڑی بی بی جی میں جا رہی ہوں۔”
”ٹھہر! ذرا میرے کمرے تک چل، کام ہے تجھ سے ذرا۔” دادی نے صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا۔
کمرے کی طرف جاتے ہوئے دادی نے ایک ستائشی نظر اس گھر کی گم شدہ ہنسی پر ڈالی اور یہ سوچتے ہوئے آگے بڑھ گئیں کہ کبھی کبھی کتنے معمولی عمل رشتوں میں آنے والی دراڑوں کو پر کر دیتے ہیں۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۵ (آخری قسط)

Read Next

راندۂ درگاہ — قرۃ العین مقصود

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!