پانچ سال بعد
٭…٭…٭
آج شہر کی ایک بڑی پارٹی میں جانا تھا اس لیے کنول دل لگا کر تیار ہوئی۔لپ اسٹک کے آخری ٹچ پر اس نے اوپر والے ہونٹ سے نیچے والے ہونٹ کو ٹچ کیا اور شیشے میں دیکھا۔”اف کنول بلوچ! آج تو بہت سے قتل ہوں گے تمہاری نظروںسے اور اگر نہ کر سکیں تو لعنت ہو تمہاری نظروں پر۔” یہ کہہ کر وہ ہولے سے ہنسی اور بڑبڑائی۔”ویسے کنول بلوچ تم بہت بے حیا ہو،تمہاری وجہ سے شریف گھرانوں کے بچے خراب ہورہے ہیں، بلکہ تم دین دار لوگوں کو بھی خراب کر رہی ہو، بے حیا۔”
یہ کہہ کر وہ بہت زور سے ہنسی اور شیشے میں خود کو دیکھتے ہوئے بولی۔”بس کر دو بے حیا! اور کتنی بے حیائی پھیلاؤ گی۔”اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی اور ملازمہ نے بتایا کہ ایم این اے (MNA) تارڑ صاحب کا ڈرائیور اُسے لینے آچکا ہے۔
”دو منٹ میں آرہی ہوں۔”یہ کہہ کر اس نے آخری بار خود پر اسپرے کیا اور باہر نکل آئی۔
وہ پارٹی میں پہنچی تو پارٹی اپنے عروج پر تھی۔ایم این اے نے اس کا تعارف بہت سے بڑے بڑے نام ور لوگوں سے کروایا۔وہ اُس کے لیے ایک اچھی رات کہی جا سکتی تھی کیوں کہ شہر کے بڑے نیک نام لوگوں کی آنکھوں میں اس نے اپنے لیے پسندیدگی کی جھلک دیکھی۔اکثر نے اسے اپنا کارڈ دیا جو بڑی نزاکت سے کنول نے اپنے کلچ میں رکھ لیا۔پارٹی کے اختتام پر تارڑ صاحب نے اسے گھر ڈراپ کیا۔ان کے ارادے تو کچھ اور ہی تھے جن پر کنول نے سر درد کا بہانہ بنا کر لگامیں ڈالیں۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
کنول ویلنٹائن ڈے پر فیس بک ویڈیو اپ لوڈ کر رہی تھی ۔اس کے کمرے میں غبارے، پھول ،ٹیڈی بئیراورچاکلیٹس بکھری ہوئی تھیں۔وہ موبائل ہاتھ میں لیے اپنے کمرے کی ویڈیو دکھا رہی تھی۔ساتھ ساتھ وہ فیس بک پر موجود اپنے چاہنے والوں سے بات بھی کر رہی تھی۔
”ہر کسی کی زندگی میں کوئی نہ کوئی ویلنٹائن ضرورہوتا ہے، میری زندگی میں بھی ہے۔دیکھیں آج کتنی ساری چیزیں بھیجی ہیں اس نے ۔”
کنول نے دوبارہ موبائل کے ذریعے ایک ایک چیز کو فوکس کیا۔”یہ چاکلیٹس … یہ پرفیوم… غبارے… یہ ریڈ روزز، میں آج دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی ہوں۔دوستو بہت بے رنگ ہوتی ہے وہ زندگی جس زندگی میں کوئی محبت نہ ہو۔ آپ کتنے تنہا ہوتے ہیں۔”
ایک دم لیٹے سے اُٹھ کر بیٹھ گئی اور بڑے جذباتی انداز میں کہنے لگی۔
”اگر چاہتے ہیں آپ کی زندگی میں رنگ بھر جائیں تو اپنا soulmate ڈھونڈیں وہ کہیں نہ کہیں ضرورہوگا ۔جائیں ڈھونڈیں ،مجھے تو میرا مل چکا ہے اور آج کا پورا دن میں نے اس کے ساتھ گزارا،بہت مزہ آیا۔ اب بہت تھک چکی ہوں،سب سے اجازت چاہتی ہوں،گڈ نائیٹ۔”
یہ کہہ کر اس نے موبائل آف کر دیا ۔چہرے پر سو چ کے رنگ تھے،پھر آہستہ آہستہ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر گئے اور وہ سسکنے لگی۔کتنا مشکل ہوتا ہے چہرے پر مسکراہٹ کا ماسک لگائے ”سب اچھا ہے” کا ڈرامہ کرنا،بہت مشکل اور وہ کتنی بڑی ڈرامہ باز تھی وہ جانتی تھی۔ ۔کبھی کبھی جھوٹ بولنا کتنا مشکل ہوتا ہے،سچ بولنے سے زیادہ تکلیف دہ مگر بولنا پڑتا ہے اور وہ بول رہی تھی۔
اب وہ اپنے کمرے میں لیٹی ایک ایک کرکے غبارے پھاڑ رہی تھی۔ساتھ ساتھ آنکھوں میں آئے آنسوؤں کوایک ہاتھ سے صاف کررہی تھی۔
”لوگوں کو تو انٹرٹینمنٹ مل گئی،انہیں انجوائے کرنے کے لیے ڈرامہ دے دیا مگر مجھے کیا ملا؟لوگ مجھے کتناخوش قسمت سمجھ رہے ہوں گے کہ میرا ویلنٹائن مجھے کتنا خوش رکھتا ہے۔میری ویڈیوپر اتنی لائیکس آتی ہیں،کتنے مرد مرتے ہیں مجھ پرلیکن میں کسی پر نہیں مرتی،کسی کو نہیں چاہتی۔مرد اعتبار کے لائق ہی نہیں،اگر ہو بھی تو میرے پاس ایسی فضولیات کے لیے ٹائم ہی نہیں۔ہاہاہاکنول بلوچ…نہیں فوزیہ عظیم تو صرف ایک جوکر ہے جس کا کام لوگوں کو اینٹرٹین کرنا ہے۔”
اب وہ بولتے بولتے کبھی ہنس رہی تھی کبھی رو رہی تھی ۔
”ہا ہا ہا!اپنا تماشا خود بنا کر دکھانا دنیا کا سب سے تکلیف دہ کام ہے اور میں یہ سب کررہی ہوں۔” اسی وقت اس کے فون کی بیل بج اٹھی وہ چونکی اور آنسو پونچھے ہوئے اس نے فون کال ریسیو کی۔ فون کال مُنے کی تھی۔
”کیسا ہے مُنا خیریت ہے سب؟”کنول نے پوچھا۔
”باجی تو کیسی ہے؟”مُنا نے قدرے روکھے انداز میں پوچھا۔
”میں تو ٹھیک ہوں تو بتا گھر پر تو سب خیریت ہے؟ابا اماں بھائی؟”کنول نے پریشانی اوربے تابی سے پوچھا۔
”ہاں باجی! سب ٹھیک ہے،بس بہت دنوں سے تجھ سے بات کرنا چاہ رہا تھا۔”
”ہاں بول۔”کنول نے بے پروائی سے کہا۔
”تو نے پیسے نہیں بھیجے۔”مناتھوڑا ناراضی سے بولا۔
”کیسے پیسے؟پچھلے مہینے تو تو نے لیے تھے پچاس ہزار۔”کنول نے حیرانی سے کہا۔
”تو نے پچاس ہزار اور دینے تھے۔دیکھ دکان میں اور مال ڈلوانا ہے،دکان خالی ہے اورابھی منافع نہیں مل رہا۔”منا کے لہجے میں درشتی تھی۔
”کیا مطلب تجھے ہر مہینے پیسے چاہئیں ؟”کنول کے لہجے میں استعجاب تھا۔
”دیکھ باجی دینے ہیں تو دے،ورنہ باتیں مت بنا۔”منا نے بہت روکھے انداز میں جواب دیا۔
کنول اس کے روئیے پر جیسے ٹھٹک سی گئی۔”اچھا تو ناراض تو مت ہو۔”
”ناراض ہونے کی تو بات ہے ،دے کر جتاتی ہے۔سبزی کی دکان تو نہیں ڈالی، موبائل کی دکان ڈالی ہے۔پیسہ تو لگے گا،جتنا گڑ ڈالو اتنا میٹھا ہوگا۔”منا اب غصے سے بول رہا تھا۔
”اچھاتو فکر مت کر،بھیجتی ہوں کل ہی۔”کنول نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔
منا نے یہ سنا تو اوکے کہہ کر فون بند کردیا۔کنول جو مزید بات کرنا چاہ رہی تھی رک گئی۔”مُنے سُن… مُنے!” وہ خالی فون کان سے لگا کر رہ گئی۔وہ بہت دکھی تھی اور سوچ رہی تھی ۔
”اب تیرا میرا رشتہ صرف پیسے کا ہے۔ہمارے درمیان اب صرف پیسے کی بات ہوگی۔” ہولے سے تھکی تھکی سانس لیتے ہوئے بولی۔”اس میں تیرا قصور نہیں، میرا اب سب سے رشتہ ہی پیسے کا رہ گیا ہے۔”
٭…٭…٭
منا اپنے دوستوں سے لیے ادھار کی وجہ سے بہت پریشان تھا اسی لیے جوا کھیل کر ادھار چکانے کی کوشش میں مصروف تھا۔دوست اسے چھیڑ رہے تھے کہ وہ ان سے جیت نہیں سکتا اس لیے فضول کوششیں چھوڑ دے۔منا نے ان کی نہیں بات نہیں مانی اور اپنے پاس موجود بچی کھچی رقم داؤ پر لگا دی اور ہار گیا۔اس کے ایک دوست نے طنزیہ انداز میں اس کی طرف دیکھا اور ساری رقم سمیٹ لی۔منا پریشانی کے عالم میں اُٹھ کر گھر کی طرف چل دیا۔
٭…٭…٭
رات کووہ اپنے لیپ ٹاپ پر بیٹھی تھی اور ویلنٹائن ڈ ے کی ویڈیو پر آنے والے میسج چیک کررہی تھی۔اسی کے ساتھ اس کے موبائل پر بھی ٹکا ٹک میسج کی بپ بجنے لگی جسے اس نے نظر انداز کر دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد فون ہی بج اُٹھا۔اُس نے فون اُٹھا کر دیکھا جہاں ایم این اے تارڑکا نام جگمگا رہا تھا۔ وہ عجیب سے طنزیہ انداز میں مُسکرائی اور فون اٹھالیا۔
”ہائے تارڑ صاحب کیسے ہیں؟”
”السلام علیکم !اللہ کا شکر ہے،آپ سنائیں۔”تارڑصاحب کا انداز خوش آمدانہ تھا۔
”وعلیکم السلام۔”کنول نے پرسکون انداز میں جواب دیا۔
”ہم تو منتظر رہے آپ کے فون کے،اب تو آپ مشکل سے ہی ملتی ہیں۔”تارڑ صاحب نے کہا۔
”بس مصروفیت ہی اتنی تھی۔”کنول نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
”ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں بھی اپنی کسی نہ کسی مصروفیت کا حصہ بنالیں۔”تارڑ صاحب نے ایک دفعہ پھر خوشامد کی۔
”توبہ کریں کیوں شرمندہ کرتے ہیں،ہمارا سارا وقت آپ کا ہے۔”کنول نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔
”پھر ملاقات کا شرف تو بخشیں۔”تارڑ صاحب نے کہا۔
”جی ضرور تارڑ صاحب!اپنے گناہ بخشوانے تو آپ کے پاس آنا ہی پڑے گا،لیکن ابھی میں ذرا تھک گئی ہوں۔رات کا ڈیڑھ بج رہا ہے۔”کنول نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”اوہ اچھا!چلیں آپ آرام کریں۔انشاء اللہ جلد ملاقات ہوگی۔”تارڑ صاحب کو بھی جیسے اچانک ہی وقت کا خیال آگیا تھا۔
”جی ضرور۔”کنول نے بے زاری سے کہا اورموبائل آف کیا اور مسکراتے ہوئے بیڈ کی ایک جانب اچھال دیا۔
پھروہ لیپ ٹاپ پردوبارہ اپنی ویڈیو پر لائیکس چیک کرنے لگی۔ اس نے شہریار کا پروفائل چیک کیاجس پر شہریار کی تصویر لگی ہوئی تھی۔کنول نے اس کی ساری نئی پوسٹس پڑھیں اور پروفائل بند کردی۔لیپ ٹاپ بند کرنے سے پہلے اس نے ڈیسک ٹاپ پر لگی اپنے بیٹے کی تصویر کو بہت غور سے دیکھا جو اب تقریباً 8سال کا ہوچکا تھا۔
”تم میرے پاس ہومگر صرف تصویر میں۔تم سے کوئی بات نہیں کرسکتی، مل نہیں سکتی،تمہیں چھو نہیں سکتی۔چھوٹے سے تھے تو نہلاتی تھی ،کپڑے بدلتی تھی،کھانا کھلاتی تھی،خوب سارا پیار بھی کرتی تھی مگر اب تم بہت دور ہو۔تمہیں تو میں یاد بھی نہیں ہوں گی۔”
اس نے لیپ ٹاپ بند کردیااور بستر پر لیٹ گئی۔اس کی آنکھ سے نکل کرایک آنسو کان کے کٹورے میں گیا۔ایک کے بعد دوسرا اور پھر جیسے ایک دھار سی بندھ گئی اوروہ کب بیٹے کو سوچتے سوچتے نیند کی مہربان وادیوں میں اتری ،اسے نہیں معلوم ہوا۔
٭…٭…٭
امام بخش نے رحیم کو بجلی کا بل پکڑایا۔رحیم بل پر نظر ڈال کر بولا۔”اتنا زیادہ!یہ تو مجھے کیوں دے رہا ہے ابا؟”
”اور کسے دوں؟”امام بخش نے کہا۔”تواور تیرے بچے استعمال نہیں کرتے بجلی؟”
”لے صرف میں اور میرے بچے استعمال کرتے ہیں۔باقی تو سب بجلی بند کرکے بیٹھتے ہو۔”رحیم نے اسی انداز میں ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا۔
”لیکن میں کہاں سے دوں؟”امام بخش نے بے چارگی سے کہا۔
”مُنا بھی تو دکان چلا رہا ہے اس سے کہہ۔”رحیم نے روکھے انداز میں کہا۔
”تجھے پتا ہے کہ اس کی دکان ابھی چل نہیں رہی۔”امام بخش نے منے کی حمایت کی۔
”ہاں جب پتے کھیلے گا تو دکان کیسے چلے گی۔”رحیم طنزیہ انداز میں بڑبڑایا۔
”کیا کہہ رہا ہے تو زور سے کہہ۔”امام بخش کو اس کی بڑبڑاہٹ سمجھ میں نہیں آئی تھی۔
”او کچھ نہیں ابا جانے دے،تو چھوڑ سب۔یہ بتا اس مسئلے کا حل کیا ہوسکتا ہے؟”رحیم بے پروائی سے بہت روکھے انداز میں بولا۔
”کیا ہوسکتا ہے؟”باپ نے الٹا اسی سے سوال کیا۔
” فوزیہ آئے اسے دے یہ وہی بھرے۔”رحیم نے بل باپ کے آگے پھینکتے ہوئے کہا۔
”کیوں فوزیہ کیوں دے گی؟تو سنبھال اخراجات گھر کے۔ اس نے بہت کرلیا۔”امام بخش غصے سے بلبلایا۔
”اس کے پاس پیساہے اور وہ کرسکتی ہے تو کرنے دے اُسے،تجھے کیا تکلیف ہے۔”رحیم نے بدتمیزی سے کہا۔
”بے غیرت تو اپنے آپ کو مرد کہتا ہے۔اس گھر کا خرچہ سنبھال ،تو بھی تو کماتا ہے۔”امام بخش کو بیٹے کی باتوں پر غصہ آرہا تھا۔
”دیکھ ابا کہہ دیا میں نے میں کچھ نہیں کرسکتا اس بل کا،اور تو یہ بے غیرت کہنا چھوڑ دے میرے بیوی بچوں کے سامنے۔مجھے گالی مت دیا کر۔”رحیم نے امام بخش کو انگلی دکھا کر وارننگ دی۔
” تو غلط بات کرے گا تو دوں گا گالی۔”امام بخش نے ترکی بہ ترکی جواب دیا تو رحیم آگے بڑھ کر باپ کے سامنے تن کر کھڑا ہوگیا۔
”سن لے اب دے گا تو میں نہیں سنوں گا۔”
” کیا کرے گا تو بول؟مارے گا اپنے باپ کو؟”امام بخش نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔
رحیم باپ کا غصہ دیکھ کرتھوڑا ٹھنڈا ہوگیا۔”ابا مجھے غصہ مت دلا۔”
”او بے غیرت دفع ہو جا یہاں سے۔”امام بخش نے پھر غصے سے کہا۔
” لیکن تو بھی سمجھ کر بولا کر اب میرے بچے بڑے ہورہے ہیں۔تو ان کے سامنے بھی بے غیرت کا طعنہ دیتا ہے۔”رحیم نے ناراضی سے کہا۔
”تجھے اتنا ہی خیال ہے اپنی عزت کا تو نکل جا یہاں سے۔”امام بخش زور سے چیخا۔
”ہاں ہاں چلا جاؤں گا۔”رحیم نے تیزی سے جواب دیا۔
اتنے میں مُنی بھی وہاں آگئی ۔اس نے آگے بڑھ کر بھائی سے کہا۔”بھائی تو ابا سے ایسے بات نہ کر۔میں باجی کو بتاؤں گی۔”
”اب تو بھی بولے گی کمینی۔”رحیم نے یہ کہا اور اسے ایک زور دار تھپڑ مارا۔وہ دو جاکر گری اور رونے لگی۔
امام بخش دونوں بہن بھائیوں کی لڑائی میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔مُنی نے اسی وقت فوزیہ کو فون کیا اور سب کچھ بتا دیا۔
٭…٭…٭
اگلی صبح فوزیہ مُنی کی ایک کال پراپنے گھر میں موجود بھائی کو ڈانٹ رہی تھی۔
” تیری ہمت کیسے ہوئی ابا سے لڑنے کی اور مُنی کو تھپڑ بھی مارا تو نے۔”وہ اونچی آواز میں بھائی پر چلائی۔
رحیم نے گھوم کر مُنی کی طرف دیکھا اور غصے سے بولا۔
”اچھا تو تجھے ساری خبریں دے دیں اس چڑیل نے۔”
”دیکھ بھائی سدھر جا، اب میں اور تماشا میں برداشت نہیں کروں گی۔ہر وقت کی چخ چخ ہر وقت کی لڑائی، اگر رہنا ہے تو ڈھنگ سے رہ ورنہ کر لے اپنا کوئی اور انتظام۔ دکان اس لیے نہیں کروائی تھی کہ تو لڑائی جھگڑا کرتا رہے۔اگر اماں ابا کو کوئی سکھ نہیں دے سکتا تو تکلیف بھی نہ دے۔”فوزیہ نے رحیم کے خوب ہی لتے لیے۔
”ہاں ہاں کرلوں گا۔ تو بھی ہر بات میں احسان جتاتی رہتی ہے۔”رحیم کو بھی فوزیہ کی باتیں سن کر غصہ آ گیا تھا۔
”احسان کی کیا بات ہے۔کتنے سال ہوگئے تجھے دکان چلاتے ایک دھیلا تو ماں کو نہیں دیتا، اگر ابا نے تجھے بجلی کا بل جمع کروانے کا کہا تو کروا دے لڑ کیوں رہا ہے؟”فوزیہ نے تنک کر پوچھا۔
”میں کیوں کرواؤں یہاں سب استعمال کرتے ہیں بجلی۔”رحیم نے غصے سے کہا۔
”ٹھیک ہے تو پھر تو اپنا الگ انتظام کر۔”فوزیہ نے انتہائی روکھے انداز میں کہا۔
رحیم یہ بات سن کر بیٹھے سے ایک دم کھڑا ہو گیا۔”ہاں ہاں کر لوں گا ورنہ تو ہمیشہ مجھے یہی طعنہ دیتی رہے گی کہ میں نے تیرے ساتھ اتنا کیا۔”
”مجھے طعنے دینے کا کوئی شوق نہیں،مگر ابا سے بدتمیزی برداشت نہیں کروں گی۔”فوزیہ نے پرسکون لہجے میں کہا۔
”تو تو ابا کو بھی سمجھا نا کہ وہ بھی ذرا ذرا سی بات پر گالی دیتا ہے۔”رحیم نے ہاتھ اُٹھا کراما م بخش کی طرف اشارہ کیا۔
”میں نے ایسا کیا کہہ دیا، بجلی کا بل دیا تھا بس۔”امام بخش نے بے پروائی سے کندھے اچکائے۔
”تجھے پتا تھا کہ بجلی کا بل فوزیہ نے دینا ہے تو تو نے ضرور مجھے دے کر آگ لگانی تھی، اور یہ چڑیل بھی تیری حمایت میں بولی اس لیے میں نے اس کو پیٹا۔”رحیم نے غصے سے کہا۔
”دیکھ بھائی اگر اس گھر میں رہنا ہے تواب تو نہ ابا سے بدتمیزی کرے گا اور نہ ہی… ”
رحیم نے فوزیہ کی بات بیچ میں ہی کاٹ دی ۔”او تو رہنے دے اپنے مشورے اپنے پاس۔ چھوڑ دوں گا یہ گھر روز کی ذلالت مجھ سے بھی برداشت نہیں ہوتی۔ رکھ تو ابا کو، اماں کو اپنے پاس، میں نے ٹھیکا نہیں لے رکھا۔”یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔ سب ہکا بکا اس کی پشت دیکھتے رہے۔کتنا بے دید ہوگیا تھا وہ۔ اسے ذرا پروا نہ تھی کہ باپ اور ماں دونوں کو اس کی کتنی ضرورت ہے اس وقت،لیکن شاید وہ اپنی اسی ضرورت سے خائف تھا اور سب کوچھوڑ کر جانا چاہتا تھا۔اس بات کا سب سے زیادہ دکھ باپ کو ہوا۔ وہ فوزیہ کی طرف دکھی نظروں سے دیکھ کر بولا۔
”فوزیہ سب دیکھ کربہت دُکھ ہوتا ہے،یہ دونوں بے غیرت ہیں۔ہم سب تیری ذمہ داری بن گئے ہیں۔” امام بخش نے تاسف سے کہا۔
”ابا تو پریشان مت ہو،سب ٹھیک ہو جائے گا۔”فوزیہ نے امام بخش کا ہاتھ تھام لیا۔
”پریشانی نہیں صدمہ ہوتا ہے،تو اتنی محنت کررہی ہے، ان کو ذرا احساس نہیں۔”امام بخش دکھی لہجے میں بولا۔
”ابا تو بالکل پریشان نہ ہو میں کما رہی ہوں نا تو کیوں فکر کرتا ہے۔”فوزیہ ے مسکرا کر باپ کی ہمت بندھائی۔
”میری ٹانگ کا مسئلہ نہ ہوتا تو میں بھی کچھ نہ کچھ کرلیتا۔” امام بخش نے اپنی ٹانگ کی طرف اشارہ کیا اور پھر بولا۔”ایسی اولاد سے تو کوئی توقع رکھنا ہی فضول ہے۔ سمجھ نہیں آتا کیا کروں؟”
”ارے ابا تو چھوڑ ساری فکریں،بھائی جاتا ہے تو جائے۔مُنا ہے نا اس کو الگ دکان اسی لیے کروا کر دی ہے کہ وہ گھر کو سنبھال لے۔”فوزیہ نے بے پروائی سے کہا۔
”اس نے کیا سنبھالنا ہے،وہ تو خود سنبھل جائے بڑی بات ہے۔اس نے نشہ شروع کردیا ہے،پتے وتے بھی کھیلتا ہے۔”امام بخش کو منے کے ذکر پر غصہ آگیا تھا۔
فوزیہ کی حیرانی سے آنکھیں پھٹ گئیں۔”ابا تو نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔”
”میں نے اور تیری ماں نے تجھے اس لیے نہیں بتایا کہ تو پریشان ہوگی۔”امام بخش شرمندگی سے بولا۔
” نہ ابا تو نے بہت غلط کیا،وہ بھٹک رہا تھا تو ہم کو ہی سنبھالنا تھا اسے۔”فوزیہ نے بہت تاسف سے سر ہلایا۔
”تو نے ان دونوں کو پیسے کی لت لگا کر غلط کیا۔میں نے اور تیری ماں نے بہت سمجھایا لیکن وہ کسی کی بات نہیں سنتا۔”امام بخش نے بے بسی سے کہا۔
” ابا تو ٹھہر میں خود اس سے بات کرتی ہوں۔”فوزیہ نے اٹھتے ہوئے کہا تو امام بخش نے گھبرا کر اس کا ہاتھ پکڑکر روک لیا۔
”ارے نہیں تو کہے گی تو وہ کہے گا کہ ابا نے شکایت کی ہے میری،پھروہ بھی مجھ سے لڑے گا۔”
” تو نہ ڈر میں کرتی ہوں اس سے بات۔”فوزیہ نے امام بخش کو سمجھایا اور منے کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});