اصحابِ کہف ۔ قرآن کہانی

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ قوانین قدرت اور سائنسی حقائق بھی اللہ کے بنائے ہوئے ہیں اور اللہ ہمیں جگہ جگہ ان پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اس لیے ان کا انکار ایک انداز سے خوداللہ کا انکار ہے، مگر یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ سائنسی تھیوری ابدی نہیں ہونی چاہیے، معاملہ چاہے زمین کے سپاٹ ہونے کا ہو یا مادے کے لاینفک ہونے کا۔ ہمارے عمرانی اور علمی ارتقا کے ساتھ بہت سی ایسی تھیوریز جو کبھی ابدی حقائق سمجھی جاتی تھیں آج کی سائنس انہیں طفلانہ توجیحات گردانتی ہے۔
اب اگر قرآن کی سائنسی تشریح کر دی جائے اور بعد میں وہ تھیوری غلط ثابت ہو تو کیا معاذاللہ قرآن غلط ہو گیا؟ چناںچہ ہمارا نظریہ بہ جائے قرآن کی سائنسی توجیح کے سائنسی تھیوری کی قرآنی توجیح کا ہونا چاہیے ۔ ہمارا ایمان یہ ہونا چاہیے کہ اگر کوئی سائنسی تھیوری حق ہے تو وہ کبھی قرآن سے متصادم نہیں ہو گی اور اگر کوئی تھیوری بہ ظاہر قرآنی حقائق سے ٹکرا رہی ہے تو یا تو وہ قرآنی مقامِ متشابہات میں سے ہے جسے محکمات سمجھا جا رہا تھا یا پھر وہ تھیوری غلط ہے اس کے علاوہ کوئی تیسری راہ نہیں بچتی۔ اب ایسے میں اہلِ علم کا کام ہے کہ وہ یہ جانچیں کہ کیا قرآن کی صحیح تفسیر میں اس تھیوری کی کوئی گنجائش ہے؟ کیا یہاں کسی متشابہ آیت کی حقیقت سے پردہ تو نہیں اُٹھ رہا ؟ اور اگر ایسا نہیں تو ذہین اہلِ علم و دانش مسلمانوں کے اوپر قرآن کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ اس تھیوری کا سائنس ہی کے علوم میں رد کرنے کی کوشش کریں۔ تمہید کچھ لمبی ہو گئی مگر معاملہ نہایت نازک ہے،اس بات کو دل و دماغ میں بٹھا لینا ضروری ہے کہ قرآن سائنسی حقائق سے متصادم ہو ہی نہیں سکتا، فرق صرف توجیح کا ہو سکتا ہے۔
اب آئیے اس بات کی کچھ سائنسی توجیح سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہمارے وہ بہن بھائی جو اس طوفان میں اپنے آپ کو بے سہارا محسوس کرتے ہیں اور سائنس کی توجیحات کے بغیر ان کو اپنا ایمان خطرے میں نظر آتا ہے انہیں کچھ سہارا ملے۔ یہ اشکال کفر و الحاد کے حامی تین مواقع پر اٹھاتے ہیں ایک اصحابِ کہف کے واقعے پر دوسرا حضرت عزیر علیہ السلام کے واقعے پر اور تیسرا معراج کے واقعے پر۔ بات کچھ یوں ہے کہ انگریزوں کے دور میں جب ذہنوں پر سائنس کا غلبہ قائم ہوا تو وہ نیوٹونین دور تھا ، نیوٹن کی مادے کے بارے میں تھیوری حق سمجھی جاتی تھیں اور مادہ لاینفک سمجھا جاتا تھا یعنی نہ ہی اسے تخلیق کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی تباہ۔ سب کچھ فزکس ہی فزکس تھی، میٹافزکس(مابعدالطبیعات)سے کوئی واقف نہ تھا ایسے میں ما ورا الطبیعات قرآنی حقائق کی تشریح کیسے کی جائے؟ یہ طوفان ہندوستان کے مسلمانوں کو بہا لے جا رہا تھا، ایسے میں اہلِ ایمان دو علمی گروہوں میں بٹ گئے ایک وہ کہ جنہوں نے سنت اصحاب کہف پر عمل کرنے میں عافیت جانی اور ان سائنسی علوم سے بالکل ہی کٹ گئے (ان ہی بے چاروں پر بعد میں لاوڈ سپیکر والی پھبتی کسی گئی )اور دوسرے وہ جنہوں نے اپنے ایمان کے دفاع کی کوشش کی مگر طریقۂ کار میں چوٹ کھا گئے ۔ انہوں نے قرآن کی تفسیر کو کھینچ تان کر اس وقت کے سائنسی حقائق کے سانچے میں بٹھانے کی اپنی سی کوشش کی مگر اس سعی کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ فرشتوں ،جنات اوربہشت و دوزخ کے منکر ہو بیٹھے۔ کسی نے انہیں قدرت کے قوانین کہا تو کوئی جنوں کو انسان کی غصیلی قسم مانتا تھا کبھی معراج کو مشتبہ بتایا کہ یہ عالم خواب میں پیش آیا تھا تو کبھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بحر چاک کرنے کے معجزے کی تشریح سمندری مدو جزر سے کی۔
ایسے میں جیمزچاڈوک نے آکر اپنی تھیوری سے علم کی ایک اور دنیا سے انسانیت کو روشناس کرایا، اس نے ثابت کیا کہ مادہ لاینفک نہیں ہے ، یہ اپنے اندر اور بھی جزو رکھتا ہے ، بہ قول اقبال :
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرّے کا دل چیرئیں
اور پھر آئن سٹائن نے آکر اپنی تھیوری سے دنیا میں بھونچال برپا کر دیا ، اس دور کی سائنس کو جڑ سے ہلا دینے والی اس کی تھیوریز نے دو چیزیں ثابت کیں نمبر ایک زمان و مکان الگ نہیں بلکہ ایک ہی جہت ہیں ہم تین جہتوں کا ادراک رکھتے ہیں(لمبائی ، چوڑائی اور گہرائی)۔ اس نے بتایا ایک جہت اور بھی ہے وہ ہے زمان و مکان کی جہت اور دوسرا یہ کہ وقت یکساں نہیں رہتا بلکہ یہ رفتار پرمنحصر ہے، اگر روشنی کی رفتار سے سفر کیا جائے تو مسافر کے لیے وقت کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ وقت کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ سیل رواں نہیں ہے بلکہ لمحوں کی ایک لا متناہی سیریز ہے ،یعنی وقت کی مثال بچے کی اس کاپی کی سی ہے جس میں وہ مختلف صفحوں پر ایک کارٹون بنا کر جب تیزی سے صفحات پلٹتا ہے تو وہ کارٹون اسے چلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ تھیوری زیرِ بحث واقعات کا تسلی بخش سائنسی ثبوت پیش کرتی ہے۔

Loading

Read Previous

رفیع خآور: ننھا

Read Next

حضرت ابراہیم علیہ السلام ۔ قرآن کہانی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!