باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۹ (آخری قسط) ۔۔۔۔ شاذیہ خان

شہریار کنول کی ایک پرانی ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں وہ بیت شرارتی سے انداز میں باتیں کررہی تھی۔وہ حسب معمو ل اپنے بیڈ پر بیٹھی ویڈیو بنا رہی تھی اور موبائل کیمرے میں آنکھیں ڈال کر اپنے فینز سے مخاطب تھی۔
”ارے آپ لوگ پریشان ہوگئے؟مجھے تو ڈرامہ کرنے کی عادت ہے اور آپ لوگ یقین کرلیتے ہیں۔دیکھیں میں تو بالکل صحیح سلامت آپ کے سامنے ہوں۔اتنی آسانی سے نہیں مروں گی، کئی لوگوں کو مار کر مروں گی۔پھر ہم جیسی عورتوں کی موت کوئی عام موت تو نہیں ہوتی۔ہماری موت بے حیائی کی موت کہلاتی ہے۔بے حیائی کی موت اتنی آسانی سے تو نہیں ہوتی۔ مر جاؤں گی تو آپ لوگ یاد تو رکھیں گے کہ کوئی بے حیاچلی گئی۔سچ بتائیں فینز اگر میں مر گئی توآپ لوگ یاد رکھیں گے نا؟Good night۔”
شہریار نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے وہ ویڈیو بند کی،اس کے چہرے پر دکھ کے گہرے سائے تھے۔
”تم کتنی جھوٹی ہو!کوئی مجھ سے پوچھے،جھوٹ بول کے گئیں اور واپس ہی نہ آئیں،کیوں کیاتم نے ایسا کنول؟کیوں کیا؟کاش مجھے پتا ہوتا کہ تم واپس نہیں آؤ گی تو میں جانے ہی نہ دیتا۔اب کہاں ڈھونڈوں وہ آنکھیں جو میری زندگی تھیں۔کہاں ڈھونڈوں وہ ہنسی جو مجھے زندگی دیتی تھی کہاں ڈھونڈوں بولو؟جھوٹی!ہاں تم بہت جھوٹی ہو،بہت جھوٹی۔”یہ کہہ کر وہ سسک سسک کر رو پڑا۔
٭…٭…٭
شہریارکنول کی قبر پر پھول لیے بیٹھاماضی کو یاد کر رہا تھا۔وہ سنہری پل جب کنول کا قرب اسے نصیب تھا۔جب وہ جیتی جاگتی خوب صورت لڑکی اس کے ساتھ تھی۔یونہی یاد کرتے کرتے اسے وہ لمحہ یاد آیا جب ایک دفعہ کنول نے پوچھا تھا۔
”تم مجھ سے اتنی محبت کیوں کرتے ہو؟یار ایسا کیا ہے مجھ میں؟”
”محبت یہ تھوڑی دیکھتی ہے کہ محبوب میں کیا ہے؟بس محبت اپنا وار کرتی ہے اور سامنے والے کو ڈھیر۔”شہریار نے کندھے اچکا کر جواب دیا۔
” اُف کتنی شاعرانہ باتیں کرتے ہو تم۔”کنول نے اس کا مذاق اُڑایا۔
”ہنس لو ہنس لو، اس لیے کہ محبت تم نے نہیں میں نے کی۔”شہریار نے برا مانتے ہوئے کہا۔
”تو نہ کرو کیوں کررہے ہو، چھوڑ دو مجھے۔”کنول نے بے پروائی سے کہا۔
”چھوڑ ہی تو نہیں سکتا۔ تم جانتی ہو کہ میں تمہیں بہت چاہتا ہوں اور ہر حال میں حاصل کرنا چاہتا ہوں۔”شہریار نے اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر کہا۔
”اور اگر میں نہ ملی تو؟”کنول نے پوچھا۔
”ایسا ممکن ہی نہیں، میری محبت میں بہت تاثیر ہے تمہیں پاکر رہے گی۔”شہریار نے یقین سے کہا۔
اسے دریا کنارے بیٹھے ہوئے باتیں کرتی کنول کی آوازیں آنا شروع ہوئیں۔وہ اُٹھا اور پریشانی سے اِدھر اُدھر گھومنے لگا۔
” کنول!کنول! کہاں ہو؟ پلیز دیکھو میری بات سنو، میرے پاس آجاؤ!”یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

مُنے کی گاڑی بیچ سڑک پر خراب ہوئی اور تینوں دوست گاڑی سے باہر نکل کر کھڑے ہوگئے۔اس کے دوست گاڑی کو چیک کرنے لگے جب کہ مُنا گاڑی سے ٹیک لگائے کچھ سوچ رہا تھا۔
”یار یہ دوبارہ خراب ہوگئی۔”پہلا دوست ٹائر پر لات مارتے ہوئے بولا۔
”اب کیا کریں ہمیں فوری طور پر یہاں سے نکلنا تھا،لیکن اس کم بخت کی وجہ سے بار بار تکلیف ہورہی ہے۔”دوسرے دوست نے پریشانی سے کہا۔
”مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔”مُنا بولا۔
”کیوں؟”اس کے دوست نے پوچھا۔
”اب تک گھر میں سب کو پتا چل چکا ہوگا،پولیس کو بھی۔”مُنے پر گھبراہٹ طاری تھی۔
”او کچھ نہیں ہوگا۔ہم جب تک یہاں سے نکل جائیں گے تو فکر نہ کر۔اتنی تیز نہیں ہے پاکستانی پولیس کہ ہمیں چھاپ لے۔”اس کے دوست نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
اتنے میں ان کی گاڑی کا ٹائر بدلا جا چکا تھا۔ایک دوست نے مُنے کوپکڑ کر گاڑی میں بٹھایا اور بولا۔”بیٹھ گاڑی میں،اگلا پڑاؤ پر ریسٹ ہاؤس ہے وہاں رُکتے ہوئے علاقۂ غیر نکل جائیں گے۔”
مُنا کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔اس کے چہرے پر پریشانی ہی پریشانی تھی۔
٭…٭…٭
اُدھرپولیس سٹیشن پر تھانے دار اپنے حوالداروں کو ہدایات دے رہا تھا۔اتنے میں اسے فون آیا۔فون سننے کے بعد اس نے حوالداروں کو سے معلومات شیئر کیں۔
”اوئے وہ تینوں اس وقت زیادہ دور نہیں گئے ہیں۔خبر کردو ہر ناکہ پر۔انہیں اگلے ناکے پر ہی پکڑ لینا ہے۔”
”جی سر،لیکن سر ہوا بہت بُرا۔”ایک حوالدار نے تاسف سے سر ہلایا۔
” ہاں یار ہوا تو بُرا مگر کیا کیا جاسکتا ہے۔ایسا تو ہمارے ہاں روز ہوتا ہے۔بھائی بہن کو،شوہر بیوی کو ایسی باتوں پر ہی مار دیتا ہے۔اگر عورت ایسا کرے گی تو کون بھائی یا شوہر بے غیرت بن کر برداشت کرے گا؟”تھانے دار نے نفرت سے کہا۔
”لیکن سر پھر تو اس طرح اس کے بھائی کے بچنے کے چانسز بھی زیادہ ہو جائیں گے۔”ایک حوالدار نے اپنی رائے پیش کی۔
”دیکھتے ہیں عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے۔اپنا کام تو اس کو پکڑنا ہے، پھر دیکھتے ہیں کیا فیصلہ آتا ہے۔”تھانے دار نے کندھے اچکائے۔”لیکن ایک بات ہے وہ لڑکی جاتے جاتے ہلا سب کو گئی۔بڑے فون آرہے ہیں اُ کے لیے کہ بھائی کو فوراً ڈھونڈ کر نکالا جائے۔”
”لیکن سر لوگوں کا شک تو بڑے بھائی پر بھی جارہا ہے کہ اس نے ساتھ دیا ہے۔”حوالدار نے سرگوشی کے انداز میں کہا۔
”ارے نہیں،یہ سیدھا سیدھا غیرت کا قتل ہے۔وہ جو چھوٹے بھائی میں زیادہ جاگ گئی تھی، خیر دیکھو آگے کیا ہوتا ہے۔”تھانے دار نے نفی میں سر ہلایا۔
”ہاں سر کہہ تو ٹھیک رہے ہیں آپ۔”حوالدار نے اس کی تائید کی۔تھانے دار نے گاڑی تیار کرنے کا حکم دیا۔
٭…٭…٭
تینوں دوست ایک گیسٹ ہاؤس کے کمرے میں بیٹھے تھے کہ پولیس نے وہاں چھاپہ مارااور ان تینوں کو گرفتار کرلیا۔مُنے نے بھاگنے کی کوشش کی تو تھانے دار نے اسے دبوچ لیا۔”اوئے بچو کہاں بھاگ رہا ہے؟اتنی آسانی سے تو تمہیں جگہ نہیں ملے گی۔”
”لیکن میرا قصور کیا ہے۔”مُنا گردن چھڑاتے ہوئے ہکلایا۔
” چل بیٹا تھانے تیرا قصور وہاں پتا چلے گا۔”تھانے دار نے ایک جھانپڑ رسید کرتے ہوئے کہا۔
” چل اوئے زیادہ بُڑ بُڑ مت کر۔”حوالدار نے بھی حصہ ڈالا اور وہ ان تینوں کو مارتے ہوئے باہر لے گئے۔
٭…٭…٭
مُنے کو تھانے میں بند کر دیا۔وہاں سب موجود چینلز کے نمائندے اسی موقع کا انتظار کر رہے تھے۔ان سب نے مل کر اس پر دھاوا بول دیا۔
” اوئے تم کو ذرا رحم نہ آیا اپنی بہن کو مارتے ہوئے؟”ایک رپورٹر نے پوچھا۔
”وہ اسی قابل تھی کہ اس کو مار دیا جاتا۔”مُنے کی ڈھٹائی قابل دید تھی۔
”کیوں ایسا کیا کیا تھا اس نے؟”رپورٹر نے پوچھا۔
”اس نے ہم سب کو بدنام کیا،وہ بہت بے غیرت تھی،بے حیا تھی۔”مُنے نے کیمرے میں دیکھتے ہوئے کہا۔
”تم ذرا شرمندہ نہیں اپنے اس کام پر؟”رپورٹر نے پوچھا۔
”بالکل نہیں،مجھے بالکل شرم نہیں آئی اس بے غیرت کو مارتے۔جو کام وہ کرتی تھی ایک شریف اور غیرت مند بھائی کو ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔”مُنا بے غیرتی سے بولا۔
”لیکن وہ تمہارے پورے گھر کو پال رہی تھی۔”رپورٹر نے کہا۔
”لیکن ہمیں پتا نہیں تھا کہ وہ پیسا کہاں سے لاتی ہے،جب پتا چلا تو مار دیا۔”مُنے نے پھر ڈھٹائی سے جواب دیا۔
”تمہارا کیا بنے گا اب؟” رپورٹر نے پوچھا۔
”جو اللہ کو منظور۔”منے نے کہا۔
”اب تو تمہارا باپ بھی تمہارے خلاف ہے،وہ کہتا ہے کہ تم کو پھانسی پر لٹکوا دے گا۔”ایک رپورٹر نے کہا۔
”بھائی، ابا ہے میرا وہ کہہ سکتا ہے،لیکن مجھے کوئی شرمندگی نہیں کہ میں نے کوئی غلط کام کیا۔اس جیسی بے حیا عورت کی یہی سزا ہونی چاہیے تھی۔اتنی غیرت تو ہے مجھ میں۔اب ابا جو کرنا چاہے کر دے۔”مُنے نے کہا اورسر جھکا لیا۔پولیس والوں نے اُس کے منہ پر کپڑا چڑھا دیااور اسے اندر لے گئے۔
٭…٭…٭
امام بخش اپنے کمرے میں بیٹھا رو رہاتھا۔اسے فوزیہ یاد آرہی تھی۔اس کا بچپن،اس کا لڑکپن،اس کی جوانی یاد آرہی تھی۔جب وہ ہسپتال میں اس کا علاج کروانے آئی تھی،جب وہ اس کے لیے شادی والے گھر سے چاول لائی تھی۔
”نہیں چھوڑوں گا مُنے میں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔ تو نے میری بیٹی نہیں مجھ سے میرا بیٹا چھینا ہے۔ میں کبھی معاف نہیں کروں گا۔ہائے میری پُتری تو کہاں چلی گئی۔”امام بخش سر پر ہاتھ مار مار کر رو رہا تھا۔سینہ پیٹ پیٹ کر رورہا تھا۔”اب کیا ہوگا ہم سب کا؟کیسے جئیں گے تیرے بغیر؟ہائے مُنا توکیوں نہ مر گیا تجھے مرنا چاہیے تھا۔”وہ پاگل ہو رہا تھا۔
٭…٭…٭
باپ مُنے سے ملنے پولیس اسٹیشن گیا اور اُس پر نظر پڑتے ہی لعن طعن کرنے لگا۔
”وے مُنا تجھے ایک لمحے خیال نہ آیا اپنی باجی کا؟تو نے بالکل نہ سوچا؟ بچپن سے تیری ہر چیز کا خیال رکھتی تھی۔میں نہ دیتا لیکن وہ کہیں نہ کہیں سے کرکے دیتی تو نے یہ کیا کیا بے غیرتا؟مر جا ڈوب جا چلو بھر پانی میں۔”
مُنا خالی خالی نگاہوں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔باپ روتے ہوئے وہاں سے نکل گیا۔ مُنے کوگزرے دن یاد آنے لگے۔جب وہ اُسے تیار کرکے سکول بھیجتی تھی۔ جب ٹی وی کے آگے سب بہن بھائی ٹی وی دیکھ رہے تھے۔جب وہ اُسے پیار کرتی تھی۔جب اس نے موبائل کی دکان ڈلوانے کے لیے اُسے پیسے دیے تھے۔پھر اس کے کانوں میں دوستوں کی آوازیں گونجنا شروع ہوئیں۔
”اے بے غیرتا تیری جیسی میری بہن ہوتی تو مار ڈالتا۔تو بے شرم بے حیا بہن کی حرام کی کمائی کھا رہا ہے۔”
”سب جگہ تیری بہن کی وجہ سے تیری بدنامی ہورہی ہے اور تو یہ کہ چپ شاہ کا روزہ رکھ کر بیٹھا ہے۔”
”ایسی بہن کی تو گردن کو مروڑ کر کتوں کے آگے ڈال دے۔”
مُنا بہت عجیب سے نظروں سے دیوار کو تکنے لگا۔
٭…٭…٭
کنول کے قتل کو چھے ماہ گزر چکے تھے۔اس دنیا سے جانے کے بعد کنول بلوچ سب کے لیے ہی بہت اہمیت کی حامل بن گئی تھی۔اسے سوشل میڈیا پر یاد کیا جا رہا تھا۔مین اسٹریم میڈیا پر ٹاک شوز ہو رہے تھے۔میڈیا پر اسے اتنی کوریج مل رہی تھی کہ اگر اس کی زندگی میں ملتی تو شاید نوبت یہاں تک نہ آتی۔
ایک رائٹر جو کنول بلوچ کی زندگی میں اس کی ویڈیوزکے خلاف لکھتی تھی اب اس پرڈاکومنٹری فلم لکھنا چاہ رہی تھی اور اس سلسلے میں وہ ایک چینل میں موجود تھی۔
”تم تو اس کے بہت خلاف تھیں،تم اس پرکیسے لکھنا چاہتی ہو؟”چینل ہیڈ نے حیرانی سے پوچھا۔
”میں اس کے نہیں ہر اُس عورت کے خلاف تھی جس نے اپنے عورت پن کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔جب تک اس پر ظلم ہوتا رہا وہ مظلوم تھی اور جب وہ بگڑی تو ظالم بن گئی، لیکن اُسے ظالم بنانے میں اس پورے معاشرے کے کردار کو نفی نہیں کیا جا سکتا۔میں نے بہت عرصہ اس پر ریسرچ کی،سوشل میڈیا پراس کے روز و شب دیکھے اور کیا ملا؟ایک عورت کے دُکھ، پریشانیاں، صلواتیں، گالیاں اور مزے کی بات یہ سب اسے اُن مردوں کی طرف سے ملا جنہوں نے اُسے اِس دلدل میں گرایا۔عورت بے حیا تب ہی بنتی ہے جب کوئی مرد اُسے ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے،مگر یہ بہت پرانی بحث ہے اور کیا ہر عورت جس پر ظلم ہورہا ہے وہ بُری بن جاتی ہے نہیں۔ نہیں کیوں کہ اس کے پیچھے بھی ایک اچھا مرد کھڑا ہے جو اسے سہارا دیتا ہے،سمجھاتا ہے، سکھاتا ہے۔کنول کی بدقسمتی اس کی زندگی میں باپ سے بھائی،بھائی سے شوہر،شوہر سے باس… سب اُسے ایسے ملے جنہوں نے اسے سیڑھی بنایا،اس کے لیے سیڑھی کبھی نہ بنے۔”رائٹر نے تفصیل سے جواب دیا۔
”تم اب کیا کرنا چاہتی ہو؟”چینل ہیڈ نے پوچھا۔
”میں اس پر ایک ڈاکومنٹری فلم اور ناول لکھنا چاہتی ہوں۔ ایک ایسی تحریرجس پر آئندہ آنے والی نسلیںہم سے یہ سوال نہ کرسکیں کہ ہمارے وقت میں عورت پر ایسا ظلم ہوتا تھا اور ہم میں سے کوئی عورت پر آواز نہیں اٹھاتا تھا۔”رائٹر نے کہا۔
”ڈاکومنٹری فلم ہی کیوں، ڈرامہ کیوں نہیں؟”چینل ہیڈ کی آنکھیں چمکیں۔
”ڈرامہ لکھوا لیں آپ، وہ بھی لکھا جاسکتا ہے۔”رائٹر نے کندھے اچکا کر کہا۔
”ٹھیک ہے میں اس کے والدین سے اجازت لیتی ہوں آپ تیاری کریں لکھنے کی، ہم اس پر ضرور لکھیں گے۔”دونوں نے ہاتھ ملایا اور دوسری باتوں میں مشغول ہوگئیں۔
٭…٭…٭
ٹی وی پر خبر چل رہی تھی کہ کنول بلوچ کے باپ نے اپنی بیٹی کا مقدمہ واپس لے لیا۔شہریار کی ماں نے ٹی وی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”یہ سب کیا ہورہا ہے شہریار؟”
وہ تلخی سے ہنسا۔”کچھ نہیں ماما اسے مجبوری کہتے ہیں۔”
”لیکن یہ تو زیادتی ہے۔”ماں نے درد بھرے لہجے میں کہا۔
”بیٹی تو گنوا چکے ہیں،دوسری اولاد کو کیسے گنوائیں گے۔یہی سوچا ہوگا انہوں نے۔”شہریار نے تاسف سے سر ہلایا۔
” تم گئے تھے ان کے گھر؟”ماں نے پوچھا۔
” ماما میں کنول کی قبر پر بھی گیا تھا اورمیرا مینیجر ایک خاص اماؤنٹ لے کر گیا تھا اس کے گھرتاکہ زندگی کی جو ضروریات ہیں وہ اس کے جانے سے نہ رُکیں۔”شہریار نے بتایا۔
”یہ تم نے بہت نیک کام کیا۔”ماں نے ستائش بھری نظروں سے بیٹے کو دیکھا پھر بولی۔”جیتے رہو میرے بچے اللہ تمہاری زندگی میں بھی روشنی کردے۔”
شہریار ایک دم ہی غصے میں آگیا۔”ماما مت کیا کریں ایسی دعائیں میرے لیے جو بددعا بن جائے۔”
” کیا کہہ رہے ہو شہریار،ماں کبھی اولاد کو بددعا دے گی؟”ماں نے حیرانی سے کہا۔
” آپ نہیں دیتیں لیکن بن جاتی ہے میرے لیے،بس مت کہیں کچھ۔چھوڑ دیں مجھے میرے حال پر۔”شہریار نے بہت دکھ سے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔
٭…٭…٭
فوزیہ کے ماں باپ بیٹھے فوزیہ کی ہی باتیں کررہے تھے اور اُسے یاد کررہے تھے۔
”تو نے بہت اچھا کیا۔وہ تو چلی گئی،اگر ہمارا مُنا بھی چلا جاتا تو کیا ہوتا۔”ماں نے کہا۔
”یہ سب تو کرنا ہی تھا، لیکن میں جانتا ہوں وہ بہت ناراض ہے۔اس دن کے بعد سے وہ روز میرے خواب میں آتی ہے، کہتی ہے ابا تو نے بھی مجھے قتل کردیا۔میں کیا کروں؟میں اُس سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں۔”امام بخش نے کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
”ہاء فوزیہ کے ابا سچ؟”ماں نے دل پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔
”کہتی ہے ابا بہت تڑپی تھی،بہت روئی تھی مُنا مجھے چھوڑ دے لیکن اس نے نہ چھوڑا۔مجھے امید تھی ابا کہ تو مُنے کو کبھی نہیں چھوڑے گا لیکن تو نے بھی چھوڑ دیا۔ ابا تو نے اچھا نہ کیا۔”امام بخش نے آنسوؤں کے درمیان اپنی بات پوری کی۔
٭…٭…٭
دروازے پر دستک ہوئی تو امام بخش بیساکھیوں کے سہارے دروازے پر پہنچا۔وہاں ایک ٹی وی چینل کی ٹیم کھڑی تھی جس کے ساتھ چینل ہیڈ بھی تھی۔اس نے بہت دُکھی انداز میں امام بخش سے کہا۔
”ہم سب کو کنول کے جانے کا بہت افسوس ہوا، آپ کے دکھ میں شریک ہیں۔ کنول کو واپس تو نہیں لایا جاسکتا لیکن ہم اس پر ایک ڈرامہ بنانے کا سوچ رہے ہیں۔ اس کے سلسلے میں ہمیں آپ کی اجازت چاہیے۔”
امام بخش نے کچھ لمحے بات سمجھے کی کوشش کی پھر غائب دماغی کے عالم میں بولا۔”اجازت ہے بی بی، سب کو اجازت ہے۔ وہ تو چلی گئی ڈرامہ لکھو،داستان لکھو، جو چاہے لکھو۔اب میری بیٹی تو واپس نہیں آسکتی۔”
ایک عورت نے امام بخش کی طرف چیک بڑھایا اور بولی۔” ہم چاہتے تھے کہ یہ ایک چھوٹی سی رقم آپ کو دے دیں۔جو آپ کی تمام تر ضروریات تو پوری نہیں کرسکتا لیکن کچھ نہ کچھ تو ہوسکتا ہے۔”امام بخش نے چیک پکڑا،وہ خالی خالی نظروں سے کبھی میڈیا ٹیم کو دیکھتا اور کبھی چیک کو دیکھتا۔
٭…٭…٭
وہ چیک لے کر اندر آیاتوفوزیہ کی ماں نے پوچھا کہ دروازے پر کون تھا۔امام بخش نے چیک اس کے آگے کر دیا۔
”یہ لے یہ رکھ لے۔”
”یہ کیا ہے؟”ماں نے چیک الٹ پلٹ کر دیکھا۔
”یہ کچھ پیسے ہیں،ہماری فوزیہ نے بھجوائے ہیں۔”امام بخش نے تلخی سے کہا۔
”فوزیہ نے بھجوائے ہیں؟”ماں حیران تھی۔
”ہاں ہماری فوزیہ نے۔”امام بخش نے پیار سے کہا۔”دیکھ نا اتنی دور جا کر بھی وہ ہمیں نہیں بھولی۔بے شک ناراض ہے لیکن پیسے اب بھی بھیج رہی ہے۔”امام بخش کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ فوزیہ کی ماں بھی سسک سسک کر رونے لگی۔
٭…٭…٭
وچ روہی دے رہندیاں نازک ناز و جٹیاں
راتیں کرن شکار دِلیں دے ڈیہاں ولوڑن مٹیاں
گجھڑے تیر چلاون کاری سے سے دلڑیاں پھٹیاں
کر کر دردمنداں کوں زخمی ہے ہے بدھن نہ پٹیاں
چھیڑن بھیڈاں بکریا گائیں لے لے گابے کٹیاں
کئی مسکین مسافر پھاتے چوڑ کیتو نے ترٹیاں
دھوئی دار فقیر تھیو سے فخر و ڈائیاں سٹیاں
ہیوں دلبر دے کننڑے در دے برہوں پئیاں گل گٹیاں
موجھے فرید مزید ہمیشہ اج کلھ خوشیاں گھٹیاں

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۸ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Read Next

الف — قسط نمبر ۱۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!