اُوپر حلوائی کی دکان — علینہ معین

”اماں! کدھر ہو؟” ”اماں جلدی آئو”۔ شبانہ بلند آواز میں پکار رہی تھی۔ ایک تو صبح سویرے خالہ شیداں کا فون اس کی سپنوں بھری نیند میں خلل ڈال گیا اوپر سے شادی کا بلاوا۔ مطلب جانا لازمی۔ پارہ کیسے نہ ہائی ہوتا… ”اماں” اس نے پھر ہانک لگائی۔ بالآخراماں اسے اندر آتی نظر آہی گئیں۔ ”کیا ہے شبانہ؟ کیوں صبح صبح گلا پھاڑ رہی ہے؟” اماں نے چھوٹتے ہی کہا۔ ”اماں تیری بہن کا فون آیا تھا۔ کنیز باجی کا ویاہ ہے اگلے مہینے۔” شبانہ عرف شبو نے وہیں پڑے پڑے پیغام پہنچایا۔
”ہائے ہائے اینی گرمی دے وچ ویاہ؟ شیداں دا دماغ خراب ہو گیا ہے اور اس موٹی نوں کنے پسند کر لیا اتنی گرمی وچ۔” اماں کو اپنی پڑ گئی۔ ”اماں کیا مطلب ہے تیرا گرمی کے موسم میں لوگ شادی نہیں کرتے یا کڑی نہیں پسند کر سکتے؟ کیا پتا کوئی مجھے بھی گرمی میں ہی پسند کر لے۔” شبانہ عرف شبو نے خواب دیکھنا شروع کیا۔





”رہن دے شبو گرمی وچ تے ہر بندہ ویسے ہی بھینگا لگدا اے تو تو ہے ہی پیدائشی بھینگی تجھے کون پسند کرے گا۔” اماں نے اس کی خوش فہمی پر تیل ڈال کر آگ ہی لگا دی ۔ ”اُٹھ اماں باہر نکل مجھے سونا ہے۔ آنکھوں میں ذرا سا فرق کیا ہوا تو نے مجھے بھینگی ہی بنا دیا۔ کوئی اپنی بیٹیوں کو یوں بھی کہتا ہے؟” شبانہ نے صبح صبح رونا شروع کر دیا۔ ”چلو جی اِس منحوس نے تو سویرے ہی تماشا لگا لیا اے” اماں نے جاتے جاتے ایک جان دار دھموکا اس کے کاندھے پر رسید کر ہی ڈالا۔
لو جی شبانہ چک جھمری جانے کے لئے تیار ہو رہی تھیں صبح۔ ابا بے چارے مستری تھے اور وسائل اتنے نہیں تھے کہ سب جاتے کیوں کہ اس طرح ابا کے کام کا حرج جو ہوتا اور پھر سال پیچھے اماں خود ہی بہن کے گھر چکر لگا آئیں یا پھر خالہ خود ہی آجاتی اپنی موٹی سی بیٹی کنیز کو لے کر جو تھوڑا اونچا بھی سنتی تھی۔ شبانہ کے بے حد اصرار اور جذباتی دھمکیوں کے نتیجے میں اماں نے دوچھتی پر پڑے بڑے سے ٹرنک سے اس کے لئے بھی چمک دمک والے دو جوڑے نکال دیے۔ گھنگھرو والا پراندہ اور ایڑی والے جوتے وہ خود خرید لائی تاکہ اس کے شہری ہونے کا تاثر تو پڑے اُن سب پر۔ ہاں بس میں بیٹھتے ہی کالا چشمہ لگانا نہ بھولی آخر کو تھوڑی ہی سہی، بھینگی تو تھی نا۔ اماں نے خوب لتے لیے مگر اثر کس پر ہوتا۔ چک جھمری آتے آتے ماں بیٹیاں گرمی سے گھوم ضرور گئی تھیں مگر اماں کی زبان فراٹے بھر رہی تھی۔ ”نی شیداں ٹٹ مریں اتنی گرمی وچ بلا کے ناس مار دیتا ای۔”
سیون اپ کی ٹھنڈی ٹھار بوتلیں پی کر بھی گرمی کا اثر کم نہیں ہو رہا تھا۔ بس کے مسافر بے چارے زیر لب مسکرائے جا رہے تھے۔ خدا خدا کر کے سٹاپ آیا تو دونوں اتریں۔ جہاں گرمی نے مت مار رکھی تھی، ساتھ ہی حلیے بھی بگاڑ کے رکھ دیئے تھے۔ اتنی محنت سے کیا گیا میک اپ بہ کر شبو کو ڈرائونا بنا رہا تھا۔ نیلا آئی شیڈ غازے کی جگہ اور غازہ بہ کر گردن پہ۔ ”ہائے نی شبو جا اُس نلکے توں منہ دھو جا کے لگ رہا ہے چڑیل نوں نیل پے گئے نیں۔” اماںرکنے والی نہیں تھی لہٰذا فوراًً بات مان لی۔منہ دھو رہی تھی کہ خالہ شیداں کا بیٹا آگیا انہیں لینے۔ ”ارے یہ پا صدیق اتنا بڑا ہو گیا؟” اس نے فٹ کالا چشمہ آنکھوں پہ چڑھایا اور آگے بڑھی۔ خالہ کا گھر آتے آتے پسلیاں ہل گئیں۔ تانگے کی سواری کے نتیجے میں جوڑ دکھنے لگے تھے۔ دو تین بار صدیق کی طرف نگاہ اُٹھی تو وہ مسکرا مسکرا کر اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ شبانہ نے فوراً منہ پھیر لیا۔ ”ہنہ لگ رہا ہے گنے کو مونچھیں لگائی ہیں۔”
جونہی ماں بیٹی اندر داخل ہوئیں گھر میں شور مچ گیا ”میداں آگئی۔ نی شیداں تیری بہن آگئی۔” دونوں بہنیں جھپیاں ڈال ڈال کر ملنے لگیں۔ ”ارے میداں یہ شبو ہے نا! کتنی بڑی ہو گئی ” ”شکر ہے میرا بھی دھیان آیا۔” شبانہ دن میں سوچتے ہوئے بڑے انداز سے مسکرائی ”پتر یہ کالی عینک اتار تے آرام نال بیٹھ”۔ اس نے بڑے سے صحن میں نظر گھمائی مگر چارپائیوں کے انبار پر موٹی موٹی عورتوں کے ڈھیر پڑے تھے کوئی بیٹھی اور کوئی لیٹی ہوئی تھی۔ خالہ کو بھی احساس ہوا تو خود ہی اندر لے گئیں۔ کھانا کھا کے جان میں جان آئی تو کنیز کا خیال آیا۔ ”خالہ شیداں کنیز باجی کدھر ہے؟” ”پتر صبح ناشتے میں پائے نہاری کیا کھا لیے تب کی پڑی سو رہی ہے۔ میں نے بھی نہیں اٹھایا ایک دن کی تو پروہنی ہے وچاری۔” شبانہ کو اچھو لگ گیا ”بارہ من کی دھوبن اور و چاری”۔ اماں نے پوچھا ”آپا منڈا کرتا کیا ہے؟” ”میداں نال دے پنڈ میں دو چنگ چیاں چلاتا ہے۔ چنگا کمائو ہے۔ مال ڈنگر بھی ہے گھر میں۔ خوش حال لوگ نیں۔” لڑکے کی اتنی خوبیاں سن کر اماں کو اپنی بیٹی کی پڑ گئی۔ ”ہائے میری شبانہ کا وی رشتہ ہو جائے تے میں بھی سکون لواں”۔





”رہن دے اماں! میرے لئے کوئی چنگ چی ڈرائیور ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں۔” شبانہ نے دانت پیس کر اماں کو گھرکا۔ ”کیوں؟ تو کوئی حور پری ہے یا ابا وزیر ہے ملک کا جو اتنے اونچے خواب نیں تیرے۔”
”اماں لحاظ کر لو کچھ میرا ہم مہمان آئے ہیں ادھر۔” شبو دروازے میں پا صدق کو دیکھ کر ہڑبڑا اٹھی۔ مگر اماں کہاں رکنے والی تھیں۔ شبو کی مدح سرائی جاری رکھی ”نا تو ہے تو میری دھی ایک تے بھینگی اوپر سے رنگت بھی کوئی خاص نہیں۔ اپنے ابے دی کاربن کاپی، تورشتہ آئے شاہد آفریدی دا۔ بلے وی بلے” اماں کی زبان کون روکتا۔ خالہ شیداں اور پا صدیق کے چہروں پر مسکراہٹ تھی، جب کہ شبانہ عرف شبو آنسو بہا رہی تھی اور کوس رہی تھی اس لمحے کو جب اس نے اماں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ شام کو مہندی کی رسم تھی۔ خالہ شیداں نے باقاعدہ جھٹکے دے دے کر کنیز کو اٹھایا۔ مندی آنکھوں کے ساتھ وہ منہ ہاتھ دھوتی اندر آئی خالہ کو سلام کرنے۔ شبانہ سے بھی ملی کہ پہلے بھی کوئی خْاص لگائو تو تھا نہیں پھر بھی لحاظ مروت میں آگئی کہ کل رخصت ہو جانا ہے۔ اماں حسب عادت نہ رہ سکیںا ور چھوٹتے ہی بولیں: ”ہائے کنیز کچھ پتلی ہی ہو جاتی۔ ارے وہ ڈائٹنگ ہی کر لیتی دھیے۔” مگر افسوس کنیز سنتی بھی کم ہی تھی نجانے کیا سمجھ آئی۔ ”فائٹنگ؟ خالہ نہیں میں تو سو رہی تھی اور تو تو جانتی ہے خالہ میں ہوں بھی بڑی شریف سی۔” اس نے شبانہ کو گھوری ڈالتے معصومیت سے کہا۔ ”شبانہ! تو نے ابھی تک عینک نہیں اتاری؟ ادھر کمرے میں بھی تجھے کیا دھوپ پڑ رہی ہے ادھر تو تجھے کوئی دیکھنے والا بھی نہیں آتا”۔ کنیز نے اس کے تن بدن میں آگ لگا دی۔ مجبوراً خاموش رہی کہ اماں پھر نہ اسٹارٹ ہو جائیں۔ شبانہ نے بھی دل میں بدلہ لینے کی ٹھان لی کہ چھوڑوں گی نہیں تجھے کنیز باجی۔
شدید گرمی نے مت مار رکھی تھی مگر عورتوں اور لڑکیوں کے چمکیلے بھڑکیلے لباس تو ایک دوسرے کو مات دے رہے تھی اور کسر تو شبانہ نے بھی نہیں چھوڑی تھی۔ پیلا سوٹ جس پہ اس نے خود گوٹا لگایا تھا بڑے ارمانوں سے، کانوں میں بڑے بڑے جھمکے پراندہ اور اونچی ایڑی کے سینڈل کے ساتھ لشکتے میک اپ میں خود کودوسری مونا لیزا سمجھ رہی تھی۔
”باجی، راستہ دے دیں۔” وہ جو جلدی تیار ہو کر صحن میں کھڑی انتظام دیکھ رہی تھی اور کڑھ رہی تھی کہ کیا تھا جو میرا بھی بیاہ ہو جاتا۔ چونک کر پلٹی تو دیکھا صدیق کسی لڑکے کے ساتھ دیگ اٹھائے کھڑا راستہ مانگ رہا تھا۔ ”ہٹ کر کھڑی ہو شبانہ، راہ دے۔ گرمی نال جان نکل رہی ہے۔” پسینے میں نہایا صدیق اب باقاعدہ گھور رہا تھا۔ ”ہائے ہائے جان دیکھو اس گنے کی اور غصہ دیکھو۔” دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتی ایک طرف ہو گئی۔ صحن سے پیچھے کھلے برآمدے میں کام والی اماں ابٹن مہندی کے تھال سجا رہی تھی۔ شبانہ بھی ادھر ہی چل دی۔ مہندی کی دھانسو تیاری میں شبانہ کا کالا چشمہ بھی شامل تھا، جسے دیکھ کر گائوں کے شریر لڑکے اور شریر ہو رہے تھے۔ ”گورے گورے مکھڑے پہ کالا کالا چشمہ” ہائے ہائے چال اور مستانی ہو رہی تھی شبو کی۔ مگر ہائے ری قسمت اس کی صاف گو اماں یہاں بھی آگئی سلطان راہی بن کے۔ ”وے اندھیو! اے میری دھی کدھروں گوری لگدی اے۔ تو اڈی بہن ہے کج تے خیال کرو بے غیرتو۔بھینگی ہے اس لئے عینک لائی اے تسی گانے گان لگ گئے او۔” اماں نے لاج کیا رکھنی تھی الٹا پول کھول کر سب کے سامنے رکھ دیا۔ منہ چھپانے کو جگہ نہ ملی۔ آئندہ کہیں بھی اماں کے ساتھ نہیں جانا۔ اس نے دل میں عہد کیا۔ لڑکے بغلوں میں منہ دے دے کر ہنس رہے تھے۔ شبو نے بسورنا شروع کیا ہی تھا کہ سٹیج سے چیخ و پکار کی آوازیں آنے لگی۔ کنیز باجی سٹیج پر لڈیاں ڈال رہی تھی۔ ”ہائے اماں۔ ہائے اماں” کی گردان کے ساتھ اچھل کود ہو رہی تھی۔ مگر ایسا کچھ نہ تھا، بس کنیز کا واویلا تھا اور حیران پریشان مہمان۔ ابھی تو اسے ابٹن لگانا شروع ہی کیا تھا۔ آخر دو سیون اپ ڈکار کر اور 4 رس گلے کھا کر بولی ابٹن میں مرچیں ہیں۔ بس پھر اماں جو شروع ہوئیں گرمی سے پہلے ہی برا حال ہو رہا تھا ”نی دھی کنیز، دو گھنٹے لا کے منہ تے توں کریماں مل مل کر آئی ہے چھلے آلو جیسا منہ ہو گیا اے تیرا۔ ایس لئی مرچاں لگ رہیاں نیں۔ ”




Loading

Read Previous

لاکھ — عنیقہ محمد بیگ

Read Next

اب تو موت بھی نصیحت نہیں کرتی — اسیرِ حجاز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!