میں کون ہوں —- مائرہ قیصر

میں اس وقت جس جگہ پر موجود ہوں وہ میرا کمرہ ہے، جہاں فی لحال نیم تاریکی ہے۔ کمرے کا احاطہ خاصہ تنگ ہے۔ عقبی دیوار پر موجود ایک ننھے سے روشن دان سے ہلکی ہلکی روشنی چھن کر داخل ہو رہی ہے۔یہ کمرہ ہرطرح کے فرنیچر سے عاری ہے۔ ممکن ہے آپ کو یہ عجیب لگ رہا ہو مگر مجھے فرنیچر میں کوئی خاص دل چسپی نہیں ہے۔ مجھے اپنے کمرے سے خاصا لگائو ہے، بس یہ مکھیوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔
میرا نام جاننے کی آپ کو ضرورت نہیں، اور لوگ مجھے کس نام سے جانتے ہیں وہ میں آپ کو بعد میں بتائوں گا۔ فی لحال میں آج آپ کے ساتھ ایک گیم کھیلنا چاہتا ہوں، مجھے یقین ہے آپ اب تک میرے بارے میں بہت متجسس ہو چکے ہوں گے کہ میں آخر کون ہوں اور آپ سے کیا چاہتا ہوں؟ تو بس! کمر کس لیجئے کیوں کہ اس گیم میں میں آپ کو اپنے حوالے سے کچھ اشارے دوں گا، بس آپ کو ان اشاروںکا صحیح استعمال کرتے ہوئے میری شناخت تک رسائی حاصل کرنی ہے۔ گیم کا نام بتانا تو میں بھول ہی گیا، اس گیم کا نام ہے ”میں کون ہوں؟” کیا آپ کھیلنے کے لیے تیار ہیں؟تو پھر چلئے شروع کرتے ہیں۔
تو پہلا اشارہ یہ ہے کہ مجھے اندھیرے سے کچھ خاص ڈر نہیں لگتا بلکہ کبھی کبھی یوں خود کو تاریکی میں چھپائے رکھنا مجھے اچھا لگتا ہے۔ لیکن آپ ڈریں نہیں، میں کوئی جن یا بھوت نہیں ہوں۔





دوسرا اشارہ یہ ہے کہ مجھے قدرت کے حسین مناظر کو دیکھنا بہت پسند ہے۔ قدرت بڑی خوب صورت چیز ہے جسے سراہے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ مگر یاد رہے میں کوئی شاعر ہوں نہ کوئی ادیب، جو ان کرشموں کی تعریف میں آسمان و زمین کے قلابے ملا دیتے ہیں یا بھاری بھرکم الفاظ سے آراستہ جملوں کے پل باندھ دیتے ہیں۔
تو پھر میں کون ہوں ؟ ارے کچھ انتظار فرمائیے! ابھی گیم باقی ہے۔۔۔ مجھے اچانک ٹھنڈ لگنے لگی ہے، حالاں کہ آج تو شاید گرمی ہے، مگرفی لحال میرے پاس خود پر اوڑھنے کے لیے کوئی چادر بھی نہیں ہے، خیرہم اگلے اشارے کی طرف چلتے ہیں۔
دوسرا اشارہ یہ ہے کہ۔۔۔دوسرا یا تیسرا؟ جو بھی ہے، میں ایک صاف گو انسان ہوں، کوئی بات یا کوئی چیز اچھی نہ لگے تو میں بڑے دھڑلے سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر دیتا ہوں۔کروں بھی کیوں نہ؟ اگر ایک چیز دل کو نہیں بھا رہی تو کیا جھوٹ بول دوں؟ ہر گز نہیں ! لیکن جناب میں کوئی قنوطی نظریات رکھنے والا شخص نہیں ہوں۔۔۔خیر! آپ نے اگر ایسا سوچ بھی لیا تو کوئی بات نہیں۔
تیسری اور عجیب چیز یہ ہے کہ مجھے نیند بہت کم آتی ہے۔رات کو سکون کی نیند سونا میرے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ مجھے بھوک بھی بہت کم لگتی ہے۔ اب میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے کچھ لوگ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے یا تو کوئی بہت بڑا گناہ سر زد کیا ہے یا پھر میں کوئی سر پھرا عاشق ہوں جو اپنے محبوب پر دل، ذہن اور نیند سب وار کر خود تہی دامن بیٹھا رہتا ہے۔ تو آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ نہ تو میں نے کوئی ایسا ناقابلِ معافی گناہ کیا ہے جس کا پچھتاوا مجھے سونے نہ دیتا ہو، اور نہ ہی میں کوئی عاشق ہوں جو ہر وقت محبوب کی یاد میں محور ہے۔بے بسی کے انسانی زندگی میں اور کئی مراحل آتے ہیں، جب وہ کھا نہیں پاتا، سو نہیں پاتا، مگر بے بسی سے تو مایوسی جنم لیتی ہے اور مایوسی تو گناہ ہے۔
او ہو! میں بھی کیا باتیں لے کے بیٹھ گیا۔اور یہ پانی کہاں ہے؟ مجھے پیاس لگ رہی ہے۔





اچھا تو میں کیا کہ رہا تھا؟ ارے ہاں مجھے آپ کو کچھ بتانا تھا۔۔۔کیا بتانا تھا؟۔۔۔خیر جب یاد آئے گا تب بتا دوں گا، فی لحال اگلے اشارے کی طرف چلتے ہیں۔
تو اگلا اشارہ یہ ہے کہ میں سوچتا بہت ہوں۔ خیالات کا ایک الجھا ہوا گچھا میری عقل کی کھونٹی سے ہر وقت بندھا رہتا ہے، کوئی نہ کوئی سوچ، کوئی نہ کوئی خیال مجھے پاگل کیے رکھتا ہے اور میں زیادہ تر وقت ان کے سرے تلاش کرنے میں گزار دیتا ہوں۔یہ خیالات ذہن کے سارے بند توڑکر ایک تواتر سے بہتے چلے جاتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا۔۔۔اور میں سوچتے سوچتے نجانے کہاں چلا جاتا ہوں۔اور اب مجھے یقین ہے آپ کو لگ رہا ہو گا کہ میں ضرور کوئی فلاسفر ہوں، مگر معذرت کے ساتھ، آپ ایک بار پھر غلط ہیں۔ میں کوئی فلاسفر بھی نہیں جو اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے آسمان پہ ٹمٹماتے ستاروں اور زمین کی خاموش گردشوں میں پنہاں مختلف رازوں کے خزانوں کو ابلتا دیکھتے ہیں۔
یہ بیل پھر بجنے لگی، میں نے منع بھی کیا تھا کہ اس وقت مجھے کوئی ڈسٹرب نہ کرے۔۔۔خیر میں اس مسئلہ سے بعد میں نمٹ لوں گا۔ابھی ہم کیا بات کر رہے تھے؟ ارے ہاں! مجھے تو آپ کو کچھ بتانا تھا،مگر یاد ہی نہیں آرہا۔ چلیں کوئی بات نہیں، یاد آتے ہی بتا دوں گا۔
اگلا اشارہ یہ ہے کہ میں کھلی آنکھوں سے بھی خواب دیکھ سکتا ہوں اور اپنی ذہنی صلاحیتوں کا استعمال کرکے ایک رنگین دنیا اپنی آنکھوں کے سامنے سجا سکتا ہوں۔ جس میں ہر چیز میری مرضی کی تابع ہوتی ہے۔ ہے نا مزے کی بات؟ کیا کہا؟ جادوگر؟۔۔۔ ارے نہیں جناب! میں کوئی جادوگر نہیں جو اپنی ہوشیاری سے سراب کو حقیقت بنا کر پیش کروں۔ مجھے بھلا ان بیکار کے ٹرکس کی کیا ضرورت جب ذہن اتنی قابلِ رشک صلاحیتوں سے مالامال ہو؟
ارے ہاں! یاد آیا مجھے تو چائے پینی تھی، چائے پینی تھی یا پانی چلیں؟ چھوڑیں اس بات کو۔
میں زیادہ تر اسی طرح اپنے کمرے میں بیٹھا رہتا ہوں۔ باہر آنا جانا بہت کم ہوتا ہے، وہ بھی تب جب آس پاس کے لوگ زبردستی اٹھا کر باہر لے جائیں، لیکن میں تنہائی پسند بھی نہیں ہوں۔
میں باتیں بہت جلدی بھول جاتا ہوں، ظاہر ہے جب اتنا کچھ سوچوں گا تو کچھ نہ کچھ تو بھولوں گا ۔ مگر آپ فکر مت کیجیے مجھے الزائمر ہے نہ ہی کوئی اور بیماری۔۔۔تو پھر میں کون ہوں؟ آپس کی بات بتائوں؟ میں بھی یہی سوچ رہا ہوں۔۔۔مگر دیکھیں آپ مجھے جو مرضی سمجھ لیں لیکن یاد رکھیں کہ میں پاگل نہیں ہوں۔
ارے ہاں! یاد آگیا، لوگ مجھے پاگل کے نام سے جانتے ہیں۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

علی پور کا ایلی —— محمد فہدخان چغتائی

Read Next

انگوٹھا چھاپ —- عائشہ تنویر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!