نیوہیون واپس آنے کے بعد اس نے زندگی کے ایک نئے سفر کو شروع کیا تھا۔
اس رات اس جنگل کے ہولناک اندھیرے اور تنہائی میں اس درخت کے ساتھ بندھے بلکتے ہوئے کئے گئے تمام وعدے اسے یاد تھے۔
وہ سب سے بالکل الگ تھلگ رہنے لگا تھا۔ معمولی سے رابطے اور تعلق کے بھی بغیر۔
”مجھے تم سے نہیں ملنا۔”
وہ صاف گو تو ہمیشہ سے ہی تھا مگر اس حد تک ہوجائے گا اس کے ساتھیوں میں سے کسی کو بھی اس کی توقع نہیں تھی۔ چند ہفتے اس کے بارے میں اس کا گروپ چہ میگوئیاں کرتا رہا پھر یہ چہ میگوئیاں اعتراضات اور تبصروں میں تبدیل ہوگئیں اور اس کے بعد طنزیہ جملوں اور ناپسندیدگی میں پھر سب اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہوگئے۔ سالار سکندر کسی کی زندگی کا مرکز اور محور نہیں تھا نہ دوسرا کوئی اس کی زندگی کا۔ اس نے نیوہیون میں پہنچنے کے بعد جو چند کام کئے تھے اس میں جلال انصر سے ملاقات کی کوشش بھی کی تھی۔ وہ پاکستان سے واپس آتے ہوئے اس کے گھر سے امریکہ میں اس کا ایڈریس لے آیا تھا۔ یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ اس کا ایک کزن بھی اسی ہاسپٹل میں کام کررہا تھا جہاں جلال کام کررہا تھا۔ باقی کاکام بہت آسان ثابت ہوا۔ ضرورت سے زیادہ آسان۔
وہ اس سے ایک بار مل کر اس سے معذرت کرنا چاہتا تھا۔ اسے ان تمام جھوٹوں کے بارے میں بتا دینا چاہتا تھا جو وہ اس سے امامہ کے بارے میں اور امامہ سے اس کے بارے میں بولتا رہاتھا۔ وہ ان دونوں کے تعلق میں اپنے رول کے لئے شرمندہ تھا۔ وہ اس کی تلافی کرنا چاہتا تھا۔ وہ جلال انصر تک پہنچ چکا تھا اور وہ امامہ ہاشم تک پہنچنا چاہتا تھا۔
وہ جلال انصر کے ساتھ ہاسپٹل کے کیفے ٹیریا میں بیٹھا ہوا تھا۔ جلال انصر کے چہرے پر بے حد سنجیدگی تھی اور اس کے ماتھے پر پڑے ہوئے بل اس کی ناراضی کو ظاہر کررہے تھے۔
سالار کچھ دیر پہلے ہی وہاں پہنچا تھا اور جلال انصراسے اپنے سامنے دیکھ کر ہکابکا رہ گیا تھا۔ اس نے جلال سے چند منٹ مانگے تھے۔ وہ دوگھنٹے انتظار کروانے کے بعد بالآخر کیفے ٹیریا میں آگیا تھا۔
”سب سے پہلے تو میں یہ جاننا چاہوں گا کہ تم نے مجھے ڈھونڈا کیسے؟” اس نے آپ جناب کے تمام تکلفات کو برطرف رکھتے ہوئے ٹیبل پر بیٹھتے ہی سالار سے کہا۔
”یہ اہم نہیں ہے۔”
”یہ بہت اہم ہے۔ اگر تم واقعی یہ چاہتے ہو کہ میں کچھ دیر تمہارے ساتھ یہاں گزاروں تو مجھے پتا ہونا چاہئے کہ تم نے مجھے کیسے ڈھونڈا؟”
”میں نے اپنے کزن سے مدد لی ہے۔ وہ ایک ڈاکٹر ہے اور اس شہر میں بہت عرصے سے کام کررہا ہے۔ میں یہ نہیں جانتا کہ اس نے آپ کو کیسے ڈھونڈا ہے۔ میں نے صرف اس کو آپ کا نام اور کچھ دوسری معلومات دی تھیں۔” سالار نے کہا۔
”لنچ…..؟جلال نے بڑے رسمی انداز میں کہا، وہ ٹیبل پر آتے ہوئے اپنی لنچ ٹرے ساتھ لیکر آیا تھا۔
”نہیں، میں نہیں کھاؤں گا۔” سالار نے شکریہ کے ساتھ معذرت کرلی۔
جلال نے کندھے اچکائے اور کھانا شروع کردیا۔
”کس معاملے میں بات کرنا چاہتے تھے تم مجھ سے؟”
”میں آپ کو چند حقائق سے آگاہ کرنا چاہتا تھا۔”
جلال نے اپنی بھنویں اچکائیں۔”حقائق؟”
”میں آپ کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ میں نے آپ سے جھوٹ بولا تھا۔ میں امامہ کا دوست نہیں تھا۔ وہ میرے دوست کی بہن تھی، صرف میری نیکسٹ ڈور ”neighbour… جلال نے کھانا جاری رکھا۔
”میری اس سے معمولی جان پہچان تھی۔ وہ بھی صرف اس لئے کیونکہ ایک بار اس نے مجھے فرسٹ ایڈ دے کر میری جان بچائی تھی۔ وہ مجھے پسند نہیں کرتی تھی خود میں بھی اسے پسند نہیں کرتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ میں نے آپ پریوں ظاہر کیا جیسے وہ میری بہت گہری دوست تھی۔ میں آپ دونوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا چاہتا تھا۔”
جلال سنجیدگی سے اس کی بات سنتے ہوئے کھانا کھاتا رہا۔
”اس کے بعد جب امامہ گھر سے نکل کر آپ کے پاس آنا چاہتی تھی تو میں نے اس سے جھوٹ بولا۔ آپ کی شادی کے بارے میں۔”
اس بار جلال کھانا کھاتے کھاتے رک گیا۔” میں نے اس سے کہا کہ آپ شادی کرچکے ہیں۔ وہ آپ کے پاس اسی لئے نہیں آئی تھی۔ مجھے بعد میں احساس ہواکہ میں نے بہت نامناسب حرکت کی ہے مگر اس وقت تک دیر ہوچکی تھی۔ امامہ سے میرا کوئی رابطہ نہیں تھا مگر یہ ایک اتفاق ہے کہ آپ سے میرا رابطہ ہوگیا۔ میں آپ سے ایکسکیوز کرنا چاہتا ہوں۔”
”میں تمہاری معذرت قبول کرتا ہوں مگر میں نہیں سمجھتا کہ تمہاری وجہ سے میرے اور امامہ کے درمیان کوئی غلط فہمی پیدا ہوئی، میں پہلے ہی اس سے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرچکا تھا۔” جلال نے بڑی صاف گوئی سے کہا۔
”وہ آپ سے بہت محبت کرتی تھی۔” سالار نے دھیمی آواز میں کہا۔
”ہاں میں جانتا ہوں مگر شادی وغیرہ میں صرف محبت تو نہیں دیکھی جاتی اور بھی بہت کچھ دیکھا جاتا ہے۔” جلال بہت حقیقت پسندانہ انداز میں کہہ رہا تھا۔
”جلال! کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ اس سے شادی کرلیں۔”
”پہلی بات یہ کہ میرا اس کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے اور دوسری بات یہ کہ میرا اس کے ساتھ رابطہ ہوتا بھی تب بھی میں اس کے ساتھ شادی نہیں کرسکتا۔”
”اس کو آپ کے سہارے کی ضرورت ہے۔” سالار نے کہا۔
”میں نہیں سمجھتا کہ اسے میرے سہارے کی ضرورت ہے۔ اب تو بہت عرصہ گزرچکا ہے اب تک وہ کوئی نہ کوئی سہارا تلاش کرچکی ہوگی۔” جلال نے اطمینان سے کہا۔
”ہوسکتا ہے اس نے ایسا نہ کیا ہو۔ وہ ابھی بھی آپ کا انتظار کررہی ہو۔”
”میں اس طرح کے امکانات پر غور کرنے کا عادی نہیں ہوں۔ میں نے تمہیں بتایا ہے کہ میرے لئے اپنے کیرئیر کی اسٹیج پر شادی کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ وہ بھی اس سے۔”
”کیوں…؟”
”اس کیوں کا جواب میں تمہیں کیوں دوں۔ تمہارا اس سارے معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں اس سے کیوں شادی نہیں کرتا چاہتا۔ میں تب ہی اسے بتا چکا ہوں اور اتنے عرصے کے بعد تم دوبارہ آکر پھر وہی پینڈوراباکس کھولنے کی کوشش کررہے ہو۔” جلال نے قدرے ناراضی سے کہا۔
”میں صرف اس نقصان کی تلافی کرنے کی کوشش کررہا ہوں، جو میری وجہ سے آپ دونوں کا ہوا۔” سالار نے نرمی سے کہا۔
”میرا کوئی نقصان نہیں ہوا اور امامہ کا بھی نہیں ہوا ہوگا۔ تم ضرورت سے زیادہ حساس ہورہے ہو۔”
جلال نے سلاد کے چند ٹکڑے منہ میں ڈالتے ہوئے اطمینان سے کہا۔ سالار اسے دیکھتا رہا۔ وہ نہیں سمجھ پارہا تھا کہ وہ اسے اپنی بات کیسے سمجھائے۔
”میں اس کو ڈھونڈنے میں آپ کی مدد کرسکتا ہوں۔” اس نے کچھ دیر بعد کہا۔” مگر میں اسے ڈھونڈنا نہیں چاہتا۔ شادی مجھے اس سے نہیں کرنی تو پھر ڈھونڈنے کا فائدہ۔”
سالار نے ایک گہرا سانس لیا۔” آپ جانتے ہیں اس نے کس لئے گھر چھوڑا تھا؟”
”میرے لئے بہرحال نہیں چھوڑا تھا۔” جلال نے بات کاٹی۔
”آپ کے لئے نہیں چھوڑا تھا، مگر جن وجوہات کی بناپر چھوڑا تھا کیا ایک مسلمان کے طورپر آپ کو اس کی مدد نہیں کرنی چاہئے جب کہ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ لڑکی آپ سے بہت محبت کرتی ہے۔ آپ سے بہت انسپائرڈ ہے۔”
”میں دنیا میں کوئی واحد مسلمان نہیں ہوں اور نہ ہی مجھ پر یہ فرض کردیا گیا ہے کہ میں اس کی مدد ضرور کروں۔ میری ایک ہی زندگی ہے اور میں اسے کسی دوسرے کی وجہ سے تو خراب نہیں کرسکتا اور پھر تم بھی مسلمان ہو، تم کیوں نہیں شادی کرتے اس سے؟ میں نے توتب بھی تم سے کہا تھا کہ تم اس سے شادی کرلو۔ تم ویسے بھی اس کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہو۔”
جلال انصر نے قدرے چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔ سالار اسے خاموشی سے دیکھتا رہا۔ وہ اسے بتا نہیں سکتا تھا کہ وہ اس سے شادی کرچکا ہے۔
”شادی…؟ وہ مجھے پسند نہیں کرتی۔” اس نے کہا۔
”میں اس سلسلے میں اسے سمجھا سکتا ہوں۔ تم میرا اس سے رابطہ کرو ادو تو میں اسے تم سے شادی پر تیار کرلوں گا۔ اچھے آدمی ہو تم…اور خاندان وغیرہ بھی ٹھیک ہی ہوگا تمہارا۔ کار تو ڈیڑھ سال پہلے بھی بڑی شاندار رکھی ہوئی تھی تم نے۔ اس کا مطلب ہے روپیہ وغیرہ ہوگا تمہارے پاس۔ ویسے یہاں کس لئے ہو؟”
”ایم بی اے کررہاہوں۔”
”پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ جاب تمہیں مل جائے گی۔ روپیہ ویسے بھی تمہارے پاس ہے۔ لڑکیوں کو اور کیا چاہئے۔ امامہ تو ویسے بھی تمہیں جانتی ہے۔” جلال نے چٹکی بجاتے مسئلہ حل کیا تھا۔
”سارا مسئلہ تو اسی”جاننے” نے ہی پیدا کیا ہے۔ وہ مجھے ضرورت سے زیادہ جانتی ہے۔” سالار نے جلال کو دیکھتے ہوئے سوچا۔
”وہ آپ سے محبت کرتی ہے۔” سالار نے جیسے اسے یاد دلایا۔
”اب اس میں میرا تو کوئی قصور نہیں ہے۔ لڑکیاں کچھ زیادہ جذباتی ہوتی ہیں اس معاملے میں۔” جلال نے قدرے بیزاری سے کہا۔
”یہ ون سائیڈڈ لوافیئر تو نہیں ہوگا۔ آپ کسی نہ کسی حدتک اس میں انوالو تو ضرور ہوں گے۔” سالار نے قدرے سنجیدگی سے کہا۔
”ہاں تھوڑا بہت انوالو تھا، مگر وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ ترجیحات بھی بدلتی رہتی ہیں انسان کی۔”
”اگر آپ کو وقت اور حالات کے ساتھ اپنی ترجیحات بدلنی تھیں تو آپ کو اس کے بارے میں امامہ کو انوالو ہوتے ہوئے ہی بتا دینا چاہئے تھا۔ کم از کم اس سے یہ ہوتا کہ وہ آپ سے مدد کی توقع رکھتی نہ ہی آپ پر اس قدر انحصار کرتی۔ میں امید کرتا ہوں آپ یہ تو نہیں کہیں گے کہ آپ نے اس سے شادی کے حوالے سے کبھی کوئی بات یا وعدہ کیا ہی نہیں تھا۔”
جلال کچھ کہنے کے بجائے خشمگیں نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔
”تم مجھے کیا جتانے اور بتانے کی کوشش کررہے ہو؟” اس نے چند لمحوں کے بعد اکھڑے ہوئے انداز میں اس سے کہا۔
”اس نے جب مجھ سے پہلی بار رابطہ کیا تھا تو آپ کا فون نمبر اور ایڈریس دے کر اس نے مجھ سے کہا تھا کہ میں آپ سے پوچھوں آپ نے اپنے پیرنٹس سے شادی کی بات کرلی ہے۔ میں نے اسے اپنا فون دیا تھا کہ وہ آپ سے یہ بات خود پوچھ لے۔ یقینا اسلام آباد آنے سے پہلے آپ نے اس سے یہ کہا ہوگا کہ آپ اس سے شادی کے لئے اپنے پیرنٹس سے بات کریں گے۔ آپ نے یقینا پہلے محبت وغیرہ کے اظہار کے بعد اسے پروپوز کیا ہوگا۔”
جلال نے کچھ برہمی سے اس کی بات کاٹی۔”میں نے اسے پروپوز نہیں کیا تھا۔ اس نے مجھے پروپوز کیا تھا۔”
”مان لیتا ہوں اس نے پروپوز کیا۔ آپ نے کیا کیا؟ انکار کردیا؟” وہ چیلنج کرنے والے انداز میں پوچھ رہا تھا۔
”انکار نہیں کیا ہوگا۔” سالار عجیب سے انداز میں مسکرایا۔
”اس نے مجھے بتایا تھا کہ آپ نعت بہت اچھی پڑھتے ہیں اور آپ کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی بہت محبت ہے۔ آپ کو بھی بتایا ہوگا اس نے کہ وہ آپ سے محبت کیوں کرتی تھی مگر آپ سے مل کر اور آپ کو جان کر مجھے بہت مایوسی ہوئی۔ آپ نعت بہت اچھی پڑھتے ہوں گے مگر جہاں تک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا تعلق ہے میں نہیں سمجھتا وہ آپ کوہے۔ میں خود کوئی بہت اچھا آدمی نہیں ہوں اور محبت کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرسکتا۔ خاص طورپر اللہ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے بارے میں مگر اتنا میں ضرور جانتا ہوں کہ جو شخص اللہ یا اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے یا لوگوں کو یہ امپریشن دیتا پھرتا ہے وہ مدد کے لئے پھیلے ہوئے ہاتھ کو نہیں جھٹک سکتا نہ ہی وہ کسی کو دھوکا اور فریب دے گا۔” سالار اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
”اور میں تو آپ سے ریکویسٹ کررہا ہوں اس کی مدد کے لئے۔ ہوسکتا ہے اس نے بھی ڈیڑھ سال پہلے کی ہو،پھر بھی اگر آپ انکار پر مصر ہیں تو…میں یا کوئی آپ کو مجبور تو نہیں کرسکتا مگر آپ سے مل کر اور آپ سے بات کرکے مجھے بہت مایوسی ہوئی۔”
اس نے الوداعی مصافحہ کے لئے جلال کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ جلال نے اپنا ہاتھ نہیں بڑھایا، وہ تنفر بھرے انداز میں ماتھے پر بل لئے اسے دیکھتا رہا۔
”خدا حافظ۔” سالار نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا۔ جلال اسی انداز میں اسے جاتا دیکھتا رہا اور پھر اس نے خود کلامی کی۔”It’s really an idiots world out there۔”
وہ دوبارہ لنچ ٹرے کی طرف متوجہ ہوگیا۔ اس کا موڈبے حد آف ہورہا تھا۔
٭…٭…٭