امی امی! مجھے علی نے مارا، زویا روتی ہوئی مسز کمال کے پاس آئی۔” نہیں امی! زویا جھوٹ بول رہی، امی میں نے نہیں مارا۔” علی جھوٹ موٹ کا منہ بناتے ہوئے بولا۔
مسز کمال نے آئو دیکھا نہ تائو، زویا کہ منہ پر کس کے تھپڑ لگایا۔
”شرم نہیں آتی بھائی پر الزام لگاتے ہوئے؟ خود مارتی ہو اور نام اس کا۔”
”میں نے نہیں مارا۔۔ علی نے مارا ہے۔” زویا روتے ہوئے بولی۔ جب کہ بہن کو روتے دیکھ کر علی نے بھی شرمندہ ہو کر قبول کر لیا کہ اس نے مارا تھا۔ مسز کمال ایک لمحے کو رکیں پھر بولیں:
ارے مار بھی لیا تو کیا ہوا، بھائی ہے تمہارا۔۔ دماغ خراب کرنے آجاتی ہو، جائو کام کرو جا کر، زویا اور علی دونوں چلے گئے۔
یہ ابتدا تھی ناانصافی کی، جس کا آغاز گھر سے ماں نے بیٹے کو ترجیح دے کرکیا۔ خود تو وہ ہر جملہ کہہ کر بھول گئی مگر ننھے علی کے دماغ میں یہ ڈال دیا کہ وہ جب چاہے کچھ بھی کر سکتا ہے، بہن کو مار سکتا ہے اور کل کو یہی علی اپنی بیٹی کو مارے گا اور بیوی کو بھی حتیٰ کہ ماں کو بھی جھڑکنے سے گریز نہیں کرے گا۔
عدل کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہے۔ یعنی جس نے جتنا کیا ہو اس کا اتنا ہی بدلہ دیا جائے۔ جب کہ اس عمل میں کمی یا زیادتی ناانصافی کہلاتی ہے۔ جس معاشرے میں لوگوں کے ساتھ عدل نہ ہو وہ معاشرہ کبھی بھی فروغ نہیں پاسکتا ، وہاں ہمیشہ جرم ہوتا رہے گا ، بہنوں بیٹیوں کے ساتھ ناانصافی اور امیروں کو غریبوں پر ترجیح دی جاتی رہے گی، وہاں ہمیشہ جنگل کا قانون رائج رہے گا۔
قرآنِ پاک اور حدیث مبارکہ میں جا بہ جا عدل کی تاکید کی گئی ہے۔ سورة النساء میں ارشادِ باری تعالی ہے:
“اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔”
اسی طرح انفرادی اور اجتماعی اختلافات کو ختم کرنے کیلئے سورة المائدہ میں یہ حکم دیا گیا ہے:
“اور کسی قوم کی عداوت تمہیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ تم ناانصافی کرنے لگو، عدل کرو، یہی پرہیزگاری کے قریب ترین ہے۔”
اسی عدل و انصاف کا مظاہرہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر کیا جس کی بہ دولت جانی دشمن بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرنے لگے۔
حدیث مبارکہ ہے:
“حاکم عادل کی دعا۔۔۔۔۔۔۔ قبول ہوتی ہے۔”
عدل و انصاف کا نازک پہلو یہ ہے کہ خود اپنے مقابلہ میں بھی حق کا رشتہ چھوٹنے نہ پائے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معاملے میں کبھی چوک نہیں ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں جہاں انہوں نے قبائل کی دشمنیوں کو حسن و خوبی اور عدل سے حل کیا۔
سرق رضی اللہ تعالی عنہ ایک صحابی تھے، انہوں نے ایک بدو سے ایک اونٹ مول لیا لیکن قیمت ادا نہ ہو سکی، بدو ان کو پکڑ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گیا اور واقعہ بیان کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ قیمت ادا کردو، انہوں نے ناداری کا عذر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدو سے کہا بازار میں جاکر ان کو فروخت کر لو بدو ان کو بازار میں لے گیا، ایک صاحب نے دام دے کر بدو سے خریدا اور آزاد کردیا (سیر اة لنبی، جلد اول، حصہ دوم، دارقطنی)
اسی طرح ایک دفعہ ایک عورت نے جو خاندان مخزوم سے تھی، چوری کی۔ قریش کی عزت کے لحاظ سے لوگ چاہتے تھے کہ وہ سزا سے بچ جائے اور معاملہ دب جائے۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوبِ خاص تھے، لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ سفارش کیجئے۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی کی درخواست کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلال میں آگئے اور فرمایا کہ بنی اسرائیل اسی کی بہ دولت تباہ ہوچکے کہ وہ غربا پر حد جاری کرتے اور امر سے درگزر کرتے تھے (صحیح بخاری ، کتاب الحدود)
خلافتِ راشدہ کی بات کی جائے تو عدلِ فاروقی کی مثالیں اب بھی دی جاتی ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے۔ مسلمانوں کی حکومت تھی اس کے باوجود ہر طرف امن و امان اور سکون چھایا ہوا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ کا عدل و انصاف ہمیشہ بے لاگ رہا جس میں دوست دشمن کی کچھ تمیز نہیں تھی۔ اکثر لوگ اس بات پر ناراض ہوجاتے تھے مگر جب دیکھتے کہ ان کا عزیز و اقارب اور آل اولاد سے بھی یہی برتائو ہے تو لوگوں کو صبر آجاتا تھا۔
ان کے بیٹے ابو شحمہ نے جب شراب پی تو خود اپنے ہاتھوں سے انہیں کوڑے مارے اور اسی صدمے سے وہ بے چارے قضا کر گئے۔ (الفاروق)۔
اسی طرح ان کے دور میں کوئی شخص بھوکا نہیں سوتا تھا۔ ایک مرتبہ جب شام کا سفر پیش آیا تو ایک ضلع میں ٹھہر کر لوگوں کی شکایتیں سنیں اور داد رسی کی۔ اس سفر میں ایک پر عبرت ناک واقعہ پیش آیا۔ آپ دارالخلافہ کو واپس آرہے تھے کہ راہ میں ایک خیمہ دیکھا تو سواری سے اتر کر خیمہ کے قریب گئے۔ ایک بڑھیا نظر آئی، اس سے پوچھا عمر کا حال معلوم ہے؟ اس نے کہا ہاں! شام سے روانہ ہوچکا لیکن اللہ اس کو غارت کرے آج تک مجھ کو اس کے ہاں سے حبہ بھی نہیں ملا۔ حضرت عمر نے کہا:
اتنی دور کا حال عمر کو کیوں کر معلوم ہوسکتا ہے؟ بولی کہ اس کو رعایا کا حال معلوم نہیں تو خلافت کیوں کر رہا ہے۔ حضرت عمر کو سخت رقت طاری ہوئی اور بے اختیار رو پڑے ۔۔
اسی طرح بات کروں گی ساری دنیا میں اپنے عدل کے لئے مشہور بادشاہ نوشیرواں عادل کی، وہ ایک ایرانی بادشاہ تھا۔ اس نے اپنی سلطنت کی ترقی کے لئے بہت کام کیے مگر جس چیز پر اس نے سب سے زیادہ زور دیا، وہ عدل تھا۔
ایک مرتبہ وہ سفر کر رہے تھے، راستے میں قیام کے دوران گوشت بھونتے ہوئے نمک ختم ہوگیا۔ ایک شخص کو نمک لانے کا حکم دیا گیا۔ وہ نمک لے کے آیا تو نوشیرواں نے پوچھا اس نمک کی قیمت ادا کی ہے؟ وہ بولا، نہیں! تو آپ نے حکم دیا کہ قیمت ادا کی جائے۔ وہ بولا بادشاہ سلامت، ذرا سا نمک ہی تو ہے۔ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا، دنیا میں بھی پہلے برائی بہت کم تھی آہستہ آہستہ یہ تن آور درخت بن گیا۔
معاشرے میں نظر دوڑائی جائے تو ہر طرف ناانصافی ہی نظر آتی ہے۔ مگر کیوں؟ ہمارے معاشرے میں عدل کیوں نہیں۔۔۔؟ وجہ ہے۔
خود غرضی، ہر شخص اپنے ہی مفاد میں ڈوبا نظر آتا ہے۔ اپنے کام کے لئے چاہے رشوت ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ جس کی وجہ سے حق داروں کے حق مارے جاتے ہیں اور وہ بھی غلط راستوں کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر یونیورسٹیز میں فیس جمع کراتے وقت کچھ لوگ سفارش کی بنا پر اندر چلے جاتے ہیں اور کچھ لمبی قطار میں لگ کر ان لوگوں کو دیکھ کر کڑھتے رہتے ہیں۔ وہ جھنجھلاہٹ، وہ تلخی انہیں بھی سفارش حاصل کرنے یا رشوت دینے پر مجبور کرتی ہے۔
لیکن کیا یہ باتیں کرنے، غلطیوں کا ادراک کرنے سے معاشرے میں ناانصافی ختم ہوجائے گی؟ عدل قائم ہوجائے گا؟ نہیں! بلکہ ہمیں کوشش کرنی ہوگی تبدیلی لانے کی ۔۔ قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے۔ آغاز خود اپنی ذات سے کرنا ہوگا، جب ہم کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کریں گے اور کوشش کریں گے کہ دوسروں کو بھی روکا جائے تو صحیح معنوں میں ایک ایسی جماعت وجود میں آئے گی جس کا ذکر اللہ پاک نے قرآن پاک میں کیا ہے۔ مفہوم ہے:
وہ لوگ امر بالمعروف کی ترغیب دیتے ہیں اور نہی عن المنکر سے روکتے ہیں۔