لبِ بام — باذلہ سردار

ناجیہ صبح صبح نجویٰ کے کمرے میں آئیں۔ ایک پیار بھری نظرسے سوئی ہوئی نجویٰ کو دیکھا۔ اُس کے ماتھے پے بوسا دیا۔ وہ ہمیشہ نجویٰ کو ایسے ہی جگایا کرتی تھیں۔ ماں کی محبت ایسی ہی ہوتی ہے۔ بے لوث بے غرض۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی انہوں نے کاسنی رنگ کے پردے کھڑکی سے سرکا دیے تھے اور نجویٰ اُٹھ کے مسکراتی ہوئی ماں کے گلے لگ گئی تھی۔
”نجویٰ میری جان نماز پڑھ کے نیچے آجانااکٹھے ناشتا کریں گے اور اپنے لیے نیک نصیب کی دعا ضرور کرنا۔”نجویٰ نے ا ثبات میں سر ہلادیا، ناجیہ یہ سب کہہ کے نیچے چلی گئیں۔
نجویٰ نے اپنا دُوپٹا اُٹھایا،وضو کیا اور فجر کی نماز ادا کی۔ پھر جائے نماز پے بیٹھے ہوئے دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے۔
” اے میرے پیارے ربّ تو دلوں کے حال جانتا ہے، تجھ سے کوئی بات چھپی ہوئی نہیں ہے۔ میرا ظاہر،باطن سب عیاں ہے۔ میری اُمیدیں، اُمنگیں بھی تیری پاک ذات کے سامنے ہیں۔ تیری قدرت سے بڑا کچھ نہیں ہے۔ میں تیری نادان سی بندی ہوں۔ میرے تو نام کا مطلب ہی محبت کی چاہ کرنا ہے۔ مجھے اگر ایک ایسے انسان کی محبت میں مبتلا کیا ہے، تو اُس میں بھی تیری مصلحت ہو گی۔ اُسے میرا نصیب بنا دے ۔آمین ثم آمین۔”
دعا ختم کرنے کے بعد نجویٰ نے دونوں ہاتھوں پے پھونک مار کے اپنے شفاف چہرے پے پھیرے اور حسبِ معمول اپنا سیل فون دیکھا اُس کی اسکرین پے مجتبیٰ کا میسج چمک رہا تھا۔
Good Morning Beautiful
وہ مُسکرائی اور میسج ٹا ئپ کیا۔
”تمہیں کیسے پتا کہ میں Beautiful ہوں۔ہمیشہ یہی کہتے ہو۔”
کچھ لمحے گزرنے کے بعد میسج آیا۔





” میری Imaginations بہت Strong ہیں۔ میں تخیل کی نظروںسے دیکھ سکتا ہوں کہ تم کتنی خوبصورت ہو۔ جب صبح تم اٹھتی ہو اور اپنے بکھرے بال سمیٹتی ہو گی، تو جیسے رات کی تاریکی دن کی سفیدی میں گُم ہو جاتی ہے اور اندھیرا چھٹ جاتا ہے۔ تمہارا چہرہ بھی زلفوں کو سمیٹنے سے اور حسین ہو جاتا ہو گا۔”
نجویٰ مسکرائی اور میسج کیا۔
”مجھے ایک شعر تو بھیج دو روز کی طرح خوبصورت سا۔ ویسے تو باتیں بھی شاعرانہ کرتے ہو گماں ہوتا ہے کہ مجھے دیکھا ہے تم نے”
دوسری طرف سے پیغام آیا۔
کیا پتا دیکھا ہو؟ناٹی سمائلی سے میسج موبائل کی اسکرین پے چمکا تھا۔
آج ہم نے تمام حُسن ِبہار ایک برگِ گُلاب میں دیکھا
فُرصتِ موسم نِشاط نہ پوُچھ جیسے اِک خواب، خواب میں دیکھا
”خوش اب! ہے نا خوبصورت ”مجتبیٰ نے کہا۔
نجویٰ مُسکرائی زیرِلب شعر دہرایااور میسج ٹائپ کیا۔
”شکریہ جناب۔”
دوسری طرف سے میسج آیا۔
”My Pleasure Lady”
”اچھا پھر بات ہو گی مجھے کالج جانا ہے اللہ حافظ۔” نجویٰ نے مجتبیٰ کو میسج کیا اور فون رکھ کے شاور لینے چلی گئی۔ وہ ہمیشہ ایسے ہی کرتی تھی پہلے شاعری کی فرمائش کرتی پھرمجتبیٰ کا شکریہ ادا کرتی۔
نجویٰ نے شاور لیا ،اپنے بال تولیے سے خشک کیے، یونیفارم پہنا، آنکھوں میں کاجل لگایا۔ اُس کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں موٹی موٹی کالی آنکھیں۔ پلکیں بہت گھنی اور لمبی تھیں وہ کبھی پلکیں جھکاتی کبھی اُٹھاتی اور آئینہ دیکھتے ہوئے اس کے چہرے پے مُسکراہٹ آجاتی۔ وہ روزبہت اہتمام سے تیار ہوتی تھی حالاں کہ ابھی اٹھارہ برس کی بھی نہیں ہوئی تھی اور پڑھتی بھی گورنمنٹ کالج میں تھی۔ اکثر گورنمنٹ کالج میں لڑکیاں سادگی سے رہتی ہیں، لیکن نجویٰ بہت شوخ چنچل سی لڑکی تھی اور ہمیشہ ہلکی سی چین جس پے اُس کا نام کنندہ تھا ،نازک سی بالیاں، ایک عقیق سے جڑی ہوئی پیاری سی انگوٹھی اور گولائی میں سفید نگوں سے جڑی ہوئی سلور گھڑی پہنی ہوتی تھی۔ وہ ان سب چیزوں کے بغیر خود کو ادھورا تصور کرتی تھی اس لیے ہمیشہ پہنتی تھی۔
اچھے سے تیار ہو کے نجویٰ گنگناتے ہوئے آہستگی سے سیڑھیاں اُترتے نیچے ڈرائنگ روم میں آئی وہاں میجر مدثر اخبار پڑھ رہے تھے۔ نجویٰ نے میجر صاحب کے گلے لگتے ہوئے بلند آواز میں سلام لیا۔
”السلام علیکم پاپا جان !”
”وعلیکم السلام! میری چندا تیار ہوگئی؟” میجر مدثر نے مسکراتے ہوئے شفقت سے پوچھا۔نجویٰ نے معصومیت سے جواب دیا۔
”آپ کی پڑھائی کے کیا حالات ہیں؟ تیاری کہاں تک پہنچی؟” میجر صاحب نے ناشتا کرتے ہوئے نجویٰ سے پوچھا۔”
نجویٰ نے چہکتے ہوئے جواب دیا۔
”First Class”
”That’s great”میجر صاحب نے خوشی سے جواب دیا۔
نجویٰ میجر صاحب اور ناجیہ کی اکلوتی اولاد تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ نجویٰ آرمی جوائن کرے یا پھر ڈاکٹر بنے، لیکن نجویٰ کو ادب،شعر وشاعری اورپینٹنگز سے لگاؤ تھا۔ اس کے علاوہ اُسے باغبانی کا بھی بہت شوق تھا۔ اُس نے میجر صاحب سے کہہ کہ اپنی پسند کے پھول گھر کے باغیچے میں لگوائے تھے۔ سفید اور سُرخ پھول اُسے بہت پسند تھے۔
میجر صاحب کو اپنی پڑھائی سے مطمئن کر کے نجویٰ نے اُن سے مخاطب ہو کے کہا:
”پاپا کالج کا ٹا ئم ہوگیا ہے چلیں مجھے ڈراپ کر دیں۔”
میجر صاحب نے چائے کا کپ رکھا۔ گاڑی کی چابی اُٹھائی اور گیراج سے گاڑی باہر نکالنے کے لیے چلے گئے۔ نجویٰ نے ناجیہ بیگم کو اللہ حافظ کہا۔ ماں نے بیٹی کا ماتھا چومااور کہا۔
”خیر سے جاؤ میری جان اللہ کے حوالے۔”
نجویٰ کھکھلا کے ہنس پڑی اور کہا۔
”ماما میں محاذ پے جنگ لڑنے تھوڑی جا رہی ہوں جو آپ اتنی فکر کر رہی ہیں۔”
”بیٹا تمہیں کیا پتا کہ ماں کا پیار کیا ہوتا ہے۔ وہ اپنی اولاد کو لے کے کتنی ڈری ہوتی ہے اور پھر اولاد بھی تمہارے جیسی جسے اتنی دعاؤں کے بعد پایا ہو ۔تم تو رحمت کے ساتھ نعمت بھی ہو ہمارے لیے۔”
ناجیہ بیگم نے آنکھوںمیں نمی چہرے پے مُسکراہٹ لاتے پیار سے بیٹی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
اتنے میں دونوں کو ہارن کی آواز سُنائی دی۔ نجویٰ ماں سے مل کے دوڑتی ہوئی گاڑی میں جاکے بیٹھ گئی۔
”چلیں پاپا۔”




Loading

Read Previous

غضنفر کریم — ارم سرفراز

Read Next

صاحب جیسے آپ کی مرضی (تحریر: شفیق ستانیزئی مترجم: قیوم مروت)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!