باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۹ (آخری قسط) ۔۔۔۔ شاذیہ خان

فوزیہ کے بھائی، بھابی گھر سے سامان لے کر جارہے تھے،جب کہ ماں اور باپ ہکا بکا پریشان سے بیٹھے تھے۔
”دیکھ ابا کہے دے رہا ہوں اُسے سمجھا لے اب اس سے زیادہ بدنامی نہیں سہی جاتی۔لوگ روک روک کر پوچھتے ہیں کہ وہ بے غیرت تیری بہن ہے؟ مر جانے کو جی چاہتا ہے۔”رحیم نے بال نوچتے ہوئے کہا۔
”تو مر جا جا کر منہ کیا دیکھ رہا ہے۔”ماں نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔
”اماں تیری انہی باتوں نے اُسے خراب کیا ہے،اب تو دوسری کو بھی خراب کردینا۔”رحیم نے ناراضی سے کہا۔
”جاجا،نکل جا یہاں سے۔”ماں نے اسے دھکا دیتے ہوئے کہا۔
”ابا تو کیوں خاموش ہے؟”رحیم نے امام بخش کو جھنجھوڑا۔اس نے خالی خالی نظروں سے بیٹے کو دیکھا اور بولا۔
”میں کیا بولوں،بیٹی ہو یا بیٹا دونوں ہی بدبخت نکلے۔کب حرام کا لقمہ گیا ان کے منہ میں پتا ہی نہ چلا۔”امام بخش کے لہجے میں شدید بے بسی تھی۔اس نے رحیم سے کہا۔”جا تو جا یہاں سے ہمارا اللہ مالک ہے۔تیرے بغیر مر نہیں جائیں گے۔”
”ہاں ہاں جارہا ہوں ابا،مجھے بھی اور گالیاں کھانے کا کوئی شوق نہیں۔ چل اسمااُٹھا بچوں کو میں بھی کس سے بات کررہا ہوں۔ان کو تو صرف اپنی بیٹی پیاری ہے وہ بے غیرت بیٹی جو پوری دنیا میں نام بدنام کرتی پھر رہی ہے۔”رحیم نے زچ ہو کر کہا۔
”جاجا زیادہ بکواس مت کر،نکل جا میں بھی دیکھتی ہوں کیا محل بناتا ہے تو اپنی اس بہن کے بغیر جس نے اب تک تجھے روٹی کھلائی۔”ماں نے تنک کر کہا۔
” اماں تھوکتا ہوں ایسی روٹی پر۔”رحیم نے زمین پر تھوکتے ہوئے کہا۔
”جب چپڑی کھا رہا تھااس وقت تھوکتا۔ تیرے بچے اُس نے پالے ہیں،اب بڑی غیرت آگئی ہے۔”ماں نے غصے سے کہا۔
” چل اماں آئی تو سہی۔”رحیم بے غیرتی سے بولا۔
”میں بھی دیکھتی ہوں کب تک باقی رہتی ہے۔”ماں نے کہا۔
”دیکھ لینا جارہا ہوں،خدا حافظ!”رحیم نے دروازے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
اسما بھی آگے بڑھ کر ماں کے پاس آئی اور بولی۔”خدا حافظ اماں۔”
”جاجا دفع ہو تیرا ہی چلایا چکر ہے۔”ماں نے غصے سے کہا تودونوں منہ بناتے دروازے کی طرف بڑھ گئے۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

کنول نے اپنے گھر کا دروازہ کھولا، سامنے شہریار کھڑا تھاجسے دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔شہریار نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
”اندر آنے کا نہیں کہو گی؟
کنول اس کا ہاتھ پکڑ کر اندر لائی اور صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔”ہاں ہاں اندر آؤ، بیٹھو۔”
دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔چند لمحے اسی انداز سے خاموشی میں بسر ہوئے تو شہریار نے ہمت کرکے اُس سے پوچھا۔
” کیسی ہو؟”
”ٹھیک ہوں،تم سناؤ تم کیسے ہو؟”کنول نے اسی انداز میں سوال کیا۔
”میں بھی ٹھیک ہوں۔”شہریار نے مُسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”مجھے معلوم ہے کیوں آئے ہو۔”کنول نے کچھ سوچ کر کہا۔
” کیوں؟”شہریار نے حیرانی سے پوچھا۔
”مجھے بُرا بھلا کہنے اور بنتا بھی ہے تمہارابُرا بھلا کہنا۔میں اسی قابل ہوں کہ مجھے گالیاں دی جائیں۔”کنول نے اس کے چہرے کو بہت غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں تمہیں قطعاً گالیاں دینے نہیں آیا ۔”شہریار نے بہت تحمل سے کہا۔
”پھر؟”کنول کی آنکھوں میں حیرانی ابھری۔
”میں تم سے صرف ایک سوال کرنے آیا ہوں۔”شہریار نے رک رک کر کہا۔
” سوال… کیسا سوال؟”کنول نے حیرت سے پوچھا۔
” برسوں ایک بے نام رشتے کو نام دینے کی چاہ میں،میں تمہارے ساتھ چلتا رہا لیکن تم نے کسی اعتبار کے قابل نہ سمجھا۔”شہریار کے لہجے میں بہت مان اور محبت تھی۔
”مجھے تو اپنے اوپر ہی کوئی اعتبار نہ تھا تو تم پر کیا کرتی؟”کنول نے تلخی سے ہنس کر جواب دیا۔
”تم کرکے تو دیکھتیں، مجھے سب بتاتی تو۔”شہریار نے اصرار کیا۔
”مجھے ڈر تھا۔”کنول نے کچھ سوچ کر کہا۔
”کیسا ڈر؟”شہریار نے حیرانی سے پوچھا۔
”یہ جو اک بے نام سا رشتہ ہے میرے اور تمہارے درمیان یہ مجھے بہت سکون دیتا تھا۔اس کے ختم ہوجانے کا ڈر تھا۔یہبالکل ایک ٹرانکولائزر جیسا احساس تھا۔دنیا میں جب بہت سارے خود غرض لوگوں کے بارے میں سوچ کر تمہارے بارے میں سوچتی تھی تو اندر سے آواز آتی تھی کہ تم پر اعتبار کر لوں،تمہاری باتوں پر اعتبار کر لوں۔تم باقی سب جیسے نہیں ہو۔تم میرا ساتھ دو گے،لیکن کبھی کبھی ڈر بھی جاتی تھی کہ یہ احساس ہی ختم نہ ہوجائے،تم سچائی سُن کر مجھے چھوڑ ہی نہ دو۔میں اس احساس کی عادی ہوگئی تھی شہریار اور اسے کھونا نہیں چاہتی تھی۔” کنول نے رک رک کر کہا اور آنکھیں جھکا لیں۔
”سچی محبت کی یہی تو خوبی ہے کیسے بھی حالات ہوں ساتھ نہیں چھوڑتی۔دیکھو آج سب کچھ جاننے کے بعد بھی تمہارے سامنے بیٹھا ہوں۔”شہریارزور سے ہنسا جیسے یہی سننا چاہتا ہو ۔
کنول اس کے چہرے پر نظریں جمائے اسے غور سے دیکھنے لگی۔
”چلو کہیں چلتے ہیں۔”شہریار نے کہا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کھڑا کر دیا۔کنول بغیر کچھ پوچھے چپ چاپ اس کے پیچھے چلتی رہی جیسے اعتبار کر چکی ہو۔
دونوں اسی ریسٹورنٹ میں پہنچے۔شہریار نے کافی منگوائی۔
”آئی ایم رئیلی سوری، مجھے تم پر تو اعتبار کرنا چاہیے تھا۔کتنی بار سوچا مگر ہمت ہی نہ پڑی۔”کنول نے ہاتھ مسلتے ہوئے کہا۔
”کمی تمہاری ہمت میں نہیں میری محبت میں تھی۔”شہریار ہولے سے مسکرایا۔
”تمہاری محبت میں؟”کنول نے حیرانی سے آنکھیں جھپکائیں۔
” وہ محبت ہی کیا جو دوسرے شخص کو ہمت نہ دے سکے،شاید مجھ میں ہی کوئی کمی تھی۔”شہریار نے بہت جذب سے کہا۔
”یار تم بہت اچھے ہو،دوسرے بندے کا سارا بار اپنے کندھے پر اُٹھا لیتے ہو۔”کنول نے ہنستے ہوئے کہا۔
”ہنس لو لیکن میں پھر بھی یہی کہوں گا۔میری محبت میں ہی کوئی کمی تھی جس نے تمہیں میرا اعتبار ہی نہ دیا۔”شہریار نے تلخی سے کہا۔
”خیر چھوڑو ابھی تو میں پریشان ہوں۔ابا اماں سب گھر والے بہت ناراض ہیں،ان سے معافی مانگنا چاہتی ہوں، کیا کروں؟”کنول نے بات بدلتے ہوئے کہا۔
” کیا کروں کا کیا مطلب؟ جاؤ ان کے پاس اور مانگو معافی۔”شہریار نے اسے سمجھایا۔
”اور اگر انہوں نے معاف نہ کیا؟”کنول تذبذب کا شکار تھی۔
”یہ رشتے زیادہ دیر ناراض نہیں رہ سکتے۔ کردیں گے معاف،تم جاؤ۔”شہریار نے رسان سے کہا۔
”چلی جاؤں؟”کنول نے پھر پوچھا۔
”اب تو اعتبار کر لو پگلی،میں کہہ رہا ہوں نا۔”شہریار نے سینے پر ہاتھ رکھ کر بڑے مان سے کہا۔
”تم میرے ساتھ چلو گے؟”کنول نے بھی مان سے پوچھا۔
”ہاں کیوں نہیں۔”شہریار نے کچھ سوچنے کے بعد ہاں میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
”مجھے حوصلہ رہے گا۔”کنول نے کہا۔شہریار اس کی بات سن کر مسکرا دیا۔
٭…٭…٭
کنول اپنے کمرے میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی کہ ریحان بھی اُدھر ہی آگیااور اس پر ناراض ہونے لگا۔
”کبھی تو میری بات مان لیا کرو تم۔”
” تیری ہی مانی ہے ہمیشہ۔”کنول نے بے پروائی سے کہا۔
”یہ میری مانی ہے؟میری مانتی تو دنیا سے لڑائی مول نہ لیتیں۔”ریحان نے ناراضی سے کہا۔
”تو نے ہوا دی چنگاری جل اُٹھی۔اب اس آگ کو بجھانا مشکل ہے ریحان۔”کنول نے تلخی سے ہنستے ہوئے کہا۔
” کیسی باتیں کررہی ہو؟”ریحان کے لہجے میں غصہ تھا۔
”میں ہمیشہ ہی ایسی باتیں کرتی تھی۔تجھے کبھی سمجھ نہیں آئیں تو کیا کروں؟”کنول نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
” تو اب؟” ریحان نے پوچھا۔
”کیا اب؟”کنول کو اس کا سوال سمجھ میں نہیں آیا تھا۔
”گھر والوں کو کیسے مناؤ گی،وہ تو سخت ناراض ہوں گے۔”ریحان نے حیرانی سے کہا۔
”کل گھر جارہی ہوں شہریار کے ساتھ۔” کنول نے بہت آرام سے کہا۔
ریحان یہ سن کر اچھل ہی پڑا اور بولا۔
”تیرا دماغ درست ہے؟کل جارہی ہے اور وہ بھی شہریار کے ساتھ؟”
”ہاں اور کیا،کوئی نہ کوئی قدم تو اٹھانا پڑے گا۔”کنول نے تحمل سے جواب دیا۔
”تیرے بھائی… ابا… ” ریحان بہت حیران تھا اس کے فیصلے پر،اس سے بات نہیں ہو رہی تھی۔
”ابا بہت ناراض ہے۔میری بات ہوئی تھی لیکن تو فکر نہ کر میں منا لوں گی اُسے۔”کنول نے اطمینان سے وضاحت کی۔
”میرے خیال میں تو ابھی نہ جا،یہ وقت ٹھیک نہیں،تھوڑا وقت گزرنے دے۔”ریحان نے اسے سمجھایا۔
”سارے وقت ٹھیک ہیں…کچھ نہیں ہوتا… کل یا پرسوں… جانا تو ہے تو دیر کیوں کروں۔” کنول نے اس کی بات چٹکیوں میں اڑائی۔
”دیکھ تو سمجھ ابھی اُن کا غصہ بہت زیادہ ہوگا۔”ریحان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک دفعہ پھر اصرار کیا۔
”میں منا لوں گی۔تو فکر مت کر۔”کنول نے بے پروائی سے کہا۔
”چل تیری مرضی میں تو سمجھا ہی سکتا تھا۔ہر بار کی طرح تو نے اس بار بھی میری نہ مانی۔”ریحان نے ہار مانتے ہوئے کہا۔
”میں واپس آؤں گی نا۔تو دیکھنا تو ہی کہے گا کہ کنول تو نے جا کر ٹھیک کیا۔”کنول نے مسکرا کر کہا۔
٭…٭…٭
کنول اور شہریار گاڑی میں بیٹھے گاؤں کی طرف جارہے تھے۔دونوں وقفے وقفے سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مُسکرا رہے تھے۔کار کنول کے دروازے پر جاکر رُک گئی۔ اس نے شہریار کی طرف دیکھا،شہریار نے اسے آنکھوں سے اندر جانے کا اشارہ کیا،وہ مسکراتی ہوئی نیچے اتر گئی۔
کنول گھر دروازہ کھول کر اندر داخل ہو ئی۔ اندر چارپائی پر موجود ماں اور باپ باتیں کرتے کرتے اُسے دیکھ کر چپ ہوگئے اور ہکا بکا ہوکر اُسے دیکھنے لگے۔
٭…٭…٭
”تو بہت بے غیرت ہے،تیری ہمت کیسے ہوئی گھر میں گُھسنے کی؟”امام بخش اپنے حواس میں واپس آیا تو کنول پر گرجا۔
”ابا دیکھ ہاتھ جڑے ہیں معاف کردے۔”فوزیہ نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔
”تو جتنا بدنام کرسکتی تھی کردیا۔کیا منہ لے کر آئی ہے تو؟شرم نہیں آئی تجھے یہ سب کرتے؟”امام بخش نے غصے سے پوچھا۔
”اماں معافی دے دے،ابا سے کہہ وہ مجھے معاف کردے۔میں بھی مجبور تھی۔”فوزیہ بلبلا کر ماں سے لپٹ گئی۔
”ایسی کیا مجبوری تھی جو تو یہ سب کرتی رہی؟”ماں نے اُسے خود سے دور کرتے ہوئے ناراضی سے کہا۔
”اماں تو جانتی ہے، گھر کی ضرورتیں تھی۔”فوزیہ نے ز چ ہو کر کہا۔
”نام نہ لے گھر کی ضرورت کا،ساری عمر کم کھلایا مگر حلال کھلایا۔تو نے ذرا شرم نہ کی۔”ماں نے چلا کر کہا۔
”اماں خدا کے لیے مجھے معاف کردے۔”فوزیہ نے روتے روتے ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”اس سے کہہ دے دفع ہو جائے یہاں سے میں اس کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا۔”امام بخش نے پھر شدید غصے میں کہا۔
”ابا دیکھ،میری بات سُن۔”فوزیہ نے باپ کے پاس آ کر اس کے پاؤں پکڑ لیے۔
”مت کر کوئی بات مجھ سے۔”امام بخش نے اسے خود سے دور ہٹاتے ہوئے کہا۔
اتنے میں مُنا بھی وہاں آ گیا۔فوزیہ کو دیکھ کر مُنے کی آنکھوں سے خون اُبل پڑا اور وہ اس پر چڑھ دوڑا اورزور سے چلایا۔
” تو کیوں آئی ہے یہاں؟”مُنے نے فوزیہ کو بالوں سے دبوچنے اور ایک ہاتھ جڑنے کی کوشش کی۔وہیں پر ماں اور مُنی نے آگے بڑھ کر اُسے بچا لیا۔فوزیہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے منے کو دیکھ رہی تھی۔
”کیا گھور رہی ہے؟ جو تو دنیا بھر میں ہمیں بدنام کرکے آئی ہے، اس کے بعد تو تجھے مر جانا چاہیے۔”مُنا نفرت سے بولا۔ماں اور بہن نے فوزیہ کو مُنے سے دور کیا۔
” تو منہ بند کر مُنے، خاموش ہو جا۔”ماں نے کہا۔
فوزیہ بے بسی کے عالم زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔
٭…٭…٭
فوزیہ اپنے کمرے میں بیٹھی اپنے بچے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔اتنے میں مُنی اندر آئی،اس کا منہ پھولا ہواتھا ۔وہ چیزیں اُٹھا کر اِدھر اُدھر پٹخ رہی تھی۔فوزیہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر بولی۔
” تو بھی مجھ سے ناراض ہے نا مُنی؟”
”تو کیا ہار پھول ڈالوں باجی؟ تو نے کام ہی ایسا کیا ہے۔”مُنی نے چیخ کر کہا۔
”میں مجبور تھی مُنی۔”فوزیہ نے کمزور آواز میں کہا۔
”کیسی مجبوری؟غلط کام کرنے میں کوئی مجبوری نہیں ہوتی،بس ہم بے غیرت بن جاتے ہیں اور تو بھی بے غیرت بن گئی تھی۔”مُنی نے نفرت سے کہا۔
”مُنی یہ تو کیا کہہ رہی ہے؟”فوزیہ نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے پوچھا۔
”ہاں باجی میں ٹھیک کہہ رہی ہوں، تو نے سب کے سر جھکا دیے۔تیری وہ گانے والی ویڈیو جس نے بھی دیکھی سب نے تھو تھو کیا،اُس نے بھی۔”مُنی نے نفرت سے کہا،اور ‘اس نے بھی ‘ پر زور دے کر بولی۔
”کس نے؟”فوزیہ نے چونک کر پوچھا۔
”اُس نے باجی جسے میں تجھ سے ملوانے والی تھی۔”مُنی نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”کون تھا وہ؟”فوزیہ ابھی تک حیرانی تھی۔
”باجی وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ بہت اچھا تھا مگر تیری وجہ سے میں اس سے بھی شرمندہ ہوئی۔ وہ اب مجھے کبھی فون نہیں کرے گا اور یہ سب تیری وجہ سے ہوا۔تیری وجہ سے۔بھائی اور بھابی گھر چھوڑ کر چلے گئے ۔امام صاحب نے گھر خالی کرنے کو کہا ہے۔ شاید ابا واپس گاؤں چلا جائے۔مُنا تیری وجہ سے بگڑا۔ یہ سب تیری وجہ سے ہوا۔”مُنی نے سارے مسائل کی جڑ فوزیہ کو قرار دے دیا تھا۔
” میری وجہ سے؟”فوزیہ نے سینے پر ہاتھ رکھ کر تاسف سے پوچھا۔
”ہاں تیری وجہ سے۔تو نے ہم سب کو بدنام کردیا۔اب کوئی ہمارے گھر بارات لے کر نہیں آئے گا۔مجھے آج پتا چلا عابد بھائی تجھے کیوں بُرا بھلا کہتا تھا۔”مُنی کے لہجے میں فوزیہ کے لیے بے پناہ نفرت تھی۔
”مُنی یہ تو کیا کہہ رہی ہے؟”فوزیہ ہکا بکا رہ گئی۔
”میں صحیح کہہ رہی ہوں۔”مُنی نے حقارت سے کہا اور کمرے سے نکل گئی۔فوزیہ نے اس کی طرف دیکھا اور بہت ہولے سے بُڑ بُڑائی۔
”ہاں شاید سب میری وجہ سے ہوا،میں ہی غلط ہوں!”
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۸ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Read Next

الف — قسط نمبر ۱۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!