اصحابِ کہف ۔ قرآن کہانی

ان کی وفات کے بعد کچھ لوگ اس حق میں تھے کہ ایک دیوار کھڑی کر دی جائے اور ان کا معاملہ رب کے سپرد کیا جائے جب کہ اہلِ ثروت کی رائے کے مطابق اس جگہ پر ایک مسجد (عبادت گاہ)قائم کر دی گئی۔
یہ تھا وہ قصہ اب آئیے پہلے ان اشکالات کو رفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو عموماً اس قصے کے ضمن میں اٹھائے جاتے ہیں۔ نمبر ایک ان اصحاب کی تعداد کتنی تھی؟ یہ تو یقینی بات ہے کہ ان کے ساتھ ان کا کتا موجود تھا مگر ان کی اپنی تعداد کتنی تھی ؟پانچ ،چھییاسات ؟ اہلِ علم کی رائے یہ ہے کہ ان کی تعداد سات تھی کیوںکہ قرآنی آیت میں پانچ اور چھے کے بعد کہا گیا ہے کہ یہ لوگ غیب پر تکے لگا رہے ہیں مگر سات کی تعداد کے ذکر کے بعد ایسی بات نہیں کی گئی اور پھر عیسائی تعلیمات میں ان کو سیون سلیپرز کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یعنی سات سونے والے۔ مگر یہاں قرآن کی رائے نہ دیکھنا اس موضوع کے ساتھ ظلم ہو گا۔ اللہ عزوجل نے اس آیت کا اسلوب اس قدر خوب صورت رکھا ہے کہ بحث کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ ترجمہ :
(بعض لوگ)کہیں گے کہ وہ تین تھے اور)چوتھا) ان کا کتا تھا۔ اور (بعض)کہیں گے کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا ، یہ اپنی اپنی سوچ کی باتیں ہیں ۔ اور (بعض)کہیں گے کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ کہہ دو کہ میرا پروردگار ہی ان کے شمار سے خوب واقف ہے ان کو جانتے بھی ہیں تو تھوڑے ہی لوگ (جانتے ہیں)تو تم ان (کے معاملے) میں گفت گو نہ کرنا مگر سرسری سی گفت گو اور نہ ان کے بارے میں ان میں کسی سے کچھ دریافت ہی کرنا(سورئہ کہف آیت 22)
یعنی یہ بات بالکل غیر اہم ہے کہ ان اصحاب کی تعداد کتنی تھی ، ہمیں ایک نہایت حسین پیرائے میں ٹوکا جا رہا ہے کہ بہ جائے بال کی کھال نکالنے کے اصل نصیحت پر غور و خوض کرو ۔
اب آگے بڑھتے ہیں دیگر اشکال کی جانب وہ یہ کہ وہ کتنا عرصہ اس غار میں رہے؟ چوںکہ یہ سوال مشرکینِ مکہ کی جانب سے بہ طور دلیل نبی ۖ سے مانگا گیا تھا تو اس کا جواب اتنا یقینی دیا گیا کہ اس کی کوئی نذیر نہیں ملتی۔ کہا گیا کہ وہ اس غار میں تین سو سال رہے اور نو سال اور ۔ سننے میں نہایت عجیب معلوم ہوتا ہے کہ تین سو اور نو کا کیا مطلب ہوا؟ آیا وہ تین سو سال رہے یا تین سو نو؟ اب یہاں قرآن کی من جانب اللہ ہونے کی دلیل قائم ہوتی ہے۔ عیسائیت میں دنوں کا حساب شمسی ہوتا ہے اور اسلام میں قمری ہم یہ بات جانتے ہیں کہ قمری مہینے کے دن شمسی سے کچھ کم ہوتے ہیں۔ اب اگر دنوں کا میزان تین سو شمسی سالوں میں معلوم کریں تو وہ ٹھیک نو سال بنتا ہے یعنی وہ اصحابِ شمسی حساب سے تین سو سال سوئے اور قمری حساب سے تین سو نو سال۔ یوں اس سوال کے جواب میں کٹ حجتی کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔
ان دو علمی نکتوں کے بعد اب آئیے اس دقیق سوال کی جانب بڑھتے ہیں جو آج کل کے پُر فتنہ دور میں بہت سوں کو گمراہی کے دہانے کی جانب لے جا رہا ہے، وہ یہ کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسانی جسم اتنا عرصہ بغیر خوراک کے جی سکے ؟یہ سوال نیا نہیں ، ایسے سوالات قرآن کے نزول سے پہلے بھی انسانیت کو گمراہ کرتے رہے ہیں مگر اب فرق صرف اتنا ہے کہ اس طوفان کا شکارنہ صرف غیر مسلم ہیں بلکہ وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے مسلمان گھرانوں میں آنکھ کھولی اور کان میں پہلی آواز اشہد ان لا الہ الااللہ کی سنی۔ یہ چوںکہ سائنس کا دور ہے اس لیے افسوس کے ساتھ آج کل ہمارا ایمان بھی سائنس سے مشروط ہوتا جا رہا ہے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ اب ہم دین و ایمان کو بھی سائنس کی کسوٹی پر تولتے ہیں، اب میری اس بات پر ممکن ہے دقیانوسیت کی پھبتی کسی جائے یا پھر ملا اور لاؤڈ سپیکر والی مثال دی جائے مگر حق تو یہ ہے کہ اگر ہمارا ایمان اللہ کی کتاب سے زیادہ اس کی سائنسی توجیح پر ہے تو وہ ایمان باللہ نہیں ایمان بالسائنس ہوا۔

Loading

Read Previous

رفیع خآور: ننھا

Read Next

حضرت ابراہیم علیہ السلام ۔ قرآن کہانی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!