پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۶

جلال انصر سے ملاقات کے بعد وہ اپنے احساسات کو کوئی نام دینے میں ناکام ہورہا تھا۔ کیا اسے اپنے پچھتاوے سے آزاد ہوجانا چاہئے؟ کیونکہ جلال نے یہ کہا تھا کہ سالار بیچ میں نہ آتا تو بھی، وہ امامہ سے شادی نہیں کرتا اور جلال انصر سے بات کرنے کے بعد اسے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ امامہ کے لئے اس کے احساسات میں کوئی گہرائی نہیں تھی مگر یہ شاید اس کے لئے بہت سے نئے سوال پیدا کررہا تھا۔ وہ جلال سے آج ملا تھا، ڈیڑھ سال پہلے اس نے جلال کے ساتھ اس طرح بات کی ہوتی تو شاید اس پر ہونے والا اثر مختلف ہوتا۔ تب امامہ کے لئے اس کے احساسات کا پیمانہ مختلف ہوتا اور شاید ڈیڑھ سال پہلے وہ امامہ کے بارے میں اس بے حسی کا مظاہرہ نہ کرتا جس کا مظاہرہ اس نے آج کیا تھا وہ ایک ذہنی رو میں اپنے کندھوں سے بوجھ ہٹا ہوا محسوس کرتا اور اگلی ذہنی رواسے پھر الجھن کا شکار کردیتی۔
٭…٭…٭
ایم بی اے کا دوسرا سال بہت پرسکون گزرا تھا۔ پڑھائی کے علاوہ اس کی زندگی میں اور کوئی سرگرمی نہیں رہی تھی۔ وہ گیمز پر یا صرف ڈسکشنز میں ہی اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ گفتگو کرتا یا پھر گروپ پروجیکٹس کے سلسلے میں ان کے ساتھ وقت گزارتا۔ باقی کا سارا وقت وہ لائبریری میں گزار دیتا۔ ویک اینڈپر اس کی واحد سرگرمی اسلامک سینٹر جانا تھا جہاں وہ ایک عرب سے قرآن پاک تلاوت کرنا سیکھا کرتا تھا پھر وہ قرآن پاک کے ان اسباق کو دہرایا کرتا پھر اسی عرب سے اس نے عربی زبان سیکھنا شروع کردی۔
خالد عبدالرحمان نامی وہ عرب بنیادی طورپر ایک میڈیکل ٹیکنیشن تھا اور ایک ہاسپٹل سے وابستہ تھا۔ وہ ویک اینڈ پر وہاں آکر عربی زبان اور قرآن پاک کی کلاسز لیا کرتا تھا۔ وہ اس کام کا کوئی معاوضہ نہیں لیا کرتا تھا بلکہ اسلامک سینٹر کی لائبریری میں موجود کتابوں کی ایک بڑی تعداد بھی اسی کے دوستوں اور رشتہ داروں کی طرف سے ہی عطیہ کی گئی تھی۔
قرآن پاک کی ان ہی کلاسز کے دوران ایک دن اس نے سالار سے کہا۔
”تم قرآن پاک حفظ کیوں نہیں کرتے؟” سالار اس کے اس تجویز نما سوال پر کچھ دیر حیرانی سے اس کا منہ دیکھنے لگا۔
”میں…میں کیسے کرسکتا ہوں؟”
”کیوں…تم کیوں نہیں کرسکتے؟” خالد نے جواباً اس سے پوچھا۔
”یہ بہت مشکل ہے اور پھر میرے جیسا آدمی، نہیں میں نہیں کرسکتا۔” سالار نے چند لمحوں کے بعد کہا۔
”تمہارا ذہن بہت اچھا ہے بلکہ میں اگر یہ کہوں کہ میں نے اپنی آج تک کی زندگی میں تم سے زیادہ ذہین آدمی نہیں دیکھا جتنی تیز رفتاری سے تم نے اتنے مختصر عرصہ میں اتنی چھوٹی بڑی سورتیں یاد کی ہیں کوئی اور نہیں کرسکا اور جتنی تیز رفتاری سے تم عربی سیکھ رہے ہو میں اس پر بھی حیران ہوں جب ذہن اس قدر زرخیز ہو اور دنیا کی ہر چیز سیکھ لینے اور یاد رکھنے کی خواہش ہو تو قرآن پاک کیوں نہیں۔ تمہارے ذہن پر اللہ کا بھی حق ہے۔” خالد نے کہا۔
”آپ میری بات نہیں سمجھے۔ مجھے سیکھنے پر کوئی اعتراض نہیں مگر یہ بہت مشکل ہے۔ میں اس عمر میں یہ نہیں سیکھ سکتا۔” سالار نے وضاحت کی۔
”جب کہ میرا خیال ہے کہ تمہیں قرآن پاک حفظ کرنے میں بہت آسانی ہوگی۔ تم ایک بار اسے حفظ کرنا شروع کرو، میں کسی اور کے بارے میں تو یہ دعویٰ نہ کرتا مگر تمہارے بارے میں، میں دعوے سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ تم نہ صرف بہت آسانی سے اسے حفظ کرلوگے بلکہ بہت کم عرصے میں…”
سالار نے اس دن اس موضوع کے بارے میں مزید کوئی بات نہیں کی۔
مگر اس رات اپنے اپارٹمنٹ پر واپس آنے کے بعد وہ خالد عبدالرحمان کی باتوں کے بارے میں ہی سوچتا رہا۔ اس کا خیال تھا خالد عبدالرحمان دوبارہ اس کے بارے میں اس سے بات نہیں کرے گا۔ مگر اگلے ہفتے خالد عبدالرحمان نے ایک بارپھر اس سے یہی سوال کیا۔
سالار بہت دیر چپ چاپ اسے دیکھتا رہا پھر اس نے مدھم آواز میں خالد سے کہا۔
”مجھے خوف آتا ہے۔”
”کس چیز سے؟”
”قرآن پاک حفظ کرنے سے؟” خالد نے قدرے حیرانی سے پوچھا۔
سالار نے اثبات میں سرہلادیا۔
”کیوں…؟” وہ بہت دیر خاموش رہا پھر کارپٹ پر اپنی انگلی سے لکیریں کھینچتے اور انہیں دیکھتے ہوئے اس نے خالد سے کہا۔




”میں بہت گناہ کرچکا ہوں، اتنے گناہ کہ مجھے انہیں گننا بھی مشکل ہوجائے گا۔ صغیرہ، کبیرہ ہر گناہ جو انسان سوچ سکتا ہے یا کرسکتا ہے۔ میں اس کتاب کو اپنے سینے یا ذہن میں محفوظ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ میرا سینہ اور ذہن پاک تو نہیں ہے۔ میرے جیسے لوگ اسے…اسے حفظ کرنے کے لائق نہیں ہوتے۔ میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔” اس کی آواز بھرّا گئی۔
خالد کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے کہا۔” ابھی بھی گناہ کرتے ہو؟” سالار نے نفی میں سرہلادیا۔
”تو پھر کس چیز کا خوف ہے۔ تم اگر قرآنِ پاک کی تلاوت کرسکتے ہو، اپنے سارے گناہوں کے باوجود تو پھر اسے حفظ بھی کرسکتے ہو اور پھر تم نے گناہ کئے مگر تم اب گناہ نہیں کرتے۔ یہ کافی ہے۔ اگر اللہ یہ نہیں چاہے گا کہ تم اسے حفظ کرو تو تم اسے حفظ نہیں کرسکوگے چاہے تم لاکھ کوشش کرلو اور اگرتم خوش قسمت ہوئے تو تم اسے حفظ کرلوگے۔” خالد نے چٹکی بجاتے ہوئے جیسے یہ مسئلہ حل کردیا تھا۔
سالار اس رات جاگتا رہا، آدھی رات کے بعد اس نے پہلا پارہ کھول کر کانپتے ہاتھوں اور زبان کے ساتھ حفظ کرنا شروع کیا۔ اسے حفظ کرتے ہوئے اسے احساس ہونے لگا کہ خالد عبدالرحمان ٹھیک کہتا تھا۔ اسے قرآن پاک کا بہت سا حصہ پہلے ہی یاد تھا۔ خوف کی وہ کیفیت جو اس نے قرآن پاک حفظ کرنا شروع کرتے ہوئے محسوس کی تھی وہ زیادہ دیر نہیں رہی تھی۔ اس کے دل کو کہیں سے استقامت مل رہی تھی۔ کہاں سے؟ کوئی اس کی زبان کی لڑکھڑاہٹ دور کررہا تھا، کون…؟ کوئی اس کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ ختم کررہا تھا کیوں؟”
فجرکی نماز سے کچھ دیر پہلے وہ اس وقت بے تحاشا رویا جب اس نے پچھلے پانچ گھنٹے میں یاد کئے ہوئے سبق کو پہلی بار مکمل طورپر دہرایا۔ وہ کہیں نہیں اٹکا تھا۔ وہ کچھ نہیں بھولا تھا۔ زیرزبر کی کوئی غلطی نہیں، آخری چندجملوں پر اس کی زبان پہلی بار کپکپانے لگی تھی۔ آخری چند جملے ادا کرتے ہوئے اسے دقت ہوئی تھی کیونکہ وہ اس وقت آنسوؤں سے رورہا تھا۔
”اگر اللہ یہ چاہے گا اور تم خوش قسمت ہوگے تو تم قرآن پاک حفظ کرلوگے ورنہ کچھ بھی کرلو، نہیں کرپاؤگے۔” اسے خالد عبدالرحمان کی باد یاد آرہی تھی۔
فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد اس نے کیسٹ پر اپنی زندگی کے اس پہلے سبق کو ریکارڈ کیا تھا۔ ایک بارپھر اسے کسی وقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ اس کی آواز میں پہلے سے زیادہ روانی اور لہجے میں پہلے سے زیادہ فصاحت تھی۔
اس کی زندگی میں ایک نئی چیز شامل ہوگئی تھی۔ اس پر ایک اور احسان کردیا گیا تھا مگر اس کا ڈپریشن ختم نہیں ہوا تھا۔ وہ رات کو سلپینگ پلز کے بغیر نیند کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا اور سلپینگ پلز لینے کے باوجود وہ کبھی اپنے کمرے کی لائٹس آف نہیں کرسکا تھا۔ وہ تاریکی سے خوف کھاتا تھا۔
یہ پھر خالد عبدالرحمن ہی تھا جس نے ایک دن اس سے کہا تھا۔ وہ اسے قرآن پاک کا سبق زبانی سنارہا تھا اور اسے احساس ہورہا تھا کہ خالد عبدالرحمان مسلسل اس کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھا جب اس نے اپنا سبق ختم کیا اور پانی کا گلاس اٹھاکر اپنے ہونٹوں سے لگایا تو اس نے خالد کو کہتے سنا۔
”میں نے کل رات تمہیں خواب میں حج کرتے دیکھا ہے۔”
سالار منہ میں لے جانے والا پانی حلق سے اتار نہیں سکا۔ گلاس نیچے رکھتے ہوئے خالد کو دیکھنے لگا۔ ”اس سال تمہارا ایم بی اے ہوجائے گا۔ اگلے سال تم حج کرلو۔”
خالد کا لہجہ بہت رسمی تھا۔ سالار نے منہ میں موجود پانی غیر محسوس انداز میں حلق سے نیچے اتار لیا۔ وہ اس دن اس سے کوئی سوال جواب نہیں کرسکا تھا۔ اس کے پاس کوئی سوال تھا ہی نہیں۔
ایم بی اے کے فائنل سمسٹر سے دو ہفتے پہلے اس نے قرآن پاک پہلی بار حفظ کرلیا تھا۔ فائنل سمسٹر کے چار ہفتے کے بعد ساڑھے تیئس سال کی عمر میں اسنے اپنی زندگی کا پہلا حج کیا تھا۔ وہاں جاتے ہوئے وہاں سے آتے ہوئے اس کے دل ودماغ میں کچھ بھی نہیں تھا۔ کوئی تکبر، کوئی تفخر، کوئی رشک کچھ بھی نہیں۔ اس کے ساتھ پاکستانی کیمپ میں ساتھ جانے والے شاید وہ لوگ ہوں گے جو خوش قسمت ہوں گے۔ انہیں ان کی نیکیوں کے عوض وہاں بلایا گیا تھا۔ وہ اپنے نامہء اعمال سے واقف تھا۔ اسے صرف صفائی اور وضاحتوں کے لئے بلایا گیا تھا۔ وہ قرآن پاک حفظ نہ کررہا ہوتا تو حج کرنے کا سوچتا بھی نہیں، جو شخص حرم شریف سے دور اللہ کا سامنا کرنے کی ہمت نہ رکھتا ہو اس سے یہ توقع، رکھنا کہ وہ کعبہ کے سامنے پہنچ کر اللہ کا سامنا کرلے گا وہ ہر جگہ جانے کو تیار ہوجاتا، مگر خانہ کعبہ جانے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔
مگر خالد عبدالرحمان کے ایک بار کہنے پر اس نے جیسے گھٹنے ٹیکتے ہوئے حج پر جانے کے لئے پیپرز جمع کروادئیے تھے۔
لوگوں کو حج پر جانے کا موقع تب ملتا تھا جب ان کے پاس صرف گناہ نہیں ہوتے۔ نیکیوں کا بھی انبار ہوتا ہے۔ سالار سکندر کو یہ موقع تب ملا تھا جب اس کے پاس گناہوں کے علاوہ ابھی کچھ بھی نہیں تھا۔
”ہاں ٹھیک ہے، اگر میں گناہ کرنے سے خوف نہیں کھاتا رہا تو پھر اب مجھے اللہ کے سامنے جانے اور معذرت کرنے سے بھی خوف نہیں کھانا چاہئے۔ صرف یہی ہے ناکہ میں وہاں سر نہیں اٹھاسکوں گا۔ نظریں اوپر نہیں کرسکوں گا۔ منہ سے معافی کے علاوہ اور کوئی لفظ نہیں نکال سکوں گا تو ٹھیک ہے مجھے یہ سزا بھی ملنی چاہئے۔ میں تو اس سے زیادہ شرمندگی اور بے عزتی کا مستحق ہوں۔ ہر بار حج پر کوئی نہ کوئی شخص ایسا آتا ہوگا، جس کے پاس گناہوں کے علاوہ اور کچھ ہوگا ہی نہیں۔ اس بار وہ شخص میں سہی، سالار سکندر ہی سہی۔” اس نے سوچا تھا۔
٭…٭…٭
گناہ کا بوجھ کیا ہوتا ہے اور آدمی اپنے گناہ کے بوجھ کو کس طرح قیامت کے دن اپنی پشت سے اتار پھینکنا چاہے گا کس طرح اس سے دور بھاگنا چاہے گا کس طرح اسے دوسرے کے کندھے پر ڈال دینا چاہے گا۔ یہ اس کی سمجھ میں حرم شریف میں پہنچ کر ہی آیا تھا۔ وہاں کھڑے ہوکر وہ اپنے پاس موجود اور آنے والی ساری زندگی کی دولت کے عوض بھی کسی کو وہ گناہ بیچنا چاہتا تو کوئی یہ تجارت نہ کرتا۔ کاش آدمی کسی مال کے عوض اپنے گناہ بیچ سکتا۔ کسی اجرت کے طورپر دوسروں کی نیکیاں مانگنے کا حق رکھتا۔
لاکھوں لوگوں کے اس ہجوم میں دو سفید چادریں اوڑھے کون جانتا تھا سالار سکندر کون تھا؟ اس کا آئی کیولیول کیا تھا، کسے پروا تھی۔ اس کے پاس کون سی اور کہاں کی ڈگری تھی، کسے ہوش تھا۔ اس نے زندگی کے میدان میں کتنے تعلیمی ریکارڈ توڑے اور بنائے تھے، کسے خبر تھی وہ اپنے ذہن سے کون سے میدان تسخیر کرنے والا تھا، کون رشک کرنے والا تھا۔
وہ وہاں اس ہجوم میں ٹھوکر کھاکر گرتا۔ بھگدڑ میں روندا جاتا۔ اس کے اوپر سے گزرنے والی خلقت میں سے کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ انہوں نے کیسے دماغ کو کھودیا تھا۔ کس آئی کیولیول کے نایاب آدمی کو کس طرح ختم کردیا تھا۔
اسے دنیا میں اپنی اوقات، اپنی اہمیت کا پتا چل گیا تھا۔ اگر کچھ مغالطہ رہ بھی گیا تھا تو اب ختم ہوگیا تھا۔ اگر کچھ شبہ باقی تھا تو اب دور ہوگیا تھا۔
فخر، تکبر، رشک، انا، خودپسندی، خود ستائشی کے ہر بچے ہوئے ٹکڑے کو نچوڑ کر اس کے اندر سے پھینک دیا گیا تھا۔ وہ ان ہی آلائشوں کو دور کروانے کے لئے وہاں آیا تھا۔
٭…٭…٭
ایم بی اے میں اس کی شاندار کامیابی کسی کے لئے بھی حیران کن نہیں تھی۔ اس کے ڈیپارٹمنٹ میں ہر ایک کو پہلے سے ہی اس کا اندازہ تھا۔ اس کے کلاس فیلوز کے پروجیکٹس اور اسائنمنٹس میں اتنا فرق ہوتا تھا کہ اس کے پروفیسرز کو یہ ماننے میں کوئی عار نہیں تھا۔ وہ مقابلے کی اس دوڑ میں دس گز آگے دوڑ رہا تھا اور ایم بی اے کے دوسرے سال میں اس نے اس فاصلے کو اور بڑھادیا تھا۔
اس نے انٹرن شپ اقوامِ متحدہ کی ایک ایجنسی میں کی تھی اور اس کا ایم بی اے مکمل ہونے سے پہلے ہی اس ایجنسی کے علاوہ اس کے پاس سات مختلف ملٹی نیشنل کمپنیز کی طرف سے آفرز موجود تھیں۔
”تم اب آگے کیا کرنا چاہتے ہو؟” اس کے رزلٹ کے متعلق جاننے کے بعد سکندر عثمان نے اپنے پاس بلاکر پوچھا تھا۔
”میں واپس امریکہ جارہا ہوں۔ میں یونائیٹڈ نیشنز کے ساتھ ہی کام کرنا چاہتا ہوں۔”
”لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم اپنا بزنس شروع کرویا میرے بزنس میں شامل ہوجاؤ۔” سکندر عثمان نے اس سے کہا۔
”پاپا! میں بزنس نہیں کرسکتا۔ بزنس والا ٹمپرامنٹ نہیں ہے میرا۔ میں جاب کرنا چاہتا ہوں اور میں پاکستان میں رہنا بھی نہیں چاہتا۔” سکندر عثمان حیران ہوئے۔”تم نے پہلے کبھی ذکر نہیں کیا کہ تم پاکستان میں رہنا نہیں چاہتے۔ تم مستقل طورپر امریکہ میں سیٹل ہونا چاہتے ہو؟”
”پہلے میں نے امریکہ میں سیٹل ہونے کے بارے میں نہیں سوچا تھا لیکن اب میں وہیں رہنا چاہتا ہوں۔”
”کیوں؟”
وہ ان سے یہ کہنا نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان میں اس کا ڈپریشن بڑھ جاتا ہے۔ وہ مسلسل امامہ کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ وہاں ہر چیز اسے امامہ کی یاددلاتی تھی۔ اس کے پچھتاوے اور احساس جرم میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔
”میں یہاں ایڈجسٹ نہیں ہوسکتا۔” سکندر عثمان کچھ دیر اسے دیکھتے رہے۔
”حالانکہ میرا خیال ہے تم ایڈجسٹ ہوسکتے ہو۔”
سالار جانتا تھا ان کا اشارہ کس طرف تھا مگر وہ خاموش رہا۔
”جاب کرنا چاہتے ہو؟ ٹھیک ہے، چند سال جاب کرلو لیکن اس کے بعد آکر میرے بزنس کو دیکھو۔ یہ سب کچھ میں تم لوگوں کے لئے ہی اسٹیبلش کررہا ہوں، دوسروں کے لئے نہیں۔”
وہ کچھ دیر اسے سمجھاتے رہے، سالار خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہا۔
٭…٭…٭
ایک ہفتہ کے بعد وہ دوبارہ امریکہ آگیا تھا اور اس کے چند ہفتے کے بعد اس نے یونیسیف میں جاب شروع کردی۔ وہ نیوہیون سے نیویارک چلاگیا تھا۔ یہ ایک نئی زندگی کا آغاز تھا اور وہاں آنے کے چند ہفتے بعد اسے یہ اندازہ بھی ہوگیا تھا کہ وہ کہیں فرار حاصل نہیں کرسکتا تھا وہ اسے وہاں بھی اسی طرح یاد آرہی تھی، اس کا احساس جرم وہاں بھی اس کا ساتھ چھوڑنے پر تیار نہیں تھا۔
وہ سولہ سے اٹھارہ گھنٹے تک کام کرنے لگا۔ وہ ایک دن بھی تین چار گھنٹے سے زیادہ کبھی نہیں سویا اور دن رات کی اس مصروفیت نے اسے بڑی حدتک نارمل کردیا تھا اگر ایک طرف کام کے اس انبارنے اس کے ڈپریشن میں کمی کی تھی تو دوسری طرف وہ اپنے ادارے کے نمایاں ترین ورکرز میں شمار ہونے لگا تھا۔ یونیسیف کے مختلف پروجیکٹس کے سلسلے میں وہ ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک جانے لگا۔ غربت اور بیماری کو وہ پہلی دفعہ اپنی آنکھوں سے، اتنے قریب سے دیکھ رہا تھا۔ رپورٹس اور اخباروں میں چھپنے والے حقائق میں اور ان حقائق کو اپنی تمام ہولناکی کے ساتھ کھلی آنکھ سے دیکھنے میں بہت فرق ہوتا ہے اور یہ فرق اسے اس جاب میں ہی سمجھ میں آیا تھا۔ ہر روز بھوکے سونے والے لوگوں کی تعداد کروڑوں میں تھی۔ ہر رات پیٹ بھرکر ضرورت سے زیادہ کھالینے والوں کی تعداد بھی کروڑوں میں تھی۔ صرف تین وقت کا کھانا، سرپر چھت اور جسم پر لباس بھی کتنی بڑی نعمتیں تھیں، اسے تب سمجھ میں آیا تھا۔
وہ یونیسیف کی ٹیم کے ساتھ چار ٹرڈ طیاروں میں سفر کرتے ہوئے اپنی زندگی کے بارے میں سوچتا۔ اس نے زندگی میں ایسے کون سے کارنامے انجام دیئے تھے کہ اسے وہ پر آسائش زندگی دی گئی تھی جو وہ گزار رہا تھا اور ان لوگوں سے کیا گناہ ہوئے تھے کہ وہ زندگی کی تمام بنیادی ضروریات سے محروم صرف زندہ رہنے کی خواہش میں خوراک کے ان پیکٹس کے پیچھے بھاگتے پھرتے تھے۔
وہ ساری ساری رات جاگ کر اپنے ادارے کے لئے ممکنہ اسکیمیں اور پلان بناتا رہتا۔ کہاں خوراک کی ڈسٹری بیوشن کیسے ہوسکتی ہے، کیا بہتری لائی جاسکتی ہے، کہاں مزید امداد کی ضرورت ہے، کن علاقوں میں کس طرح کے پروجیکٹس درکار تھے، وہ بعض دفعہ اڑتالیس گھنٹے بغیر سوئے کام کرتا رہتا۔
اس کے بنائے ہوئے پرپوزلز اور رپورٹس تکنیکی لحاظ سے اتنے مربوط ہوتے تھے کہ ان میں کوئی خامی ڈھونڈنا کسی کے لئے ممکن نہیں رہتا تھا اور اس کی یہ خصوصیات، اس کی ساکھ اور نام کو اور بھی مستحکم کرتی جارہی تھیں اگر مجھے اللہ نے دوسروں سے بہتر ذہن اور صلاحیتیں دی ہیں تو مجھے ان صلاحیتوں کو دوسروں کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔ اس طرح استعمال کرنا چاہئے کہ میں دوسروں کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ آسانی لاسکوں، دوسروں کی زندگی کو بہتر کرسکوں۔ وہ کام کرتے ہوئے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سوچتا تھا۔
یونیسیف کے لئے کام کرنے کے دوران ہی اس نے ایم فل کرنے کا سوچا تھا اور پھر اس نے ایم فل میں ایڈمیشن لے لیا تھا۔ ایوننگ کلاسز کو جوائن کرتے ہوئے اسے قطعاً کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں تھا کہ وہ اپنے آپ کو ایک بار پھر ضرورت سے زیادہ مصروف کررہا تھا مگر اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ کام اس کا جنون بن چکا تھا یا شاید اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر ایک مشن۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

ساتواں سکّہ — فیصل سعید خان

Read Next

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!