”Oh! I am fine.” (میں ٹھیک ہوں)۔
” It means you have recognized me.” ”Am I right Aleezah?”
اس نے اس طرح اس کی بات کا جواب دیا تھا جیسے وہ اس کا بہت گہرا دوست ہو۔
”Yes! Nano told me about you.” ”She was….!”
وہ عمر سے بات کر رہی تھی جب نانو نے اسے آ واز دی تھی۔
”علیزہ! شہلا کا فون ہے بات کر لو۔ ”
اس نے چونک کر نانو کو دیکھا تھا،ان کے ہاتھ میں کارڈ لیس تھا۔
”Excuse me!”
وہ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر نانو کے ہاتھ سے کارڈ لیس لے کر ڈائننگ کی طرف چلی گئی تھی۔ شہلا اس کی دوست تھی اور وہ جانتی تھی کہ اب، آدھ گھنٹے سے پہلے وہ فارغ نہیں ہوپائے گی۔ شہلا کو لمبی کالز کرنے کی عادت تھی اور آج تو ویسے بھی ایک ماہ کے بعد اس سے گفتگو ہو رہی تھی۔ وہ کافی دیر تک فون پر اس سے باتیں کرتی رہی ، اور جب فون بند کر کے واپس لاؤنج میں آئی تو عمر وہا ں نہیں تھا۔ وہ نانو اور نانا کے ساتھ باتیں کرتی رہی، اور ان ہی سے اسے پتہ چلا کہ وہ کسی دوست کے ساتھ باہر گیا ہوا ہے۔ کھانا کھانے کے بعد وہ دیر تک نانا کے ساتھ بیٹھی رہی تھی۔ پھر اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی عمر تب تک واپس نہیں آیا تھا۔
صبح وہ دیر سے اٹھی تھی جب وہ ناشتہ کے لئے آئی تو ساڑھے دس بج رہے تھے۔ خانساماں نے اسے بتایا تھا کہ نانو باہر گئی ہوئی ہیں۔ نانا تو پہلے ہی اس وقت کلب میں ہوتے تھے۔ وہ ناشتہ کر رہی تھی جب عمر بھی وہاں آگیا۔ ہیلو، ہائے کے بعد وہ بڑی بے تکلفی سے اس کے سامنے ہی چیئر کھینچ کر بیٹھ گیا تھا، اور خود بھی ناشتہ کرنے لگا۔ ساتھ ساتھ وہ اس سے باتیں کر رہا تھا ، اس کی مصروفیات کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ آسٹریلیا میں اس کی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ علیزہ نے نوٹ کیا وہ پہلے کی نسبت بہت خوش مزاج ہو گیا تھا۔ پہلے کی طرح ریزرو سا نہیں تھا۔ کافی دیر تک انگلش میں دونوں میں گفتگو جاری رہی ، پھر خانساماں اس کے لئے جوس لے کر آگیا تھا۔ پہلی با ر عمر نے بڑی صاف اردو میں اس سے کہا تھا۔
”مجھے ایک پیالے میں دہی لا دیں مگر پہلے دیکھ لیں کہ کھٹا نہ ہو ، اور کل میرے لئے پورج بنائیں، انڈہ فرائی مت کریں ، ابال کر دے دیں۔ ”
اس نے خانساماں کو ہدایات دیں تھیں اور جوس پینے لگا تھا۔
وہ کچھ ہونق سی ہو کر اسے دیکھنے لگی۔ وہ اس کی حیرانی بھانپ گیا تھا۔ گلاس ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
)”What happened?” کیا ہوا؟(
”آپ تو اردو بول سکتے ہیں!”
اس نے قدرے سٹپٹا کر کہا۔
”ہاں تو بول سکتا ہوں، اس میں حیرانی والی بات کیاہے؟”
اس نے پہلی بار اس کے جملے کا جواب اردو میں ہی دیا تھا۔
”میں سوچ رہی تھی کہ شاید آپ۔۔۔۔۔!”
وہ کچھ کھسیانی ہو گئی تھی۔
”یہ کیوں سوچا تم نے، باہر رہنے کا مطلب یہ تو نہیں کہ بندے کو اپنی زبان بھی نہ آتی ہو گی۔ ”
”پہلے جب بھی آپ آیا کرتے تھے تو کبھی بھی اردو بولتے ہوئے نہیں دیکھا تھا آپ کو،اس لئے میں نے سوچا ۔۔۔۔”
اس نے وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی عمر نے مسکراتے ہوئے اس کی بات کاٹ دی۔
”پہلے تم سے بھی اتنی لمبی چوڑی باتیں کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ویسے بھی چھوٹا تھا تب میں۔ ”
اس نے عمر کا چہرہ دیکھا تھا ،وہ خاصا محظوظ نظر آ رہا تھا۔
”پچھلی دفعہ جب میں نے تمہیں دیکھا تھا تو تم بہت چھوٹی تھیں۔ میرا خیال ہے گیارہ ، بارہ سال کی تھیں اور اب تو……!”
”But I must admit you are prettier now!” (پہلے سے بہت زیادہ خوبصورت ہو گئی ہو)۔
علیزہ کے گال سرخ ہو گئے، اس نے سر جھکا لیا۔ عمر جہانگیر اسے بہت عجیب لگا تھا اسے یہ بے باکی کچھ زیادہ پسند نہیں آئی تھی۔
“میں دوبارہ کبھی اکیلے اس کے پاس نہیں بیٹھوں گی”، اس نے ٹوسٹ کھاتے ہوئے سوچاتھا۔ وہ ناشتہ ختم کرتے ہی اٹھ کر واپس اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔ وہ کرسٹی کو لے کر لاؤنج میں ہی بیٹھ گئی۔
عمر ناشتہ دیر سے کیا کرتا تھا اور پھر لنچ نہیں کرتا تھا۔ شام کی چائے بھی وہ اپنے کمرے میں ہی پیتا تھا۔ البتہ رات کا کھانا سب کے ساتھ ہی کھاتا تھا۔ اس دن کے بعد وہ اس سے بہت پہلے ہی ناشتہ کر لیا کرتی تھی۔ اسے آہستہ آہستہ احساس ہونے لگا تھا کہ عمر جہانگیر کے گھر میں آنے کے بعد بہت کچھ بدل چکا تھا۔ اس کے بہت کم گھر والوں کے پاس موجود رہنے کے باوجود گھر میں بہت کچھ اس کی مرضی اور پسند سے ہور رہا تھا۔ نانا اور نانو کی زیادہ تر گفتگو اسی کے بارے میں ہوتی۔ پہلے کی طرح وہ علیزہ کے بارے میں اتنی باتیں نہیں کرتے تھے۔ کھانے کی ٹیبل پر زیادہ تر ڈشز اس کی مرضی اور پسند کے مطابق بنتی تھیں۔ علیزہ سے کھانے کے بارے میں رائے لینا کم کر دیا گیا تھا۔ نانو ہر وقت اس کی صحت اور آرام کے بارے میں فکر مند رہا کرتی تھیں، اور وہ جیسے گھر میں ثانوی حیثیت اختیار کر گئی تھی۔ یہ سب کچھ اس کے لئے نیا نہیں تھا۔
ہر سال جب بھی اس کے ماموؤں اور خالاؤں میں سے کسی کی فیملی وہاں آتی تھی وہ اسی طرح پس پشت چلی جایا کرتی تھی۔ تب نانا اور نانو کی توجہ صرف آنے والے لوگوں پر ہی مرکوز رہتی تھی۔ مگر اسے یہ سب اتنا برا نہیں لگتا تھا، کیونکہ وہ لوگ صرف چند ہفتے ہی ٹھہرتے تھے۔ مگر عمر جہانگیر کو ابھی بہت عرصہ وہاں رہنا تھا، اور اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے بڑے آرام سے اس کی جگہ ہتھیا لی ہے۔
اس دن دوپہر کو سو کر اٹھنے کے بعد اس نے حسب معمول کرسٹی کو ڈھونڈنا شروع کیا تھا۔ وہ سیڑھیوں کے نیچے نہیں تھی۔ اس وقت وہ باہر لان میں بھی نہیں ہو سکتی تھی۔ اس کی مخصوص جگہوں پر اسے پانے میں ناکام رہنے کے بعد اس نے اسے آ وازیں دینی شروع کر دی تھیں۔ مگر وہ نہیں آئی تھی۔
”نانو کرسٹی کہاں ہے؟”
4 Comments
Want to read umeera ahmad books
Masha Allah it was an absolute pleasure to reread it I remember i have read this novel only once in my lifetime that too some 10 years before
Umer Jahangir is a lovely character. Feels like he is so caring towards Alizey but i don’t understand is Alizey intentionally destroying his favourite things but why
Ye link open nhi horaha
Missing umera Ahmed s novel s