اصحابِ کہف ۔ قرآن کہانی


اصحابِ کہف

علی منیر فاروقی

الحمدللہ رب العالمین و نصلی علی رسولہ الکریم ۔۔ قرآن کریم میں جہاں ایک طرف مختلف انبیا کرام کے قصص بہ طور دلیل درج ہیں وہیں چند ایسے گمنام کرداروں کے ایمان افروز واقعات کا ذکر بھی موجود ہے۔ جونہ صرف ہمیں فتنوں کے دور میں اپنا ایمان محفوظ رکھنے کا درس دیتے ہیں بلکہ اس کا طریقہ بھی سکھاتے ہیں۔ یہ قصہ اُن چند سربہ کف نوجوانوں کا ہے، جن کے نام ، علاقہ، محلِ وقوع اور تعداد بھی تاریخ کی کتابوں میں حتمی طور پر درج نہیں ، مگر ان کی عظمت و ہمت اور ان کے ساتھ پیش آنے والے ماورا الطبعیاتی واقعے کی گواہی تا ابد محفوظ رہے گی ۔
یہ قصہ قرآن کریم میں سورئہ کہف میں درج ہے اور حجم میں اتنا طویل نہیں مگر اپنے اندر حکمت و نصیحت کا ایک سمندر پنہاں رکھتا ہے تو آئیے پہلے اس قصے کا ایک رواں مطالعہ کر لیں پھر اس پر تدبر کی ایک چھوٹی سی کوشش کرتے ہیں۔
مستند روایات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ قصہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی کے بعد کا ہے۔ ابھی عیسائیت شرک کی ملاوٹ سے پاک تھی اور توحید کی دولت سے مالامال دین حنیف پر مبنی تھی۔ ایسے میں چند نوجوانوں نے مشرکانہ ظلمات کے پردوں کو چاک کرتے ہوئے حق کی آواز پر لبیک کہا اور دینِ حق کو قبول کرلیا۔ اس کے بعد انہوں نے اس دینِ حق کا پرچار شروع کیا۔ دنیا کا اصول ہے کہ جب بھی حق کی آواز بلند ہوتی ہے اسے دبانے کے لئے باطل کی قوتیں اپنا پورا زور لگاتی ہیں، چناںچہ ان نوجوانوں کو بھی انہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور بات ہوتے ہوتے حاکمِ وقت کے کانوں تک پہنچی۔ (جو چند روایات کے مطابق رومی قیصر ڈیشیس تھا اور باقی روایات کے مطابق ابراہیمی دین کی بگڑی ہوئی شکل کا پیروکار تھا)چناںچہ حاکمِ وقت نے ان لڑکوں کو حکم دیا کہ واپس لوٹ آؤ اور اپنے اس نئے دین کی ترویج فوری بند کرو ورنہ تمہیں سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔
نورِ حق کے ان پروانوں نے اپنا دین چھوڑنے کے بہ جائے یہ فیصلہ کیا کہ آبادی سے دور کسی جگہ جا کر پناہ لی جائے، چناںچہ یہ نوجوان اور ان کا کتا ایک غار میں جا کر چھپ گئے تاکہ اپنا اگلا لائحۂ عمل تیار کریں ، ایسے میں اللہ نے ان تمام پر ایک نیند طاری کر دی اور نیند بھی گھنٹوں کی نہیں بلکہ صدیوں کی! اس دوران اللہ انہیں کروٹ دلاتا رہا (تاکہ خون گردش کرتا رہے اور زخم نہ بن جائیں)اور ان کو دھوپ سے بچاتا رہا ، تین صدیوں کے بعد یہ اصحاب اپنی نیند سے بے دار ہوئے اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ ہم کتنی دیر سوئے ہیں ایک بولا شاید پورا دن سو لیے دوسرے نے کہا کہ نہیں اس کا بھی کچھ حصہ سوئے ہیں، اب مشورہ ہوا کہ طعام کا بندوبست کیا جائے چناںچہ ان میں سے ایک چند چاندی کے سکّے لے کر بازار جانے لگا ، جاتے وقت اس کے ساتھیوں نے اسے تلقین کی کہ پاک طعام لے کر آنا اور ہاں دیکھنا کوئی تمہیں پکڑ نہ لے ورنہ ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔
یہ نوجوان جب بستی پہنچا تو دیکھا کہ دنیا ہی بدلی ہوئی ہے بستی و بازار در و دیوار سب الگ روپ لیے ہوئے ہیں حتیٰ کہ رہن سہن بھی بدل چکا ہے اس نئے اجنبی منظر کے خوف کو دباتے ہوئے اس نوجوان نے ڈرتے ڈرتے کھانے کا سامان لیا تو لوگ صدیوں پرانے سکّے دیکھ کر بھونچکا رہ گئے ، انہوں نے ان نوجوانوں کا قصّہ سنا ہوا تھا کہ جو اپنا ایمان بچانے کے لئے شہر چھوڑ گئے تھے ۔ اس نوجوان کو بتایا گیا کہ شرک کے بادل چھٹ چکے ہیں اور اب یہاں حق کا بول بالا ہے ۔
اتفاق سے ان دنوں اس بستی میں ایک علمی بحث چھڑی ہوئی تھی کہ مرنے کے بعد کیا ہم دوبارہ جی اُٹھیں گے؟ اور آیا خدا ہمیں قیامت کے دن اسی بدن کے ساتھ زندہ کرے گا یا ہمارا کوئی اور روپ ہوگا یوں اللہ نے اس نوجوان کے صورت میں ان کے تمام سوالوں کا جواب دے دیا ۔ اب یہ تمام لوگ اس نوجوان کے ساتھ اس غار میں پہنچے جہاں اس کے باقی ساتھی موجود تھے اور وہاں ان سب کو دیکھ کر ان کا ایمان تازہ ہو گیا ۔ یہ تھے اصحابِ کہف اب اس کے بعد کچھ کہہ نہیں سکتے کہ وہ کتنا عرصہ زندہ رہے (گمان یہ ہے کہ فوری وفات پا گئے تھے )۔

Loading

Read Previous

رفیع خآور: ننھا

Read Next

حضرت ابراہیم علیہ السلام ۔ قرآن کہانی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!