مصطفیٰ — اُمِّ زینب

مجھے اپنی ایک بات جو سب سے زیادہ اچھی لگتی ہے و ہ یہ کہ میں اپنی لاکھ مصروفیات کے باوجود اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے ضرور جوڑے رکھتی ہوں بلکہ یہاں یہ کہنا مناسب ہو گا کہ اچھے تعلقات بنانے کی کوشش کرتی رہتی ہوں۔ اس کی دو خاص وجوہات ہیں، ایک مصطفی اور دوسری کہ یا اللہ! میرے پاس بہت سارا پیسا آجائے۔ اب آپ ہی بتائیں یہ دونوں چیزیں تو مجھے اکٹھی اللہ تعالیٰ ہی دے سکتا ہے۔
جب سے مصطفی میری زندگی میں آیا ہے نجانے کیوں آنکھ کھلتے ہی میرے ذہن میں آدھمکتا ہے اور جب تک میں سو نہیں جاتی کوئی لمحہ ایسا نہیں ہو تاکہ اس کی یاد میرے ساتھ نہ ہو، مگر پھر بھی صبح صبح میں ایک اچھی مسلمان بننے کی کوشش کرتی ہوں۔ کلمہ پڑھ کر اٹھتی ہوں کہ کہیں اللہ تعالیٰ مجھ سے ناراض نہ ہو جائے اور آج میری اور مصطفی کی کوئی لڑائی نہ ہو جائے یا ہمیں کوئی اور پریشانی نہ آجائے۔




مصطفی… مصطفی… مصطفی! آخر یہ مصطفی میری زندگی میں اتنا اہم کیوں ہے؟ کون ہے یہمصطفی؟
جی ہاں ٹھیک سمجھے آپ میری زندگی مصطفی سے شروع ہو کر مصطفی پر ہی ختم ہوتیہے۔
دو سال پہلے میری ملاقات مصطفی سے اس کے گھر پر ہوئی۔ میری سہیلی انیتا جس بلڈنگ میں رہتی تھی، مصطفی کا فلیٹ بھی اسی بلڈنگ میں تھا۔ میں اور انیتا اس کے گھر گئیں کہ انیتا کو اپنا لیپ ٹاپ ٹھیک کروانا تھا۔ مصطفی کمپیوٹر سے متعلق ہر طرح کا کام جانتا تھا مجھے وہ بہت ہی سلجھا ہوا انسان لگا پھر میری دوسری ملاقات اس سے تب ہوئی جب اس کے ابو کا انتقال ہوا۔ اس وقت مجھے وہ اپنے جیسا لگا، بہت ہی بے بس اور اکیلا۔ میں آٹھ سال کی تھی اور میری چھوٹی بہن ایک سال کی جب میرے ابو فوت ہو ئے تھے۔ مجھے آج بھی وہ تکلیف یاد آتی ہے، جو مجھے اپنے ابو کے فوت ہونے پر ہوئی تھی تو میرا دم گُھٹنے لگتا ہے۔
میں اپنی بہن کے ساتھ مصطفی کے گھر کھانا لے کر گئی۔ آج تیسرا دن تھا۔ میں اس کے گھر روز کھانا لے کر جاتی تھی۔ اس کے سب رشتے دار جا چکے تھے۔ ویسے تو اس کی امی روز کھانا لیتی تھیںلیکن آج اس کی امی سو چکی تھیں۔
”آپ تکلیف نہ کیا کریں ہم کل سے خود ہی پکا لیا کریں گے، دو لوگ ہی تو ہیں ہم۔” مصطفی نے شکر گزار سا ہوکر کہا۔
” کوئی بات نہیں! کچھ دن ہم کام آجائیں گے تو کیا فرق پڑے گا۔ بعد میں ساری زندگی آپ نے خود ہی کرنا ہے اور ہمسائے کس لیے ہوتے ہیں۔” میں نے اسے ٹرے پکڑاتے ہوئے کہا۔
اس نے مجھے بیٹھنے کو کہا۔ میں بیٹھ تو گئی لیکن بات کرنے کے لیے میرے پاس کوئی اور موضوع نہ تھا۔ پھر میں نے اسے اپنے ابو کے فوت ہونے کی تھوڑی بہت تفصیل بتائی اور اس کا دل ہلکا کرنے کے لیے اس کے ابو کے بارے میں بہت ساری باتیں پوچھیں۔ میں اس کے درد کو اپنے دل سے محسوس کر سکتی تھی اور جانتی تھی کہ اس کڑے وقت میں اسے ایک دل کی بات سُننے والے کی اشدضرورت ہے۔
اس رات گھرآکر میں بہت دیر تک اس کے بارے میں سوچتی رہی ۔وہ مجھے بہت اپنا اپنا سا لگا۔ یہ بڑھتی عمر کا تقاضا تھا یا شاید اس لیے کہ اس کا اور میرا دکھ ایک جیسا تھا بلکہ شاید نہیں یقینا ایسا ہی تھا۔ وہ مجھے اچھا بھی لگنے لگا۔ مجھے لگا بغیر اجازت ہی وہ میرے دل میں گھر کرتا چلا جا رہا تھا جب کہ میں نے ہمیشہ یہی سوچا تھا کہ میں کسی امیر کبیر آدمی سے محبت کروں گی۔ اکثر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی لڑکیاں سوچتی ایسا ہی ہیں۔ مگر یہ بات آج حقیقت بن کر میرے سامنے آگئی کہ محبت کی نہیں جاتی بلکہ محبت ہو جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہو گئے۔ میں جس ڈیپارٹمنٹل اسٹور میں کام کرتی تھی وہاں اکائونٹس میں مصطفی کو بھی میرے کہنے پر جاب مل گئی۔ ہم روز بس پر اکٹھے ہی جاتے اور شام کو اکٹھے واپس آتے۔
یہ اسٹور کراچی ڈیفنس میں واقع تھا۔ اس سپر سٹور میں ہماری ڈیوٹی صبح آٹھ بجے سے رات آٹھ بجے تک تھی۔ ہر پندرہ دن بعد ہمیں ایک چھٹی ملتی تھی۔ روز شام کو میں اور مصطفی کچھ دیر ایک کیفے میں بیٹھ کر کافی پیتے۔ کبھی کبھی میں سوچتی تھی کہ ہم ہر روز ساتھ ہوتے، ساتھ آتے جاتے اور رات کو دیر تک فون پر بات بھی کرتے ہیں، مگر پھر بھی ہماری باتیں ختم کیوں نہیں ہوتیں؟لیکن شاید اسی کو انڈرسٹینڈنگ کہتے ہیں۔




میرے ابو کی وفات سے پہلے ہمارے حالات بہت اچھے تھے پھر اچانک پتا چلا کہ انہیں کینسر ہو گیا ہے۔ شروع میں انہوں نے میری امی سے یہ بات چھپائی، مگر جب تکلیف حد سے بڑھنے لگی تو انہوں نے امی کو بتا دیا۔ انہی دنوں میری چھوٹی بہن پیدا ہوئی تھی۔ اسی ایک ڈیڑھ سال کے اندر ابو کی جاب تو گئی ساتھ ہی ان کے علاج پر بہت سا پیسا بھی لگ گیا۔ میرے ابو ہمیشہ امی کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے تھے مگر ان حالات میں وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرنے لگے۔ کچھ پیسے انہوں نے بینک میں جمع کروا دیے کہ اس کا منافع آئے گا، تو گھر کا کچن چلتا رہے گا۔ مجھے یاد ہے ابو سو بھی جاتے تو امی ان کے پاس بیٹھ کر قرآنی آیات پڑھتی رہتیں خیر اللہ کو جو منظور تھا ہونا تو وہی تھا۔ ابو ہمیں اکیلا چھوڑ کر چلے گئے اور ایک سال کے اندر ہی ہمارا شمار مڈل کلاس سے سفید پوش افراد میں ہونے لگا۔ وہی رشتہ دار جو ہمارے ساتھ خوشی سے ملتے اب ہمارے رابطہ کرنے پر بھی بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے گو کہ میں تب صرف آٹھ سال کی تھی مگر اس سال نے مجھے یہ بات بہت اچھی طرح سمجھا دی کہ ہماری زندگی میں پیسے کی بہت اہمیت ہے۔
امی کو اپنے دکھ شیئر کرنے کے لیے کوئی نہیں ملتا تھا۔ ابو نے تو انہیں شہزادیوں کی طرح رکھا ہوا تھا۔ ایک دن میں اسکول سے واپس آئی تو امی کمرے میں فرش پر گری ہوئی تھیں۔ میں پڑوسیوں کے ساتھ مل کر انہیں ہاسپٹل لے کر گئی۔ وہاں جا کر پتا چلا کہ ان پر فالج کا شدید اٹیک ہوا ہے۔ امی گھر تو آگئیں، مگر اب وہ صرف بیڈ پر ہی تھیں۔ شروع شروع میں مجھے اپنی ہی ماں کی ماں بن کر تیمار داری کرنابہت مشکل لگا ۔ وہ بس زندہ تھیں اور اس وقت کی صورت حال میں میرے لیے یہ بھی غنیمت تھا۔
میں وقت کی اس خوبی کو سراہے بغیر نہ رہ سکی کہ مشکلضرور تھا، مگر گزرتا جا رہا تھا۔ امی کا خیال رکھ کر اور گھر کے اخراجات کا حساب رکھتے میں اپنی عمر کے لوگوں سے زیادہ سمجھدار ہو چکی تھی۔
اتنی مشکلا ت سے گزر کر جب مصطفی میری زندگی میں آیا تو مجھے ہر وقت ایک خوش گوار سا احساس گھیرے رکھتا۔ اپنے اور اس کے روشن مستقبل کی امید نے مجھے نئی زندگی دی۔ مصطفی نے مجھ سے کئی بار شادی کا کہا، مگر میں نے ہر بار اسے یہی کہا کہ جب ہم دونوں کے پاس بہت ساری بچت ہو گی تب ہم شادی کریں گے تاکہ ہمیں کسی قسم کی کوئی بھی پریشانی نہ ہو۔ مصطفی ہر بار مُسکرا کر خاموش ہو جاتا۔
اس کا نظریہ ہمیشہ سے یہ تھا کہ زندگی کو ہر لمحے بھرپور طریقے سے جینا چاہیے، آنے والی بڑی بڑی خوشیوں کے انتظار میں اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے جب کہ میرا نظریہ اس کے برعکس تھا۔ وہ ہر لمحے کو جینا چاہتا تھا اور میں ہر لمحے اچھے لمحات کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ ان سب باتوں کے باوجود جس طرح دولت میرا مقصد اور جنون تھی اسی طرح مصطفی بھی میرا مقصد اور جنون تھا۔
پھر اچانک ہماری زندگی میں ایک ایسا موڑ آیا کہ میں نے اپنے جنون اور مقصد کو پانے کے لیے اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیا۔ جی ہاں! میں نے مصطفی کو ہی کھو دیا اپنے ہاتھوں، کسی اور کے حوالے کر دیا، مگر یہ کیا اس کے بعد… کوئی چیز اور کوئی بات بھی مجھے خوش نہ کر سکی۔ مجھے سمجھ نہ آتا کہ مصطفی غلط تھا یا میں غلط تھی؟ نہیں! میں غلط نہ تھی، مصطفی ہی بے وفا تھا۔ کیا یہ سب مصطفی کے لیے اتنا ہی آسان تھا؟ وہ تو کہتا تھا کہ مجھے دولت کی ہوس نہیں۔ وہ تو کہتا تھا میرے لیے تم ہی سب کچھ ہو۔ پھر یہ سب کیسے ہو گیا؟




Loading

Read Previous

موسمِ گُل — عاصمہ عزیز

Read Next

جادوئی جنگل | سمیعہ علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!