جزا — نایاب علی

گرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ چرند پرند اس گرم دوپہر سے چھپ کر اپنی پناہ گاہوں میں آرام فرما تھے۔ اس تپتی دوپہر نے آدم بشر کو بھی اپنے گھروں میں پناہ لینے پر مجبور کر رکھا تھا۔ میں ارحم آفندی، اپنے دفتر میں کسی ضروری کام کی وجہ سے رکا ہوا تھا۔ اس جان لیوا گرمی میں میرے جسم پر کالا کوٹ مجھے اور گرم کررہا تھا۔ ائیرکنڈیشنر کے ہوتے ہوئے بھی مجھے اس کوٹ میں سخت گرمی محسوس ہورہی تھی۔ میں جلدازجلد اس کو اتار کر اس کوفت سے آزادہونا چاہتا تھا۔ کام ختم کرکے میں آفس سے نکلنے ہی لگا تھا کہ ایک صاحب تشریف لے آئے۔ ان کی آمد سے میں نے جانے کا ارادہ ملتوی کردیا اور کرسی پر ٹک گیا۔ آنے والا ان ٹھاٹ باٹ اور اثرورسوخ والا معلوم ہو رہا تھا۔ وہ درازقد آدمی تھا۔ اس کے چہرے پر بلا کی متانت اور سنجیدگی تھی۔ چہرے پر موجود چھوٹی سی کالی ڈاڑھی اس کی عمر کا حساب لگانے کے لیے کافی تھی۔ وہ چالیس کے قریب معلوم ہورہا تھا۔ پتلے ہونٹ، تیکھی ناک اور سکڑے ہوئے گال سے بہ خوبی اندازہ ہورہا تھا کہ اپنی جوانی میں بلاشبہ وہ بہت خوبصورت نوجوان تھا۔مگر اس وقت اس کے چہرے سے پریشانی عیاں تھی۔
“جی صاحب فرمائیے! کیسے آنا ہوا؟” سلام دعا کے بعد میں نے اس آدمی سے پوچھا جس کا نام عادل تھااور اسے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
’’ایڈوکیٹ ارحم آفندی کا نام وکالت کی دنیا میں بہت چمکتا ہے، اور یہ بات سب بہ خوبی جانتے ہیں۔ آپ نہایت ایمان دار آدمی ہیں، جو صرف سچ کا ساتھ دیتے ہیں، بس اسی لیے آپ کے پاس چلا آیا کیوں کہ مجھے انصاف چاہیے اور یہ انصاف آپ کے علاوہ کوئی نہیں دلا سکتا مجھے۔‘‘ اس آدمی نے آہستہ اور دھیمے لہجے میں کہا۔
اس کے منہ سے اپنی تعریف سُن کر میں خداوندکریم کا شکر بجا لایا جس نے مجھے اتنی عزت سے نوازا۔
“میں پوری کوشش کروں گا آپ کے کام آسکوں۔” میں نے سنجیدہ لہجے میں کہاجس سے اس کی ڈھارس بندھ گئی اور وہ مجھے اپنی روداد سنانے لگاجس کے دوران وقفے وقفے سے اس کی آنکھوں سے آنسو بھی رواں ہوئے۔ جب وہ کہانی سنا چکا تو دفتر میں مکمل سناٹا چھا گیا۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعدمیں نے اسے تسلی دی اور کام کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے مجھ سے بات کرکے وہ خود کو پرسکون محسوس کر رہا تھا۔
“میں آپ کی فیس دینے کے لیے تیار ہوں، بس میرا کام ہونا چاہیے” اس نے سنجیدگی سے مجھ سے کہا۔
“آپ بے فکر ہو جائیں۔ میں آپ کی بیٹی کو آپ سے ملوا کر رہوں گا۔ ارحم آفندی نے ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا ہے۔ اب بھی آپ کا ساتھ دوں گا… ان درندہ صفت انسانوں سے آپ کی بیٹی کو چھٹکارا دلواؤں گا۔” میں نے اسے مکمل یقین دہانی کروائی اور اس سے رخصت لے کر دفتر سے باہر نکلا۔
اس جھلساتی ہوئی دھوپ میں چلنا بہت مشکل لگ رہا تھا تو میں نے کوٹ اتار کر کندھے پر لٹکا لیا۔ دفتر سے باہر پارکنگ کا سفر مجھے بہت لمبی مسافت لگ رہی تھی۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی میں نے اے سی آن کیا اور گاڑی سٹارٹ کر کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔
گھر پہنچ کر میں فریش ہوا اور رامش کے پاس آ بیٹھا، جو اپنے کھلونوں سے کھیلنے میں مصروف تھا۔ رامش میرا اکلوتا لخت جگر ہے جو میری کل کائنات ہے۔ میری تمام تر محبتیں صرف اسی کے نام تھیں۔ گھر آکر میرا تمام تر وقت رامش کے ساتھ گزرتا تھا۔ ابھی بھی میں اس کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھا جب میرے فون کی بیل بجی۔
“ہیلو کون؟” میں نے فون ریسیو کرتے ہی پوچھا۔
“ارحم آفندی بول رہے ہو؟” دوسری طرف سے آواز آئی۔
“جی فرمائیے۔” میں نے مروتاً پوچھا؟
“کچھ دیر پہلے تمہارے پاس جو کیس آیا تھا اس سے دور ہی رہو۔ ہم سے پنگا لینے والا خود ہی گھاٹے کا سودا کر تا ہے۔ تمہارے لیے بہتر ہوگا کہ اس معاملے سے دور رہو۔” دوسری طرف سے ایک ہی سانس میں بول دیا گیا۔
’’معاف کیجیے گا… آپ ہیں کون اور اس انداز میں کیوں بات کر رہے ہیں؟ اور جب تمہیں پتا ہے کہ آپ سے پنگا لینے والا گھاٹے کا سودا کر تا ہے تو آپ کو اتنی ٹینشن کیوں ہو رہی ہے۔‘‘ میں نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔
’’اپنے نقصان کے ذمہ دار تم خود ہو گے۔‘‘ فون بند ہوگیا اور میں ہونقوں کی طرح فون کی اسکرین کو گھورتا رہا۔ کچھ دیر بعد سب کچھ نارمل ہوگیا۔ میں رامش کی پاس چلا آیا اور اس کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہوگیا۔
دن گزرتے گئے اور میں اس فون کو بھی گزرے دنوں کی طرح بھول گیا۔
آج کورٹ میں اس کیس کی سماعت تھی۔ میری طرح عادل بھی پریشان حال کھڑا تھا۔ اس کے چہرے سے پریشانی صاف عیاں تھی، اور ہوتی بھی کیوں نا… کیوں کہ اب سے کچھ دیر بعد جج نے فیصلہ سنانا تھا اور اس کورٹ میں موجود کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ کیا فیصلہ ہونے والا ہے۔
تھوڑی دیر بعد جج اپنی کرسی عدالت پر براجمان تھا۔ اس نے سماعت کو ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دیا اور ہم کسی بھی فیصلے کے بغیر اپنے گھروں کو لوٹ آئے۔
واپسی پر مجھے رامش کو سکول سے لیناتھا۔ میں جب اس کے سکول پہنچا تو وہاں مجھے معلوم ہوا کہ رامش سکول سے جا چکا تھا، مگر کس کے ساتھ…؟؟ یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔
میرے پاؤں کے نیچے سے زمین سرک گئی کیوں کہ پورا سکول چھاننے کے بعد بھی اس کا کچھ پتا نہیں چلا۔ میں پریشان حال گھر پہنچا اور شام تک شہر کا کونا کونا چھان مارا مگر رامش کہیں نہیں ملا۔ رات سر پر آگئی مگر میں ہوش و حواس سے بے گانہ دیوانہ وار اسے ڈھونڈ رہا تھا۔ وہ رات میں کانٹوں پر چل کر گزاری۔ میں پوری رات پاگلوں کی طرح شہر کی گلیوں میں اسے ڈھونڈتا رہا۔
صبح کاسورج میرے لیے ایک نیا امتحان لے کر آیا۔ تھک ہار کر میں گھر لوٹا ہی تھا کہ میرا موبائل بجنے لگا۔ بے دلی سے میں نے فون ریسیو کیا۔
“کہا تھا نا ہر نقصان کے ذمے دار خود ہوگے۔ اب بھی اگر بیٹے کی زندگی چاہتے ہو تو اپنے موقف سے ہٹ جاؤ ورنہ بیٹے کی میت دیکھنے کا حوصلہ پیدا کرلو۔” الفاظ ہتھوڑا بن کر میرے کانوں پر برسے میری سماعت۔ سماعت مفلوج ہوگئی۔ میں ساکت کھڑا تھا۔ میری رگوں میں خون منجمد ہو چکا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا فون بند ہوگیا۔ اس ایک پل میں مجھے اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئیں۔
میں نے ہمت مجتمع کی اور وضو کرکے فجر ادا کرنے اللہ کے حضور کھڑا ہو گیا۔ نماز کے بعد میں نے جیسے ہی ہاتھ اُٹھائے، آنسوئوں کے کچھ قطرے پلکوں کی باڑ توڑ کر میرے ہاتھوں پر آن گرے اور اس کے بعد ناجانے کتنے آنسو میری پلکوں سے بہ نکلے۔ میں بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔ میں سخت اعصاب کا مالک، آج مکمل ڈھے گیا۔ آنسوؤں سے میرا چہرا مکمل تر ہوگیا۔ کمرے میں میری سسکیوں کی آواز گونج رہی تھی۔ دنیا و مافیہا سے بے گانہ ہوکر میں اپنے بیٹے کے لیے خدائے عالم سے بھیک مانگ رہا تھا۔ اپنی پوری زندگی میں اتنی خشوع و خضوع سے میں نے شاید ہی کوئی دعا کی ہو جس طرح آج رامش کی زندگی کے لیے مانگی۔ روتے روتے میں سجدے میں گرگیا اور بہ دستور روکر دعاکرتا رہا۔ تقریباً آدھا گھنٹہ سجدے میں رونے کے بعد مجھے دل کا بوجھ ہلکا محسوس ہوا۔
میں نے اپنے موقف سے نہ ہٹنے کا وعدہ کر لیا۔ میں اس کالے کوٹ پر بے ایمانی کا دھبا نہیں لگوانا چاہتا تھا۔ اوپر بیٹھی اس ذاتِ خداوندی پر مجھے پورا بھروسہ تھا۔ کیوں کہ اس کے ساتھ میں نے بہت منافع کا سودا کیا تھا۔
کورٹ میں سماعت کا دن آگیا۔ پینتالیس ڈگری درجہ حرارت ہونے کے باوجود وہاں کورٹ میں کھڑے ہوکر میرا وجود بہت بری طرح کانپ رہا تھا۔
ایک طرف میری جان، میری زندگی، میرا پیارا بیٹا رامش تھا اور دوسری طرف، اس معاشرے کا بہت گھناؤنا کردار تھا جسے میں نے بے نقاب کرنا تھا۔
عادل کی بیوی نے جس شخص سے دوسری شادی کی تھی وہ کوئی درندہ صفت آدمی تھا، جس کی اصلیت شادی کے بعد اس پر عیاں ہوئی۔ وہ عورتوں کو اپنے جال میں پھنسا کر انہیں غیر قانونی کام کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔ اس کی بیوی کے ساتھ اس کی پندرہ سالہ بیٹی بھی تھی جو اس درندہ آدمی کے شدید تشدد کا نشانہ تھی اور مجھے، یعنی ارحم آفندی کو اس معصوم بچی کو اس کے چنگل سے آزاد کرانا تھا اور اس کا چہرہ سب کے سامنے لے کر آنا تھا۔
میرے دل و دماغ میں جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ اگر میں کیس ہار جاؤں تو رامش مجھے مل جائے گا اور اگر میں کیس جیت جاؤں تو….. انجام سوچ کر سردی کی ایک شدید لہر میرے بدن میں دوڑ گئی۔
میرا دل مجھے ہارنے پر اکسا رہا تھا اور دماغ اس کی نفی کر رہا تھا۔ میں عجیب کشمکش میں گھرا ہوا تھا۔ دل کی بات مانتا تو میرا بیٹا مجھے مل جاتا مگر بہت سے لوگوں سے ان کے بچے چھن جاتے۔ اور اگر دماغ کی بات مانتا تو میرا پیارا بیٹا مجھ سے دور چلا جاتا۔
بالآخر میں نتیجے پر پہنچا اور میں نے دماغ کی بات مان لی۔ مجھے ذاتِ خداوندی پر مکمل بھروسا تھا۔
جج کرسی عدالت پر براجمان ہو چکا تھا۔ عادل اور دوسرا درندہ صفت آدمی آمنے سامنے کھڑے تھے۔ سچ و جھوٹ میں جنگ جاری تھی اور اس سے بڑی جنگ میری اندر برپا تھی، مگر میں نے پوری ایمان داری سے تمام ثبوت عدالت میں دکھا دیئے۔
“تمام گواہوں کے نتیجے میں یہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے۔” مجھے کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔ میرے کان بند ہوچکے تھے۔
کورٹ خالی ہونے لگا اور عادل خوشی سے میرے گلے میں جھول گیا، مگر میں گنگ کھڑا یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔
میں کچھ بھی کہے بغیر وہاں سے نکل گیا۔ میری زندگی بھر کی کمائی لٹنے جارہی تھی۔ میری دنیا اندھیری ہونے جارہی تھی۔ یہ میری پہلی کام یابی ایسی تھی جس پر جیت کر بھی سب کچھ ہار گیا تھا۔ اپنے خیالوں میں ڈوبا میں چلا جارہا تھا جب کسی نے مجھے سختی سے جھنجھوڑا۔
“ارحم صاحب! وہ رہا وہ شخص جس کو پولیس اپنی حراست میں لے کر جارہی ہے۔ وہی ہے جو عورتوں کو اپنے جال میں پھنسا کر ان کو غیر قانونی کاموں میں استعمال کرتا ہے۔” میں نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور سر جھٹک کر گاڑی میں آ گیا اور گھر کو چلا آیا۔
ابھی میں نے دروازے سے قدم اندر رکھا ہی تھا کہ رامش اچھلتا کودتا میری ٹانگوں سے چمٹ گیا اور میں حیرت سے گنگ ہو کر اسے دیکھتا رہا۔
“پتا ہے پاپا! ایک انکل مجھے چوری سے گھر چھوڑ گئے ہیں کیوں کہ میرا آپ کے بغیر دل نہیں لگتا تھا نا وہاں” رامش نے معصومیت سے کہا۔ میں سجدہ شکر اداکرنے وہی جھک گیا۔ میرے مالک نے میری دنیا کے اندھیرے مٹا کر روشنی کردی یہ بہت بڑی جزا تھی۔ میری زندگی مجھے لوٹا دی اور ساتھ ہی میرا کالا کوٹ بے ایمانی کے دھبے سے داغ دار ہونے سے بچالیا۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۶ (حاصل و محصول)

Read Next

ہائے یہ عورتیں — کبیر عبّاسی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!