باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۷ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

فوزیہ کے گھر والے آج بہت دنوں بعد ایک ساتھ مل کر بیٹھے تھے۔رحیم بات توماں سے کررہا تھا لیکن اس کی نظریں فوزیہ کی طرف تھیں جیسے اس کے تاثرات جانچنے کی کوشش کررہا ہو۔
”اماں تو دیکھنا ایک مہینے کے بعد ہی گھر کی ساری پریشانیاں دور ہو جائیں گی۔ہم مُنے کو بھی موبائل کا کام سکھا دیں گے تو بس وارے نیارے ہو جائیں گے۔”رحیم نے کہا۔
”لیکن بھائی دُکان ڈالنے کے لیے تو بہت پیسے چاہیے ہوں گے۔”فوزیہ کے لہجے میں تشویش تھی۔
”ہاں پھر دکان بھی تو موبائل کی ہے۔”رحیم نے کندھے اچکاکر جواب دیا۔
”کم ازکم کتنے پیسے درکار ہوں گے؟”فوزیہ نے پوچھا۔
”اگر اچھی دکان ہو تو کم از کم سات آٹھ لاکھ تو چاہیے ہوں گے۔”رحیم نے کہا تو ماں نے مارے حیرت کے کھلے منہ کے ساتھ فوزیہ کی طرف دیکھا۔
”سات آٹھ لاکھ؟”
”ہاں اماں کم از کم اتنے تو لگیں گے۔”رحیم نے اپنی بات کی تائید میں جواب دیا۔
”کہاں سے آئیں گے اتنے پیسے؟”ماں نے پریشانی سے سوال کیا۔
” تو پریشان نہ ہو ،فکر نہ کر ہو جائے گا کچھ نہ کچھ۔اپنی باجی سے بات کرتی ہوں۔”فوزیہ نے ماں کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
”دیکھ فوزیہ تیرے یہ پیسے مجھ پر اُدھار ہیں،جیسے ہی دکان چل نکلے گی میں اور مُنا تیری ایک ایک پائی تجھے واپس کردیں گے۔”رحیم نے خوش آمدانہ انداز میں کہا۔
” وہ تو جو ہوگا پھر دیکھا جائے گا،ابھی تو کسی طرح پیسوں کا انتظام کرنا ہے۔”فوزیہ نے بے پروائی سے اس کی بات کا جواب دیا۔
رحیم نے اٹھ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھااور پھر خوش آمدانہ انداز میں ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا۔”دیکھ تو میری بہت اچھی بہن ہے۔تو نے پہلے بھی اس گھر کی بہت مدد کی۔ یہ بہت بڑی مہربانی ہوگی مجھ پر،ابا پر اماں پر اور…”
فوزیہ نے بھائی کا ہاتھ پکڑکر اسے چپ کروا دیا۔”بس بھائی رہنے دے اورشرمندہ نہ کر۔” رحیم اس کی بات سن کر خوش خوش سا کمرے سے باہرنکل گیا۔
”لیکن یہ تو بتا کہ اتنے پیسوں کا انتظام تو کرے گی کہاں سے؟”رحیم کے جانے کے بعد ماں نے حیرانی سے پوچھا۔
”یہ تیرا درد سر نہیں اماں اور ہاں اب ہم جلد ہی یہ گھر بھی تبدیل کررہے ہیں۔شہر میں گھر ڈھونڈ رہی ہوں،جیسے ہی بڑا گھر ملے گاسب ایک جگہ رہیں گے۔بس تو سامان سمیٹ لے اسی ہفتے گھر کا انتظام ہو جائے گا۔”فوزیہ نے ماں سے کہا۔
”ہاں تیرے بھائی کے آنے سے یہ جگہ بھی چھوٹی پڑ گئی ہے۔”ماں نے پریشانی سے کہا پھر اس سے پوچھا۔”فوزیہ اب تو بھی ہمارے ساتھ رہے گی؟”
”ہاں اماں،اس لیے تو بڑا گھر لے رہی ہوں تاکہ ہم سب ساتھ رہیں مگر کبھی کبھی کام کے سلسلے میں باہر بھی جانا پڑے گا۔ مجھے ابا کی بہت فکر رہتی ہے۔”فوزیہ نے جواب دیا۔ اس کے چہرے پر باپ کے لیے ایک فکر سی تھی۔ ماں نے بھی اس کی بات پر تائیدی اندازمیں سر ہلایا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

وہ ریحان کے فلیٹ میں ٹی وی لاؤنج میں اکیلی بیٹھی سوچوں میں گم تھی۔جس سے محبت ہوجائے اس کا خیال نا چاہتے ہوئے بھی چپکے سے ناگ کی طرح دل میں برا جمان ہوجاتا ہے اور وقت بے وقت پھن مارتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔شہریارکا خیال بھی اُسے اکثروقت بے وقت پریشان کرتا تھا،لیکن اب وہ چاہتی تھی اس بے نام رشتے کو ختم کر دے۔اس نے اپنے ہاتھ میں انگوٹھی والا باکس پکڑا ہوا تھا۔وہ کبھی انگوٹھی نکال کر انگلی میں ڈالتی اورکبھی واپس اتارتی انہی سوچوں میں گم تھی۔
”شہریار تمہاری امیدیں مجھے یہیں ختم کرنا ہوں گی۔میں نے بھلا کیا کرنا ہے شادی کرکے۔میرے سگے رشتوں کے اتنے قرض ہیں مجھ پر۔میرا اپنی ذات پر جو قرض تھا وہ تو ان میں ہی کہیں گم ہوگیا ہے۔اپنا سوچوں تو پھرمیرے گھر والوں کو کون دیکھے گا؟ان کے اتنے سارے کام ہیں جو مجھے پورے کرنے ہیں۔اپنے لیے وقت نکالنا بہت ہی مشکل ہے۔شادی، بچے، گھر، یہ شاید میری قسمت میں نہیں اور مجھے ان کے بارے میںسوچنا بھی نہیں۔”
وہ بہت پریشان تھی،اور اسی پریشانی میں اس نے ایک فیصلہ کر لیا۔
٭…٭…٭
شہریار دبئی ٹور سے گھر واپس پہنچا،اس کے ہاتھ میں بیگ تھا جو اس نے صوفے پر رکھ دیا۔تھکا تھکا سا ماں کو سلام کرتاہوا خود بھی صوفے پر بیٹھ گیا۔
”ارے اس بار جلدی آگئے،تمہاری واپسی تو ویک اینڈ تک تھی۔”حلیمہ نے حیرانی سے پوچھا۔
”جی ماما بس کام جلد ختم ہوگیا تو میں نے سوچا ابھی واپس چلا جاؤں۔”شہریار کے لہجے میں تھکن بھری تھی۔
”تم تھوڑا گھوم پھر لیتے،کون سا روز روز جاتے ہو۔”حلیمہ نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
”دل نہیں تھا گھومنے پھرنے کا،حالاں کہ ٹکٹس یہی سوچ کر کروائیں تھیں۔”شہریار نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے جواب دیا۔
”کیا ہوا اُداس سے لگ رہے ہو، بزنس ڈیل تو ٹھیک رہی؟”حلیمہ نے اس کے چہرے پر نظریں جماتے ہوئے کچھ کھوجنے کی کوشش کی۔
”جی ماما! الحمدُ للہ سب ٹھیک ہے۔ بس یونہی تھوڑا تھک گیا ہوں، آرام کروں گا تو ٹھیک ہو جاؤں گا۔”شہریار نے صوفے سے ٹیک لگاتے ہوئے جواب دیا۔
”کچھ لو گے کافی یا چائے؟”حلیمہ نے بڑے پیار سے پوچھا۔
”نہیں جہاز میں کھالیا تھا، بس سونا چاہتا ہوں۔ کل صبح جلد اٹھا دیجئے گا گیارہ بجے آفس میں ایک میٹنگ ہے۔”شہریار نے صوفے سے اُٹھتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے ،جاؤآرام کرو۔”ماں نے کہا تووہ اُٹھ کر اندر کمرے کی طرف چلا گیا۔
٭…٭…٭
اگلے دن شہریار کو آفس پہنچتے ہی ایک چھوٹا سا پیکٹ موصول ہوا۔وہ پیکٹ کھولتے ہوئے صدمے کی کیفیت سے دوچار تھا۔اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ ایک رشتہ بنتے بنتے کیسے بگڑ گیا۔اب تو ہر چیز مکمل ہورہی تھی،پھر یہ سلسلہ جڑتے جڑتے کیسے ٹوٹ گیا۔
”کنول تم کبھی بھی سمجھ میں نہ آنے والا کردار ہو،کیسی حرکتیں کرتی ہو۔ نہ جانے ایسا میری ہی زندگی میں کیوں ہوتا ہے؟میں اختتام تک پہنچتے پہنچتے سانپ سیڑھی کے اس کھیل میں دوبارہ آغاز پر کیسے پہنچ جاتا ہوں۔محبت میرے رزق میں لکھی ہی نہیں گئی۔یہ ہر بار مجھے ملی لیکنہر بار مل کر بچھڑ جانے والی چیز کی صورت۔شاید اب مجھے ہر ارمان کو دل سے مٹانا ہوگا۔”اس کی سوچوں کا لامتناہی سلسلہ کنول پر ہی ختم ہوتا تھا۔
٭…٭…٭
کنول نے ریحان کو بہت مشکل سے قائل کیا کہ وہ اس کی کزن کی وجہ سے اس کا فلیٹ نہیں چھوڑ رہی،بلکہ ابا کی طبیعت کی وجہ سے اپنے گھر میں شفٹ ہورہی ہے،لیکن وہ مسلسل’میں نا مانوں’ والی کیفیت میں اپنا سر ہلا رہا تھاجیسے اُسے یہاں سے جانے نہیں دے گا۔کنول نے بالآخر کسی نہ کسی طرح اس کو راضی کر لیا۔وہ اس پر غصہ ہورہا تھا کہ ابھی تم فنانشلی اسٹرونگ نہیں ہو،اتنے بڑے گھر کا کرایا کیسے دو گی،لیکن وہ مسکرا کر چپ ہوگئی ۔کیا جواب دیتی،وہ خود بھی جانتی تھی کہ اس نے اپنی فیملی کو یہاں بلا کر غلط کیا ،لیکن دیکھا جائے گا،سب ٹھیک ہوجائے گا کہہ کر اس نے کندھے اچکائے اور اپنا سامان سمیٹنے لگی۔
”ٹھیک ہے تم نے فیصلہ کرلیا ہے تو ضرور جاؤ گی،میں جانتا ہوں کہ تم بہت ضدی ہو، مگر یاد رکھنا جب بھی ضرورت پڑے یہ دروازہ تمہارے لیے ہمیشہ کھلا ہے۔”ریحان نے اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”جانتی ہوں۔” کنول بیگ سمیٹ کر کھڑی ہوگئی۔
”لیکن دیکھو آتی جاتی رہنا۔”ریحان ہولے سے مسکرایا۔
”فکر نہ کرو مشکل میں تم ہی کام آتے ہو۔”کنول نے بھی مسکرا کر جواب دیا۔”ابھی تو ایک MNAکے ساتھ دو دن کے ٹرپ پہ مری جا رہی ہوں۔”
”گڈ! واپسی ادھر آؤ گی؟”ریحان نے پوچھا۔
”نہیں واپسی سیدھا گھرجاؤں گی۔بھائی کو اس کی نئی دکان کے سامان کے لیے پیسے بھی دینے ہیں۔”اس نے نظریں چرا کر جواب دیا۔
”اچھا تو یہ ٹرپ دکان کا سامان بھرے گا،تمہارا بھی کوئی حال نہیں کنول۔”ریحان نے تاسف سے سر ہلایا۔
٭…٭…٭
دو دن بعد وہ مری سے واپس آئی اور گھر پہنچ کر بھائی کو تین لاکھ روپے تھما دیے جو اس ٹرپ کی قیمت تھی۔بقیہ رقم کی جلد از جلد یقین دہانی بھی کروائی۔
”ہاں ہاں کوشش کر کہ باقی پیسے بھی جلدی ہوجائیں،پھر میں اور منا تجھے کوئی کام نہیں کرنے دیں گے۔تو گھر پر ابا اماں کی خدمت کرنا بس۔ہم دونوں مل کر گھر چلا لیں گے۔”رحیم خوش ہوتے ہوئے اسے خواب دکھا رہا تھا اور فوزیہ نے ایک طنزیہ مسکراہٹ سے رحیم کو دیکھا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔وہ دو دنوں میں بہت تھک چکی تھی،اب آرام کرنا چاہ رہی تھی۔
٭…٭…٭
اسما کمرے میں رحیم سے بات کرتے ہوئے حیران تھی کہ فوزیہ اتنے پیسے کہاں سے لائی۔اسے تشویش سی تھی۔
”سُن رحیم!ویسے مجھے سمجھ نہیں آرہاکہ اس کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آتے ہیں،تین لاکھ کوئی معمولی رقم نہیں ہوتی۔”اسما نے رحیم سے کہا۔
”تو آم کھا پیڑ نہ گن۔یہ تو دیکھ کتنی آسانی سے پیسے مل گئے۔کہہ رہی تھی کہ جلد ہی باقی پیسے بھی دے دے گی۔”رحیم نے غصے سے کہا پھر اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔”خواہ مخواچغلیاں مت کر ،اب بنا کر رکھ اس سے ، خوش رکھ اُسے تیرے آگے بھی کام آئے گی۔”
”ہاں کہہ تو تو ٹھیک رہا ہے۔”اسما نے کچھ سوچتے ہوئے کہا پھر بولی۔”سُن! رحیم ایک بات سوچ رہی ہوں۔گاؤں میں ایک شادی آرہی ہے،میں نے جانا ہے وہاں۔ تُو کہے تو فوزیہ کو بھی ساتھ لے جا کر بچے سے ملوا دوں؟”
”لے یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ تو کل ہی اُس سے پوچھ اگر جانا چاہ رہی ہے تو لے جا ،ملوا کر لا اس کے بچے سے۔”رحیم خوش ہو کر بولا۔
”ٹھیک ہے میں بات کرتی ہوں اس سے،اگر مان جائے تو لے جاوؑں گی۔”اسما نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”اوہ مان جائے گی۔ اماں کہہ رہی تھی کہ تڑپتی ہے بچے کے لیے مگر منہ سے نہیں کہتی، تو بات کرکے دیکھ۔”اسمانے اس کی بات سن کر اثبات میں سر ہلایا ،لیکن وہ کچھ اور بھی سوچ رہی تھی۔
٭…٭…٭
اگلے دن فوزیہ اپنے بچے کو یاد کررہی تھی۔اچانک اس نے اپنی ماں سے پوچھا۔
”اماں تُو اکثر گاؤں جاتی رہتی ہے،تجھے کبھی میرا بیٹا نظر نہیں آیا؟”
” کہاں نظر آتا،وہ تو اس نامراد نے اپنی بہن کو دے دیا تھا،وہ ہی پال رہی ہے۔”ماں نے نفرت سے کہا۔
”اماں میں جانتی تھی،روبی چڑیل کبھی میرے بچے کو برداشت نہیں کرے گی، لیکن میں چھوڑوں گی نہیں اُسے۔”فوزیہ نے برا سا منہ بنا کر کہا۔
”ارے چھوڑ دے اس کمینی کو، بس تو اپنا بچہ واپس لینے کی کوشش کر۔”ماں نے اسے سمجھایا۔
”ہاں اماں بس تھوڑے پیسے جمع کرلوں پھر بچے کو واپس لے آوؑں گی۔”فوزیہ نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔
٭…٭…٭
انگوٹھی ملنے کے بعدشہریار نے دل کے بہت سمجھانے کے باوجود کنول سے خودآخری بار ملنے کا فیصلہ کیا۔وہ اس کے فلیٹ پر جا پہنچا جہاں اس کی ملاقات ریحان سے ہوئی۔ریحان نے اسے بتایا کہ وہ یہاں سے جا چکی ہے۔ریحان نے شہریار سے اس کا نام پوچھا لیکن اس نے نام بتانے کے بجائے محض کنول بلوچ کا فین کہہ کر متعارف کروایا۔ریحان نے اس کا نمبر مانگا مگر شہریار نمبر دیے بنا خاموشی سے وہاں سے لوٹ آیا۔
٭…٭…٭
وہ بہت تھکاتھکا اپنے گھر داخل ہوا۔آج آخری امید بھی جیسے ختم ہوگئی تھی۔وہ صوفے پر نیم دراز سا ہو گیا۔اس کی ماما جو کسی سے فون پر بات کررہی تھیں،فون بند کرکے اس کے پاس آگئیں۔شہریار نے فون پر ان کی گفت گو سن لی تھی۔اس نے ماں سے پوچھا۔
”کہاں جانا ہے سنڈے کو؟”
”تمہارے لیے لڑکی دیکھنی ہے۔”حلیمہ نے مسکرا کر جواب دیا۔
”میرے لیے؟لیکن مجھے تو شادی نہیں کرنی ماما،جو کچھ میرے ساتھ ہو چکا ہے،پلیز!” شہریار نے کہا۔
”کیا ہو گیا ہے شہریار؟دیکھو زندگی ایسے بسر نہیں ہوتی۔”ماں نے پیار سے اسے سمجھایا۔
” ماما اگر زندگی ہماری خواہش پر بسر ہوتی تو پھر کیا دُکھ تھا،ہماری زندگی پر ہمارا اختیار ہی کب ہے۔”شہریار نے یاسیت سے کہا۔
”شہریار جو ہوگیا سو ہوگیا،ضروری نہیں کہ پھر…”ماں نے اسے سمجھانا چاہا مگر شہریار نے بات کاٹ دی اور بولا۔
”پلیز ماما ابھی کچھ نہ کہیں،میں بہت تھکا ہوا ہوں۔”
”دیکھو بیٹا تم اکیلے کب تک ایسے زندگی گذارو گے؟”ماں نے پوچھا۔
”ماما فی الحال اس بات کو رہنے دیں،پلیزfor my sake”شہریار زچ ہو کر بولا۔
”دیکھو شہریار میری بات تو سنو! میں اپنے بیٹے کو خوش دیکھنا چاہتی ہوں۔”ماں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے کہا۔
” پلیز ماما! بس کردیں یہ سب کرنا۔ایسی باتوں سے میں خوش نہیں ہوتا،کیوں نہیں سمجھتیں آپ؟”شہریار بہت تکلیف میں کہتا ہوا وہاں سے نکل گیا اور وہ پریشان سی اس کی پشت کو دیکھتی رہیں۔
٭…٭…٭
فوزیہ اپنے کمرے میں بیٹھی فائلر سے ناخن گھس رہی تھی۔تب ہی اسما اندر آگئی اور جھینپتی ہوئی اس کے پاس آکھڑی ہوئی۔
”فوزیہ! وہ ایک بات کرنی تھی تجھ سے۔”اسما نے تذبذب سے کہا۔
”ہاں بول، سُن رہی ہوں۔”فوزیہ سر جھکائے جھکائے بولی ،اس کے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے۔
”وہ گاؤں میں اک شادی ہے ۔”فوزیہ اس کے پاس بیٹھ گئی۔
”پیسے چاہئیں؟” فوزیہ نے سر اُٹھائے بغیر پوچھا۔
” نہیں نہیں میں سوچ رہی تھی کہ اگر تو بھی ساتھ چلتی… راجدہ نے بھی آنا ہے شادی میں۔”اسما گھبرا کر جلدی جلدی بولی۔
فوزیہ نے چونک کر سر اُٹھایا۔ ”راجدہ نے؟”
”ہاں اور تیرا بیٹا بھی ہوگا اس کے ساتھ،میں اس لیے کہہ رہی تھی۔”اسما بہت جذباتی انداز میں بولی۔
”لیکن میں کیسے جاؤں گی،وہ مجھے پہچان لیں گے۔”فوزیہ تذبذب کا شکار تھی۔
”تومیرے ساتھ چل، چادر منہ پر لے لینا،میں کہہ دوں گی میری سہیلی آئی ہے شہر سے۔”اسما نے اپنے طور پر ایک راہ دکھائی۔
”کیاایسا ہوسکتا ہے؟”فوزیہ نے بے یقینی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا۔
”ہاں کیوں نہیں ہو سکتا،بس تو چلنے کے لیے تیار ہو جا۔”اسما نے اس کی ہمت بڑھائی۔
”میں تیار ہوں،بس ایک بار اپنے منے کو دیکھ لوں۔”فوزیہ خوش ہوگئی، اس کی آنکھوں میں بہت پیار تھا۔اپنے بیٹے کے بارے میں سن کر اس کے چہرے پر اندر سے ایک عجیب سے سرشاری امڈ آئی تھی۔
٭…٭…٭
وہ دونوں اگلے دن ہی بس میں بیٹھ کر گاؤں روانہ ہوگئیں۔بارات والے گھر پہنچ کر وہ بے تابی سے اپنے بیٹے کوڈھونڈ رہی تھی۔اس نے چہرے پر چادر ڈالی ہوئی تھی کہ اسی اثنا میں راجدہ کی گود میں اسے اپنا بیٹا نظر آیا۔وہ تڑپ کر آگے بڑھی لیکن اسما نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی بے تابی کو لگامیں ڈالیں۔وہ اپنے بچے کو گود میں اُٹھانے کے لیے بے قرار ہورہی تھی کہ اچانک کہیں سے عابد آیا اور اس نے بچہ اُٹھا لیا۔وہ اپنی جگہ رک سی گئی،اب آگے بھی نہیں بڑھ سکتی تھی۔دل کو بہت بے قراری سے سنبھالا اور اسما کے ساتھ وہاں سے چلی آئی لیکن پوری رات روتی رہی۔کتنی مجبور ماں تھی وہ،بیٹے کو گود میں لے کر پیار بھی نہ کر سکتی تھی۔یہ راستہ اس نے خود ہی چنا تھا۔بیٹے کے بڑا ہوجانے تک اُسے چھپانا تھا خود کو چھپانا تھااسے اور کتنا انتظار کرنا تھا یہ نہیں معلوم تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۸

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!