ارمان رہ گئے — حمیرا نوشین
”لِکھ خالہ حبیبن مع اہل و عیال” اماں نے عینک درست کرتے ہوئے معمر کو کارڈز لکھوانے شروع کئے ”لکھ دیا اماں” اُس نے لکھا
”لِکھ خالہ حبیبن مع اہل و عیال” اماں نے عینک درست کرتے ہوئے معمر کو کارڈز لکھوانے شروع کئے ”لکھ دیا اماں” اُس نے لکھا
اس کچے سے صحن میں شام اُتر رہی تھی۔ ہوا نے چلنے سے انکار کر دیا اور بڑھتی حبس نے سینوں کے اندر دھڑکتے دل
زندگی اگر بے کیف ہو تو اس میں آنے والا بدلاؤ، بھی کوئی معنی نہیں رکھتا ہے اور نہ ہی مزاج میں ارتعاش پیدا کرتا
اشتیاق احمد کا نام آتے ہی ذہن میں انسپکٹر جمشید،ایک مستعد ،ایمان دار اور محب وطن پولیس آفیسر کا خاکہ بننے لگتا…محمود، فاروق اور فرزانہ
داستان محبت مقابلے میں شامل ”سوزِ دروں” ایک ایسی کہانی ہے جس کو لکھنے سے پہلے کئی بار میرا قلم دماغی اور ارادی طور پر
پاکستان میں موجود نوّے فیصد لڑکیوں کی طرح ہم بھی یہ مانتے ہیں کہ عورت اور باورچی خانے کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کافی
”مجھ سے تو نہیں بولی جاتی اتنی اُردو۔ اُف! عجیب سی ہے یہ زبان۔ اردو لکھنا اور پڑھنا تو عذاب ہے۔” وہ روانی سے انگریزی
میں نے جیب سے اپنا نیا آئی فون نکالا، ملیحہ کا میسج تھا “Very cute look… Jan!!!” اوپر دیکھا تو دوسری منزل پر کھڑی وہ
”اماں! کدھر ہو؟” ”اماں جلدی آئو”۔ شبانہ بلند آواز میں پکار رہی تھی۔ ایک تو صبح سویرے خالہ شیداں کا فون اس کی سپنوں بھری
وہ ایک ایسا ٹی وی شو دیکھ رہا تھا جس میں ایک غریب آدمی کی گاڑی نکل آئی۔ وہ آدمی خوشی سے رونے لگا… اینکر