آدھا آدھا ملے تو ہوئے پوری دنیا —- نظیر فاطمہ

مقدم چودھری اور مراد چودھری آگے پیچھے گھر پہنچے تھے۔
”نگو ، ثمین” چودھری مراد نے رعب دار سی اُونچی آواز میں بیویوں کو پکارا۔دونوں نے شوہر کا ایسا لہجہ اور انداز پہلے کبھی نہیں سنا تھا سو ایک سر پر تولیہ لپیٹے اور دوسری آدھے سر میں تیل لگائے ،بھاگی آئی۔
” مبارک ہو تم دونوں کو آج میں نے اپنے پتر مقدم چودھری کا رشتہ پکا کر دیا ہے۔” وہ اور بھی رعب سے بولے اور دل ہی دل میں دعا کر رہے تھے کہ ان کا یہ رعب مزید چند منٹ تک برقرار رہے۔
” کیا؟” دونوں امیوں کی آواز ایک ساتھ اُبھری۔
” ہماری مرضی کے خلاف؟”
”ہاں ، اس لیے کہ تم دونوں کی مرضی کبھی ایک نہیں ہونی تھی تو میں نے سوچا میں ہی کچھ کر لوں۔”ثمین اور نگو دونوں نے مقدم چودھری کی طرف شکایتی نظروں سے دیکھا جو خود یک ٹک مراد چودھری کی ایکٹنگ ملاحظہ کر رہا تھا۔
”مقدم نے میری طرف دیکھا تک نہیں۔” دونوں کے دل سے بہ یک وقت آواز آئی اور چہرے پر مُردنی سی چھا گئی ۔ عام حالات ہوتے تو مقدم چودھری ان کے چہرے دیکھ کر فٹ ان کی دل جوئی کو پہنچ جاتا مگر اس وقت وہ ان دونوں کی طرف متوجہ ہی نہیں تھا۔ متوجہ ہوتا بھی تو فی الحال اُسے خود کو کنٹرول رکھنا تھا تاکہ دونوں امیوں کے دل میں احساس جگایا جا سکتا۔
” اُسے کیا دیکھ رہی ہو ، میری طرف دیکھو ۔۔۔مقدم بھی میرے فیصلے پر سر جھکا چکا ہے۔آج سے ایک ماہ بعد مقدم کی شادی ہو گی اور شادی کے بعد مقدم اس گھر میں نہیں بلکہ اپنی سسرال میں رہے گا۔ یہاں رہے گا تو تم دونوں اس کا اور اس کی بیوی کا جینا حرام کرد و گی ۔ اس لیے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے اور اگر کسی نے میرے فیصلے کے آڑے آنے کی کوشش کی تو میں اُسے گائوں بھجوا دوں گا ۔” مراد چودھری اپنا فیصلہ سنا کر اُٹھ گئے اور ثمین اور نگو دونوںکو چکر آنے لگے اور پھر دونوں بے ہوش ہو کر دھڑام سے نیچے گر گئیں۔ البتہ بے ہوش ہونے سے پہلے اُن کے ذہنوں میں جو آخری بات تھی وہ یہ تھی کہ مقدم چودھری ان کو چھوڑ کر چلا جائے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭





” ہائے میرا مقدم ! میں کیسے جیوں گی اس کے بغیر ۔ میں نے بھی تو حد ہی کر دی نا ۔ اگر ثمین اس کے لیے شہری لڑکی لانا چاہ رہی تھی تو لانے دیتی ، اس طرح میرا پتر میری آنکھوں کے سامنے تو رہتا۔” نگو سوچ سوچ کر ہلکان ہورہی تھی اور ہل ہل کر اپنی ناک دوپٹے سے رگڑے جاتی۔مسلسل رگڑنے کی وجہ سے ان کی ناک سرخ ہو کر عجیب سی دکھنے لگی تھی۔
” ہائے میرا بیٹا میری آنکھوں سے دور ہو جائے گا تو میں کیا کروں گی۔ مجھے نگو کی بات مان لینی چاہیے تھی۔ کیا تھا اگر اس کی شادی گائوں کی لڑکی سے ہوجاتی ۔ میری آنکھوں کے سامنے تو رہتا۔” ثمین بھی روئے جاتی اور خود کو کوسے جاتی۔ رورو کر ان کی آنکھیں سوج گئی تھیں ۔ مگر رونے سے مسائل حل ہوتے تو دنیا میں کوئی بھی کسی مسئلے کا شکار نہ ہوتا ۔ مسئلوں کو حل کرنے کے لیے آنکھوں سے پانی بہانے کے بجائے اگر دماغ استعمال کیا جائے تو مسئلہ جلدی حل ہو جاتا ہے ۔ نگو اور ثمین دونوں کو اس مسئلے کا ایک ہی حل نظر آیا ۔ثمین اپنے کمرے سے نکلی اور نگو اپنے کمرے سے تاکہ اپنی اپنی ضد سے دست بردار ہو نے کا اعلان کر سکیں۔ دونوں لائونج میں ایک دوسرے سے ٹکرا گئیں ، چند لمحے ایک دوسرے کو دیکھتی رہیں اور پھر ایک دوسرے کے گلے لگ کر بھا ں بھاں کر کے رو دیں۔ جو بھی تھا مگر دونوں مقدم چودھری کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا چاہتی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلی صبح ناشتے کی ٹیبل پر سب موجود تھے۔ آج آٹھ ماہ بعد سب یوں مل کر بیٹھے تھے۔ مقدس حیران، مقدم ہونٹوں میں مسکراہٹ دبائے بہ ظاہر سنجیدہ اور مراد چودھری کن انکھیوں سے اپنی روئی روئی آنکھوں والی بیویوں کو دیکھ رہے تھے۔
” آپ مقدم کی شادی جہاں مرضی کر دیں مگر وہ رہے گا اسی گھر میں۔ ہم اُسے اپنی نظروں سے دور نہیں کر سکتیں۔” دونوں نے انہیں اپنے مشترکہ فیصلے سے آگاہ کیا۔مراد چودھری کا دل چاہا یاہو کا نعرہ لگائے مگر ایسا کر کے وہ اپنا نقصان نہیں کرنا چاہتے تھے سو اپنے جوش کو بڑی مشکل سے اندر ہی اندر دبا کر سنجیدہ ہی رہے ۔
” سوچ لو ۔۔۔ وہ شہرن اوردیہاتن کا جھگڑا کیا ہوا؟تم دونوں نے جو کچھ کیا ہے نا اس کے بعد مجھے تم دونوں کا اعتبار کرنے میں خاصی مشکل پیش آرہی ہے۔کل کو تم دونوں نے دوبارہ اس طرح کی حرکت کر کے سب کا سکون اور اطمینان تباہ کیا تو؟؟؟” مراد چودھری نے بے اعتبار سی نظر سے دونوں کو دیکھا اور نگو اور ثمین نے ایک دوسرے کو پچھتاتی نظروں سے۔
” سوچ لیا ۔۔۔۔ ہم دونوں زیادتی کر رہی تھیں ۔آپ جہاں چاہیں اس کی شادی کر دیں بس مقدم گھر چھوڑ کر نہیں جائے گا۔”آنسو ان کی آنکھوں کے کناروں سے ٹکرا کر واپس پلٹ رہے تھے۔
” میں اتنی جلدی اپنا فیصلہ نہیں بد لوں گا۔ تم دونوں کے پاس آج شام تک کا وقت ہے اچھی طرح سوچ سمجھ کر مجھے اپنا فیصلہ بتائو۔” مراد چودھری نے ذرا نرمی نہ دکھائی۔مقدس حیرت سے منہ کھولے سب سن رہی تھی اورسمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ یہ کایا پلٹ کیسے ہو گئی اور اس کے ابو جی کو کیا ہوا۔ نگو اور ثمین بغیر ناشتہ کیے اُٹھ گئیں تو مقدس اُٹھ کر مراد چودھری کے پاس آئی۔
”ابو جی ! یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ اور آپ اتنے بارعب کب سے ہو گئے؟” مقدس کی حیرت ختم ہونے میں نہیں آرہی تھی۔ جواب میں مراد چودھری نے اُسے پورا واقعہ کہہ سنایا تو اس کے چہرے پر مطمئن سی مسکراہٹ آگئی۔
” واہ بھئی ابو جی ، میں تو سمجھی تھی آپ بھی ہماری طرح بے بس رعایا ہیں مگر آپ نے ثابت کر دیا کہ چودھری”چودھری” ہی ہوتا ہے اور جب اپنی کرنے پر آتا ہے تو پھر بڑے بڑے اُن کے آگے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔” مقدس نے سچ میں باپ کی پیٹھ ٹھونکی۔مقدم چودھری بھی اب قدرے مطمئن ہو کر مسکرا رہا تھا۔مقدس ناشتہ کر کے کالج کے لیے نکل گئی ۔ مراد چودھری نے اُٹھ کر اگلی کے اشارے سے مقدم کو اپنی طرف بلا یا جو بڑے سکون سے ناشتہ کرنے میں مصروف تھا۔
”ہاں بھئی برخوردار، اب بتائو تم اپنی پسند کے بارے میں، مجھے پورا یقین ہے شام تک فیصلہ ہمارے حق میں ہو جائے گا۔”مقدم چودھری قریب آیا تو مراد چودھری نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔مقدم نے اُن کے کان میں دھیرے سے صوفیہ کا نام لے دیا اوریہ بھی بتا دیا کہ وہ اس کی کلاس فیلو ہے جو اس کی اس پسندیدگی سے ناواقف ہے۔ مراد چودھری نے اس کا کندھا تھپک کر سر ہلا دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭





آٹھ ماہ سے ایک دوسرے کو دیکھ کر منہ پھیر لینے والی نگو اور ثمین ، نگو کے کمرے میں ایک ہی بیڈ پر بیٹھی غم کی تصویر بنی ہوئی تھیں۔ ثمین نے کل جو بال دھوئے تھے ، وہ بغیر کنگھی کے یونہی اُلجھے بکھرے آدھے پونی میں اور آدھے پونی سے باہر تھے۔ نگو کا آدھا سر ابھی بھی تیل سے محروم تھا۔ اس نے بالوں کو چڑ مڑ کر کے بھدّا سا جوڑا بنا رکھا تھا۔ مقدم کو کھو دینے کے خوف نے دونوں کا خون نچوڑ لیا تھا۔ اس طرح تو اُنہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ان کی ضد کا انجام یہ ہو گا۔
مقدم کے آفس جانے کے بعد مراد چودھری نے ثمین کے کمرے میں جھانکا جو خالی تھا۔ اس کے بعد اُنہوںنے نگو کے کمرے کا رُخ کیا۔ ادھ کُھلے دروازے سے تھوڑا اندر جھانکا اور دونوں کو اس طرح بیٹھے دیکھ کر مسکرائے اور واپس پلٹ گئے۔
شام کو جب دونوں نے مراد چودھری کو اپنے ارادے سے آگاہ کیا تو چودھری صاحب نے فاتحانہ انداز میں گردن اُٹھا کر دونوں کو دیکھا جن کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔
” چلو ٹھیک ہے ، تم سب تیار رہنا اتوار کے روز ہم سب لڑکی والوں کے گھر ملنے جائیں گے۔” دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر اثبات میں گردن ہلائی ۔مراد چودھری اُٹھ کر کمرے میں چلے گئے۔
مراد چودھری نے مقدم کے دادا ، دادی کو فوراً شہر پہنچنے کا کہا۔وہ شہر آئے اور یہاںکے حالات دیکھ کر ایک دفعہ پھر حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر اُبھرے۔ ساری صورتِ حال معلوم ہوئی تو اُنہوںنے سکھ کا سانس لیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صوفیہ کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا۔بڑی بہن اور بھائی شادی شدہ تھے۔ بھائی آرمی میں تھے جن کی پوسٹنگ آج کل راولپنڈی میں تھی ۔ صوفیہ سب سے چھوٹی تھی ۔ اپنے امّی ابّو کے ساتھ رہتی تھی۔اتوار کومقدم کے دادا ، دادی، مراد چودھری ،نگو، ثمین ، مقدس اور مقدم چودھری مٹھائیوں اور پھلوں سے لدے پھندے ایک قافلے کی صورت میں صوفیہ کے گھر پہنچے ۔صوفیہ کلاس فیلو کی حد تک مقدم چودھری سے واقف تھی، بات چیت بھی کرلیتی تھی مگر اتنی دوستی نہیں تھی کہ یوں وہ سارا خاندان لے کر اس کے گھر آجاتا ۔ گیٹ کھول کر صوفیہ چند لمحے تو ناسمجھی کے عالم میں سب کو دیکھتی رہی ۔ پھر خیال آیا تو ان کو اندر آنے کا راستہ دیا۔
”یہ صوفیہ ہے۔” مقدم کا اتنا کہنا تھا کہ نگو اور ثمین نے یکے بعد دیگرے ، اُسے گلے سے لگایا اور چٹ پٹ اس کے گالوں پر پیار کیا ۔صوفیہ ان کے اس انداز پر وہیں کھڑی ہلتی رہ گئی۔
”چلو جی اندر چلتے ہیں نہ کہ اب یہیں پر کھڑے رہنا ہے۔” مراد چودھری نے اندر کی طرف قدم بنائے۔صوفیہ بھی جیسے ہوش میں آئی اور ان سب کو لے کر آگے بڑھی ۔
صوفیہ کے امّی ابّو ان لوگوں سے بڑے سبھائو سے ملے۔ چائے وغیرہ کا انتظام کیا۔ وہ لوگ کون سا اطلاع دے کر آئے تھے کہ وہ کس مقصد کے لیے آرہے ہیں سو صوفیہ بھی ان کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی۔
”او پتر جی ! یہ میرا پوتا ہے مقدم چودھری، ہم اس کے لیے آپ کی دھی صوفیہ کا رشتہ لینے آئے ہیں۔” مقدم کے دادا نے صوفیہ کے ابّو کو مخاطب کیا۔ صوفیہ کے ابّواور امّی کو یہ سادہ سے بے ریا لوگ کافی اچھے لگے تھے سو دونوں مُسکرا دیے اور صوفیہ سٹپٹا سی گئی اور اُٹھ کر باہر نکل گئی۔نگو اور ثمین اباّجی کے الفاظ” رشتہ مانگنے آئے ہیں” میں اُلجھ گئیں کہ اگر رشتہ اب مانگا جارہا ہے تو مراد چودھری نے مقدم کا رشتہ کہاں طے کیا تھا اور وہ کون لوگ تھے جو مقدم کو اپنے پاس رکھنے کی شرط رکھ رہے تھے۔ ثمین کے دماغ میں کلک ہوا اور جیسے اُسے ساری بات سمجھ آگئی ۔نگو کے دماغ کی بتی بھی پورے دو سو واٹ والے بلب کی طرح جل اُٹھی۔ دونوں نے بہ یک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر بے وقوف بننے پر مسکرا دیں۔
”واقعی اگر مراد چودھری ایسا نہ کرتے تو وہ دونوں مقدم کے ساتھ زیادتی کر جاتیں۔ اب اگر وہ مقدم کی کلاس فیلو کے گھر آئے تھے تو یقینا کوئی بات ہی تھی نا۔” نگو اور ثمین یہی سوچ رہی تھیں۔





” چا چا جی، صوفیہ آپ کی ہی بیٹی ہے۔ مگر ہمیں آپس میں مشورے کے لیے کچھ وقت دیجیے۔”صوفیہ کے ابّو نے بڑے طریقے سے بات کی۔
”آئیں ماں جی ، ہم لوگ اندر لائونج میں چل کر بیٹھتے ہیں۔” ڈرائنگ روم میں اتنے لوگوں کی وجہ سے جگہ تنگ ہو رہی تھی سو صوفیہ کی امّی نے مقدم کی دادی کو مخاطب کیا ۔ سب خواتین اُٹھ کر ڈرائنگ روم سے باہر نکل آئیں۔ ڈرائنگ روم سے ایک لمبا اور قدرے کھلا ساراستہ ڈائننگ روم تک جاتا تھا۔ اس راستے کی دونوں دیواروں پر صوفیہ اور اس کے خاندان کی کئی تصاویر لگی ہوئی تھیں۔نگو دائیں طرف والی دیوار پر لگی صوفیہ کی تصویریں دیکھ کر رُک گئی اور ثمین بائیں دیوار پر لگی صوفیہ کی تصویریں دیکھ کر رُک گئی۔دونوں نے مڑکر ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر کھلکھلا کر ہنس دیں۔ وجہ یہ تھی کہ صوفیہ کی جو تصویریں نگو نے دیکھی تھیں وہ خاصے دیہاتی اسٹائل کی تھیں اور جو ثمین نے دیکھیں وہ بالکل شہری انداز کی تھیں۔
” چلو یہ مسئلہ بھی حل ہوا ۔ جب میرا دل چاہے گا میں اسے دیہاتی انداز میں دیکھ لیا کروں گی۔” نگو کے تو دل کی کلی کھل گئی۔دونوں نے نیک نیتی سے مقدم چودھری کے لیے اپنی اپنی ضد چھوڑی تھی تو اللہ نے دونوں کی خواہش پوری کر دی تھی۔
” ارے آپ دونوں یہاں کیوں رُک گئیں؟” صوفیہ کی امّی ان کو دیکھنے واپس آئی تھیں۔
” اچھا آپ یہ تصویریں دیکھ رہی تھیں۔اصل میں صوفیہ کا مزاج بس ملا جلا سا ہے ۔ اس کے نانا نانی دیہات میں رہتے تھے تو جب یہ ان سے ملنے جاتی تو خالص دیہاتی انداز اپنا لیتی تھی ۔اب بھی جب ان سے ملنے جاتی ہے تو ایسے ہی کرتی ہے۔” وہ وضاحت دینے لگی۔
” کوئی بات نہیں بہن جی، ہمیں بھی ایسی ہی لڑکی چاہیے تھی۔” دونوں پھر ہنس پڑیں تو صوفیہ کی امّی بھی ناسمجھی کے انداز میں مُسکرا دیں۔
مقدم چودھری کی شادی کی تیاریاں شروع ہوئی تو ثمین اور نگو ایک ہو کر تیاریوں میں مگن ہوگئیں۔ دونوںنے اپنے بیٹے کی شادی کے خوب خوب ارمان نکالے۔وہ اس بات کو سمجھ گئی تھیں کہ بے جا ضد اور انا پروری سے بعض اوقات ہم اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی خوشیوں کا خاتمہ بھی کر دیتے ہیں اپنی انا اور ضد قربان کر کے اگر اپنے پیاروں اور اپنی اولاد کی خوشیاںحاصل ہو رہی ہوں تو بالکل دیر نہیں کرنی چاہیے اور اُنہوں نے بھی اپنے بیٹے کی خوشیوں کے لیے اپنی اپنی ضد چھوڑنے میں ایک لمحہ نہیں لگایا تھا۔
مراد چودھری کے آنگن میں خوشیوں کی بارات اُتری تھی کہ مقدم چودھری ، ان کا اکلوتا بیٹا اپنی دل پسند دلُہن بیاہ کر لے آیا تھا ۔ دادا، دادی، باپ، دونوں مائیں اور بہن مقدم چودھری سے واری صدقے جارہی تھیں اور مقدم چودھری کو آج صوفیہ کے علاوہ اور کچھ نظر ہی نہیں آرہا تھا۔ اس کا دل صوفیہ کو دیکھ دیکھ کرخوش ہو رہا تھا اور گنگنا رہا تھا: ”تیرے قربان میری جان۔۔۔۔” نگو اور ثمین نے بیٹے کے روشن چہرے کو نثار ہو جانے والی نظروں سے دیکھا اور نظروں ہی نظروں میں اس کی بلائیں لے ڈالیں۔اُن دونوں کے چمکتے چہرے اس بات کے گواہ تھے کہ جو آدھا آدھا بانٹ لیتے ہیں ، پوری خوشیاں اُن کا مقدر بن جاتی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭ختم شد٭٭٭٭٭٭٭




Loading

Read Previous

اُلو — محسن عتیق

Read Next

آدھا سورج —- امایہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!