پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۶

”کوئی پریشانی نہیں ہے۔”
”تو پھر…” سالار نے فرقان کی بات کاٹ دی۔
”تم جانتے ہو مجھے میگرین ہے۔ کبھی کبھار اس طرح ہوجاتا ہے مجھے۔”
”میں ڈاکٹر ہوں سالار!” فرقان نے سنجیدگی سے کہا۔” میگرین کو کوئی مجھ سے زیادہ بہتر نہیں جانتا۔ یہ سب کچھ صرف میگرین کی وجہ سے نہیں تھا۔”
”تو تم بتادو اور کیا وجہ ہوسکتی ہے؟” سالار نے الٹا اس سے سوال کیا۔
”کسی لڑکی کا پرابلم ہے؟” سالار پلکیں جھپک نہیں سکا۔ فرقان کہاں جاپہنچا تھا۔
”ہاں…” وہ نہیں جانتا اس نے”نہیں” کیوں نہیں کہا تھا۔
”کسی میں انوالو ہو تم؟” فرقان کو اپنے اندازے کے صحیح ہونے پر جیسے یقین نہیں آیا۔
”ہاں۔۔۔۔”
فرقان بہت دیر چپ بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔ یوں جیسے اپنی بے یقینی پر قابو پانے کی کوشش کررہا ہو۔
”کس کے ساتھ انوالو ہو؟”
”تم اسے نہیں جانتے۔”
”شادی نہیں ہوسکی تمہاری اس کے ساتھ؟” سالار اسے دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔
”ہوگئی تھی۔” اس کے لہجے میں آنچ تھی۔
”شادی ہوگئی تھی؟” فرقان کو پھر یقین نہیں آیا۔
”ہاں۔۔۔۔”
”پھر… طلاق ہوگئی؟” اس نے پوچھا۔
”نہیں۔”
”تو…؟” سالار کے پاس آگے بتانے کے لئے کچھ نہیں تھا۔
”تو بس۔۔۔۔”
”بس کیا…؟” سالار اس کے چہرے سے نظریں ہٹاکر اپنے بائیں ہاتھ کی انگلی دائیں ہاتھ میں موجود دل کی لکیر پر پھیرتا رہا۔
”کیا نام ہے اس کا؟” فرقان نے مدھم آواز میں اس سے پوچھا۔ وہ ایک بارپھر اسی طرح لکیر کو چھوتے ہوئے بہت دیر خاموش رہا۔ بہت دیر… پھر اس نے کہا۔
”امامہ ہاشم…” فرقان نے بے اختیار سانس لیا۔ اسے اب سمجھ میں آیا کہ وہ اس کی چھوٹی بیٹی کو ڈھیروں کے حساب سے تحفے تحائف کیوں دیا کرتا تھا۔ پچھلے کچھ عرصے میں جب سے سالار سے اس کی شناسائی ہوئی تھی اور سالار کا اس کے گھر آنا جانا شروع ہوا تھا سالار اور امامہ کی بہت دوستی ہوگئی تھی۔ وہ پاکستان سے جانے کے بعد بھی اسے وہاں سے کچھ نہ کچھ بھجواتا رہتا تھا مگر فرقان کو اکثر صرف ایک بات پر حیرانی ہوتی تھی۔ وہ کبھی امامہ کا نام نہیں لیتا تھا اور خود اس سے بات کرتا تو اسے نام کے بغیر مخاطب کرتا رہتا۔ فرقان کو چند ایک بار یہ بات محسوس ہوئی تھی مگر اس نے اسے نظر انداز کردیا تھا لیکن اب امامہ ہاشم کا نام سن کر وہ جان گیا تھا کہ وہ کیوں اس کا نام نہیں لیتا تھا۔




وہ اب رک رک کر بے ربط جملوں میں، مدھم آواز میں اسے اپنے اور امامہ کے بارے میں بتارہا تھا۔ فرقان دم سادھے سن رہا تھا۔ جب وہ سب کچھ بتانے کے بعد خاموش ہوا تو دیرتک فرقان بھی کچھ نہیں بول سکا۔ اس کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہے۔ تسلی دے یا پھر کچھ اور کہے… کوئی نصیحت۔
”تم اسے بھول جاؤ۔” اس نے بالآخر کہا۔” سوچ لوکہ وہ جہاں بھی ہے خوش اور محفوظ ہے۔ ضروری نہیں اس کے ساتھ کوئی سانحہ ہی ہوا ہو۔ ہوسکتا ہے وہ بالکل محفوظ ہو۔” فرقان کہہ رہا تھا۔”تم نے اس کی مدد کی تھی، جس حد تک تم کرسکتے تھے۔ پچھتاووں سے اپنے آپ کو نکال لو۔ اللہ مدد کرتا ہے۔ تمہارے بعد ہوسکتا ہے اسے تم سے بہتر کوئی اور مل گیا ہو۔ تم کیوں اس طرح کے وہم لئے بیٹھے ہو۔ میں نہیں سمجھتا کہ جلال سے اس کی شادی نہ ہونے کی وجہ تم تھے، جو کچھ تم نے مجھے جلال کے بارے میں بتایا ہے میرا اندازہ تو یہی ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں امامہ سے شادی نہ کرتا، چاہے تم بیچ میں آتے نہ آتے۔ کوشش کرتے نہ کرتے۔ جہاں تک امامہ کو طلاق نہ دینے کا سوال ہے اسے چاہئے تم سے دوبارہ رابطہ کرتی۔ وہ ایسا کرتی تو تم یقینا اسے طلاق دے دیتے۔ اگر اس معاملے میں تم سے کوئی غلطی ہوئی بھی ہے تو اللہ تمہیں معاف کردے گا کیونکہ تم پچھتارہے ہو۔ تم اللہ سے معافی بھی مانگتے آرہے ہو۔ یہ کافی ہے مگر اس طرح ڈپریشن کا شکار ہونے سے کیا ہوگا۔ تم اپنے آپ کو اس کیفیت سے نکالنے کی کوشش کرو۔”
وہ بڑی دلجمعی سے اسے سمجھا رہا تھا۔ سالار کی خاموشی سے اسے امید بندھی کہ شاید اس کی کوشش رنگ لارہی تھی مگر ایک لمبی تقریر کے بعد جب وہ خاموش ہوا تو سالار اٹھ کر اپنا بریف کیس کھولنے لگا۔
”کیا کررہے ہو؟” فرقان نے پوچھا۔
”میری فلائٹ کا ٹائم ہورہا ہے۔” وہ اب اپنے بریف کیس میں سے کچھ پیپرز نکال رہا تھا۔ فرقان کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اس سے کیا کہے۔
٭…٭…٭
وہ پچھلے کئی سالوں میں کئی بار پاکستان آتا جاتا رہا تھا اسے کبھی واپس جاتے ہوئے اس قسم کی کیفیات کا شکار نہیں ہونا پڑا تھا جس قسم کی کیفیات کا شکار وہ اس بار ہوا تھا۔ جہاز کے ٹیک آف کے وقت ایک عجیب سا خالی پن تھا، جو اس نے اپنے اندر اترتے محسوس کیا تھا۔ اس نے جہاز کی کھڑکی سے باہر جھانکا۔ بہت دور تک پھیلے ہوئے اس خطے میں کہیں امامہ ہاشم نام کی ایک لڑکی بھی تھی۔ وہ وہاں رہتا تو کبھی کہیں کسی وقت کسی روپ میں وہ اسے نظرآجاتی۔ اسے مل جاتی۔ یا کوئی ایسا شخص اسے مل جاتا جو اس سے واقف ہوتا لیکن وہ اب جہاں جارہا تھا اس زمین پر امامہ ہاشم کہیں نہیں تھی۔ کوئی اتفاق بھی ان دونوں کو آمنے سامنے نہیں لاسکتا تھا۔ وہ ایک بار پھر ایک لمبے عرصے کے لئے”امکان” کو چھوڑکر جارہا تھا۔ وہ زندگی میں کتنی بار”امکان” کو چھوڑ کر جاتا رہے گا۔
دس منٹ کے بعد پانی سے ٹرینکولائزرز کو نگلتے ہوئے اسے احساس ہورہا تھا کہ وہ زندگی میں کہیں بھی نہیں کھڑا تھا۔ وہ زندگی میں کبھی بھی نہیں کھڑا ہوپائے گا۔ اس کے پیروں کے نیچے زمین کبھی نہیں آسکے گی۔
ساتویں منزل پر اپنے اپارٹمنٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے بھی اسے احساس ہورہا تھا کہ وہ وہاں جانا نہیں چاہتا تھا وہ کہیں اورجانا چاہتا تھا۔ کہاں…؟
اس نے اپارٹمنٹ کے دروازے کو لاک کیا۔ لاؤنج میں پڑے ٹی وی کوآن کیا۔ سی این این پر نیوز بلیٹن آرہا تھا۔ اس نے اپنے جوتے اور جیکٹ اتار کر دور پھینک دئیے۔ پھر ریموٹ لے کر صوفے پر لیٹ گیا۔ خالی الذہنی کے عالم میں وہ چینل بدلتا رہا۔ ایک چینل سے گونجتی اردو آواز نے اسے روک لیا۔ ایک غیر معروف سا گلوکار کوئی غزل گا رہا تھا۔
میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں لاکھ قریں سہی
اس نے ریموٹ اپنے سینے پر رکھ دیا۔ گلوکار کی آواز بہت خوب صورت تھی یا پھر شاید وہ اس کے جذبات کو الفاظ دے رہا تھا۔
ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح وہ کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے دار پر جو نہیں کوئی، تو ہمیں سہی
شاعری، کلاسیکل میوزک، پرانی فلمیں، انسٹرومینٹل میوزک اسے ان تمام چیزوں کیWorthکا اندازہ پچھلے کچھ سالوں میں ہی ہونا شروع ہوا تھا۔ پچھلے کچھ سالوں نے اس کی موسیقی کے انتخاب کو بہت اعلیٰ کردیا تھا اور اردو غزلیں سننے کا تو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔
سرطورہو، سرحشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی
اسے ایک بارپھر امامہ یاد آئی۔ اسے ہمیشہ وہی یاد آتی تھی۔ پہلے وہ صرف تنہائی میں یاد آتی تھی پھر وہ ہجوم میں بھی نظر آنے لگی… اور وہ۔ وہ محبت کو پچھتاوا سمجھتا رہا۔
نہ ہو ان پہ جو مرا بس نہیں کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں ان ہی کا تھا، میں ان ہی کا ہوں، وہ میرے نہیں تو نہیں سہی
سالاریک دم صوفے سے اٹھ کر کھڑکیوں کی طرف چلا گیا۔ ساتویں منزل پر کھڑے وہ رات کو روشنیوں کی اوٹ میں دیکھ سکتا تھا۔ عجب وحشت تھی جو باہر تھی۔ عجب عالم تھا جو اندر تھا۔
جو ہو فیصلہ وہ سنائیے اسے حشر پر نہ اٹھائیے
جو کریں گے آپ ستم وہاں، وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی
وہاں کھڑے کھڑکیوں کے شیشوں کے پار اندھیرے میں ٹمٹماتی روشنیوں کو دیکھتے ہوئے اس نے اپنے اندر اترنے کی کوشش کی۔
”میں اور کبھی کسی لڑکی سے محبت کروں۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔”
بہت سال پہلے اکثر کہا جانے والا جملہ اسے یاد آیا۔ باہر تاریکی کچھ اور بڑھی۔ اندر آوازوں کی بازگشت… اس نے شکست خوردہ انداز میں سرجھکایا پھر چند لمحوں کے بعد دوبارہ سر اٹھاکر کھڑکی سے باہر دیکھا۔ انسان کا اختیار کہاں سے شروع کہاں پر ختم ہوتا ہے؟ ڈپریشن کا ایک اور دورہ، باہر نظر آنے والی ٹمٹماتی روشنیاں بھی اب بجھنے لگی تھیں۔
اسے دیکھنے کی جو لو لگی تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی
سالار سکندر نے مڑکر اس کی اسکرین کو دیکھا، گلوکار لہک لہک کر بار بار آخری شعری دہرا رہا تھا۔ کسی معمول کی طرح چلتا ہوا وہ صوفے پر آکر بیٹھ گیا۔ سینٹر ٹیبل پر رکھے ہوئے بریف کیس کو کھول کر اس نے اندر سے لیپ ٹاپ نکال لیا۔
اسے دیکھنے کی جو لو لگی تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی
گلوکار مقطع دہرارہا تھا۔ سالار کی انگلیاں لیپ ٹاپ پر برق رفتاری سے حرکت کرتے ہوئے استعفیٰ لکھنے میں مصروف تھیں۔ کمرے میں موسیقی کی آواز اب ڈوبتی جارہی تھی۔ استعفیٰ کی ہر لائن اس کے وجود پر چھائے جمود کو ختم کرتی جارہی تھی وہ جیسے کسی جادو کے حصار سے باہر آرہا تھا۔ کوئی توڑ ہورہا تھا۔
٭…٭…٭
”اپنے کیرئیر کی اس اسٹیج پر اس طرح کا احمقانہ فیصلہ صرف تم ہی کرسکتے تھے۔”
وہ فون پر سکندر عثمان کو خاموشی سے سن رہا تھا۔
”آخر اتنی اچھی پوسٹ کو کیوں چھوڑ رہے ہو اور وہ بھی اس طرح اچانک اور چلو اگر چھوڑنے کا فیصلہ کرہی لیا ہے تو پھر آکر اپنا بزنس کرو۔ بینک میں جانے کی کیا تک بنتی ہے۔” وہ اس کے فیصلے پر بری طرح تنقید کررہے تھے۔
”میں اب پاکستان میں کام کرنا چاہتا ہو۔ بس اسی لئے جاب چھوڑدی۔بزنس میں نہیں کرسکتا اور بینک کی آفر میرے پاس بہت عرصے سے تھی۔ وہ مجھے پاکستان پوسٹ کرنے پر تیار ہیں، اس لئے میں اسے قبول کررہا ہوں۔” اس نے تمام سوالوں کا اکٹھا جواب دیا۔
”پھر بینک کو بھی جوائن مت کرو، میرے ساتھ آکر کام کرو۔”
”میں نہیں کرسکتا پاپا! مجھے مجبور نہ کریں۔”
”تو پھر وہیں پر رہو۔ پاکستان آنے کی کیا تک بنتی ہے؟”
”میں یہاں پر رہ نہیں پارہا۔”
”حب الوطنی کا کوئی دورہ پڑا ہے تمہیں؟”
”نہیں…؟”
”تو پھر…؟”
”میں آپ لوگوں کے پاس رہنا چاہتا ہوں۔” اس نے بات بدلی۔
”خیر یہ فیصلہ کم از کم ہماری وجہ سے تو نہیں کیا گیا۔” سکندر عثمان کا لہجہ نرم ہوا۔
سالار خاموش رہا۔ سکندر عثمان بھی کچھ دیر خاموشی رہے۔
”فیصلہ تو تم کرہی چکے ہو۔ میں اب اس کے بارے میں تو کچھ نہیں کرسکتا۔ ٹھیک ہے آنا چاہتے ہو آجاؤ۔ کچھ عرصہ بینک میں کام کرکے بھی دیکھ لو لیکن میری خواہش یہی ہے کہ تم میرے ساتھ، میرے بزنس کو دیکھو۔” سکندر عثمان نے جیسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
”تمہارا تو پی ایچ ڈی کا بھی ارادہ تھا۔ اس کا کیا ہوا؟” سکندر عثمان کو بات ختم کرتے کرتے پھر یاد آیا۔
”فی الحال میں مزید اسٹڈیز نہیں کرنا چاہ رہا۔ ہوسکتا ہے کچھ سالوں کے بعد پی ایچ ڈی کے لئے دوبارہ باہر چلا جاؤں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پی ایچ ڈی کروں ہی نہ۔” سالار نے مدھم آواز میں کہا۔
”تم اس اسکول کی وجہ سے آرہے ہو؟” سکندر عثمان نے اچانک کہا۔” شاید…” سالار نے تردید نہیں کی۔ وہ اگر اسکول کو اس کی واپسی کی وجہ سمجھ رہے تھے تو بھی کوئی حرج نہیں تھا۔
”ایک بارپھر سوچ لو سالار…!” سکندر کہے بغیر نہیں رہ سکے۔
”بہت کم لوگوں کو کیرئیر میں اس طرح کا اسٹارٹ ملتا ہے جس طرح کا تمہیں ملا ہے۔ تم سن رہے ہو؟”
”جی…!” اس نے صرف ایک لفظ کہا۔
”باقی تم میچور ہو، اپنے فیصلے خود کرسکتے ہو۔” انہوں نے ایک طویل کال کے اختتام پر فون بند کرنے سے پہلے کہا۔
سالار نے فون رکھنے کے بعد اپارٹمنٹ کی دیواروں پر ایک نظر دوڑائی۔ اٹھارہ دن کے بعد اسے یہ اپارٹمنٹ ہمیشہ کے لئے چھوڑدینا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

ساتواں سکّہ — فیصل سعید خان

Read Next

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!