سمے کا بندھن — ممتاز مفتی
آپی کہا کرتی تھی،” سنہرے سمے سمے کی بات ہوتی ہے۔ ہر سمے کا اپنا رنگ، اپنا اثر ہوتا ہے۔ اپنا سمے پہچان، سنہرے۔ اپنے
آپی کہا کرتی تھی،” سنہرے سمے سمے کی بات ہوتی ہے۔ ہر سمے کا اپنا رنگ، اپنا اثر ہوتا ہے۔ اپنا سمے پہچان، سنہرے۔ اپنے
وہ شہر کے صدر بازار میں لوہے کی منڈی تھی جو ہر وضع اور ہر قماش کے لوگوں سے بھری پڑی تھی۔ وہ صومعہ نشین
اس کے چاروں طرف خوبصورت سبزہ تھا۔ شیشم اور چیڑ کے درخت، نرم ملائم سر سبز گھاس…. اوپر آسمان پہ کالے بادل چھانے لگے تھے۔
وہ عجیب کیفیت میں تھی ….. ناک کے نتھنوں سے، سانس کے نام پر خارج ہونے والی ہوا تپش لیے ہوئے تھی۔ وہ کہاں تھی،
ساجد تھکا ہارا گھر لوٹا جمیلہ نے اسے دیکھتے ہی آڑے ہاتھوں لیا:”اتنی رات گئے تک باہر کیا جھک مارتے رہتے ہو ۔تنخواہ تو تم
وہ بہت دنوں سے باتیں سن رہا تھا ۔۔ بابا کی ۔۔ اماں کی ۔۔ بہن بھائیوں کی! اٹھتے بیٹھتے آتے جاتے سب کے پاس
وہ موسمِ زرد کی ایک شام تھی! اس دن بھی وہ ریسٹورنٹ کی اسی نشست پراُداس بیٹھا تھا، جہاں وہ اپنی مرحومہ بیوی روزینہ کے
بس نے مجھے گاؤں کے اسٹاپ پر اُتارا ۔میں نے اپنا سفری بیگ اُٹھایا اور اپنے گاؤں کی فضا کو محسوس کرتے ہوئے ایک لمبا
وہ ساگ کا تڑکا تیار کرتے ہوئے مسکرائی…. اور پھر منہ ہی منہ میں بڑبڑائی!!! ”ایمان آج میرا پکایا ہوا ساگ تمہارے چہرے سے شرافت
شام ڈھل چکی تھی۔ سرد موسم میںیہاں شام ڈھلتے ہی سناٹا چھا جاتا ۔ شہر سے کچھ دور یہ ایک چھوٹا سا پہاڑی گاؤں تھا