فوزیہ کے گھروالے صحن میں بیٹھے تھے کہ مالک مکان مُنے کے ساتھ اندر آیا اور اس نے اندر آکر سب پر ناراض ہونا شروع کردیا ۔مالک مکان کو دو ماہ سے کرایا نہیں دیا تھا۔مُنا اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ مسلسل اونچی آواز میں بولتا رہا۔
”میں یہاں بیٹھنے نہیں آیا۔اماں جی کرایا دو اس ماہ کا ورنہ مکان خالی کرو۔”مالک مکان نے کہا۔
”بس بیٹا تھوڑا سا ٹیم اور دے دے، میرے بیٹے کی دکان نہیں چل رہی۔”ماں نے گھگھیاتے ہوئے کہا۔
”مجھے نہیں پتا اماں جی یہ تمہارا مسئلہ ہے۔پیسے دو ورنہ کل ہی مکان خالی کردو۔”مالک مکان نے غصے سے کہا۔
”لیکن ہم اتنی جلدی کہاں جائیں گے۔”ماں پریشانی سے بولی۔
”جہاں سے آئے ہو وہیں جاؤ۔”مالک مکان نے بدتمیزی سے کہا۔
کنول یہ سب باتیں کمرے کی کھڑکی میں کھڑی سن رہی تھی۔اس نے اپنے پرس سے کچھ نوٹ نکالے اور باہر آ گئی۔پیسے مالک مکان کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔
”یہ لو، چھے مہینے کا کرایا ہے۔پکڑو اور نکل جاؤ یہاں سے۔”
مالک مکان نے پیسے پکڑے اور گننا شروع کر دیے۔فوزیہ نے یہ دیکھ کر کہا۔”فکر نہ کرو،پیسے پورے ہیں۔ اب نکلو یہاں سے اور اس گھر والوں کو بالکل پریشان مت کرنا۔”
” نہیں کروں گا،اب نہیں کروں گا۔مجھے بھی کوئی شوق نہیں پریشان کرنے کا،چلتا ہوں۔”مالک مکان نے کہا اور باہر نکل گیا۔
مالک مکان کے جانے پرماں اور باقی گھر والوں نے سکھ کا سانس لیا اور اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔فوزیہ نے سب کی طرف دیکھاکہ شاید کوئی اس کو بھی تسلی دے گالیکن کوئی کچھ نہ بولا۔فوزیہ کے چہرے پر دکھ کے سائے ابھر آئے ۔وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی آئی۔
مُنا بھی اس کے پیچھے پیچھے کمرے میں چلا آیا۔فوزیہ کپڑے تہ کررہی تھی۔اس نے ہاتھ روک کر غور سے مُنے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
”باجی وہ دکان ڈال لی ہے میں نے۔”مُنے نے بات شروع کی۔
”ہاں مجھے پتا ہے۔”فوزیہ نے سر اُٹھائے بغیر کہا۔
” کرایا بھی چاہیے۔”مُنے نے آرام سے فرمائش کی۔
” لیکن…”فوزیہ نے یک دم سر اُٹھایا۔مُناایک دم ناراض ہو گیا۔
”باجی تیری یہی لیکن ویکن ہی مجھے بہت غصہ دلاتی ہے،اگر ہے تو دے دے بحث مت کر۔”
فوزیہ نے بہت غور سے اُس کی شکل دیکھی اور پھربہت تحمل سے پوچھا۔” بول کتنے چاہئیں؟”
”دس ہزار اس مہینے کا۔”مُنے نے کہا۔
فوزیہ نے اپنے پرس سے دو پانچ پانچ ہزار کے نوٹ نکالے اور اس کی جانب بڑھا دیے۔مُنے نے نوٹ تھام کر اس کی طرف دیکھااور بغیر شکریہ کہے واپس مڑ گیا۔ فوزیہ بہت دکھ سے اسے جاتا ہوا دیکھتی رہی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
فوزیہ کی ماں کچن میں کام کررہی تھی جبکہ فوزیہ پاس ہی کھڑی پانی پی رہی تھی۔ماں نے آٹے کا ڈبا کھولااورڈبے کو بجاتے ہوئے بہت پریشانی سے بولی۔
”اُف! آٹا بھی ختم،دالیں بھی ختم، چاول تو پہلے ہی ختم تھے۔ اب کیا پکاؤں؟”
”کیا ہوا اماں؟”فوزیہ نے ماں کو پریشان دیکھ کر پوچھا۔
”کچھ نہیں، گھر میں راشن نہیں۔یہ مہینہ بہت مشکل سے گزارا ہے اور اب آگے نہ جانے کھانے کو بھی کچھ نصیب ہو یا نہ ہو۔”ماں نے پریشانی سے کہا۔
”اماں ایسا مت بول،اللہ مدد کرے گا۔”فوزیہ نے ماں کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سمجھایا۔
”کہاں سے کرے گا؟تیرا بڑا بھائی تھوڑا بہت دے دیتا تھا، وہ آسرا بھی ختم۔ مُنا بھی دکان چلانے کی کوشش کررہا ہے لیکن اب تک نہ جانے کیا بدنصیبی ہے اس کے ساتھ۔جتنی بھی محنت کرے دکان چل ہی نہیں پاتی۔”ماں نے جواب میں لمبی تقریر کی۔
”اماں پچھلے مہینے بھی بھائی نے نہیں میں نے راشن ڈلوایا تھا اور اب بھی میں ہی دوں گی۔”فوزیہ نے تحمل سے کہا۔
”ہاں لیکن اب…”ماں تذبذب کا شکا ر تھی۔
”اب کیا اماں سب بدل گئے میں تو نہیں بدلی۔ تو کیوں فکر کرتی ہے، تم سب کو بھوکا نہیں رہنے دوں گی۔”فوزیہ نے ماں کا ہاتھ پکڑ کر تسلی دی۔
”تیرا باپ ناراض ہوگا، تیرے پیسے…”ماں نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
”تو ان کو مت بتانا، کہہ دینا کہ مُنا لایا تھا۔”فوزیہ نے سمجھایا توماں فٹا فٹ مان گئی۔
”میں پیسے دوں گی تجھے اس مہینے کا راشن مُنے کو بھیج کر منگوا لینا اور دیکھ آج ابا کی پسند کا گوشت پکانا،بھنا گوشت ابا کو کتنا پسند ہے۔”فوزیہ نے کہا۔
”ہاں یہ تو ہے۔”ماں نے ہاں میں ہاں ملائی پھر بولی۔” لا دے پیسے میں منگواتی ہوں ابھی۔”
”میں ابھی لاتی ہوں۔”فوزیہ نے مسکرا کر کہا اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔
٭…٭…٭
فوزیہ باپ کے کمرے کے سامنے سے گزر رہی تھی۔وہ بلاوجہ ہی کھڑکی میں ٹھہر گئی۔
”ابا تیری کھانسی بہت بڑھ گئی ہے،تو یہ پانی پی لے میں ابھی دوائی دیتی ہوں۔”مُنی نے امام بخش سے کہا۔
امام بخش کو کھانسی کا شدید دورہ پڑا۔کھانس کھانس کر اس کا برا حال تھا۔” دوائی تو ختم ہوئے چار دن ہوگئے۔تیری ماں کو بتایا تھا،لیکن اس کے پاس پیسے ہی نہیں تھے کہ دوائی آتی۔دوائی کے ساتھ ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ بھی بتائے تھے،لیکن اب تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔”امام بخش نے بہ مشکل بات مکمل کی۔
”ابا تو یہ پانی تو پی، کھانسی بہت ہی بڑھ گئی ہے۔”مُنی نے پریشانی سے کہا۔
”مر جانے دے مجھے ایسی زندگی سے تو مر جانا ہی بہتر۔”امام بخش اداسی سے بولا۔
”ابا تو ایسی بات مت کیا کر۔”مُنی روہانسی ہو گئی تھی۔
”کیا چھوڑا ہے ایسی اولاد نے جو میں خوش فہمیاں پال لوں۔ بڑا بیٹا سہارا بننے کے بجائے چھوڑ کر چلا گیا۔ چھوٹا اتنا ناکارہ ہے کہ اسے تو خود سہارے کی ضرورت ہے وہ کیا سہارا دے گا۔کون اپنے بیٹوں سے توقع رکھے اس دور میں۔یا اللہ تو ایسی زندگی سے موت دے دے مجھے۔”امام بخش نے بے بسی سے کہا۔
فوزیہ اپنے آنسو پونچھتی ہوئی وہاں سے ہٹی اور کمرے کی طرف چلی گئی۔
٭…٭…٭
کمرے میں جا کر فوزیہ نے اپنا پرس نکالا اور اس میں سے کچھ نوٹ الگ کر لیے۔
”یہ اماں کے لیے،راشن اور ضروری سامان آئے گا۔یہ ابا کی دوائی اور ٹیسٹ کے لیے۔کرائے کے اور مُنے کو تو دے دیے۔اب باقی بچے یہ چند نوٹ،یہ تیرے لیے فوزیہ۔ریحان کہتا ہے فوزیہ تیرا اپنے اوپر بھی کوئی حق ہے تو یہ چند نوٹ میں اپنے لیے بچا لیتی ہوں۔”خود سے باتیں کرتے کرتے وہ زور زور سے ہنسی اور پھر رونے لگی۔”ارے ان میں سے میں نے اپنے بچے کے لیے کچھ نہیں رکھا، اس کو بھی تو میرے پیسے کی ضرورت ہوگی۔ یہ نوٹ میں اس کو بھیج دیتی ہوں چپکے سے،کسی کو پتا نہیں لگے،بالکل چپکے سے۔”
وہ خود سے ایسے ہی باتیں کرتے کرتے پہلے ہنستی اور پھر دیر تک روتی رہی۔
٭…٭…٭
کنول ریحان کے اپارٹمنٹ میں بیٹھی تھی۔ ریحان اس کے لیے چائے بنالایا۔
”مجھے کوئی حیرت نہیں،تمہارے گھر والے اتنے ہی کمینے ہیں۔”ریحان نے کنول کی ساری بات سننے کے بعد کہا۔
”ریحان ایسا مت کہو میرے ماں باپ ہیں وہ۔”کنول نے غصے سے ریحان کو دیکھا۔
”تو کیا ہوا ؟اپنے مسائل کے وقت انہیں کوئی غیرت نہیں آتی؟”ریحان نے بھی اسی انداز میں پوچھا۔
”لیکن اگر میں نہ کرتی ان کے لیے تو کون کرتا؟”کنول نے سوال کیا۔
”یہی بات ان کوسمجھنی چاہیے نا ۔”ریحان نے طنزیہ اندازمیں کہا۔
”ریحان کسی غریب کی غیرت اس کے ایک مہینے کے راشن کے برابر ہوتی ہے۔”کنول نے بھی جواب طنز کیا۔
”تجھ سے باتوں میں کوئی نہیں جیت سکتا۔ نہیں لگتا کہ تو کم پڑھی لکھی ہے۔ فلسفہ ایسا بولتی ہے کہ اچھوں اچھوں کے فلسفے تیرے آگے پانی بھریں۔”ریحان اس کی بات سن کر لاجواب ہو گیا تھا۔
”چل چھوڑ دے سب،اگر کچھ ہے تو کھانے کو تو لا۔دوپہر سے کچھ نہیں کھایا۔”کنول نے ہنستے ہوئے کہا۔
”کیوں گھر سے چلتے وقت کسی نے نہیں پوچھا۔”ریحان نے اُٹھتے ہوئے سوال کیا۔
”کچھ نہیں پکا تھا، یوں لگ رہا تھا کہ گھر میں کسی کی موت ہوئی ہے۔”کنول نے تلخی سے کہا۔
”تیری موت ہوئی اور تو خود ہی اپنا جنازہ اُٹھا کر وہاں سے چلی آئی۔دیکھ بھول جا سب کو، اپنے بارے میں سوچ۔جن کے لیے سب کچھ کررہی ہے انہوں نے تو سوچنا بھی نہیں تیرے بارے میں۔ بُری بن رہی ہے تو تو بن رہی ہے۔”ریحان نے طنز کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں تو یہ سب میں نے ہی بھگتنا ہے اور کون بھگتے گا۔”کنول نے کندھے اچکا کر جواب دیا۔
”کیا فائدہ ہوگا اس کا؟”ریحان نے سوال کیا۔
”کچھ کام فائدے یا نقصان کے لیے نہیں کیے جاتے ریحان۔”کنول نے مزے سے کہا۔
”پھر کس لیے کیے جاتے ہیں؟”ریحان نے پھر سوال کیا۔
”بس کردیے جاتے ہیں،کیوں کہ وہ ہماری قسمت میں لکھے ہوتے ہیں کہ وہ ہم نے ہی کرنے ہیں۔”کنول نے بے پروائی سے جواب دیا۔
”عجیب سے لاجک ہے تمہاری۔”ریحان نے ناسمجھی کے عالم میں کہا۔
”یہ بحث بہت بار ہمارے درمیان آئی ،چلو چھوڑو جاؤ کچھ کھانے کو لاؤ۔”کنول نے کہا تو ریحان منہ بنا کر وہاں سے اُٹھ گیا۔
٭…٭…٭
کنول شہریار سے ملنے اس کے آفس گئی۔ وہ بہت اُداس تھی اور شہریار کو گھر میں ہونے والے واقعات بتا رہی تھی۔
”تم تو چھوڑ کر آگئے تھے،ابا اور اماں نے بہت بے عزتی کی۔وہ تو اسی وقت وہاں سے نکل جانے کا کہہ رہے تھے۔اماں کے دل میں رحم آگیا اور انہوں نے کہا کہ اندر جا کر سو جا۔”کنول نے اداسی سے کہا۔
”لیکن میں تو ماما کو کہہ رہا تھا کہ وہ جاکر تمہارے ماں باپ سے ہمارے رشتے کی بات کریں۔” شہریار پریشان ہو گیا تھا۔
”نہیں شہریار ابھی نہیں پلیز! ابھی نہیں۔”کنول نے اس کے آگے ہاتھ جوڑے۔
”کیوں؟”شہریار حیران رہ گیا۔
” تم نہیں جانتے کہ میرا تعلق کس کلاس سے ہے، تمہاری ماما کو تو شاید اچھا نہ لگے۔”کنول نے اسے سمجھایا۔
”جب مجھے تمہاری شادی ،بچے اور ویڈیوز پر کوئی مسئلہ نہیں تو اس پر کیا ہوگا۔”شہریار متعجب ہو رہا تھا۔
”لیکن میں ایک بہت غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں۔میرے ماں باپ بہت سیدھے سادے لوگ ہیں۔”کنول نے کہا۔
”مجھے اور میری ماما کو اس سے کوئی غرض نہیں،تم جانتی ہو بس ہمیں تم سے غرض ہے،تم سمجھتی کیوں نہیں۔” شہریار نے اپنی بات پر زور دیا۔
”میں سب سمجھتی ہوں لیکن ڈرتی ہوں۔”کنول نے پریشانی سے کہا۔
”ڈر ور نکالو اپنے اندر سے اور صرف بھروساکرنا سیکھو لڑکی، مجھ جیسا بندہ تمہیں آسانی سے نہیں ملے گا۔”شہریار نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔
کنول مسکرائی اور بولی۔”جانتی ہوں۔”
٭…٭…٭
اسما اور رحیماپنے ایک چھوٹے سے گھر میں ٹی وی کے آگے بیٹھے تھے۔ٹی وی پر فوزیہ کا وہی انٹرویو چل رہا تھا جو سمیع احمد نے کیا تھا۔اسما ہکا بکا ہوکر وہ انٹرویو دیکھ رہی تھی۔
”دیکھ وے یہ اپنی فوزیہ ہے، کیا شاندار گھر میں رہتی ہے۔”اسما نے رحیم سے کہا۔
” او! تجھے کیا وہ کالے پانی رہے اپنے کام سے کام رکھ۔”رحیم نے غصے سے کہا۔
”کیسے رکھوں کام سے کام؟تجھے اپنے بچوں کا خیال نہیں مگر مجھے ہے۔میں کیسے اپنے بچوں کا حق دوسروں کو دے دوں؟پھوپھو کے پیسوں پر میرے بچوں کا بھی حق ہے۔”اسما نے جل کر کہا۔
”او کہاں کا حق؟کیسا حق؟پہلے تو بڑی باتیں کرتی تھی کہ دیکھ رحیم تو سمجھا یہ کیسا پیسا لارہی ہے، تو سمجھا اس کو ،پوچھ اس سے۔ اب تو بڑی بدل گئی۔”رحیم نے بلبلا کر کہا۔
” کون نہیں بدلتا پیسے کے لیے؟تو بھی بدل جا۔دیکھ سب کچھ تیرے گھر والے لوٹ کر کھا جائیں گے۔”اسما نے اسے سمجھایا۔
”تو کھانے دے مجھے کیا،تیرے پاس کیا کمی ہے؟ ترس تو نہیں رہی۔”رحیم نے بے پروائی سے کہا۔
”تجھے نہیں مجھے تو ہے۔”اسما روکھے اندازمیں بولی۔
”دیکھ بھول جا اس بے غیرت کو اور اس کے پیسے کو۔لوگ طعنے دیتے ہیں مجھے۔”رحیم نے اس کے آگے ہاتھ جوڑے۔
”لوگوں کو تو کوئی اور کام نہیں،طعنے دیتے ہیں دینے دے۔انہوں نے کون سا پیسا دے جانا ہے،طعنے ہی دینے ہیں، طعنوں سے کب پیٹ بھرتا ہے۔”اسما نے بے پروائی سے کندھے اُچکائے۔
ْْْْْْْْْْْ”دیکھ میرا دماغ مت خراب کر۔”رحیم نے غصے سے کہا۔
” او نہیں کرتی تیرا دماغ خراب۔بیٹھ تو اپنی اسی کرائے کی کٹیا میں ساری عمر اور اس کی بنائی ہوئی جائیدادیں تیرے گھر والے ہڑپ کر جائیں گے۔”اسما نے منہ بنا کر کہا۔”کر جائیں کالے چور، کر جائیں مینوں کی۔”رحیم نے کہا تو اسمامنہ بناتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
٭…٭…٭
”سنو! ماما نے بلایا ہے۔”ایک دن شہریار نے کنول کو فون پر کہا۔
”کیوں؟”کنول نے حیرانی سے پوچھا۔
”یہ تم اُن سے پوچھنا، وہ تم سے ملنا چاہتی ہیں۔”شہریار نے کندھے اچکا کر جواب دیا پھر بولا۔”تم اپنے ماں باپ سے نہ ملواؤ لیکن میری ماما تم سے ملنا چاہتی ہیں۔”
”سوچوں گی، ان کے سامنے آنے کی ہمت نہیں پڑتی۔”کنول تذبذب کا شکار تھی۔
”سنو! دنیا میں،میں اور ماما وہ لوگ ہیں جن کے سامنے تمہاری محبت کو ہمت کی قطعاً ضرورت نہیں۔” شہریار نے بہت پیار سے اس کا حوصلہ بڑھایا۔
کنول نے قہقہہ لگایا۔” کافی شاعرانہ باتیں کرنے لگے ہو ۔”
”او یار! دل کی بات کرو تو تم عورتیں شاعر بنادیتی ہو۔میں صحیح کہہ رہا ہوں،ماما نے تم سے کچھ نہیں پوچھنا۔ بس وہ چاہ رہی تھیں ہم سب مل کر ایک بار کھانا کھائیں۔” شہریار نے ماں کاارادہ بتایا۔
کنول چپ رہی تو شہریار نے پوچھا۔”بولو کب آؤں لینے؟”
”کل، لیکن میری ایک شرط ہے۔”کنول نے فوراً کہا۔
”وہ کیا؟”شہریار نے پوچھا۔
”ماما کے لیے کھانا میں اپنے ہاتھوں سے بناؤں گی۔”کنول نے بہت پیار سے کہا۔
”واؤ!کیا تم کھانا بنا سکتی ہو؟”شہریار کو خوش گوار حیرت ہوئی۔
”بہت اچھا، کھا کر دیکھنا۔”کنول نے فخر سے کہا۔”لیکن یہ بتاؤ کیا بناؤں؟ بلکہ یہ بتاؤ ماما کو کیا اچھا لگتا ہے؟”
”تم جو بھی کھلا دو سب چلے گا۔”شہریار نے کہا۔
”میں تمہارا نہیں ماما کا پوچھ رہی ہوں۔”کنول نے مصنوعی ناراضی کامظاہرہ کیا۔
”اچھا تو پھر چائنیز بنا دو ہم دونوں ماں بیٹے کافیورٹ فوڈ ہے۔”شہریار نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔
”ڈن ،کل مجھے اسی ٹائم پک کرلینا۔” کنول نے کہا اور فون بند کر دیا۔اب وہ سوچ میں پڑ گئی کہ کل کیا پہن کر جایا جائے۔اس نے اپنا ایک بہت سادہ سا شیفون کا سوٹ نکالا۔وہ ان کے سامنے بہت سوبرانداز کے کپڑے پہن کر جانا چاہتی تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});