باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۹ (آخری قسط) ۔۔۔۔ شاذیہ خان
رات کو کنول اپنے کمرے میں بیٹھی ایک چینل پر اپنے سابقہ شوہر کا انٹرویو دیکھ رہی تھی۔۔عابد منہ بناتے ہوئے رپورٹر کو انٹرویو دے
رات کو کنول اپنے کمرے میں بیٹھی ایک چینل پر اپنے سابقہ شوہر کا انٹرویو دیکھ رہی تھی۔۔عابد منہ بناتے ہوئے رپورٹر کو انٹرویو دے
پانچ سال بعد ٭…٭…٭ آج شہر کی ایک بڑی پارٹی میں جانا تھا اس لیے کنول دل لگا کر تیار ہوئی۔لپ اسٹک کے آخری ٹچ
کنول کوریڈور میں کھڑی ڈاکٹر سے بات کررہی تھی۔اس کے باپ کا آپریشن ہوچکا تھا۔ ڈاکٹرز اس کے ہاتھ میں آپریشن کابل تھماتے ہوئے بہت
’’سیدھی مانگ نکالو ، سیدھا میاں ملے گا۔‘‘ میرے گھنگھریالے بالوں میں چنبیلی کے تیل کی چمپی کرتے ہوئے میری معصوم سی ماں کی معصومانہ
بوڑھے صادق حسین کی زندگی میں خوش گوار تبدیلی آئی تھی۔ اِس سے پہلے کہ میں آپ کو اِس تبدیلی کے بارے میں کچھ بتائوں،
رات کے دو بج رہے تھے۔ ہر طرف سناٹا چھایاہوا تھا۔ عارف سڑک کے کنارے پیدل چل رہا تھا، پوری دنیا سے بے خبر اور
بیگم مہرین اپنے سٹنگ روم کے قالین پر بیٹھی ہوئی تھیں ۔ ان کے سامنے مختلف ڈیزائنرز کی exclusive rangeکے دس سوٹ رکھے ہوئے تھے۔
وہ کوئی عام ایجاد نہیں تھی۔ منٹوں میں جہنم کو جنت میں تبدیل کرنے والا ایک جادوئی آلہ تھا۔ ایک ہی بٹن دبانے سے انسان
گرمی کی دوپہر ڈھلنے لگی تھی اور ارہر کے کھیت میں پڑتے ہوئے سائے آہستہ آہستہ لمبے ہوتے جا رہے تھے۔ اسی ڈھلتی دوپہر میں
ثنا بڑی بے چینی سے اپنے شوہر واصف کا انتظار کرتے ہوئے کمرے میں چکر لگا رہی تھی۔ بالآخر اُس نے گاڑی کے ہارن کی