شب گزیدہ — زید عفّان
شام ڈھل چکی تھی۔ سرد موسم میںیہاں شام ڈھلتے ہی سناٹا چھا جاتا ۔ شہر سے کچھ دور یہ ایک چھوٹا سا پہاڑی گاؤں تھا
شام ڈھل چکی تھی۔ سرد موسم میںیہاں شام ڈھلتے ہی سناٹا چھا جاتا ۔ شہر سے کچھ دور یہ ایک چھوٹا سا پہاڑی گاؤں تھا
میری شخصیت بچپن سے ہی کمزور رہی ہے،اعتماد سے عاری فرد ہوں میں ۔جلدی گھبراجانا،لوگوں کا سامنا کرنے میں عجیب جھجک اور شور وغل سے
دروازہ بند ہونے کی آواز نے ماحول میں خلل پیدا کیا تھا تو قدموں کی چاپ نے باقی کسر بھی پوری کر دی تھی۔ محویت
کوئی سوال؟ ہمیشہ کی طرح لیکچر کے اختتام پر اُس نے مارکر کا کیپ بند کر کے ایک نظر کلاس میں بیٹھے ہوئے سٹوڈنٹس کی
”کاشی…او کاشی…!” ابھی اسے کھیلنے میں مزہ ہی آنے لگا تھا کہ کوثر کی آواز سنائی دی۔ ”کیا ہے امی؟” اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے
شام کا پرندہ روشنی کو قطرہ قطرہ اپنے اندر جذب کر کے دن بھر کی تھکن اتارنا چاہتاتھا۔ اُسے خوابوں کی سر زمین پہ قدم
بوڑھے صادق حسین کی زندگی میں خوش گوار تبدیلی آئی تھی۔ اِس سے پہلے کہ میں آپ کو اِس تبدیلی کے بارے میں کچھ بتائوں،
رات کے دو بج رہے تھے۔ ہر طرف سناٹا چھایاہوا تھا۔ عارف سڑک کے کنارے پیدل چل رہا تھا، پوری دنیا سے بے خبر اور
بیگم مہرین اپنے سٹنگ روم کے قالین پر بیٹھی ہوئی تھیں ۔ ان کے سامنے مختلف ڈیزائنرز کی exclusive rangeکے دس سوٹ رکھے ہوئے تھے۔
وہ کوئی عام ایجاد نہیں تھی۔ منٹوں میں جہنم کو جنت میں تبدیل کرنے والا ایک جادوئی آلہ تھا۔ ایک ہی بٹن دبانے سے انسان