چڑیا کا دل بار بار چاہ رہا تھا کہ وہ بچی اس کی طرف متوجہ ہو اور وہ اس سے بات کر سکے لیکن وہ بچی اپنے کھلونے اور بھاگ دوڑ میں اس قدر مگن تھی کہ اس نے حلیمہ اور خیر دین کے پاس کھڑی چڑیا کو دیکھا تک نہیں۔ چڑیا وہاں سے واپس جاتے ہوئے بھی بار بار پلٹ کر اس بچی کو دیکھتی رہی جس کے گھنے سیاہ ریشمی خوب صورت بالوں کو وہ چھونا چاہتی تھی… اور جس کے گالوں پر ہاتھ لگا کر وہ جیسے ان کی نرمی محسوس کرنا چاہتی تھی اور جس کے فراک کی مڑی ہوئی فرل کو سیدھا کرنا چاہتی تھی لیکن وہ ان میں سے کوئی کام بھی نہیں کر سکی۔
نئے ڈپٹی کمشنر اور اس کی بیوی فرح اور عابد کی طرح فرینڈلی نہیں تھے۔ وہ دونوں بے حد ریزروڈ تھے۔ ڈپٹی کمشنر کی بیوی ہاؤس وائف تھی اور گھر کے نوکروں کو ایک فاصلے پر رکھتی تھی۔ وہ ہر جگہ نوکروں کا آنا جانا پسند نہیں کرتی تھی۔ چڑیا کا گھر میں آنا جانا بھی بے حد محدود ہو گیا تھا اور وہ اس بچی کے ساتھ کھیلنے کی بے انتہا خواہش کے باوجود بھی اس کے قریب نہیں جا پائی تھی۔ وہ کبھی کبھار اسے اپنے ماں باپ کے ساتھ لان میں کھیلتے ہوئے دیکھتی لیکن وہ اس وقت بھی وہاں اس کے پاس نہیں جا سکتی تھی۔ نئے صاحب کا حکم تھا کہ ملازم صرف اس وقت وہاں آئیں جب بلائے جائیں اور صاحب کی بیٹی جب لان میں ہو تو کوئی ملازم وہاں نہیں آئے گا اور چڑیا ایک ملازم کی نواسی تھی۔ طبقاتی تقسیم کو چڑیا نے تب پہلی بار محسوس کیا تھا۔ اس سے پہلے صرف کوارٹر نہیں وہ پورا ڈی سی ہاؤس اس کا تھا۔ وہ اپنے ونڈر لینڈ میں گھومتی رہتی تھی اور وہاں کی ہر جگہ کو Ownکرتی تھی۔
جس دین خیر دین نے چڑیا کو نئے صاحب اور ان کی بیوی کی ہدایات پہنچائیں وہ حیران رہ گئی تھیں۔
”کیوں نانا…؟ وہ تو میرا بھی گھر ہے، میں وہاں کیوں نہ جاؤں” اس نے حیرانی میں خیر دین سے سوال کیا۔
”نہیں بیٹا، وہ ہمارا گھر نہیں ہے… وہ بڑے صاحب کا گھر ہے… ہمارا گھر تو یہ کوارٹر ہے۔” خیر دین نے چڑیا کو سمجھایا تھا۔
”لیکن صاحب کا گھر اتنا بڑا اور ہمارا اتنا چھوٹا کیوں ہے؟” چڑیا نے اعتراض کیا۔
”کیونکہ صاحب زیادہ پڑھا لکھا ہے، اس نے زیادہ محنت کی ہے اس لیے اس کو بڑا گھر ملا۔” خیر دین نے اپنی طرف سے ایک آسان جواب دینے کی کوشش کی۔
”پر نانا محنت تو آپ زیادہ کرتے ہیں… آپ صبح جلدی اٹھتے ہیں… کھانا بناتے ہیں… سارا دن صاحب کے گھر میں کام کرتے ہیں… رات تک… صاحب تو صبح بھی دیر سے اٹھتا ہے، دیر سے آفس جاتا ہے… آپ جتنی محنت تو نہیں کرتا۔” سات سال کی وہ بچی اپنے نانا کو کام چور اور کم محنتی سمجھنے پر تیار نہیں تھی۔ خیر دین نے گہری سانس لی۔
”ہاں بیٹا… پر میرا سارا کام ہاتھوں کا کام ہے… صاحب کا کام دماغ کا کام ہے دماغ کے کام کی ویلیو ہمیشہ زیادہ ہوتی ہے… اب اس گھر میں دیکھو میری طرح محنت کرنے والے کتنے ہوں گے… دروازوں پر کھڑے گارڈز… لان میں کام کرنے والے مالی… غسل خانہ صاف کرنے والے جمعدار… صفائی کرنے والے… اور میرے ساتھ کچن میں کام کرنے والے ملازم… فون والے آپریٹر… لیکن اس گھر میں صاحب صرف ایک ہے… اور اس میں اور ہم سب میں فرق صرف یہ ہے کہ وہ بہت پڑھا لکھا ہے اور اس کا سارا کام ذہن سے ہوتا ہے…”خیر دین اس بچی کو ”گُر” دے رہا تھا جو اس بچی کے ذہن پر نقش ہو رہا تھا۔
”پورے جسم میں دماغ چھوٹا سا ہوتا ہے لیکن یہ جسم میں سب سے اوپر ہوتا ہے سرمیں… اور پورا جسم اس کے کنٹرول میں ہوتا ہے جیسے صاحب یہاں بیٹھا اس پورے شہر کو کنٹر ول کرتا ہے۔ وہ بادشاہ ہے جیسے Chess کا King ہوتا ہے نا۔” خیر دین نے اسے شطرنج کی مثال دی۔ وہ چڑیا کے ساتھ شطرنج کھیلتا تھا اور چڑیا Chess Board کے Piecesسے ہی نہیں بلکہ کھیل سے بھی اچھی طرح واقف تھی۔
”پرکنگ تو بڑا کمزور ہوتا ہے وہ تو بس ایک خانے تک چلتا ہے۔” چڑیا نے جیسے اس کے Metaphorپر اعتراض کیا۔
”ہاں پر ہوتا تو وہ بادشاہ ہی ہے نا اور صرف بادشاہ ہے جو ایک ہوتا ہے… باقی سارے Pieces بادشاہ کے لیے کام کرتے ہیں… اس کو بچانے اور جتوانے کے لیے… تو بادشاہ اس لیے سب سے طاقتور ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک ہوتا ہے… Horse, Bishop, Pawn اور Rook سب ایک سے زیادہ ہوتے ہیں۔” خیردین نے اسے سمجھایا۔
”ناناQueen بھی تو ایک ہوتی ہے۔” خیر دین بے اختیار ہنسا… اس نے کوئین کو جان بوجھ کر چھوڑا تھا لیکن اسے اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ سب مہروں کے نام گنواتے ہوئے کوئین کو چھوڑنے پر چڑیا اسے نوٹس ضرور کرے گی۔
”اور کوئین تو بہت پاور فل ہوتی ہے… آپ نے ہی کہا تھا چپس بورڈ پر کوئین ہی سب سے زیادہ پاور فل اور ڈینجرس ہے… کیونکہ وہ دائیں بائیں آگے پیچھے، ترچھا ہر طرف موو کر سکتی ہے اور جتنے مرضی خانے۔” چڑیا نے خیر دین کا دیا ہوا علم اس کے سر پر الٹا، خیر دین ہنسا اور ہنستا ہی چلا گیا۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا تھا کہ وہ چڑیا کے ہاتھوں لاجواب ہوا تھا وہ اس کے جوابوں سے اسی کو باندھنے میں استاد تھی… اور خیر دین کو اس کی ذہانت اس کے علم اور اس کے ہاتھوں لاجواب ہونے پر بھی فخر ہوتا تھا… وہ اس کی اگلی نسل تھی… اس کا اثاثہ تھی… اکلوتا قیمتی، واحد اثاثہ… وہ اس کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا۔
”ہاں۔ ہوتی تو کوئین ہی سب سے طاقتور ہے لیکن چیس بورڈ پر کوئین بھی بادشاہ کے لیے لڑتی ہے بادشاہ سے نہیں لڑتی”۔ خیر دین نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
”کوئین بادشاہ کیوں نہیں ہو سکتی نانا…؟” خیر دین کو ہنسی کا ایک اور دورہ پڑا۔ لاجواب وہ اس سوال پر بھی ہوا تھا۔ اس چھوٹی سی بچی کو وہ کیا سمجھاتا کہ Issue صرف Gender کا تھا اور تفریق Man-Made تھی۔
”چیس میں تو کوئین کا کوئین ہی رہنا ضروری ہے ورنہ کھیل بدل جائے گا چڑیا… لیکن دنیا میں تو کوئین بھی بادشاہ ہو سکتی ہے… میں نے تمہیں انگلینڈ کی کوئین بتایا تھا نا… وہاں کوئین ہی بادشاہ ہے۔” خیر دین نے اسے یاد دلایا۔
”میں جب بڑی ہو جاؤں گی تو میں ایک کھیل بناؤں گی چیس کی طرح کا… جس میں سب کوئین کے لیے لڑیں گے… اور کوئین ہی بادشاہ ہو گی… جب سب سے زیادہ پاور فل کوئین ہے تو پھر بورڈ کوئین کا ہونا چاہیے بادشاہ کا نہیں نانا۔” چڑیا نے چند لمحوں بعد بے حد سنجیدگی سے خیر دین کو مطلع کیا۔ ”اور نانا اس کھیل میں بادشاہ بھی کوئین ہی کے لیے لڑے گا۔” اس نے چمکتی آنکھوں کے ساتھ خیر دین کو بتایا۔ خیر دین ایک گہری سانس لیتے ہوئے مسکرایا۔
”ہم تو پیاد ے ہیں چڑیا… نہ بادشاہ… نہ ملکہ… ” اس بار خیر دین نے اسے سمجھانے کے لیےMetaphor بدل لیا۔ ”سب سے چھوٹا مہرہ…”
”پرنانا جب Pawn چیس بورڈ پر مخالف کی آخری رو تک پہنچ جاتا ہے تو وہ بھی بڑا پاور فل ہو جاتا ہے۔ وہ جو چاہے بن سکتا ہے۔” چڑیا نے ترکی بہ ترکی خیردین سے کہا۔ اس کا اشارہ چیس کی اس مشہور موو کی طرف تھا جس میں اگر ایک طرف کا پیادہ مخالف کی آخری Row تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا تو اس کی پروموشن ہو جاتی اور وہ Horse, Bishop, Rook, Queen میں جو چاہے بن جاتا اور تب زیادہ تر وہ پیادہ کوئین بننا ہی منتخب کرتا تھا… خیر دین کے ساتھ چیس کھیل کھیل کر چیس کی کم از کم ساری مشہور موو چڑیا کو مکمل طور پر ازبر تھیں۔
”پر چڑیا تم کو پتا ہے ایکPawn کا دوسری طرف آخری رو تک جا پہنچنا کتنا مشکل ہے؟” خیر دین نے گفتگو کو چڑیا کو زندگی کا ایک اور سبق دینے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔
”پورا بورڈ پار کر کے مخالف کی آخری رو تک جاتا ہے وہ… ان کے سارے Horses, Rooks, Bishops اور Queen اور King سے لڑتا ہوا… بیٹا یہ بہت مشکل کام ہوتا ہے… بہت ہی مشکل…Pawn سے Queen بننا۔” و ہ خیر دین کے چہرے پر نظریں جمائے خیر دین کی بات سن رہی تھی۔
”لیکن نانایہ ہو سکتا ہے؟”سات آٹھ سالہ اس بچی نے اپنی چمکتی نظریں خیر دین کے چہرے پر جماتے ہوئے پوچھا۔
”بہت محنت سے… ذہانت سے… اور قسمت سے۔” خیر دین نے جواب دیا۔ چڑیا ان تین اجزاء میں سے صرف قسمت پر اٹکی تھی۔
”قسمت…؟ نانا قسمت کیا ہوتی ہے؟”
”اللہ کی مدد اور مرضی۔” خیر دین نے کہا۔ بات سمجھ میں آئی نہ آئی لیکن بات چڑیا کے ذہن میں رہی… دوسری بہت سی باتوں کی طرح۔
”قسمت بڑی چیز ہوتی ہے چڑیا…” خیر دین نے مزید کہا۔
”کتنی بڑی۔” چڑیا نے تجسس سے پوچھا۔ وہ اس کو بھی کوئی مادی وجود رکھنے والی مافوق الفطرت چیز سمجھی تھی۔
”بہت بڑی۔” خیر دین نے سنجیدگی سے کہا۔