اصحابِ کہف ۔ قرآن کہانی

اب آخر میں یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس واقعے میں کیا سبق پوشیدہ ہے، ویسے تو یہ پوری سورہ ہی نہایت اہمیت کی حامل ہے اور ہمارے آقا ۖ نے ہمیں اس کی تلاوت کو اپنے معمولات کا حصہ بنانے کی تلقین بھی کی ہے اس سورہ میں چار واقعات درج ہیں کہ جو آپس میں نہایت مربوط ہیں ۔ اہل علم کی رائے میں یہ آخر الزمان میں پیش آنے والے دجالی فتنوں کی طرف نشان دہی کرتے ہیں، جس میں سے ایک فتنہ ایمان کا امتحان ہو گا، جیسے اصحابِ کہف نے اپنے ایمان کا امتحان سہا، ویسے ہی ہمیں بھی قدم قدم پر ایمان بچانا پڑتا ہے اور پڑے گا۔
ایسے میں ایمان بچانے کا طریقۂ کار کیا ہوگا؟ یہ بھی ہمیں اسی سورہ سے معلوم ہوتاہے۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ان اصحاب کی سنت پر عمل کیا جائے ، جب فتنوں کا طوفان حد سے بڑھ جائے تو اپنے بچاؤ کے لیے پہلے اپنے آپ کو ان فتنوں سے الگ کیا جائے مگر ڈر کر نہیں بلکہ اس عزم و ارادے کے ساتھ کہ یہ میں راہ فرار نہیں ڈھونڈ رہا مگر اپنے آپ کو الگ کر کے ان فتنوں کا رد کرنے کی اور لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کی کوشش کروں گا، اس واقعے میں کہیں یہ نہیں درج کہ وہ لوگ ہمیشہ کے لیے الگ ہو گئے تھے بلکہ اشارہ تو یہ ملتا ہے کہ ان کا مقصد نئی حکمت عملی کی تلاش تھا جبھی اپنے ساتھی کو بازار بھیجتے وقت انہوں نے تلقین کی تھی کہ ایسا نہ ہو کہ تم پکڑے جاؤ اور ہم ناکام ہو جائیں ۔ صحیح احادیث میں بھی یہ بات صراحتاً درج ہے کہ ہمارے نبی ۖنے ہمیں حکم دیا تھا کہ جب دجال کا خروج ہو تو تم لوگ پہاڑوں میں چھپ جانا۔ اپنے آپ کو فتنوں سے الگ کرنے میں بہت مصلحتیں ہیں۔ انسان کے اندر اللہ نے ماحول سے اثر لینے کی صلاحیت رکھی ہے۔ اپنی بقا کی خاطر اور حیوانی جبلت کے تحت انسان جس موسم اور ماحول میں ہو، خود کو اس کے مطابق ڈھال لیتا ہے اس لیے اگر اپنے ایمان کے بارے میں خوف ہو تو عافیت اسی میں ہے کی بہ جائے فتنوں کے درمیان رہ کر ایمان کھونے کا رسک لیا جائے، اپنے آپ کو فتنے میں مبتلا کرنے والے لوگوں اور چیزوں سے حتی الامکان دور کیا جائے ۔
دوسرا طریقہ اس فتنے سے بچنے کا سورئہ کہف میں اس واقعے کے فوری بعد درج ہے ، اللہ نے آیت 28 میں فرمایا”اور جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے اور اس کی خوشنودی کے طالب ہیں۔ ان کے ساتھ صبر کرتے رہو اور تمہاری نگاہیں ان میں (گزر کر اور طرف) نہ دوڑیں کہ تم آرائشِ زندگانی دنیا کے خواستگار ہوجاؤ اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا ہے اس کا کہا نہ ماننا”یعنی صالحین کی صحبت اختیار کی جائے ، اللہ کی زمین وسیع ہے اور یہاں ہر وقت صالح لوگ موجود ہوتے ہیں ان کی صحبت اختیار کی جائے تاکہ فتنوں کے دور میں کوئی سہارا دینے والا ملے، اور پھر چوںکہ ماحول میں ڈھلنا انسان کی سرشت میں شامل ہے تو کیوں نہ اچھے سانچے میں ڈھلا جائے ؟ اور پھر نہ صرف یہ کہ اچھے لوگو کی صحبت اختیار کی جائے بلکہ بُروں سے بچا بھی جائے، ان سے دوری بھی اختیار کی جائے کہ کہیں یہ نہ ہو کہ خوش رہے رحمن بھی راضی رہے شیطان بھی کی بچگانہ کوشش میں انسان کہیں کا نہ رہے۔

اس فتنے سے بچنے کا تیسرا اور آخری طریقہ یہ ہے کہ قرآن سے جُڑا جائے اورآخرت کو یاد رکھا جائے جیسا آیت نمبر اُنتیس میں کہا گیا”اور کہہ دو کہ (لوگو)یہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے برحق ہے تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے۔ ہم نے ظالموں کے لئے دوزخ کی آگ تیار کر رکھی ہے، جس کی قناتیں ان کو گھیر رہی ہوں گی ۔”اپنی آخری منزل یاد رہے گی تو دنیا کی بے ثباتی ہمیشہ ذہن میں رہے گی اور اعمال میں خود بہ خود بہتری آتی چلی جائے گی۔ نبی اکرم ۖ کی یہ حدیث ہمیں اپنے پلے سے باندھ لینی چاہیے، جب آپ ۖنے اپنے اصحاب سے کہا کہ انسان کے دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے جیسے لوہے کو زنگ لگتا ہے تو صحابہ نے پوچھا اس کا علاج کیا ہے یا رسول اللہۖ آپۖ نے فرمایا کہ کثرت سے موت کو یاد کرنا اور قرآن پڑھنا ۔اللہ ہم سب کو دورِ حاضر اور مستقبل کے تمام فتنوں سے محفوظ رکھے آمین ۔
اس تحریر میں اگر کوئی علمی اور شرعی کمی کوتاہی ہے تو اللہ مجھے معاف فرمائے اور آپ کے ذہن سے اسے حذف فرمائے۔ (آمین)

٭٭٭٭

Loading

Read Previous

رفیع خآور: ننھا

Read Next

حضرت ابراہیم علیہ السلام ۔ قرآن کہانی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!