
میزانِ بریّہ — راؤ سمیرا ایاز
زمین کی کوکھ میں سب جب دکھ پنپ جائیں تو ہر فصل کے بیچ میں سیاہی مائل رنگوں کا بسیرا ہوتا ہے جو پھر نسل
![]()

زمین کی کوکھ میں سب جب دکھ پنپ جائیں تو ہر فصل کے بیچ میں سیاہی مائل رنگوں کا بسیرا ہوتا ہے جو پھر نسل
![]()

تپتی دھوپ میں شیخ حسام الدین گھر میں داخل ہوئے تو بُری طرح پسینے میں شرابور تھے ۔ ذرا دم لینے کے لیے پنکھے کے
![]()

میں اسے سمجھاتی تھی کہ ملازم کو اس کا حق دیا کرو۔ اسے بلا ضرورت مت جھڑکا کرو۔ آخر وہ بھی انسان ہے۔ اس کے
![]()

”آپ اسے کسی عامل کے پاس لے کر کیوں نہیں جاتیں؟ضرور کوئی آسیب ہے اس پر ورنہ کوئی نارمل انسان بھی ایسا رویہ اختیار کرتا
![]()

آسماں کو چھوتے برف پوش پہاڑی سلسلے کے بیچ زندگی مصلو ب تھی، کچھ ایسے کہ سانس تک گروی معلوم ہوتی تھی ۔صدیوں سے کھڑے
![]()

”اری او بے شرم، بے حیا، بدلحاظ اپنے بہنوئی پر ایسا گھٹیا الزام لگاتے ہوئے تجھے شرم نہ آئی، تجھے اپنی بہن سمجھتا ہے کلموہی
![]()

آج کل گھر میں ایک ہی”ہاٹ ٹاپک” تھا اور وہ تھا ارسل بھائی کی شادی، بھاوج ہونے کے ناطے مجھ پر جیٹھانی ڈھونڈنے کا دباؤ
![]()

سنا ہے پچھلے وقتوں میں بیٹی اک ندامت تھی زندہ دفنا دی جاتی تھی آنکھ کھلنے پر فضا میں بدبو کا اثر غالب تھا مگر
![]()

”بی بی جی مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے۔” ملازمہ نے اسٹول پر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ ”اری فضیلت! میں جو کھڑی ہوں ساتھ
![]()

”محبت کے دل میں اترنے کا کوئی خاص موسم نہیں ہوتا کہ وہ آئے اور اپنی روپہلی کرنوں سے کسی وجود کا احاطہ کر کے
![]()