آدھا آدھا ملے تو ہوئے پوری دنیا —- نظیر فاطمہ

مراد چودھری نے تو دو دو بیویوں کے ہوتے ہوئے اب تک کسی جھگڑے کی صورت نہیں دیکھی تھی۔ اب جو دونوں میں ٹھنی تو مراد چودھری کو دن میں تارے نظر آنے لگے۔وہ ٹکر ٹکر دونوں کی صورتیں دیکھتے رہ جاتے۔ انہیں تو دو نوں میں صلح کروانے کی پریکٹس بھی نہیں تھی ۔ اٹھائیس سال اپنی دونوں بیویوں کی مہربانی سے اُنہوں نے بڑی میانہ رو زندگی گزاری تھی۔ وہ خود کو بڑا طرّم خان سمجھتے تھے جو دونوں بیویوں کے درمیان انصاف کرتے رہے۔ وہ یہ بات تو بھول ہی گئے تھے کہ یہ انصاف ان کی بیویوں کی صلح جو طبیعتوں کے باعث تھا جو آج کل کسی لڑاکا طیارے سے مزاج والیاں بنی ہوئی تھیں۔ اٹھائیس سال اگر اُنہیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی تھی تو اس کی وجہ یہی تھی کہ یہاں عورت ،عورت کی دشمن نہیں بلکہ دوست بنی تھی۔ دونوں میں سے کسی نے بھی کبھی ایک دوسرے کے خلاف شکایت یا لگائی بجھائی نہیں کی تھی۔مراد چودھری کی زندگی کا موسم خوش گوار تھا اور نظارے حسین۔ اب جو سیدھا سیدھا چلنے والی دونوں عورتوں نے تھوڑا سا ٹیڑھ پن دکھایا تھا تو مراد چوہدری کو بھی آٹے دال کو بھائو معلوم ہو گیا تھا ۔ وہ معزول حکمران کی طرح بے بس ہو کر دیکھتے ہی رہ گئے۔ان کی حالت سر میں مٹی ڈالے ایسے فلسفی کی سی ہو گئی تھی جسے نہ دن کی خبر تھی اور نہ رات کی۔
”ابوجی! آپ خود کوئی اسٹینڈ کیوں نہیں لیتے۔” مقدس نے گھر کے ماحول سے تنگ آکر باپ کو پکارا۔کہاں پہلے سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا ۔ سب پیار محبت سے رہ رہے تھے اور کہاں اب ایک دوسرے کو دیکھ کر منہ پھیرے جارہے تھے اور مصیبت میں جان آئی ہوئی تھی ان تینوں کی۔آج کل یہ تینوں بے چارے دونوں کے درمیان ”فٹ بال” بنے ہوئے تھے۔ جو اُدھر کی ٹھوکر سے اِ دھر اور اِدھر کی ٹھوکر سے اُدھرلڑھک رہے تھے۔
”میں۔۔۔ میں کیا کروں؟” بے چارے گھبرا سے گئے اور مرد ہوکر باپ کی ایسی بزدلی پر مقدس انہیں دیکھ کر رہ گئی۔ اس کے خیال میں مرد توپہاڑ سے بھی ٹکرا جائیں تو بھی ہار نہیں مانتے۔ مگر وہ شاید یہ بات نہیں جانتی تھی کہ مرد کے لیے پہاڑسے ٹکرانا آسان اور بیوی سے ”ٹکرانا” مشکل ترین کام ہے اور یہ مشکل کام ہر مرد کے بس کی بات نہیں ہوتا۔
”آپ مالک ہیں اس گھر کے۔ کوئی ایسا فیصلہ کریں ، ایسی درمیانی راہ نکالیں کہ دونوں امیوں میں پھر سے صلح ہو جائے۔” مقدس نے ایک کوشش اور کی جو پہلی کی طرح ضائع ہی ہوئی۔
”نا پتر! میں ان دونوں کے جھگڑے میں نہیں آتا۔ لڑ لینے دے دونوں کو خود ہی تھک کر بیٹھ جائیں گی۔” مراد چودھری تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو والی پالیسی اپنائے ہوئے تھے۔ بے چارے اور کیا کرتے۔ چوری چھپے باری باری دونوں سے اپنی اپنی ضد چھوڑنے کی درخواست کر کے اپنی خوب ”عزت افزائی ”کرو ا چکے تھے۔اب وہ یہ ”عزت افزائی ” اپنے بچّوں سے تو شئیر نہیں کر سکتے تھے ۔البتہ تھوڑی دیر کے لیے یہ مناظر پوری جزئیات کے ساتھ ان کی آنکھوں کے سامنے گھوم سے گئے تھے ۔
”نگو ! میری جان تم ہی کچھ سوچ لو ۔۔اپنی ضد چھوڑ دو، مقدم پڑھا لکھا ہے اس کے لیے پڑھی لکھی بیوی ہی مناسب رہے گی۔” وہ اس زعم میں چلے گئے کہ حقیقت کو دیکھ کر نگو نے خود مراد چودھری کی دوسری شادی کروا دی تھی تو اب بھی حقیقت کو سمجھ کر وہ ان کی بات مان لے گی۔ مگر ان کا یہ زعم زمین بوس ہو گیا جب نگو کی چیخ سنائی دی۔





” کیا ؟؟ میری اینی قربانیوں کا یہ صلہ دے رہے ہو مراد چودھری۔۔۔۔ ہاں میں نے کون سا مقدم کو جنم دیا ہے جو میری بات مانی جائے گی۔میں تو اُسے پالا ہی ہے نا اور پالنے والی کا بھلا کیا حق۔۔ جائو جاکر جو مرضی آئے کرو ،میں واپس گائوں چلی جائوں گی۔” نگونہ صرف چیخی بلکہ اپنا لمبا پراندہ اتنی زور سے مراد چودھری کی طرف گھما کر مارا کہ وہ سیدھا اُن کی آنکھوں میں جا کر لگا اور مراد چودھری کو لگا جیسے ان کی بینائی چلی گئی ہو۔ اُنھوں نے وہاں سے اُٹھنے میں ایک لمحہ نہ لگایا۔ وہ اپنی آنکھوں جیسی نعمت سے محروم نہیں ہونا چاہتے تھے۔ آنکھوں جیسی کام کی چیز بھی بھلا کوئی ہو گی، شرمندہ ہو جائو تو آرام سے آنکھیں جھکا لو۔۔۔۔غصّہ آئے تو آنکھیں چڑھا لو۔۔۔۔۔خوف آئے تو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لو۔اشک ِ ندامت بہانے ہوں تو بھی آنکھیں کام آئیں۔ سو اپنی آنکھوں کی سلامتی کے لیے مراد چوہدری نے کمرے سے باہر نکل جانے میں عافیت جانی۔
اس کے بعد ثمین سے بڑی درد مندی اور عاجزی سے درخواست کی۔
” ثمین ! تم تو سمجھ دار ہو ۔۔۔نگو کی بات مان لو۔۔۔پالا ہے اُس نے مقدم کو ، اس کا برا تو نہیں چاہے گی۔” پیار سے بیوی کو ساتھ لگانے کی کوشش کی جس نے انہیں اس زور سے پیچھے کیا کہ بیڈ سے آدھے نیچے لٹک گئے۔
”کیوں اس نے پالا ہے تو میں نے پیدا کیا ہے، میں بھی اس کا برا نہیں چاہوں گی سمجھے آپ۔” اُن کو وہیں آدھا اُوپر آدھا نیچے لٹکتا چھوڑ کر وہ کمرے سے باہر چلی گئی۔
” ابّو جی ! میں آپ سے بات کر رہی ہوں۔” مقدس نے کھوئے ہوئے باپ کا بازو ہلایا تو وہ چونک کر مارے خوف کے زور زور سے سر نفی میں ہلانے لگے اور مقدس افسوس سے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مقدم چوہدری ،اپنی کلاس فیلو صوفیہ کے لیے اپنے دل میں پسندیدگی رکھتا تھا مگر شاید تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے جو مقدم بھی اپنے باپ کی طرح اپنے جذبات کو دل میں چھپائے ہوئے تھا۔ گھر میں خواتین کی لڑائی کسی نتیجے پر پہنچتی تو وہ اپنی پسند کا اظہار کرتا۔ ساری عمر جن مائوں نے مقدم چودھری کی ہر جائز خواہش پوری کی تھی اور بہت سی خواہشات کو وہ اس کے چہرے سے پڑھ کر پورا کر دیتی تھیں۔ وہ اپنی لڑائی میں مگن اس کی زندگی کی اتنی بڑی خواہش سے انجان بن گئی تھیں۔مقدم چودھری بھی تب تک زبان سے صوفیہ کا نام لینے کو تیار نہیں تھا جب تک اُسے یہ یقین نہ ہوتا کہ وہ اُسے اپنانے میں کامیاب ہو جائے گا ۔ سو فی الحال خاموش تھا۔ مقدم چودھری جب بھی فارغ ہوتا ، معصوم اور التجائیہ سی صورت بنا کر باپ کے آگے پیچھے پھرتا کہ شاید باپ کو اس پر ترس آجائے اور وہ اس کی شادی کے لیے کوئی اسٹینڈ لے لیںتو وہ بھی ان کے ساتھ مل کر کھڑا ہو جائے ۔مگر نہ جی مراد چودھری اور زندگی میں کوئی اسٹینڈ لے لیں۔۔۔ ناممکن سی بات تھی۔
مراد چودھری لائونج میں بیٹھ کر ٹی ۔ وی دیکھ رہے تھے ۔ جب مقدم چودھری بھی ان کے پا س آن بیٹھا۔ وہ اسے نظر انداز کیے ٹی وی میں مگن رہے تومقدم نے چڑ کر پاس رکھا میگزین اُٹھا لیا۔
”مالی معاملات میں بہتری آئے گی ۔۔۔۔کچھ اُلجھے معاملات سلجھ جائیں گے ۔۔۔۔کاروباری نوعیت کا سفر در پیش آئے گا ۔۔۔۔اگلے دو ماہ میں آپ کی شادی ہو جائے گی۔” مقدم چودھری کی قدرے اُونچی آواز نے محویت سے ٹی وی دیکھتے مراد چودھری کے ارتکاز کو توڑااور اُنہوں نے خوشی سے بانچھیں کھلا کر مقدم چودھری کی طرف دیکھا۔
”ہیں؟؟؟۔۔۔” مراد چودھری کے ہونٹوں پر شرمیلی سی مسکراہٹ پھیل گئی، اُنہوں نے ٹی وی کا ریموٹ سائیڈ پر رکھا اور دائیں ٹانگ بائیں ٹانگ پر رکھ کر اکڑ کر بیٹھ گئے۔
”میں اتنا جوان لگتا ہوں ۔۔۔۔۔کہ تم میری شادی کی پیش گوئی کر رہے ہو۔۔۔ یعنی میں کہیں سے بھی شادی شدہ بلکہ دو دفعہ کا شادی شدہ نہیں لگتا نا۔بس جی ، اللہ کا بڑا کرم ہے جو اُس نے صحت اور جوانی دی ہوئی ہے۔”مراد چودھری کی آواز پر مقدم چودھری نے کرنٹ کھا کر ان کی طرف دیکھا اور ان کے چہرے کے رنگ دیکھ کر اس کے اپنے چہرے کی بتی چلی گئی۔
”میں تو ”آپ کا یہ مہینہ کیسا گزرے گا۔” پڑھ رہا ہوں وہ بھی اپنا تو آپ کو کیا ہو رہا ہے۔” مقدم چودھری کی بات سُن کرمراد چودھری جی بھر کر بد مزا ہوئے۔
”تو آرام سے پڑھ۔۔۔ اگلا بندہ خوامخواہ خوش فہمی کا شکار ہو جاتا ہے۔” مراد چودھری کا بس نہ چل رہا تھا کہ مقدم کو کچا چبا جاتے ۔ اشفاق احمد صاحب نے کہا ہے کہ مرد کے دل میں دوسری عورت کی اور عورت کی الماری میں نئے سوٹ کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے ۔ اب اگر حیات ہوتے تو اُن پر انکشاف ہوتا کہ دوسری کے بعد تیسری کی گنجائش بھی موجود ہوتی ہے۔
”خود دو دو دفعہ شادی کروا کر بھی ارمان نہیں نکلے جو تیسری کے لیے بھی تیار ہیں اور میری دفعہ بالکل ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔” مقدم چودھری نے دل ہی دل میں کڑھ کر سوچا اور دوبارہ میگزین کی طرف متوجہ ہو گیا اور مراد چودھری نے چائے کی پیالی ہونٹوں سے لگا کر اپنے جلتے دل کو اورجلایا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭





آٹھ مہینے گزر چکے تھے دونوں میں سے کوئی بھی ہار ماننے کو تیار نہیں تھی۔ مراد چودھری کا شروع شروع کا خوف پہلے جھنجھلاہٹ میں بدلا اور پھر غصّے میں اور غصّہ میں ان کے تمام حواس انہتاؤں پر پہنچ کر تیزی سے کام کرنے لگے۔
”مقدم پتر! آج شام پانچ بجے ” چائنہ ٹائون” پہنچ جانا ۔ مجھے تمہیں کسی سے ملوانا ہے۔” مقدم چودھری آفس جانے کے لیے نکل رہا تھا جب ڈائننگ ٹیبل پر اکیلے بیٹھ کر ناشتہ کرتے مراد چودھری نے اسے اطلاع دی۔ مقدم چودھری نے مڑ کر دیکھا اور سر ہلا کر دہلیز پار کر گیا۔
آفس پہنچ کر جو مقدم چودھری کام میں مصروف ہوا تو تین بجے تک اُسے سر کھجانے کی فرصت بھی نہ ملی۔دو میٹنگز بھگتا کر وہ تقریبا ً چار بجے اپنے آفس میں واپس پہنچا ۔ تھوڑا ریلیکس ہو کر بیٹھا ہی تھا کہ اس کے موبائل پر مراد چودھری کی کال آنے لگی۔
”او پتر ! تجھے یاد ہے نا آج تم نے پانچ بجے ”چائنہ ٹائون ” آنا ہے۔” مراد چودھری نے چھوٹتے ہی یاد دلایا تو مقدم چودھری نے نہ چاہتے ہوئے بھی ”جی” کہا جسے سنتے ہی اُدھر سے کال ڈس کنکٹ کر دی گئی۔مقدم چودھری نے اپنا جائزہ لیا۔ بلیک ڈریس پینٹ اور لائٹ بلو شرٹ میں ملبوس تھا۔ اس نے گھر جانے کا ارادہ ملتوی کیا اور فریش ہونے واش روم میں چلا گیا۔
پونے پانچ بجے وہ ریسٹورنٹ میں داخل ہوا۔اُس نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں تو دائیں جانب والے ہال میں اُسے مراد چودھری کی جھلک دکھائی دی۔ وہ سیدھا وہیں چلا گیا۔ آٹھ لوگوں والی ٹیبل پر مراد چودھری اکیلے بیٹھے فریش لائم سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
”آئو آئو پتر ! بیٹھو تمھارے لیے کیامنگوائوں؟” مراد چودھری نے بڑی گرم جوشی سے کہا۔
”سادہ پانی۔۔۔ آپ نے مجھے یہاں کس سے ملوانے کے لیے بلایا ہے؟”مقدم چودھری ریلیکس ہو کر بیٹھ گیا۔
” بس پتر تھوڑا سا انتظار کر ۔۔۔ پانچ بجے تک وہ لوگ پہنچ جائیں گے۔” مراد چودھری نے پانی کی طرف اشارہ کیا تو مقدم نے گلاس اُٹھا کر لبوں سے لگا لیا۔
پھر پانچ سے سوا پانچ ، ساڑھے پانچ اور پونے چھے ہوگئے مگرتھا جس کا انتظار وہ نہ آیا۔ چھے بجنے میں پانچ منٹ تھے جب ایک بزرگ، ایک خاتون ، دو جوان لڑکے اور ایک لڑکی ان کی ٹیبل کے قریب آن رُکے۔مراد چودھری نے بڑی گرم جوشی سے انہیں خوش آمدید کہہ کر بیٹھنے کی دعوت دی۔ مقدم غیر ارادی طور پر اُن سب کا جائزہ لینے لگا۔پانچوں کے پانچوںعجیب نمونے سے تھے۔





بزرگ نے خضاب لگا کر بالوں کی سفیدی کو چھپانے کی کوشش کی تھی مگر بالوں اور مونچھوں کی جڑوں سے جھانکتی سفیدی اپنا آپ ظاہر کر رہی تھی۔ خاتون جو ان صاحب کی بیوی تھیں اپنی عمر کا لحاظ کیے بغیر بھڑکیلے رنگوں کے ڈیزائنر سوٹ میں ملبوس ، سُرخ لپ اسٹک لگائے چار بالوں کو کھلا چھوڑے جو ہوا کے ساتھ کبھی اُوپر، کبھی نیچے اور کبھی دائیں بائیں اُڑ رہے تھے، اپنے بڑھاپے کو چھپانے کی کوشش میں ہلکان تھیں مگر بڑھاپا پھر بھی جھرونکوں سے جھانک رہا تھا۔وہ عورتوں کے اس قسم سے تعلق رکھنے والی معلوم ہو رہی تھیں جن کی سادگی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ لپ اسٹک لگائے بغیر فون پر بھی بات نہیں کرتیں۔ایک لڑکا قدرے موٹا تھا جو ارد گرد کی میزوں پر بیٹھے لوگوں کے کھانوں کو للچائی ہوئی نظروں سے گھور کر ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا۔ دوسراموسیقی کا زیادہ ہی شیدائی لگ رہا تھا۔۔۔۔۔ کانوں میں ہینڈ فری لگائے گانے سُن رہا تھا اور اس کے جسم کی حرکت بھی گانے کے سروں کے ساتھ ساتھ بدل رہی تھی۔۔۔۔دھیمے سُرہوتے تو اس کا سر ہاتھ آنکھیں سلو موشن میں آجاتیں اور تیز میوزک پہ اُسی تیزی سے تھرکنے لگتیں۔ لڑکی سب پر بھاری تھی ۔ بغیر آستینوں کے چھوٹی سی قمیص، دوپٹہ ندارد اور پنڈلیوں تک چڑھا پینٹ نماز ٹراوزر۔ وہ بار بار مقدم کی طرف للچائی ہوئی سی نظروں سے دیکھ کر خوامخواہ شرمائے جا رہی تھی ۔مقدم چودھری کو عجیب سی گھٹن کا احساس ہوا۔
”جی آپ لوگوں سے فون پر بات ہوئی تھی تو یہ ہے میرا پتر مقدم چودھری۔” مقدم چودھری اس ادھورے تعارف سے جو سمجھا تھا اس کا دل اس بات کو نہیں مان رہا تھا۔’ ابو جی اور دونوں امیوں کے بغیر اتنا بڑا قدم۔۔ نہیں نہیں۔
”ہاں جی! ناظم بھائی نے آپ کو بتا یا ہو گا کہ ہماری شادی کے لیے کیا شرائط ہیں۔” خاتون کے لہجے نے صاف بتا دیا کہ ان کے پاس نیا نیا پیسہ آیا ہے جو اب دنیا کو دکھانا ضروری ہے۔حلیہ تو پہلے ہی چیخ چیخ کر یہ اعلان کر چکا تھا۔
”جی ہاں۔۔” مراد چودھری کی بات ابھی منہ میں تھی کہ کھانا آگیا اور وہ سب کھانے پر یوں ٹوٹ پڑے جیسے چار روز کے فاقے کے بعد کھانا نصیب ہوا ہو۔مقدم چودھری مراد چودھری کو اور مراد چودھری مقدم چودھری کو دیکھتے رہے۔آدھے گھنٹے تک وہ لوگ بغیر کسی کا لحاظ کیے اورکسی کی طرف دیکھے بغیر کھا کھا کر بے حال ہوتے رہے۔
” دیکھو جی سیدھی سی بات ہے ، ہماری بچی علیحدہ گھر میں رہے گی ۔آج کل تو ایک ساس کو برداشت کرنے کا زمانہ نہیں ہے تو میری بچّی دو دو ساسوں کا مقابلہ کیسے کرے گی۔ اس لیے بس رخصت ہو کر وہ اس گھر میں جائے گی جو ہم جہیز میں دیں گے۔” لڑکی کی ماں انگلیوں کی مدد سے دانتوں سے گوشت نکالتے ہوئے گویا ہوئی۔ اس کے باپ نے زور و شور سے سر ہلا کر اس کی تاکید کی کہ منہ میں نان کباب کا بڑا سا نوالہ تھا۔مقدم چودھری نے پہلو بدلا ، رنگ تو مراد چودھری کا بھی اُڑا تھا وہ تو بیٹے کا گھر بسانے چلے تھے اور یہاں ان کا بیٹا ہی چھینا جا رہا تھا۔اُن لوگوں کی باتیں سن کر اور حرکتیں دیکھ کرمارے غم و غصّے کے مقدم چودھری کی گندی رنگت کالی سیاہ ہو گئی ۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ خود کشی کر لے اور اس سے پہلے کہ وہ اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کا کوئی حیلہ کرتا، مراد چودھری انتہائی طیش کے عالم میں یکدم اُٹھ کھڑے ہوئے ۔





”آپ سے مل کر ذرا بھی اچھا نہیں لگا ، بل میں پے کر جائوں گا ۔ آٹھ بجے تک کھانے کا ٹائم ہے آپ لوگ جتنا کھا سکتے ہیں کھالیں اور پھر اپنی بیٹی کا رشتہ کسی اور جگہ دیکھ لیں۔ ہمیں تو معاف ہی کریں۔” مراد چودھری نے مقدم چودھری کا ہاتھ پکڑ ااور وہاں سے نکلتے چلے گئے۔ پہلے تو وہ لوگ ہکا بکا سے رہ گئے اور جب بات سمجھ آئی تو ہونہہ کہہ کر دوبارہ کھانے پر ٹوٹ پڑے۔
”ابّو جی ! یہ سب کیا تھا؟”مقدم چودھری رو دینے کو تھا۔
” پتر میں نے سوچا کہ تیری مائیں تو پاگل ہو گئی ہیں تو میں ہی کہیں تیرا رشتہ طے کر دوں ۔ناظم نے بتایا تھا ان لوگوں کے بارے میں ، مجھے کیا پتا تھا ایسے لوگ ہوں گے۔” مراد چودھری نے غصّے کا اظہارکیا۔
”ابّو جی ! یہ مسلے کا حل نہیں، ایسا کرنا ہوتا تو میں اپنی پسند نا بیاہ لاتا ۔۔” مقدم چودھری جوش میں اپنا راز فاش کر گیا اور جب اُسے خبر ہوئی کہ کمان سے نکلا تیر اور زبان سے نکلی بات واپس نہیں ہو سکتی تو وہ اپنے گھنے بالوں پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔
”کیا؟؟؟ کون؟؟ کون ہے وہ؟؟؟” مراد چودھری نے اس کو بازئووں سے پکڑ کر سامنے کیا۔
”وہ ۔۔۔ ابھی میں نام نہیں بتائوں گا۔پہلے امیوں کو تو راضی کر لیں۔” مقدم چودھری نے مسکرا کر کہا۔
” واہ بھئی بڑا میسنا ہے تو ۔۔۔”
” پورے کا پورا آپ پر گیا ہوں ابّو جی” وہ زور سے ہنس پڑا۔
” ہاں یہ تو ہے۔” مراد چودھری بھی خوش دلی سے مسکرا دیا۔
” ابو جی! بس یہ سوچیں امیوں کو پھر سے ایک کیسے کرنا ہے۔” مقدم چودھری نے پریشانی سے کہا تو مراد چودھری کے اندر گویا گھنٹی سی بجی ۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے بیٹے کو کھونے کا جو احساس ان کے اندر جاگا تھا وہی احساس نگو اور ثمین کے اندر جگا کر انہیں پھر سے کیسے اکٹھا کرنا تھا یہ مراد چودھری کو سمجھ آگیا تھا۔
”تو فکر نہ کر پُتر! اب سب مجھ پر چھوڑ دے اور گھر چل۔بعض اوقات ہمیں حالات کو سیدھے راستے پر لانے کے لیے تھوڑا سا ٹیڑھا ہونا پڑتا ہے۔” مراد چودھری نے مسکرا کر کہا مگر مقدم چودھری کو ذرا جو یقین آیا ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭




Loading

Read Previous

اُلو — محسن عتیق

Read Next

آدھا سورج —- امایہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!