لاحاصل — قسط نمبر ۳ (آخری قسط)
سیڑھیاں غائب ہو چکی تھیں اور وہ جسے گھر کی چھت سمجھ رہی تھی وہ ایک پہاڑ کی چوٹی تھی جس سے نیچے اترنے کا
سیڑھیاں غائب ہو چکی تھیں اور وہ جسے گھر کی چھت سمجھ رہی تھی وہ ایک پہاڑ کی چوٹی تھی جس سے نیچے اترنے کا
اس نے سانس لیتے ہوئے فضا میں کسی خوشبو کو محسوس کیا۔ آنکھیں بند کر کے گہرے سانس لیتے ہوئے اس نے اس خوشبو کو
انتساب! نجمہ سلطان محمود کے نام جنہوں نے 30 سال پہلے اسلام قبول کرنے کے بعد انگلینڈ چھوڑ کر پاکستان میں سکونت اختیار کرلی۔ پیش
”آپ اسے کسی عامل کے پاس لے کر کیوں نہیں جاتیں؟ضرور کوئی آسیب ہے اس پر ورنہ کوئی نارمل انسان بھی ایسا رویہ اختیار کرتا
”سسٹر! مجھے آپ سے ایک درخواست کرنی ہے۔” وہ اس دن چرچ سے واپس آکر سیدھی سسٹر پیٹریشیا کے پاس گئی تھی۔ سسٹر الزبتھ بھی
پیش لفظ…! ”حاصِل” میری زندگی کی چند اہم تحریروں میں سے ایک ہے… میرے خیال میں میری ابتدائی تحریروں میں سے سب سے میچور اور
حُسنہ اور حُسن آراء میری دوسری ایسی تحریر ہے جو کسی ڈائجسٹ میں شائع ہونے کی بجائے سیدھا ایک کتاب کا حصہ بن رہی ہے۔
”پھر تم نے کیا طے کیا ہے؟” اس رات ڈنر پر سبل نے پیٹرک سے پوچھا۔ ”کیا طے کرنا ہے… میرا خیال ہے، جو تم
”اِیمان، اُمید اور محبت” ذاتی طور پر میری اپنی پسندیدہ تحریروں میں سے ایک ہے… اسے ملنے والے فیڈ بیک سے آپ لوگ مجھ سے
میں نے اسے پہلی بار لبرٹی بکس پر دیکھا تھا۔ باربی کیو ٹونائٹ پر کھانا کھانے کے لیے بیٹھے بیٹھے بیٹھے مجھے اچانک کسی کتاب