پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۶

اسکول کے اس پروجیکٹ کو شروع کرنے سے پہلے سکندر عثمان سے اس کی بات ہوئی تھی۔ اس نے مختصر الفاظ میں انہیں اس پروجیکٹ کے بارے میں بتایا تھا۔ وہ کسی مداخلت کے بغیر اس کی بات سنتے رہے پھر انہوں نے بڑی سنجیدگی سے اس سے کہا۔
”یہ سب کچھ کیوں کررہے ہو تم؟”
”پاپا! میں اس کام کی ضرورت محسوس کرتا ہوں لوگوں کو…” انہوں نے سالار کی بات کاٹ دی۔
”میں اسکول کی بات نہیں کررہا ۔”
”پھر آپ کس چیز کی بات کررہے ہیں؟” وہ حیران ہوا۔
”میں تمہارے لائف اسٹائل کی بات کررہا ہوں۔”
”میرے لائف اسٹائل کو کیا ہوا؟” وہ چونکا۔ سکندر عثمان اسے دیکھتے رہے۔
”تم نے قرآن پاک حفظ کرنے کے بارے میں ہمیں اس وقت بتایا جب تم حفظ کرچکے تھے، اوکے فائن، میں نے کچھ نہیں کہا۔ تم حج پر جانا چاہتے تھے میرے اس سلسلے میں کچھ تحفظات تھے مگر میں نے تمہیں نہیں روکا۔ تم نے ہر طرح کی سوشل لائف ختم کردی۔ میں نے اعتراض نہیں کیا۔ تم مذہب میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لینے لگے، نماز شروع کردی وہ بھی مسجد میں۔ میں نے پھر بھی کچھ نہیں کہا۔ تم نے بزنس کرنے کے بجائے جاب کرنا چاہی وہ بھی یہاں نہیں امریکہ میں۔ میں نے تمہیں کرنے دی۔ اب تم ایک اسکول کھولنا چاہ رہے ہو۔ اب ضروری ہوگیا ہے کہ ہم اس تمام معاملے پر کچھ سنجیدگی سے بات کرلیں۔” سکندر عثمان بے حد سنجیدہ تھے۔
”تمہیں اندازہ ہے کہ تمہارا یہ لائف اسٹائل تمہیں ہمارے سوشل سرکل کے لئے ناقابل قبول بنا دے گا۔ پہلے تم ایک انتہا پر تھے اب تم دوسری انتہا پر ہو۔ پچیس، چھبیس سال کی عمر میں جن کاموں میں تم اپنے آپ کو انوالو کررہے ہو وہ غیر ضروری ہیں۔ تمہیں اپنے کیرئیر پر دھیان دینا چاہئے اور اپنے لائف اسٹائل میں تبدیلی لانی چاہئے۔
ہم جس کلاس سے تعلق رکھتے ہیں وہاں مذہب سے ایسی وابستگی بہت سے مسائل پیدا کردیتی ہے۔” وہ سرجھکائے ان کی باتیں سن رہا تھا۔
”اور صرف تمہارے لئے ہی نہیں، ہمارے لئے بھی بہت سے مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ تم خود سوچو تم لوگوں کو کیا امپریشن دینے کی کوشش کررہے ہو۔ کل کو ہم یا تم خود جب اپنی کلاس کی کسی اچھی فیملی کی لڑکی کے ساتھ شادی کرنا چاہوگے تو تمہاری یہ مذہبی وابستگی تمہارے لئے کتنے مسائل پیدا کرے گی تمہیں اندازہ ہے۔ کوئی بھی فیملی سکندر عثمان کا نام دیکھ کر یا تمہاری کوالیفکیشنز دیکھ کر اپنی بیٹی کی شادی تم سے نہیں کردے گی۔ اوپر سے تم نے اس عمر میں سوشل ورک شروع کرنے کی ٹھان لی ہے جب تمہاری عمر کے لوگ اپنے کیرئیر کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں تم یونیسیف میں بہت سوشل ورک کرتے رہے ہو اتنا کافی ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ تم یہ سب کچھ اپنی پرسنل لائف میں بھی شروع کردو۔ جو پیسہ تم اس اسکول پر اور لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے لئے ضائع کروگے اسے تم اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے محفوط کرو۔ انہیں آسائشیں دینے کے لئے، ایک آرام دہ لائف اسٹائل دینے کے لئے۔ اپنے آپ پر خرچ کرو، تین سوسال کی زندگی نہیں ہے تمہاری، پھر اتنی سی عمر میں بڑھاپے کو کیوں سوار کرلیا ہے تم نے اپنے اعصاب پر۔ ایک حادثہ ہوا، برا ہوا۔ تم نے سبق سیکھا۔ بہت اچھا کیا۔ بس اتنا کافی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم اس عمر میں تسبیح پکڑلو۔” وہ رکے۔” کیا میری بات کو سمجھ رہے ہو؟” انہوں نے پوچھا۔
”پاپا! میں نے تسبیح نہیں پکڑی ہے۔” سالار نے ان کے سوال کا جواب دینے کے بجائے کہا۔ ”آپ نے زندگی میں توازن رکھنے کی بات کی میں وہ توازن ہی رکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ میں اپنے کیرئیر میں کہاں پر کھڑا ہوں آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ میری کار کردگی سے آپ واقف ہیں۔”
”میں واقف ہوں اور اسی لئے تم سے کہہ رہا ہوں کہ اگر تم اس طرح کی سرگرمیوں میں خود کو انوالونہ کرو تو تم بہت آگے جاسکتے ہو۔” سکندر نے کہا۔
”میں کہیں نہیں جاسکتا۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں یہ سب کچھ چھوڑدوں تو کیرئیر کی کسی ماؤنٹ ایورسٹ تک پہنچ جاؤں گا، تو ایسا نہیں ہے۔” اس نے توقف کیا۔
”تم اپنے مستقبل کے بارے میں بھی سوچو۔ اپنی شادی کے بارے میں، ایسی اپروچ رکھنے پر تم کو کہاں قبول کیا جائے گا۔”
”میں نے سوچا ہے پاپا! میں شادی کرنا نہیں چاہتا۔”
سکندر ہنسے۔
”بچکانہ سوچ ہے۔ ہر ایک یہی کہتا ہے۔ تمہیں تو اپنا ”ایڈونچر” یاد رکھنا چاہئے۔”
ان کا اشارہ کس طرف تھا وہ جانتا تھا وہ بہت دیر کچھ نہیں کہہ سکا۔ یہ بھی نہیں کہ وہ اس ایڈونچر کی وجہ سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔
”مجھے یاد ہے”۔ بہت دیر بعد اس نے مدھم آواز میں کہا۔
”میں آپ کے سوشل سرکل میں بہت پہلے ہی مس فٹ ہوچکا ہوں اور میں یہاں جگہ بنانے کی کوشش نہیں کروں گا۔ مجھے اس سوشل سرکل میں کوئی نیا تعلق یا رشتہ بھی قائم نہیں کرنا۔
مجھے پروا نہیں کہ لوگ، میرے بہن بھائی، میرا مذاق اڑائیں گے یا مجھ پر ہنسیں گے۔ میں اس سب کے لئے ذہنی طورپر تیار ہوں۔ جہاں تک سوال اس پروجیکٹ کا ہے۔ پاپا مجھے اسے شروع کرنے دیں۔ میرے پاس بہت پیسہ ہے۔ اس پروجیکٹ کو شروع کرنے کے بعد بھی مجھے فٹ پاتھ پر رہنا نہیں پڑے گا۔ کچھ لوگوں کو جسم کی بیماری ہوتی ہے، کچھ کو روح کی۔ جسم کی بیماری کے لئے لوگ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔ روح کی بیماری کے لئے لوگ وہی کرتے ہیں جو میں کررہا ہوں۔ جو میں کرنا چاہتا ہوں۔ میں اس پیسے سے سب کچھ خرید سکتا ہوں صرف سکون نہیں خرید سکتا۔ زندگی میں پہلی بار میں سکون حاصل کرنے کے لئے اس پیسے کو انویسٹ کررہا ہوں۔ ہوسکتا ہے مجھے سکون مل جائے۔” سکندر عثمان کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اس سے کیا کہیں۔
٭…٭…٭
واپس واشنگٹن پہنچ کر وہ ایک بار پھر پہلے کی طرح مصروف ہوگیا تھا مگر اس بار فرق یہ تھا کہ وہ مسلسل پاکستان میں فرقان اور ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ رابطے میں تھا۔ فرقان اسے اسکول کے بارے میں ہونے والی تفصیلات سے آگاہ کرتا رہتا تھا۔
یونیسیف میں اس طرح کاکام اس کی جاب کا حصہ تھا۔ اسے اس کام کے لئے بہت اچھا معاوضہ دیا جاتا تھا مگر پاکستان کے اس گاؤں میں اس طرح کے کام کا آغاز اور وہ بھی اپنے وسائل سے۔ چند سال پہلے کے سالار سکندر کو جاننے والے کبھی بھی اس بات پر یقین نہیں کرتے۔ خود اسے بھی یقین نہیں آتا تھا کہ وہ کبھی اس طرح کاکام کرنے کا سوچ سکتا تھا مگر یہ صرف اس پروجیکٹ کے لئے اپنے اکاؤنٹ سے پیسہ نکالتے ہوئے اسے اندازہ ہوا تھا کہ اس کے لئے یہ پروجیکٹ کم از کم مالی لحاظ سے مشکل نہیں تھا۔
پچھلے تین سال میں اس کے اخراجات میں بہت کمی آگئی تھی۔ بہت ساری وہ چیزیں اس کی زندگی سے نکل گئی تھیں جن پر وہ اندھا دھند پیسہ خرچ کرتا تھا۔ وہ اپنے بینک اکاؤنٹ میں جمع رقم جان کر حیران ہوگیا تھا۔ وہ ایسا شخص نہیں تھا جس سے پیسہ جمع کرنے کی توقع کی جاسکتی۔ ایم فل کے لئے اس کے پاس اسکالرشپ تھا اسے کم از کم اس کے لئے اپنے پاس سے کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اس دن اپنے اپارٹمنٹ میں چلتے پھرتے اس نے پہلی بار وہاں موجود تمام چیزوں کو غور سے دیکھا تھا۔ اس کے اپارٹمنٹ میں کہیں بھی کوئی بھی مہنگی چیز نہیں تھی بلکہ سامان بھی بہت محدود تھا۔ اس کا کچن بھی کھانے پینے کی چیزوں سے تقریباً خالی تھا۔ کافی، چائے، دودھ اور اسی طرح کی چند دوسری چیزیں۔ اس کا اپنے اپارٹمنٹ میں بہت کم وقت گزرتا تھا جو وقت گزرتا تھا وہ سونے میں گزرتا۔
یونیسیف میں اپنی جاب پر جاتے ہوئے بھی اس کے پاس پہلے سے موجود کپڑوں اور دوسری اشیاء کا اتنا انبار موجود تھا کہ وہ اس معاملے میں بھی لاپروائی برتتا رہا۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ اس نے آخری بار اس طرح کی کوئی چیز کب خریدی تھی۔ اپنے ساتھ کام کرنے والوں اور یونیورسٹی میں اپنے کچھ کلاس فیلوز کے علاوہ نیویارک میں کسی کو نہیں جانتا تھا یا پھر دانستہ طورپر اس نے خود کو ایک محدود سرکل میں رکھا تھا اور ان لوگوں کے ساتھ بھی اس کی دوستی بہت رسمی تھی۔
واحد چیز جس پر وہ رقم خرچ کرتا رہا تھا، وہ کتابیں تھیں۔ اس لائف اسٹائل کے ساتھ اگر اس کے اکاؤنٹ میں اتنی رقم جمع ہوگئی تھی تو یہ کوئی خلاف توقع بات نہیں تھی۔ آفس، یونیورسٹی، فلیٹ… اس کی زندگی کے معمولات میں چوتھی چیز کوئی نہیں تھی۔
٭…٭…٭
ایم فل کے دوران سالار نے یونیسیف چھوڑ کر یونیسکو جوائن کرلیا تھا۔
ایم فل کرنے کے بعد سالار کی پوسٹنگ پیرس میں ہوگئی۔ اس سے پہلے وہ ایک فلڈ آفس میں کام کررہا تھا مگر اب اسے یونیسکو کے ہیڈ کوارٹرز میں کام کرنے کا موقع مل رہا تھا۔ وہ گذشتہ سالوں میں وقتاً فوقتاً چھوٹے موٹے پراجیکٹس کے سلسلے میں پیرس جاتا رہا تھا مگر اس بار وہ پہلی دفعہ ایک لمبے عرصے کے لئے وہاں جارہا تھا۔ ایک آشنا دنیا سے ناآشنا دنیا میں، اس دنیا میں جہاں وہ زبان تک سے واقف نہیں تھا۔ نیویارک میں اس کے بہت سے دوست تھے، یہاں پر ایسا کوئی بھی نہیں تھا جسے وہ بہت اچھی طرح جانتا ہو۔
یونیسیف میں کئے جانے والے ان تھک کام کی طرح وہ یہاں آکر ایک بار پھر اسی طرح کام کرنے لگا تھا مگر اسلام آباد کے نواحی علاقے میں شروع کیا جانے والا وہ اسکول یہاں بھی اس کے ذہن سے محو نہیں ہوا تھا۔ بعض دفعہ اسے حیرت ہوتی کہ اپنی جاب میں تعلیم سے اتنا گہرا تعلق ہونے کے باوجود آخر اسے کبھی فرقان کی طرح وہ اسکول کھولنے کا خیال کیوں نہیں آیا۔ اگر اس اسکول کے بارے میں وہ کئی سال پہلے سوچ لیتا تو شاید آج یہ اسکول بہت مستحکم بنیادوں پر کھڑا ہوتا۔
”مجھے پاکستان سے زیادہ محبت نہیں ہے، نہ ہی اس کے لیے میں کوئی گہری انسیت رکھتا ہوں۔” اس نے شروع کی ملاقات میں ایک بار فرقان سے کہا تھا۔
”کیوں؟” فرقان نے پوچھا تھا۔
”کیوں کا جواب تو میں نہیں دے سکتا، بس پاکستان کے لیے کوئی خاص احساسات میرے دل میں نہیں ہیں۔” اس نے کندھے اچکا کر کہا تھا۔
”یہ جاننے کے باوجود کہ یہ تمہارا ملک ہے۔”
”ہاں، یہ جاننے کے باوجود۔”
”امریکہ کے لیے خاص احساسات ہیں، امریکہ سے محبت ہے؟ فرقان نے پوچھا۔
”نہیں اس کے لیے بھی میرے دل میں کچھ نہیں ہے۔” اس نے اطمینان سے کہا۔ فرقان اس بار حیرانی سے اسے دیکھا۔ ”دراصل میں وطنیت پر یقین نہیں رکھتا” اس نے فرقان کو حیران دیکھ کر وضاحت کی۔
”یا پھر مجھے ان جگہوں کے لیے محبت پیدا کرنے میں دقت محسوس ہوتی ہے، جہاں میں رہتا ہوں، میں کل کسی تیسرے ملک میں رہنے لگوں گا تو امریکہ کو بھی یاد نہیں کروں گا۔”
”تم بڑے عجیب آدمی ہو سالار!” فرقان نے بے اختیار کہا۔ ”کیا یہ ممکن ہے کہ آدمی اپنے ملک کے لیے یا اس جگہ کے لیے کوئی خاص احساسات ہی نہ رکھے جہاں وہ رہتا ہے۔”
فرقان کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا تھا مگر اس نے کچھ غلط نہیں کہا تھا۔ پیرس آنے کے بعد اسے نیویارک کی کوئی چیز یاد نہیں آئی تھی۔ نیوہیون سے نیویارک آتے ہوئے بھی اسے وہاں ایڈجسٹمنٹ کا کوئی مسئلہ نہیں ہوا تھا۔ وہ ہر پانی کا مچھلی تھا۔
٭…٭…٭
وہ ان دنوں یونائٹیڈ فیشنز کے زیر اہتمام ہونے والی کسی ریجنل کانفرنس کے سلسلے میں پاکستان آیا ہوا تھا۔ وہ پرل کانٹی نینٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ اس کو وہاں ایک بزنس مینجمنٹ کے ادارے میں کچھ لیکچرز دینے تھے۔ اور فرقان کے ساتھ اپنے اسکول کے سلسلے میں کچھ امور کو بھی طے کرنا تھا۔
وہ لاہور میں اس کے قیام کا تیسرا دن تھا۔ اس نے رات کا کھانا کچھ جلدی کھالیا اور اس کے بعد وہ کسی ضروری کام سے ہوٹل سے باہر نکل آیا۔ شام کے ساڑھے سات ہورہے تھے۔ مال روڈ پر جاتے ہوئے اچانک اس کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا۔ ڈرائیور گاڑی سے اتر کر ٹائر کو دیکھنے لگا۔ چند منٹوں کے بعد اس نے سالار کی کھڑکی کے پاس آکر کہا۔
“سر! گاڑی میں دوسرا ٹائر موجود نہیں ہے۔ میں آپ کے لئے کوئی ٹیکسی لاتا ہوں، آپ اس پر چلے جائیں۔” سالار نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔
”نہیں، میں خود ٹیکسی روک لیتا ہوں۔” وہ کہتا ہوا اتر گیا۔ کچھ دور ایک پارکنگ میں کچھ ٹیکسیاں نظر آرہی تھیں۔ سالار کا رخ اسی طرف تھا جب ایک کار نے یک دم اس کے پاس آکر بریک لگائی۔ گاڑی سامنے سے آئی تھی اور اس کے رکنے پر سالار نے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے اس میں بیٹھے شخص کو ایک نظر میں ہی پہچان لیا۔
وہ عاکف تھا۔ وہ اب گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ سے اتر رہا تھا۔ لاہور میں کچھ سال پہلے اس کی سرگرمیوں کا وہ ایک مرکزی کردار تھا۔ عاکف اور اکمل۔ وہ ان ہی دونوں کے ساتھ اپنا زیادہ وقت گزارا کرتا تھا اور اس سے سالار کی دوبارہ ملاقات کئی سالوں کے بعد ہو رہی تھی۔ وہ ان سب کو چھوڑ چکا تھا۔ پاکستان یا لاہور آنے پر بھی اس نے کبھی ان کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ان لوگوں نے پچھلے کئی سالوں میں باربار اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی مگر ان کی ان کوششوں کے باوجود سالار ان سے بچنے کی کوششوں میں کامیاب رہا تھا۔
اور اب اتنے سالوں کے بعد وہ یک دم اس طرح اچانک اس کے سامنے آگیا تھا۔ سالار کے اعصاب یک دم تن گئے۔ عاکف بڑے جوش وخروش کے عالم میں اس کی طرف بڑھا۔
”سالار! مجھے یقین نہیں آرہا ہے کہ یہ تم ہو… کہاں غائب تھے اتنے سالوں سے؟ تم تو گدھے کے سرسے سینگ کی طرح غائب ہوگئے تھے۔ کہاں تھے یار! اور اب یہاں کیا کررہے ہو۔ حلیہ ہی بدل لیا ہے، کہاں گئے وہ بال، لاہور میں کب آئے ہو، آنے کی اطلاع کیوں نہیں دی؟”
اس نے یکے دیگرے سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ اس نے سالار کے انداز میں جھلکنے والی سرد مہری پر غور نہیں کیا تھا۔ سالار کے جواب دینے سے پہلے ہی عاکف نے دوبارہ پوچھا۔
”یہاں مال پر کیا کررہے ہو؟”
”گاڑی خراب ہوگئی تھی، میں ٹیکسی کی طرف جارہا تھا۔” سالار نے کہا۔
”کہاں جارہے ہو، میں ڈراپ کردیتا ہوں۔” عاکف نے بے تکلفی سے کہا۔
”نہیں، میں چلاجاتا ہوں۔ ٹیکسی پاس ہی ہے۔” سالار نے تیزی سے کہا۔
عاکف نے اس کی بات سنی ان سنی کردی۔
”چلو اندر بیٹھو۔” اس نے بازو پکڑ کر کھینچ لیا۔ سالار سٹپٹایا لیکن اس کی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ اس کا موڈ اب بہت خراب ہونے لگا تھا۔
”تم تو اسٹیٹس پڑھنے چلے گئے تھے اور پھر مجھے پتا چلا کہ تم نے وہاں جاب کرلی ہے پھر اچانک پاکستان کیسے؟” عاکف نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے پوچھا۔” کیا چھٹیاں گزارنے آئے ہو؟”
”ہاں!” سالار نے مختصراً کہا، وہ اس طرح اس سے جان چھڑاسکتا تھا۔
”کیا کررہے ہو آج کل؟” عاکف نے گاڑی چلاتے ہوئے پوچھا۔
”یونائیڈ نیشنز کی ایک ایجنسی میں کام کررہا ہوں۔”
”یہاں لاہور میں کہاں ٹھہرے ہو؟”
”پی سی میں۔”
”ارے پی سی میں کیوں ٹھہرے ہو، میرے پاس آتے یا مجھے فون کرتے۔ کب آئے یہاں؟” عاکف نے کہا۔
”کل۔”
”بس تو پھر تم میرے ساتھ، میرے گھر رہوگے۔ ضرورت نہیں ہے ہوٹل میں رہنے کی۔”
”نہیں، میں کل صبح اسلام آباد واپس جارہا ہوں۔” سالار نے روانی سے جھوٹ بولا۔ وہ عاکف سے ہر قیمت پر جان چھڑالینا چاہتا تھا۔ اسے اس سے الجھن ہورہی تھی یا پھر شاید یہ اس کے ساتھ گزارا جانے والا ماضی تھا جو اسے تکلیف میں مبتلا کررہا تھا۔




Loading

Read Previous

ساتواں سکّہ — فیصل سعید خان

Read Next

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!