آدھا آدھا ملے تو ہوئے پوری دنیا —- نظیر فاطمہ
اس بڑے سے شہری اور دیہاتی امتزاج سے بنے گھر کی بیرونی دیوار کے ساتھ سفیدے کے لمبے لمبے درخت ایک قطار سے کھڑے تھے۔ایک
اس بڑے سے شہری اور دیہاتی امتزاج سے بنے گھر کی بیرونی دیوار کے ساتھ سفیدے کے لمبے لمبے درخت ایک قطار سے کھڑے تھے۔ایک
صبح کے لگ بھگ سات بج رہے تھے جب وہ جھولا جسے میں بڑے مزے سے جھول رہا تھا، اچانک سے آنے والے زلزلے سے
ربیع الاول کا مہینہ چل رہا تھا اور روز کہیں نہ کہیں محفلِ میلاد منعقد ہورہی تھی۔ کہیں صرف مرد حضرات کی محفل تو کہیں
”کاش میں انسان ہوتا۔۔۔ کاش۔۔۔ اگر میں انسان ہوتا تو آج اپنے بیٹے کے آگے یوں ہاتھ نہ پھیلانے پڑتے۔ اُس کے آگے رحم کی
کہتے ہیں دیوار اور دروازے کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ دیوار نہ ہو تو پھر دروازہ بھلا کس کام کا؟ جس طرح دیوار
”موٹا آلو گول گول ۔۔۔۔ کر کے کھا رول رول۔۔۔” اعتزاز جیسے ہی ناشتے کی میز پر آیاربیعہ اور فیض نے لہک لہک کر گنگنانا
شاہین – ”برگد کی چڑیلیں” – عمیرہ احمد ”میرے گھر میں ایک پرانا برگد ہے جس پر چڑیلیں رہتی ہیں جو ہمیں بہت تنگ کرتی