شاہین قسط ۲ ”سانپ اور سپیرے” – عمیرہ احمد
شاہین قسط ۲ ”بسانپ اور سپیرے” – عمیرہ احمد وہ تینوں بیک وقت فریز ہوگئے تھے۔ یوحنّا نے آئس کریم کھاتے ہوئے رُک کر جیسے
شاہین قسط ۲ ”بسانپ اور سپیرے” – عمیرہ احمد وہ تینوں بیک وقت فریز ہوگئے تھے۔ یوحنّا نے آئس کریم کھاتے ہوئے رُک کر جیسے
اسلام آبادکے خوب صورت ائیر پورٹ پر ایک سال بعد بھی ویسی ہی رونق تھی۔ کچھ بھی تو نہ بدلا تھا، ہاں البتہ فریال اب
آئیں مل کر سارے بچے کام کریں اب اچھے اچھے مل جل کر تم رہنا سیکھو بن جاؤ تم سچے بچے لڑنا اچھی بات نہیں
آؤ کتابیں کھولیں آؤ کتابیں کھولیں ہم اسکول سے ہولیں بات ادب کی بولیں کرلی ہم نے بہت ہے مستی ملے گی اس سے شہرت
”دل دار صدقے، لکھ وار صدقے دل دار صدقے، لکھ وار صدقے دل دار صدقے، لکھ وار صدقے تیرا کرم ہویا، ہویا پیارے صدقے…” چھوٹے
انسان کتنا نادان ہے….کیسے کیسے رواج ،ظالم سماج، بصیرت سے محروم، حقیقت سے انجان حقیقت، جو نہیں ہے سے ہونے تک کی گواہ ہے، جس
صدیاں بیتی تھیں یا لمحے کیا معلوم ؟ لمحوں کی خبر تو وہ رکھتے ہیں جن کے پاس کھونے کو بھی بہت ہو ، پانے
مجھے کبھی لگتا نہیں تھا کہ مجھے محبت ہو گی، وہ بھی کسی لڑکی سے۔ویسے تو مجھے بہت سے لوگوں سے محبت ہے۔اپنے والدین سے،اپنے
اس کے ہاتھ کی بورڈ پر تیزی سے چل رہے تھے، کی بورڈ کی keys کی ٹِک ٹِک اور صفحے پلٹنے کی آوازوں کے علاوہ