اردو سے پرہیز کریں — نوید اکرم

اردو سے پرہیز کریں۔ انگریزی لکھیں، انگریزی پڑھیں۔ انگریزی سنیں، انگریزی بولیں، انگریز بنیں، ترقی کریں۔ یہ نعرہ ہے ہمارے انگلش میڈیم نجی تعلیمی اداروں کا اور غلامانہ ذہن کے پڑھے لکھے لوگوں کا اور دیکھا جائے تو یہ کسی حد تک صحیح بھی ہے کیوں کہ انگریزی لکھنے پڑھنے کے اتنے فوائد ہیں کہ میں آپ کو کیا کیا بتاؤں اور اردو لکھنے پڑھنے کے اتنے نقصانات کہ توبہ توبہ۔ توآئیے، بچوں کو انگریزی کے فوائد سے بہرہ ور کرنے اور اردو کے نقصانات سے محفوظ رکھنے کے لئے عام طور پر کی جانے والی کوششوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
ہمارے ہاں اپنی زبان بولنا اچھی خاصی باعثِ شرم بات ہے اور غیروں کی زبان بولنا باعثِ فخر۔ یہی وجہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کی انگریزی پر غیر معمولی توجہ دیتے ہیں اور اس کا آغاز ہوتا ہے اپنے آپ کو امی ابو کی بجائے ماما پاپا کہلوانے سے۔ اب اردو پر عبور رکھنے والے تو ماما ‘ملازمہ’ یا ‘ماموں’ کو بھی کہتے ہیں اور جہاں تک پاپا کا تعلق ہے تو لسّی اور چائے کے ساتھ پنجابی زبان والے پاپے یعنی رس کھانے کا اپنا ہی مزہ ہے مگر یہ چوں کہ اپنی قومی اور مادری زبانیں ہیں، اور مہذب کہلانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان سے دور رہیں اس لئے ہمیں چاہیے کہ ماما اور پاپا کے ان مطالب پر بالکل دھیان نہ دیں اور اپنے آپ کو امی ابو کی بجائے ماما پاپا ہی کہلوائیں۔ بلکہ میں تو کہوں گا کہ ہم بہت بڑی غلطی کرتے ہیں جو اپنے بچوں کے نام اردو اور عربی میں رکھ دیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ نام کا انسان کی شخصیت پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ ابھی تک مجھے اس بات کی سچائی کے شواہد تو نہیں ملے لیکن اگر خدا نہ خواستہ یہ بات درست ہوئی تو اردو کے نام بچوں کے لئے انتہائی مضر ثابت ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں بچوں کے نام بھی انگریزی میں ہی رکھنے چاہئیں مثلاً یوسف کی جگہ جوزف (Joseph)، آفتاب کی جگہ سن (Sun)، اختر کی جگہ سٹار (Star)، نوید کی جگہ گڈ نیوز (Good News)، فرحت کی جگہ ہیپی نیس (Happiness)اور صبا کی جگہ بریز (Breeze) وغیرہ وغیرہ۔
“ماما پاپا” سکھانے کے بعد اگلی باری آتی ہے بچوں کودیگر الفاظ اور جملے سکھانے کی۔ یہ الفاظ اور جملے بچوں کی زبان کی بنیاد ہوتے ہیں اور اگر یہ بنیاد اردو میں ڈال دی جائے تو خطرہ ہے کہ بچوں کو ساری زندگی اردو بولنے کی گندی عادت پڑی رہے گی۔ جہاں تک انگریزی کا تعلق ہے تو پورے پورے جملے تو شاذ ہی کسی کو آتے ہیں لہٰذا صرف اسم اور بعض اوقات افعال بھی انگریزی کے لے لئے جاتے ہیں اور جملے کی ساخت اردو کی ہی رکھی جاتی ہے۔ چناں چہ اب بچوں کو جوتے نہیں بلکہ شوز (Shoes) پہنائے جاتے ہیں۔ ان کے کپڑے نہیں ، ڈریسز (Dresses) ہوتے ہیں۔ ان کے چہرے پر ناک اور آنکھیں نہیں بلکہ فیس (Face) پر نوز (Nose) اورآئیز (Eyes) ہوتی ہیں۔ وہ ہاتھ نہیں دھوتے بلکہ ہینڈز (Hands) واش (Wash) کرتے ہیں۔ چڑیا نہیں اڑتی بلکہ سپارو (Sparrow) فلائی (Fly) کرتی ہے اور بچے کتابیں پڑھنے کی بجائے بکس (Books) ریڈ (Read) کرتے ہیں۔الغرض بچوں کو اردو سے دور رکھنے کی ازحد کوشش کی جاتی ہے، اور کرنی بھی چاہیے کہ یہ بچوں کے مستقبل کا سوال ہے اور اپنی زبان سکھا کر بچوں کا مستقبل خراب تھوڑی کرنا ہے۔
آئیے اب ہم ایک نظر انتہائی اہم چیز یعنی بچوں کے سکول پر ڈالتے ہیں۔ بچوں کو اعلی معیار کی تعلیم دلوانے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں انگلش میڈیم سکول میں داخل کرایا جائے۔ اردو میڈیم سکول میں چوں کہ اردو کا راج ہوتا ہے اور بچے انگریزی کی بہ جائے اردو لکھنے اور بولنے لگتے ہیں، اس لئے ایسے سکول میں داخل کرانا بچوں کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ انگلش میڈیم سکول کے نام سے بہ ظاہر یوں لگتا ہے کہ اس میں پڑھنے والوں کی انگریزی اچھی ہوتی ہوگی۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے مگر یہ سکول انگریزی اچھی کرنے سے زیادہ اس بات پر توجہ دیتے ہیں کہ کہیں ہمارے طالب علموں کی اردو بہتر نہ ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلا کام یہ کیا جاتا ہے کہ سکول والے انتہائی کم تنخواہوں میں ایسی اُستانیاں رکھتے ہیں، جو خود اردو سے نابلد ہوتی ہیں۔ ایک دفعہ میں نے اپنے بھتیجے کی اردو کی کاپی دیکھی تو اس کی استانی نے ایسے رسم الخط میں ا، ب لکھی ہوئی تھی کہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ کسی انسان نے نہیں بلکہ روبوٹ نے لکھی ہوئی ہے اور وہ بھی ایسے روبوٹ نے جس میں خطِ مستقیم کے علاوہ کوئی اور خط کھینچنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اب جب استانیاں ہی ایسی ہوں گی تو بچوں کا کیا حال ہوگا، اس کا ادراک ہر ذی شعور انسان بآسانی کر سکتا ہے۔
دوسرا کام ان سکولوں میں یہ کیا جاتا ہے کہ بچوں کو گنتی بھی اردو میں نہیں سکھائی جاتی کہ کہیں بچے عام دکانداروں اور ریڑھی والوں سے سودے بازی کرنے اور سودا سلف خریدنے کے قابل نہ ہو جائیں۔ سکول کے زمانے کی بات ہے کہ میری ایک عزیزہ نے مجھ سے میرے نمبر پوچھے۔ میں نے جواب دیا تین سو چونتیس۔ ان کا آگے سے سوال تھا کہ چونتیس کتنے ہوتے ہیں؟ پہلے تو میں ہکا بکا رہ گیا کہ بی اے کی طالبہ مجھ سے نرسری کے بچوں والا سوال کیوں کر رہی ہیں مگر پھر سارا ماجرا سمجھ آنے پر انہیں بتایا کہ چونتیس اپنی قومی زبان میں تھرٹی فور(Thirty Four) کو کہتے ہیں۔ ان موصوفہ کی طرح بعد میں اور بھی لوگوں سے پتا چلا کہ انہیں اردو میں گنتی صرف تیس تک آتی ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ یہ انگلش میڈیم سکول اردو میں گنتی صرف تیس تک ہی سکھاتے ہیں۔ اس میں چھپی حکمت تو مجھے آج تک معلوم نہیں ہوسکی، لیکن اگر تیس تک گنتی سکھانے کی تکلیف بھی نہ کی جائے تو میرے خیال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ آخر یہ غیروں کی زبان تھوڑی ہے جو ہم اس میں گنتی بھی سیکھیں۔ یہ تو اپنی زبان ہے اور اپنی زبان سیکھنا خالہ جی کا گھر تو ہے نہیں۔ فضول میں بچوں کو مشقّت میں ڈالنے کا کیا فائدہ۔
اگلی اور سب سے اہم خاصیت ان سکولوں کی یہ ہے کہ ان کی انگریزی کی کتابیں تو بالکل انگریزوں والی ہوتی ہیں مگر اردو جیسی مشکل زبان کی کتابیں انتہائی آسان رکھی جاتی ہیں تاکہ بچوں پر اجنبی زبان سیکھتے وقت بوجھ نہ پڑے۔ بچوں کو انگریزی کی کتابیں پڑھا پڑھا کر اور اردو سے بے اعتنائی برت برت کر بچوں کو ایسا بنا دیا جاتا ہے کہ انہیں اردو کے مقابلے میں انگلش لکھنا، پڑھنا، سننا اور بولنا آسان لگنے لگتا ہے۔یہ چیزروشن مستقبل کی راہ میں انتہائی اہم سنگ میل ہے۔ اس سے بچوں کو مغربی تہذیب کے قریب جانے اور مشرقی تہذیب سے دور ہونے میں بہت مدد ملتی ہے۔ وہ ساری زندگی انگریزوں کو ہی سنتے ہیں، انگریزوں کو ہی پڑھتے ہیں، انہی کو درست سمجھتے ہیں اور انہی کو اپنا آئیڈیل بناتے ہیں۔ اس طرح انگریزوں جیسا بننے میں کافی آسانی ہو جاتی ہے۔ اگر بچوں کو انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو بھی سکھا دی جائے اور انہیں اردو لکھنا پڑھنا بھی آسان لگے تو وہ علامہ اقبال، اشفاق احمد، واصف علی واصف، قدرت اللہ شہاب، بانو قدسیہ، عمیرہ احمد اور دیگر مصنفین کو پڑھنے کے قابل ہو جائیں گے۔ اور جب وہ ان سب لوگوں کو پڑھیں گے تو ذرا سوچیں کہ ان کے لئے اپنی تہذیب کو چھوڑ کر مغربی تہذیب کو اپنانا کتنا مشکل ہو جائے گا۔ لہٰذا عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ بچوں کو اردو سے دور ہی رکھا جائے۔اس کے علاوہ ایک اور چیز جس کی وجہ سے اردو سے پرہیز رکھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اردو میں دینی علم کا وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ مزید یہ کہ اردو جاننے والوں کے لئے عربی سیکھنا بھی نسبتا آسان ہو جاتا ہے جس سے انسان قرآن پاک بھی بآسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ چناں چہ اگر بچوں کو اردو آسان لگتی ہو تو وہ دینی علم بآسانی حاصل کرسکتے ہیں اور یوں اس بات کا خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں وہ دنیا کو چھوڑ کر اپنی آخرت بنانے میں نہ لگ جائیں۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ انہیں اردو مشکل ہی لگتی رہے۔ نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری۔




Loading

Read Previous

داستانِ محبت — سارہ قیوم (حصّہ اوّل)

Read Next

داستانِ محبّت — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!