آدھا آدھا ملے تو ہوئے پوری دنیا —- نظیر فاطمہ

اس بڑے سے شہری اور دیہاتی امتزاج سے بنے گھر کی بیرونی دیوار کے ساتھ سفیدے کے لمبے لمبے درخت ایک قطار سے کھڑے تھے۔ایک درخت کے تنے میں فاختہ کا گھونسلہ تھا۔ فاختہ کے بچے گھونسلے سے سر نکال نکال کر باہر دیکھ رہے تھے ۔سفیدے کے درختوں کے پتے ہلکی ہوا کے سنگ جھوم رہے تھے۔ آسمان کے شمالی کناروں پر اودے اور ہلکے سرمئی رنگ کے بادل اُڑتے پھر رہے تھے ۔ ڈوبتے سورج کی پیشانی سے پھوٹتی کرنیں ان درختوں میں سے چھن چھن کر عجیب دل کش منظر پیدا کر رہی تھیں۔ لان میں کھلے پھولوں کی رنگین ادائیں اپنی جلوہ طرازیاں دکھا رہی تھیں ۔ ایسا دلکش منظر کے دیکھنے والا کھو سا جائے مگر یہ منظر اسی گھر کے ٹیرس پر بیٹھے مقدم چوہدری کی ذرہ برابر توجہ اپنی طرف نہیں کھینچ سکا تھا۔ وہ اُ داس سا خود میں گم سا بیٹھا تھا ۔ یہ الگ بات تھی کہ اس پر یہ اُداسی ذرا سوٹ نہیں کر رہی تھی ۔
مقدم چوہدری ۔۔مراد چوہدری کا اکلوتا سپوت۔۔۔۔دو مائوں(ایک پیدا کرنے۔۔۔ دوسری پالنے والی) کا لاڈلا بیٹا ۔۔۔ایک بہن کا پیارا بھائی ۔۔ ۔ دادا، دادی کی جان ،اتنے رشتوں کے ہوتے ہوئے بے چارا اُداس اور پریشان بیٹھا تھا ۔وجہ تھی اس کی شادی خانہ آبادی ۔شادی جس کا ذکر خوشی لاتا ہے مگر مقدم چوہدری کے لیے اس کی شادی ایسا درد ِ سر بنی ہوئی تھی جس کا علاج کسی ڈسپرین سے بھی ممکن نہیں تھا۔بیٹے کی شادی کرنی ہو تو ہمارے ہاں ایک ماں کے نخرے سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے ، اس کی تو پھر دو دو مائیں تھیں۔یہیں سے اس کی شامت شروع ہوئی تھی کہ اس کی شادی کے لیے اس کی مائوں کے نخرے آپس میں ٹکرا کر اس کی راہ کی رکائوٹ بن گئے تھے حالاں کہ ساری زندگی اس کی مائیں سوتنیں ہونے کے باوجود شیر و شکر رہی تھیں۔مشکل یہ تھی کہ مقدم چوہدری چاہ کر بھی اپنی کسی ایک ماں کا دل بھی نہیں توڑ سکتا تھا کہ دونوں اس سے برابر کی محبت کرتی تھیں، واری صدقے جاتی تھیں ۔مقدم چوہدری کی پریشانی کو سمجھنے کے لیے آپ کو تھوڑا پیچھے ماضی میں جھانکنا پڑے گا ۔تو آئیے چلیے پھر ۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭





مراد چوہدری وسیع زمینوں کے مالک تھے۔ انہیں چار بہنوں کے اکلوتے بھائی ہونے کا شرف حاصل تھا۔ پڑھے لکھے تھے مگر رہن سہن اور مزاج خالص چوہدرانہ تھے۔ ان کی پہلی شادی ان کی پھوپھوزاد نگین سے ہوئی تھی۔وہ دل میں اپنی ایک کالج فیلو کے لیے پسندیدگی، نہیں ۔۔نہیں۔۔ قدرے محبت کے جذبات رکھتے تھے اور اس کو دیکھ دیکھ کر دل ہی دل میں یہ شعر پڑھتے تھے۔
کتھے جے میرا وس ہووئے
تیری ماں میری سس ہو وئے
اب دل کی ہر خواہش پوری تو نہیں ہو تی ۔ یہی مراد چوہدری کے ساتھ بھی ہوا کہ اپنے ابا کے سامنے ان کی ایک نہ چلی اوران کے دل کی دل میں ہی دب کر رہ گئی ۔
”جب تک ”پھوپھیوں ” کی ”بیٹیاں” سلامت رہیں گی ”ماموئوں ” کے ”بیٹوں ” کو یونہی اپنے جذبات پر فاتحہ پڑھنا پڑے گی۔” چوہدری مراد یہی سوچ کر راضی بہ رضا ہو گئے۔ نافرمانی کا انجام جو جانتے تھے۔ گھر بدری اور جائیداد سے عاق ہونا۔۔اب وہ اتنے بھی مریض ِ عشق نہ تھے کہ دل کی خواہش پوری کر کے اپنی” دنیا ”خراب کر لیتے اور ان کی اس کلاس فیلو کو ان کے ارادوں کی بھنک تک نہیں تھی تو پھر وہ کس بل بوتے پر آگ میں کود جاتے ۔ویسے بھی آگ کے دریا میں ڈوب کر جانا ہر عاشق کے بس کی بات نہیںہے۔
مراد چوہدری کی والدہ اپنی بھانجی کو بہو بنانا چاہتی تھیں مگر شوہر کے آگے ان کی بھی ایک نہ چلی اور نگین عرف نگو ان کے گھر کی بہو قرار دے دی گئی۔نگو اکلوتی تھی۔ باپ اس کے بچپن میں چل بسا تھا۔ اماں نے ساری عمر محنتیں کر کے اسے پالا پوسا تھا۔ ساری شادی کے دوران مراد چوہدری کے ابا خوشیوں کے ہنڈولے میں جھولتے رہے ، اماں منہ پھلائے رہیں اور بہنوں نے بھائی کی شادی کے خوب خوب ارمان نکالے۔مہندی کی رات بھنگڑے اور لُڈیاں ڈالتی رہیں۔ناچ ناچ کر تھک گئیں تو ڈھولک سنبھال لی ۔ساری رات ڈھولک بجا کر گانے گا تی رہیں۔
”میں اُڈی ُڈی جاواں ہوا دے نال۔۔۔۔۔۔”
”میں اُڈی ُڈی جاواں ہوا دے نال۔۔۔۔۔۔”
یہ گانا مراد چوہدری کی سب سے بڑی بہن شہناز بی بی گا رہی تھی جو صحت مندی کے آخری مقام پر تھی۔ پورے چھے من کی ۔۔۔نہ رتی اِدھر نہ رتی اُدھر۔ اُوپر سے اتنے کام والا جوڑا کہ جس کا دوپٹہ ہی سیروں کے حساب سے وزنی تھا ۔ اس کے بعد جو زیورات اُس نے پہن بلکہ لاد رکھے تھے ، ان کاوزن بھی کلو دو کلو تو ضرور ہی تھا۔ ایسے میں اول تو اُڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور بالفرض محال ایسا ہو بھی گیا تو ہوا بے چاری پریشانی سے سر پٹختی رہے گی کہ اس پر یہ کیا افتاد آن پڑی ہے۔
اماں جل جل کر سنتی رہیں اور سُن سُن کر جلتی رہیں۔
”نی چُپ کر جاو ، اب اور جا کر سو جائو۔ تمہاری بے سری آوازوں نے سر میں درد کر دیا ہے۔” آخر بھنی ہوئی آواز میں بولیں۔
”ہن میں بتائوں گی نگو کو ۔۔۔۔ساس کس چیز کا نام ہوتاہے۔” شادی کے روز ہی ان کی والدہ نے اپنی بیٹیوں کے سامنے اپنے ارادوں کا ذکر کر دیا۔ کیا کرتیں برداشت جو نہیں ہو رہا تھا۔





” بس کر دے اماں! نگو بہت اچھی لڑکی ہے ،تیری بڑی خدمت کرے گی۔ تو ایسے اس سے بیر نہ باندھ۔۔۔حمیرا کا بھی تجھے پتا ہی ہے کتنی لڑاکا اور کٹنی قسم کی لڑکی ہے ۔۔۔چاہے تیری بھانجی ہے مگر ایک بات لکھ لو وہ بیاہ کر آجاتی تو سب سے پہلے تجھے ہی دیوار سے لگاتی۔” ان کی بڑی بیٹی نے بڑے عادلانہ انداز میں صورتِ حال کا تجزیہ کیا ۔
نگو بہت ہنسوڑ اور قدرے لاپروا سی لڑکی تھی۔ بڑی سے بڑی بات کو چٹکیوں میں اُڑا دینے والی۔ گھر میں یوں گُھل مل گئی جیسے سالوں سے یہاں رہ رہی ہو۔ گھر میں ہر وقت اس کے ہنسنے بولنے کی آواز آتی رہتی ۔وہ جانتی تھی کہ وہ ساس کو پسند نہیں ہے لہٰذا اس نے ساس کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا تھا۔ وہ موقع ڈھونڈتی رہ جاتیں اور نگومکھن میں سے بال کی طرح نکل جاتی ۔
” ہے ای میسنی ۔۔۔چلاک(چالاک)ماں کی چلاک دھی۔” ایسے ہر موقع پر مراد کی اماں ہر دفعہ کلس کر رہ جاتیں۔
اگر کبھی وہ خوا مخواہ اس کے سر ہو جاتیں تو وہ ہنس کر ٹال دیتی۔ کھُل کر وہ نگین کی مخالفت نہیں کر سکتی تھیں کہ مراد کے ابا کا خوف تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ نگو کا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔ وقت دھیرے دھیرے گزرنے لگا۔ مراد اور نگین کی شادی کو دو سال گزر گئے مگر ان کا آنگن سونا رہا تو مراد کی اماں کو جیسے ایک موقع ہاتھ لگ گیا۔ پہلے ڈیرھ سال تک تو وہ دبی دبی زبان میں مراد کو احساس دلاتی رہیں مگر جب دو سال گزر گئے تو وہ علی الاعلان بچہ نہ ہونے کا واویلا کرنے لگیں۔اب بھی نگو اماں ابا کوچائے دینے آئی تھی جب اماں نے طنز کیا۔
” تیری یہ خدمتیں ہمارے کسی کام کی نہیں ہیں اگر ہمارا آنگن یونہی سونا رہا تو کیا فائدہ تیرا ۔” نگوکے چہرے کا رنگ پل میں اُڑا تھا مگر اس نے فوراً خود کو سنبھال لیا۔
” فکر نہ کرمامی! اللہ کرم کرے گا۔” وہ مُسکر ا کر بس اتنا کہہ سکی ۔ ان کی بات جو دل میں تیر بن کرگھس گئی تھی۔
”جا پتر تو جا کے مراد کو دیکھ ۔” ابا نے اماں کو گھور کر دیکھا اور نگو کو جانے کا اشارہ کیا۔
” تو کیا اس کے پیچھے پڑی رہتی ہے؟ کچھ خدا کا خوف کیا کر ۔جب اللہ کی مرضی ہو گی اولاد بھی ہو جائے گی۔” ابا نے اماں کو سمجھایا، جو ناک سکوڑ کر دوسری جانب دیکھنے لگی تھیں۔
” میں اب اور انتظار نہیں کر سکتی۔بس آپ مراد سے کہیں اسے شہر لے جا کر ڈاکٹر کو دکھائے۔” اماں نے چائے کا گھونٹ حلق میں اُتار کر کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چند روز بعد چوہدری مراد شہر گیا تو نگو کو بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ دونوں کے ٹیسٹ ہوئے اور جو رپورٹ آئی اس نے نگوکے پیروں کے نیچے سے حقیقتاً زمین کھینچ لی۔ رپورٹس کے مطابق وہ ماں بننے کی صلاحیت سے محروم تھی۔
گھر واپس آکر نگوکمرے میں بند ہو گئی۔مراد چوہدری ڈھیلے سے انداز میں اماں ابا کے پاس ٹک گیا۔
” کیا بنا پتر! تم لوگ گئے تھے ڈاکٹر کے پاس۔” ابا نے اس کی اُتری شکل دیکھ کر کہا۔
مراد چوہدری نے ٹھنڈی آہ بھر کر ساری بات بیان کرنا شروع کی۔ جسے سُن کر ابا کا دل ڈوبنے لگا اور اماں کے دل میں سکون کی ٹھنڈی لہریں اُٹھنے لگیں اور کیوں نا اُٹھتیں ”نقص” کون سا ان کے بیٹے میں تھا۔
” ہوں! اب میں اس نگو کی ایسی کی تیسی کروں گی۔ اپنے بیٹے کو دوسری شادی کروائوں گی اور وہ بھی اپنی بھانجی حمیرا سے۔” ابا مراد چوہدری کی دل جوئی کرنے لگے اور اماں دل ہی دل میں منصوبہ بندی کرنے لگیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭





پورا ایک ہفتہ نگو نے کمرے میں بندہو کر اپنے بانجھ پن کا سوگ منایا ۔جو کمی اللہ کی طرف سے ہو اُسے پورا نہیں کیا جاسکتا ، اُس پر بس صبر کیا جا سکتا ہے اور نگو نے اس کمی کو قبول کر کے صبر کر لیا ۔ایک ہفتے بعد دوپہر کو کمرے سے نکلی تو سب قیلولہ کررہے تھے۔ وہ بر آمدے میں سے گزر کر صحن میں لگے نلکے کی طرف جانے لگی توابا کے کمرے سے اماںکی آواز آئی جو اپنی بہن (حمیرا کی ماں)کے ساتھ محو گفتگوتھیں۔ دونوں کو شاید اس کے کمرے سے نکلنے کی ذرا اُمید نہیں تھی جو آواز کا والیوم کم کرنے کی زحمت نہیں کی گئی تھی۔
” بس بشیراں! اب تو تیاری رکھ دو مہینے کے اندر میں نے مراد کا ویاہ اپنی حمیرا سے کروا دینا ہے۔ بڑی اُڈی اُڈی پھرتی تھی نا یہ نگو کی بچّی ۔ اب منہ کے بل گری ہے تو اب مت ٹھکانے آئی ہے اور کچھ ابھی آئے گی جب میں اپنی حمیرا کو اپنی (بہو) نو بنا کر لائوں گی۔” اماں کی زبان سے اُگلتا زہر نگو کے کانوں کے رستے دل میں جا اُترا۔
نگو واپس کمرے میں گئی ۔بہت کچھ سوچا، حقیقت کی عینک لگا کر حالات کا جائزہ لیا تو اس نتیجے پر پہنچی کہ خوشیاں حاصل کرنے کے لیے زندگی کی تلخیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا پڑتاہے ۔سو اس نے مقابلہ کرنے کی ٹھانی اور ایک ایسا فیصلہ کر گئی، جس نے اس کے دل کو خاردار جھاڑیوں پر گھسیٹ دیا مگر وہ تکلیف سہ گئی۔ اب اُسے اپنے اس فیصلے کو منو ا کر اس پر عمل کروانا تھا۔ اماں نے اس کے ساتھ بیر رکھا تھا تو اب وہ بھی اماں کو اس کے مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دے گی۔حمیرا کے آنے کا مطلب تھا نگو کا گھر بدر ہونا اور ایسا نگو مر کر بھی نہیں چاہتی تھی ۔ اُسے اسی گھر میں مراد چوہدری کے ساتھ رہنا تھا اور حمیرا آجاتی تو ایسا ہونا ناممکن ہو جاتا۔ وہ بے چینی سے ابا کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔
رات کو کھانے سے فارغ ہو کر وہ ابا، اماں کے پاس جاپہنچی۔ مراد چوہدری پہلے ہی وہاں موجود تھا۔ ابا اتنے دنوں بعد اس کو سب کے درمیان دیکھ کر قدرے مطمئن ہوئے۔وہ مراد چوہدری کواس کا خیال رکھنے کی تاکید کرتے رہتے تھے کیوں کہ وہ بے چاری اتنے بڑے صدمے سے گزر رہی تھی۔ مراد چوہدری نے اس کی مقدور بھر دل جوئی کی تھی۔ وہ صرف اس کی تکلیف کو کم کرنے کی کوشش ہی کر سکتا تھا، اس کو ختم کو نہیں کر سکتا تھا سو اس نے یہی کیا اپنی محبت اور خلوص سے پوری کوشش کی تھی کہ نگو کی یہ تکلیف کم ہو جائے ۔سوائے اماں کے سب نے اس کی ہمت بندھائی تھی ، اس سے ہمدردی کی تھی مگراماںنے ان سات دنوں میں جب بھی اس کے کمرے میں جھانکا، اس کی طرف طنز کا نوکیلا بھالا ہی پھینکا تھا۔ابانے کئی دفعہ خوفِ خدا یاد دلایا کہ ہم بھی بیٹیوں والے ہیں ایسے نہ کر تسلی نہیں دے سکتی تو دل بھی نہ دکھا ۔ مگر نا جی مامی باز نہ آئی۔ ویسے بھی جس تن لاگے، وہی جانے اور فی الحال اُن کے تن پر نہیں لگی تھی تو وہ کیوں پروا کرتیں۔
”آپتر، اِدھربیٹھ میرے پاس ”ابانے اپنی ٹانگیں سمیٹ کر اپنی چارپائی پر اس کے لیے جگہ بنائی۔”نگو آرام سے ٹک گئی۔اس کی کیفیت عجیب سی ہو رہی تھی اوردل ڈوب ڈوب کر اُبھر رہا تھا ۔





” ماموں ! میں نے ایک فیصلہ کیا ہے۔” نگو اتنا کہہ کر خاموش ہو گئی۔
” اگر تو یہ سوچ رہی ہے کہ تو کوئی بچہ گود لے لے گی تو ایک بات یاد رکھنا ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ ہمیں کسی ایرے غیرے کی اولاد کو نہیں پالنا۔۔۔ اپنے پتر کی اولاد گودیوں میں کھلانی ہے۔” اماںنے اس کی بات مکمل بھی نہ ہونے دی۔ اُن کے خیال میں نگو اس سے زیادہ اور کیا فیصلہ کر سکتی تھی۔ابا نے اماں کو جھڑک کر خاموش کروایا۔
”ہاں تو بول پتر کیا کہنا چاہتی ہے۔”ابا نے دلار سے کہا۔
”ماموں ! میں چاہتی ہوں ۔ ہم مراد کی دوسری شادی کروا دیں۔” نگو کی بات نے ابا، اماں اور مراد چوہدری کو ایک لمحے کے لیے گنگ کر دیا۔سب سے پہلے اماں ہوش میں آئیں۔
” وہ تو نہ بھی کہتی تو میں نے کر ہی دینی تھی حمیرا سے۔”اماں کی بات پر ابا نے گھور کر انہیں دیکھا اور نگو ہلکا سا مسکرا دی جیسے کہہ رہی ہو، ابھی میری بات مکمل نہیں ہوئی ، پہلے سن تو لیں۔
”ماموں! میں چاہتی ہوں کہ مراد چوہدری کی شادی ہم کسی مطلقہ یا بیوہ سے کروا دیں۔ اس کی کون سی یہ پہلی شادی ہے، جو ہم کسی کنواری لڑکی کے ارمانوں کا خون کریں۔ حمیرا جیسی ”اچھی” لڑکی کو اس کے جوڑ کا کوئی اچھا اور کنوارا لڑکا مل جائے گا تو پھر ہم اپنی غرض کے لیے اس کے جذبات کو کیوں قربان کریں۔” نگو نے بڑی صفائی سے اماںکے ارمانوں کا خون کر دیا ۔
” تجھ سے کسی نے پوچھا ہے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔”اماں بلبلا اُٹھیں۔
” تو چپ کر مراد کی ماں، نگو بالکل صحیح کہہ رہی ہے۔” ابا، اماں اور نگو سنجیدہ مسئلے پر گفتگو کر رہے تھے اور مراد چوہدری خیالوں میں دوسری شادی کی تیاریاں کرنے لگے ۔اس کے باوجود کہ و ہ نگو کو صدق ِ دل سے اپنا چکے تھے اور اس کو کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتے تھے، دوسری شادی کی بات نے ان کے دل میں پھول کھلانے شروع کر دیے تھے۔ہوش تو تب آیا جب ابا جی نے اُسے مخاطب کیا۔
” تو بتا مراد ، تو کیا چاہتا ہے۔” ابا نے مراد چوہدری سے پوچھا تو وہ شرما کر رہ گیا۔
” جیسے آپ کی اور نگو کی مرضی۔”مراد چوہدری کی بات سن کر نگو کے ہونٹوں پر زخمی سے مسکراہٹ آئی ۔ ابھی تو وہ یہ سب کہہ رہا ہے لیکن کچھ عرصہ گزر جاتا تو بھلے دوسروں کے پریشر میں آکر مراد چودھری کو دوسری شادی کرنا ہی تھی تو پھر نگو یہ کام خود اپنے ہاتھوں سے کیوں نہ انجام دے دیتی۔کیوں رو دھو کر ، واویلا کر کے لوگوں کو تماشا دیکھنے کا موقع دیتی۔
”رشتے بنانا آسان لیکن انہیں نبھانا بہت مشکل ہوتاہے میری دھی۔ رشتے نبھانے واسطے ایثار، صبر، قربانی اور وفا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے بہت کم لوگ خود کو رشتے نبھانے کی مشقت میں ڈالتے ہیں۔ تم بھی خود کو مٹا کر رشتوں کو بچانے کی کوشش کرنے لگی ہو ۔ پر میں نہیں چاہتا کہ تم رشتوں کو نبھانے کے لیے اپنی جان کو کسی مصیبت یا مشقت میں میں ڈالو ۔ اس لیے اچھی طرح سوچ سمجھ لو۔ شوہر کو بانٹنا کوئی سوکھا کم نہیں ہوندا۔”ابا نے نگو کے سر پر ہاتھ رکھا تو نگو نے ان کا ہاتھ تھام کر چوم لیا۔
” ماموں، پورا کھو دینے سے بہتر ہے کہ بندہ آدھا کسی کے ساتھ بانٹ لے، بدلے میںاپنی جھولی بھی خالی نہیں رہتی اور کسی اور کا بھلا بھی ہو جاتا ہے۔” نگو نے آنسو ئوں بھری آنکھوں سے ابا کو دیکھا۔
” ٹھیک ہے پھر کچھ کرتے ہیں۔ابھی تم لوگ جائو۔” ابانے نگو اور مراد چوہدری کو جانے کا اشارہ کیا۔نگو نے یہ فیصلہ بھلے اماں کی ضد میںکیا تھا مگر نیت اس کی نیک ہی تھی ۔ نگو چاہتی تھی کہ کوئی ایسی لڑکی مل جائے جس کے ساتھ وہ اپنا شوہر بانٹ لے اور وہ لڑکی اس کے ساتھ اپنی اولاد ۔ وہ رب بادشاہ جو اُوپر بیٹھا ہے وہ نیتوں کا پھل ہی دیتا ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭




Loading

Read Previous

اُلو — محسن عتیق

Read Next

آدھا سورج —- امایہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!