دربارِدل — قسط نمبر ۱
میرے سامنے ڈائننگ ٹیبل پر رکھے ہوئے گلاس میں موجود مشروب یک دم اور سیاہ ہو گیا تھا۔ گلاس کے کناروں پر میری لپ اسٹک
میرے سامنے ڈائننگ ٹیبل پر رکھے ہوئے گلاس میں موجود مشروب یک دم اور سیاہ ہو گیا تھا۔ گلاس کے کناروں پر میری لپ اسٹک
آسماں کو چھوتے برف پوش پہاڑی سلسلے کے بیچ زندگی مصلو ب تھی، کچھ ایسے کہ سانس تک گروی معلوم ہوتی تھی ۔صدیوں سے کھڑے
”اری او بے شرم، بے حیا، بدلحاظ اپنے بہنوئی پر ایسا گھٹیا الزام لگاتے ہوئے تجھے شرم نہ آئی، تجھے اپنی بہن سمجھتا ہے کلموہی
”خدا کا خوف کرو فلک! اتنی دیر میں لوگ چاند پر جا کر واپس آجاتے ہیں جتنی دیر میں تم صرف اپنی آنکھوں کا میک
آج کل گھر میں ایک ہی”ہاٹ ٹاپک” تھا اور وہ تھا ارسل بھائی کی شادی، بھاوج ہونے کے ناطے مجھ پر جیٹھانی ڈھونڈنے کا دباؤ
وہ اس بوڑھے بھکاری کے پاس فٹ پاتھ پر بیٹھ گئی۔ ہاتھ میں پکڑا آدھا برگر اس نے اس کے سامنے رکھ دیا۔ بوڑھا اس
سعید نواز نے زینی اور شیرازکے تعلق کے بارے میں پتا کروایا یا نہیں لیکن بہر حال انہوں نے دوبارہ شیراز سے اس سلسلے میں
سلائی اسکول سے باہر قدم رکھتے ہی زری نے چاروں طرف دیکھا پھر اسے جیسے مایوسی ہوئی۔ ”ذلیل، کہہ رہا تھا ،کل پیسے لے کر
”یہ کس نے بھیجے ہیں؟” زینی نے اس بے نام پیلے گلابوں کے گلدستے پر نظر ڈالتے ہوئے مڑکر سلطان سے پوچھا۔ آج تک اسے
کرم علی کو شیخ سعد بن جابر کے اصطبل میں کام کیسے ملا اور کیوں ملا یہ شیخ جابر کا ملازم بننے کے تین دن